جنگ کا میدان معاشی ہونا چاہیے ؟
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
جنگیں کبھی مسائل کا حل نہیں رہیں بلکہ جنگوں کی کوکھ سے مسائل ضرور پیدا ہوئے ہیں ہمارے ارد گرد متعدد ممالک ایسے ہیں جہاں کبھی خوشحالی و ترقی تھی امن تھا سکون تھا لیکن آج یہ مماملک کھنڈرات کا نشان بنے اپنی بربادی کا ماتم کر رہے ہیں ۔اس سوال پر بھی کبھی غور کرنا چاہیے کہ کیا کسی ملک کے عوام کی قسمت کا اختیار چند مفاد پرست جنونی حکمرانوں یا اسٹیبلشمنٹ کو دیا سکتا ہے؟ ہم دور(عراق ،کویت شام ،ایران ،لیبیا) نہیں جاتے ہمارا ہمسایہ ملک افغانستان جہاں کبھی دودھ اور شہد کی نہریں اگر نہیں بھی بہہ رہی تھیں لیکن کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے ہم پلہ ضرور تھا جہاں جدید اعلیٰ تعلیمی ادارے، صحت عامہ کی بہترین صورت حال سیر و تفریح کے وافر مواقع سیاحت میں ترقی بھی نظر آتی تھی لیکن وہاں کے حکمرانوں کی سوچ اور ذاتی مفاد نے اس ملک کو کھنڈر بنا کر رکھ دیا اور آج وہاں کوئی گھر ایسا نہیں ملے گا جس میں کوئی ہلاک یا معذور فرد نہ ہو خواتین اور بچوں کی حالت زار پر دانستاً خاموشی ہے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جنگی جنون خواہ کسی بھی جذبے کے تحت ہو تباہی ہی لاتا ہے اس لئے آج اگر کوئی جنگی میدان ہے تو وہ معاشی میدان ہے جاپان اور چائنہ اسی میدان میں متحرک رہ کر دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں ۔ آج افغانستان عملاً جائے عبرت ہے جہاں یتیم بچوں، بیوائوں اور زخمیوں کی تعداد کا شمار ہی ممکن نہیں جبکہ عمارات کھنڈرات کانظارہ پیش کرتی ہیں ۔ ناجانے ایسا کب تک رہے گا اس بارئے کوئی پشین گوئی نہیں کی جاسکتی ۔کوئی قوم بھی بحیثیت مجموعی بری نہیں ہوتی اور نہ اس کا مزاج ’’آتشی‘‘ ہوتا ہے خود ساختہ تفاخر، تعصب اور دوسروں سے نفرت کاسبق جو بچپن سے ان کے ذہنوں میں ڈالا یا پڑھایا جاتا ہے اس سے جان چھڑانا بہت مشکل اس لئے بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کا کاروبار ہی انہیں افعال کے ذریعے چلتا ہے جس کی خاطر وہ انسانوں کواپنے خود ساختہ مفادات کی بھینٹ چڑھانے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔
آج کل جنگیں کسی اصول و ضابطے، حق یا کسی مظلوم قوم کی حمایت کے لئے نہیں بلکہ اپنی طاقت کے اظہار اور اسلحہ کی نمائش اور بادشاہتیں بچانے
کے لئے لڑی جارہی ہیں جس کے پیچھے بعض مملکتوں ،قوموں ،گروہوں کے مفادات کے ساتھ کاروباری مفادات بھی جڑے ہوئے ہیں جتنی انسانیت آج غیر محفوظ ہو چکی ماضی میںاس قسم کاتصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا جب ’’تیر ، تلوار‘‘ اور مردانہ طاقت ہی بڑے ہتھیار ہوا کرتے تھے،، اب تو ایک بٹن کے دبانے سے لاکھوں انسان پل بھر میں لقمہ اجل بن سکتے ہیں۔ ملکوں کی سطح پر جنگیں بڑی طاقتوں کے لیے منافع بخش کاروبار رہی ہیں لیکن مشرق وسطیٰ خصوصاً شام ،یمن لیبیا میں جاری خانہ جنگی جس کی لپیٹ میں دیگر ممالک بھی آنے والے ہیں بہت سے عام لوگوں کے لیے بھی مفید کاروبار بن گئی ہے۔
دوسرے ملکوں میں جاری خانہ جنگی کے نام پر اپنے ملک میں افراتفری پیدا کرنے والوں نے کیااس بات پر بھی کبھی غور کیا ہے کہ خانہ جنگی ، بدامنی اور فرقہ وارانہ جنگیں مسلمان ممالک ہی میں کیوں ہورہی ہیں؟۔ کبھی ہم روس کے خلاف دوسروں کی جنگ لڑتے ہیں اور کبھی کسی اور کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں کود جاتے ہیں۔ جبکہ ہمارا اپنا ملک بھوک بدامنی اور افلاس کا شکار ہو چکا ہے جہاں کسی کی جان و مال محفوظ نہیں رہی۔روس کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ کے لیے دنیا پر اپنی دھاک بٹھانے کے واسطے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنابہت ضروری تھا۔اس مقصد کی خاطر اس نے اپنی مرضی کے میدان جنگ سجائے۔عراق کے بعد افغانستان اس کے پسندیدہ میدان جنگ رہے یہ سلسلہ اب بھی مختلف جگہوں اور شکلوں کے ساتھ جاری ہے۔امریکہ نے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر کچھ گروپ ایسے بھی بنارکھے ہیں کہ جن کے خلاف کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ جنگی کارروائی کا جواز پیدا کیا جا سکے۔ القائدہ، طالبان، بوکو حرام اور داعش سمیت کئی ایک مسلح تنظیمیں مختلف ممالک کی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث ہیں۔یہ ممالک ان تنظیموں سے نبرد آزما ہونے کے لیے اپنا کثیر سرمایہ اپنی حفاظت اور سامانِ حرب اکٹھا کرنے پر صرف کر رہے ہیں۔
