Nai Baat:
2025-04-16@22:51:20 GMT

ہیکر نے مجھے یرغمال بنا لیا

اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT

ہیکر نے مجھے یرغمال بنا لیا

پیر کے روز دوپہر کے قریب’ 11 بجے میں اپنے لان میں بیٹھا تھا کہ ایک فون کال موصول ہوئی۔ کال کرنے والے نے بتایا کہ آپ کا ایک کورئیر پیکٹ آیا ہے’ چونکہ یہ پیکٹ نہایت اہم اور حساس ہے اس لیے پہلے ہم آپ کا نمبر کنفرم کریں گے اور اس مقصد کے لیے آپ کے فون پر ایک کوڈ نمبر بھیجا جائے گا۔ وہ نمبر آپ ہمارے ساتھ شیئر کریں گے جس سے اس بات کی تصدیق ہو جائے گی کہ یہ آپ ہی کا نمبر ہے۔ اس کے بعد پیکٹ آپ کو ملے گا۔ کچھ دیر کے بعد کال کرنے والے نے پوچھا کہ کوئی کوڈ نمبر آپ کے موبائل پر آیا ہے؟ میں نے چیک کر کے بتایا کہ بالکل آیا ہے۔ کال کرنے والے نے کہا کہ وہ کوڈ نمبر آپ مجھے بتائیں۔ میں نے وہ نمبر یا کوڈ بتا دیا۔ مجھے اس وقت تک بالکل اندازہ نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے کیونکہ میں اپنے گھر میں آرام سے بیٹھا تھا اور میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میرے ساتھ کوئی فراڈ کر رہا ہے۔
میری جانب سے کوڈ بتائے جانے کے بعد فون کرنے والے شخص نے مجھے باتوں میں لگا لیا۔ کبھی کہا کہ کچھ دیر انتظار کیجیے۔ کبھی کہا کہ چیک کر رہے ہیں’ ابھی آپ کو بتاتے ہیں۔ کبھی کہا کہ ایک بندے کی ڈیوٹی لگائی ہوئی ہے’ وہ تھوڑی دیر میں بتاتا ہے۔ کبھی کہا کہ میں آپ کے ساتھ نمبر شیئر کرنے والا ہوں۔ خیر کچھ دیر باتوں میں لگانے اور انتظار کرانے کے بعد اس بندے نے مجھے ایک نمبر دیا اور کہا کہ آپ اس پر کال کریں۔ میں نے وہ نمبر لکھ لیا اور جب کال کی تو مجھے شک ہوا کہ کچھ ہو رہا ہے کیونکہ میرے موبائل فون پر لکھا ہوا آیا کہ Transferred۔ اس سے پہلے کہ میں بات پوری طرح سمجھ پاتا میرے ساتھ گیم ہو چکی تھی اور میرے آدھے سے زیادہ کانٹیکٹ نمبرز وہاں جا چکے تھے۔

جب بات کچھ سمجھ آئی کہ کیا ہوا ہے تو میں نے فوری طور پر 15 پر فون کیا اور سارا قصہ سنایا۔ انہوں نے کہا کہ سائبر کرائمز برانچ کو کال کریں۔ میں نے کہا کہ سائبر کرائمز برانچ کا نمبر دے دیں تاکہ وہاں بات کر سکوں۔ پہلے ٹال مٹول کی گئی’ پھر کافی انتظار کرانے کے بعد 1991 کا نمبر دیا گیا۔ 1991 پر متعدد بار کال کی تو بیل ہوتی رہی لیکن کسی نے نمبر اٹینڈ نہیں کیا۔ میں نے تھک ہار کر پھر تھانے والوں سے بات کی۔ انہوں نے کہا کہ اچھا کچھ کرتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس سارے عمل کے دوران وہ بندہ جس نے مجھے فون کیا تھا اور جس کی وجہ سے فون ہیک ہوا تھا’ میرے ساتھ فون کال پر موجود تھا اور اگر پولیس چاہتی تو اس کی لوکیشن کا پتا چلایا جا سکتا تھا’ لیکن 15 والوں نے جان چھڑائی کہ سائبر کرائم والوں سے بات کریں۔ بہرحال جب رابطہ ہوا تو میری سائبر کرائمز ونگ’ پنجاب زون لاہورکے ایک اعلیٰ افسر سے بات ہوئی ،گلبرگ میں ان کا دفتر ہے۔بڑے تپاک سے ملے اور ساری صورت حال کے بارے میں جاننے کے بعد انہوں نے کہا کہ میں آپ کا واٹس ایپ بحال کرا دیتا ہوں’ آپ فلاں فلاں کام کریں۔ میں نے کہا کہ وہ بندہ یعنی ہیکر میرے نام پر پیسے بٹور رہا ہے’ میں بالکل Helpless بیٹھا ہوں’ جلدی کچھ کریں۔ انہوں نے کہا کہ ابھی کرتے ہیں۔ میرے ساتھ اس وقت میرا منیجر بھی تھا۔ وہ اوپر کی منزل پر بیٹھے متعلقہ افسر کے پاس چلا گیا۔ اس نے کہا کہ آپ رپورٹنگ کرائیں۔ وہ تماشا سہ پہر چار بجے سے شروع ہوا تھا اور رات ڈیڑھ بجے جا کر میرا فون ریکور ہوا۔ میں دن بارہ بجے سے تمام متعلقہ اداروں سے رابطہ کر چکا تھا کہ بتائیں اس صورت حال، جس میں مبتلا ہوں کیا ہو سکتا ہے؟ لیکن ہر طرف سے خاموشی ہی ملی۔

ہیکر نے مجھے فقیر بنا دیا تھا۔ وہ میرے ہر جاننے والے سے میرے نام پر پیسے مانگ رہا تھا کہ مجھے سخت ضرورت ہے’ اور لوگ مجھے فون کر کے کنفرم کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ واقعی مجھے پیسوں کی ضرورت ہے اور واقعی میں نے پیسے منگوائے ہیں’ لیکن ان کے فون یا میسجز مجھ تک پہنچ نہیں رہے تھے۔ ان کمنگ بند تھی لیکن وہ بندہ مسلسل میرے جاننے والوں کے ساتھ رابطے میں تھا۔ ہیکر نے میرے تمام Contact والوں کو پہلا میسیج کیا کہ Help Me کچھ دیر کے بعد دوسرا میسیج کیا کہ مجھے تین لاکھ روپے دیں’ ضرورت ہے۔ جب اس نے پہلا میسیج کیا کہ Help Meتو میرے جاننے والے یعنی کانٹیک والے سو’ ڈیڑھ سو لوگوں نے رابطہ کیا کہ کس طرح کی مدد کی ضرورت ہے اور کیوں؟ اس پر اس نے میسیج کیا کہ مجھے کچھ مجبوری ہے’ تین لاکھ روپے دیں۔ اب میرے جیسا بندہ’ جسے لوگوں کی کافی بڑی تعداد جانتی ہے’ جو ایک کالم کار ہے اور جو ایک کمپنی کا ہیڈ ہے’ ہو ہی نہیں سکتا کہ اس طرح لوگوں سے پیسے مانگے’ لیکن ہیکر نے میرا تماشا لگا دیا تھا۔

کچھ لوگوں نے میرے مغالطے میں اسے کئی لاکھ روپے بھیج بھی دیئے’ جن کی رسیدوں کا ذکر ایف آئی آر میں کیا جا چکا ہے۔ پہلے اس بندے نے سب سے تین تین لاکھ روپے مانگے۔ کچھ دیر کے بعد اس نے ایک ایک لاکھ روپے مانگنا شروع کر دیا حتیٰ کہ پچاس پچاس ہزار بھی مانگے۔ آخر میں اس نے بیس بیس ہزار مانگنا شروع کر دیئے۔ میرے بہت سے دوستوں نے یہ سوچ کر کہ الیاس صاحب سے پچاس ہزار کے لیے کیا پوچھنا’ اسے پیسے ٹرانسفر کر دیئے۔ میرے دوچار بزنس مین دوستوں نے تو تین تین لاکھ بھی اسے بھیج دیئے تھے۔

یہاں میں دوبارہ سائبر کرائمز کے افسر کی طرف آتا ہوں جنہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ اپنا فون ریکور کرائیں اور آرام سے گھر جائیں۔ میں نے کہا کہ مجھے تو رپورٹ درج کرانی ہے تو کہنے لگے کہ آپ نئے بکھیڑے میں پڑ جائیں گے۔ پھر یہ ہے کہ مجرم پکڑے بھی گئے تو کیا ہو گا؟ یہاں پاکستان میں سزا کا رواج ہی نہیں ہے۔ میں نے پوچھا کہ وہ کس طرح؟ وہاں ڈیوٹی پر موجود ایک اور صاحب بھی آ گئے۔ وہ کہنے لگے کہ یہاں ہم محنت کر کے’ تگ و دو کر کے مجرم پکڑتے ہیں لیکن کیس جب آگے عدالت میں جاتا ہے تو ضمانت ہو جاتی ہے۔ میں نے سوال کیا کہ کتنے ملزموں کو سزا ملتی ہے؟ جواب ملا کہ سو فیصد ملزموں کی ضمانت ہو جاتی ہے’ آج تک کسی کو سزا نہیں ملی۔ میں نے اگلا سوال کر دیا۔ پوچھا کہ پھر کیا ہونا چاہیے؟ انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کا حل یہ ہے سزا کا عمل تیزی سے ہونا چاہیے۔ ہم ملزم کے نوکر بنے ہوتے ہیں’ کبھی کہیں لے کر جا رہے ہیں’ کبھی کہیں لے کر جا رہے ہیں۔ وہ بندہ الٹا ہم پر بوجھ بن جاتا ہے کہ ظاہر ہے اسے بھوکا تو نہیں رکھا جا سکتا’ اسے کھانا کھلانا پڑتا ہے’ دوسری ضروریات کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ یہ ہو چکی ہے اس وقت پاکستان کی صورت حال۔حکومتیں لاقانونیت کا خاتمہ کرتی ہیں مگر یہاں اداروں کے افسر معاملہ ختم کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ خدارا ارباب اختیار لٹنے والوں کی اذیت کا خیال کریں،سائبر کرائمز قوانین کو بہتر کریں، عدالتیں کم ہیں تو ججوں کی تعداد بڑھائیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ میسیج کیا کہ کبھی کہا کہ نے کہا کہ ا کرنے والے لاکھ روپے میرے ساتھ تین لاکھ ضرورت ہے کا نمبر ہیکر نے کہ مجھے تھا اور کچھ دیر وہ بندہ نے مجھے تھا کہ کہ میں کیا ہو کے بعد رہا ہے