جبکہ انسانی جانوں کے اتلاف کے حوالے سے اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ شام کی طویل خانہ جنگی میں ڈھائی لاکھ سے زائدافراد بچے اور خواتین ہلاک اور 20 لاکھ سے زائد ہمسایہ ملکوں میں نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ یمن میں جاری خانہ جنگی20 ہزار سے زائد افراد کی جان لے چکی ہے عراق کی خانہ جنگی کو کوکھ سے دہشت گرد تنظیم داعش نے جنم لیا 45 ہزار سے زائد عراقی زندگیوں سے محروم اور لاکھوں زخمی اور بے گھر ہو چکے ہیں لیبیا کی خانہ جنگی 30 ہزار سے زائد افراد کی زندگیوں کو موت سے آشکار کر چکی ہے صومالیہ میں ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ افراد خانہ جنگی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اسلحہ بک رہا ہے مسلمان ممالک خون ریزی کا شکار ہو رہے ہیں جلسے اور جلوسوں میں شدت لانے کے لئے ڈالر اور ریال فراہم کئے جا رہے ہیں ، ہوش مندی ڈھونڈنے سے نہیں مل رہی۔۔
مقبوضہ کشمیر میںبھارتی جارحیت کے بعد جنوبی ایشیا میں جنگ کے ساے منڈلانے کی باتیں سامنے آرہی ہیں دو ایٹمی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا بیانیہ بھی سامنے آرہا ہے جبکہ جنگی جنون کو ہوا دی جارہی ہے مندرجہ ذیل رپورٹ اور اعداد و شمار سوچنے والوں کے لئے ہیں انہیں پڑھیے اور پھر سوچئے کیا اب بھی سوچنا نہیں بنتا؟
ہیرو شیما میں جونہی ایٹم بم پھٹا تو ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے سے بھی کم وقت میں شہر کا درجہ حرارت 4000 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا گیایہ درجہ حرارت رہا تو چند لمحوں کے لیے تھا لیکن پورا ہیروشیما شہر اور مْضافات میں تمام جاندار جل کر خاکستر ہو گئے حتیٰ کہ عمارتیں تک پِگھل گئیں۔ بم پھٹنے کے ایک سیکنڈ کے اندر اندر تقریباً ایک لاکھ اِنسان بھاپ اور دْھواں بن کر ہوا میں تحلیل ہو گئے، کوئی جاندار زندہ نہیں بچا۔ ہیروشیما پر بسنے والے اِنسان صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ جو بچ گئے وہ مرنے کی خواہش کر رہے تھے ۔پورے ملک سے رابطہ ختم ہو گیا تھا۔جو ایٹم بم ہیروشیما پر پھینکا گیا تھا اْس سے 4000 ڈگری سیلسیس کی حرارت خارج ہوئی تھی لیکن اِسوقت پاکستان اور بھارت کے پاس جو نیوکلیئر بم موجود ہیں وہ 25000 سے 40000 ڈگری سیلسیس کی گرمی خارج کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔ یہ گیم محض چند سیکنڈز کی ہوگی اور کرہ ارض کے میدانوں میں صحراؤں میں جنگلوں میں پہاڑوں میں، سمندروں یا دریائوں کے پانی کی روانی میں کوئی جاندار زندہ نہیں بچے گاکْچھ دِکھانے کے لئے کوئی بریکنگ نیوز اور ٹاک شو نہیں ہوگا اور نہ ہی کوئی دیکھنے والا۔دنیا کو سوچنا چاہیے کہ جنگوں نے ہمیں کیا دیا اور کیا اب ہمارا جنگی میدان معاشی نہیں ہو ناچاہیے؟۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: خانہ جنگی رہے ہیں رہی ہیں کسی بھی کے لئے کر رہے کے لیے
پڑھیں:
حکومت نہیں چل رہی حکمران اعتراف کرلیں، شاہد خاقان عباسی
ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سربراہ عوام پاکستان پارٹی کا کہنا تھا کہ گرینڈ الائنس کی طرف جانے کیلئے کام ہو رہا ہے، کوشش ہے اپوزیشن ایک نکتے پر متفق ہو، اپوزیشن کی پہلی نشست ہوئی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سربراہ عوام پاکستان پارٹی اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ حکومت نہیں چل رہی حکمران کو اعتراف کرلینا چاہیے۔ ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ گرینڈ الائنس کی طرف جانے کیلئے کام ہو رہا ہے، کوشش ہے اپوزیشن ایک نکتے پر متفق ہو، اپوزیشن کی پہلی نشست ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کےحوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی، بات ملکی مسائل کے حل کی ہے، حکومت نہیں چل رہی حکومت کو یہ اعتراف کرلینا چاہیے۔ سابق وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان نے حکومت کو کندھا نہیں دیا، ملک کو بڑی خرابی سے بچایا ہے۔ ملک کی 2 بڑی جماعتیں خرابی کا حصہ بن گئی ہیں، بانی پی ٹی آئی کو آرمی چیف کو خط نہیں لکھنا چاہیے تھا۔