پڑھیں:

مریضوں کے میڈیکل ریکارڈ کیلئے ایم آر نمبر کا نفاذ کر رہے ہیں، مصطفیٰ کمال کا نادرا کا دورہ

اسلام آباد:

وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)  کے چیئرمین کے دفتر کے دورے میں کہا ہے کہ ملک میں مریضوں کے ڈیٹا کے حوالے سے ایم آر نمبر کا نفاذ کرنے جا رہے ہیں، جس کے تحت ملک میں کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت مریض کے میڈیکل ریکارڈ تک رسائی ممکن ہو گی۔

وفاقی وزارت صحت کے ترجمان کے مطابق وزیرصحت مصطفیٰ کمال نے چیئرمین نادرا لیفٹیننٹ جنرل محمد منیر افسر کے دفتر کا دورہ کیا اور اس موقع پر وزیر صحت مصطفیٰ کمال نے کہا کہ پاکستان کے ہیلتھ سسٹم میں مریضوں کی میڈیکل ہسٹری کا جامع ڈیٹا موجود نہیں، جسے بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

ترجمان کے مطابق یہ ملاقات صحت کے نظام میں ایک ایم آر نمبر کے نفاذ کے لیے کی گئی۔

وزیر صحت مصطفیٰ کمال نے کہا کہ پاکستان کے ہیلتھ سسٹم میں مریضوں کی میڈیکل ہسٹری کا جامع ڈیٹا موجود نہیں ہے، جسے بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں اور پورے پاکستان میں ایک ایم آر نمبر کرنے جا رہے ہیں اور اب پاکستان کے شناختی کارڈ کا نمبر ہی ایم آر نمبر ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ نادرا پاکستان کا سب سے بڑا ڈیٹا بینک ہے اور اس نظام کے تحت ملک میں کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت مریض کے میڈیکل ریکارڈ تک رسائی ممکن ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل ہیلتھ کو فروغ دینے سے صحت کا نظام مزید مؤثر اور پائیدار بنایا جا سکتا ہے، یہی وقت ہے کہ ہم روایتی طریقوں سے آگے بڑھ کر ڈیجیٹل ہیلتھ کو اپنی پالیسیوں میں شامل کریں۔

مصطفیٰ کمال نے کہا کہ 70فی صد لوگ علاج کے لیے بنیادی مراکز صحت کے بجائے بڑے اسپتالوں میں جاتے ہیں، وزارت صحت اور نادرا مل کر عوام کی دہلیز تک صحت کی سہولیات کی فراہمی کے لیے اقدامات کریں گے اور ٹیلی میڈیسن کے ذریعے ڈاکٹرز اور دوا مریض کی دہلیز تک لائیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • مریضوں کے میڈیکل ریکارڈ کیلئے ایم آر نمبر کا نفاذ کر رہے ہیں، مصطفیٰ کمال کا نادرا کا دورہ
  • خیبرپختونخوا کی فلم میں مجھے بھی آفر ہوئی تھی، عمران خان سے غداری نہیں کرسکتا، محمود خان
  • بینچ تبدیلی؛ مجھے سزا دینے کا شوق نہیں آپ سچ بولیں، جسٹس اعجاز کا ڈپٹی رجسٹرار سے استفسار
  • ’ دوستی نہ کرنے پر دھمکیاں دیتا ہے اور۔۔‘‘ لڑکی نےن لیگی ایم پی اے کے بھتیجے پر سنگین الزام لگا دیا 
  • گزشتہ ہفتے کے مقبول اسمارٹ فونز کی فہرست جاری
  • کروڑوں روپے کا فراڈ، نادیہ حسین کا اہم انکشاف سامنے آگیا
  • اسکاٹ لینڈ ویمن کرکٹ ٹیم میں سابق پاکستانی کرکٹر کی نواسی شامل
  • شاہ رخ خان میرے والد کے مداح ہیں، ربیکا خان
  • دفعہ370 کی بحالی تک کوئی بھی الزام یامقدمہ مجھے خاموش نہیں کرا سکتا، آغا روح اللہ
  • کراچی، کورنگی ڈھائی نمبر میں رات گئے بااثر افراد کی ہوائی فائرنگ