Nai Baat:
2025-02-06@07:13:14 GMT

PECA بلامشاورت کیوں ؟

اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT

PECA بلامشاورت کیوں ؟

کسی ملک میں آزادی اظہار ، آزادی صحافت کو ترقی یافتہ دنیا اس ملک کی اصل جمہوریت کہتی ہے اور اسے جمہوری ملک گردانتی ہے ، اگر دیکھا جائے تووہ تنظیمیں جو انسانی حقوق کی آواز اٹھاتی ہیں وہ بیشترممالک میں آزادی اظہار کے معاملے پر اپنی آنکھیں بند بھی رکھتی ہیں جس بنا پر ایسی تنظیموں کو انسانی حقوق کی نام نہا د تنظیم سے تعبیر کیا جاتا ہے آج دنیا میں اسطرح کی بیشتر تنظیمیں بھی کام کررہی ہیں۔ پاکستان میں آزادی صحافت کے حوالے سے ماضی سے لیکر آج تک حکمران صرف اسے ہی آزادی صحافت کہتے ہیں جو انکی مداح سرائی کرے ۔ ماضی میں حکومت کی مداح سرائی نہ کرنے کی پاداش میں اس ملک کے کئی اخبارات کچھ مدت کیلئے بند کئے گئے ، اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے اور سخت تنقیدی آرٹیکل لکھنے کے الزام میں کئی نامور صحافی اٹھائے گئے ، پابند سلاسل کئے گئے، صحافیوں کی تحریکوں کی کہانی ایک طویل کہانی ہے مگر 1978ء میں چلنے والی صحافیوں کی تحریک جو PFUJ اور APNEC (عامل صحافیوں، اخباری کارکنوںکی مشترکہ ایک مضبوط تنظیم جس کی کال پر پاکستان سے بھر سے نہ صرف صحافیوں ،طلبا ، کسان اور مزدور تنظیموں نے لبیک کہا بلکہ انکے ہمراہ جیلوںکی صعوبتیں بھی برداشت کیں، سیاست دانوں اور ارباب اختیار کی منافقت کا اندازہ لگائیںکہ مرحوم ضیاء الحق نے صحافیوںکو پابند سلاسل کیا اور الزام یہ عائد کیا کہ یہ ذوالفقار علی بھٹو کے اشارے پر مارشل لاء کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں ، مجھے یاد ہے جب اس تحریک کے دوران میںکراچی پریس کلب سے گرفتا ر ہوکر خیر پور جیل میں دیگر صحافی رہنمائوں کے ہمراہ پابند سلاسل تھا اسوقت مارشل لاء انتظامیہ نے ایک white paper شائع کیا جس میںوہ کاغذ بھی لگاتھا جس میں ذوالفقار علی بھٹو کی ہدایت تھی کہ PFUJ کوپنجاب میںپریس کلب اور تنظیم میں کامیاب نہ ہونے دیا جائے ، وائٹ پیپر شائع کرنے والوںکی عقل پر ماتم ہی کیاجاسکتا تھا ایک طرف صحافیوں کی تحریک پر الزام ہے کہ یہ پی پی پی کے اشارے پر کام کررہے ہیںاور فنڈز لے رہے ہیں اور اسی وقت ذوالفقار علی بھٹو کی ہدایت شائع کررہے ہیں کہ ان لوگو ں کو ناکام کرو ہر محاذ پر ۔ غرض ہمارے ملک میں صحافت کو بدقسمتی سے ہر سیاست دان اور حکومت نے اپنا حامی کرنے کی کوشش کی ۔ حالیہ PECA قانون کا شور شرابا لے لیں، 2016ء میں مسلم لیگ ن نے متعارف کرایا ، اسکے بعد تحریک انصاف نے اس میں سزائوں کا اضافہ کرتے ہوئے اسے نافذرکھا آج پی ٹی آئی اسکے خلاف ہے اگر یہ کالا قانون ہے تو کیوں نہ پی ٹی آئی نے اپنے دور میں اسے ختم کیا ؟؟ پاکستان کے موجودہ حالات میں جبکہ پاکستان کے بڑے بڑے میڈیا ہائوسز تو اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں مگر مسئلہ ہے بے لگام سوشل میڈیا جسے شہ ملی ہے پی ٹی آئی کی حکومت میںاور اس خرابی نے ایک تناور درخت کی صورت اختیار کرلی ہے نہ کسی کا گھر ، نہ کسی کی بیٹی، بہو، نہ عسکری ادارے محفوظ ہیںاور خاص طور پر AIکے بے لگام گھوڑے کی موجودگی میں کسی کے دھڑ پر کسی کا چہرہ ، کسی کی گود میں کسی کو بھی نہایت بے حیائی سے بٹھا کرتشہیر کردیا جاتا ہے ، دراصل میری دانست میںاسے کنٹرول کرنا اور اس ناسور کو ختم کرنا اس کے ذمہ داروںکو سخت سزائیںدینے کا قانون قابل عمل کرنا بہت ضروری ہے، PECA کا شور و غل ہونے کی اصل وجہ حکومت کی نہ جانے کیوں عجلت اور اس پر وزارت اطلاعات کا بھرپور انداز میں کام نہ کرنا متعلقہ افراد اور تنظیموںسے بات چیت مشورے نہ کرنا ہے ۔ اور تاحال وزیر اطلاعات کہتے ہیں کہ اس پر بات ہوسکتی ہے انہیں شائد علم نہیں کہ صدر مملکت بھی نہائت تیزی میںاس پر دستخط کرچکے ہیں۔ملک بھر کی صحافی تنظیمیں گو منتشر ہیں ان میں وہ اتحاد نہیںجو ماضی کی صحافی برادری میں ہوا کرتا تھا ، مادیت کا شکار صحافی برادری میں حصے بخرے ہیںمگر یہ خوش آئین بات ہے صحافیوںکے تمام گروپس چاہے ہو PFUJ ( برنا ) ہو یا PFUJ (دستور) وہ سب ایک آواز ہوکر اسکی مخالفت کررہے ہیںاسکی وجہ یہ ہی ہے کہ کسی تنظیم سے مشاورت نہیں کی گئی اگر دانشمندی سے مشاورت کرکے انہیںخاص طور پر جعلی ، جھوٹی اور شر انگیز خبروں کے متعلق حکومتی تاثرات جس کا شکار اس وقت سار املک ہے، ہمارے عسکری ادارے ہیںتو کوئی وجہ نہیں تھی کہ PECAکا حالیہ قانو ن نہایت خوش اسلوبی سے نافذ ہوتا ملک بھر کی صحافی برادری پیکاایکٹ کے خلاف احتجاج میں بھرپور شرکت کر رہی ہے اورہر طرف ایک ہی آواز ہے کہ پیکا ایکٹ حق اور سچ کی آواز دبانے کی کوشش ہے اسے ہر حال میں واپس لیناہوگا اس سے پہلے حکومت کے تمام ذمہ داران میڈیا کی تمام تنظیموں سے مذاکرات کااعلان کرتے رہے کہ آپ لوگوں کی مشاورت کے بغیر نہیں ہوگاپاکستان میں الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کا قانون (پی ای سی اے) خاص طور پر پریس اور اظہار رائے کی آزادی پر اس کے اثرات کے حوالے سے بحث کا موضوع رہا ہے۔ پی ای سی اے کس طرح پریس کی آزادی کو متاثر کرتا ہے ہتک عزت کے پی ای سی اے میں ایسی شقیں شامل ہیں جو ہتک عزت کو جرم قرار دیتی ہیں، جسے تنقیدی رپورٹنگ کے لئے صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز کو نشانہ بنانے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ پی ای سی اے کی دفعہ 20 (جو آن لائن ہتک عزت سے متعلق ہے) متنازع رہی ہے، کیونکہ اسے اختلافی آوازوں کو خاموش کرنے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ حکومت کی سنسر شپ میں اضافہ حکومت کے پاس آن
لائن مواد کو ہٹانے یا بلاک کرنے کے وسیع اختیارات ہیں جو اسے قومی سلامتی، اخلاقیات یا عوامی نظم و نسق کے خلاف لگتا ہے۔ اس شق کو تحقیقاتی صحافت اور تنقیدی آراء کو دبانے کے ایک آلے کے طور پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ صحافیوں کی گرفتاریاں اور ہراساں کرنا بہت سے صحافیوں اور ڈیجیٹل کارکنوں کو پی ای سی اے کے تحت حکام کی طرف سے ”قابل اعتراض” سمجھا جانے والا مواد پوسٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف کو اس پر فوری ایکشن لینا چاہئے اور خوامخواہ کی میڈیا ناراضی مول نہیںلینا چاہئے انہیں میڈیا ہائوسز کویقین دلانا چاہئے کہ یہ قانون صرف غیر اخلاقی معاملات پر ہتک عزت پر سزائیںدیگا ، کسی سیاسی نظریے کی مخالفت پر نہیں، ماضی میں اس قانون سے نامور صحافیوںکو نقصان پہنچا اب ایسا نہیں ہوگا ۔وزیراعظم اس بات کو ممکن بنائیںکہ بے ہودہ مواد کے حامی کی پشت پناہی کرنے والے اسے پھیلانے والوںکی سخت سزائیںتجویز ہوں اور کچھ سزائیں نظر بھی آئیںتاکہ عوام کو علم ہو کہ قانون بھی موجود ہے ۔ جرائم پیشہ افراد کے سوشل میڈیا کے ذریعے مائوں بہنوں، اداروںکی عزت حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے۔ کاش ہمارا میڈیا از خود رضاکارانہ طور محب الوطنی کا فریضہ ادا کرے تو کسی کالے قانون کی ضرورت نہیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: صحافیوں کی پی ای سی اے حکومت کی کے خلاف اور اس

پڑھیں:

پیکا ایکٹ میں ترامیم

تجزیہ ایک ایسا پروگرام ہے جسمیں تازہ ترین مسائل کے بارے نوجوان نسل اور ماہر تجزیہ نگاروں کی رائے پیش کیجاتی ہے۔ آپکی رائے اور مفید تجاویز کا انتظار رہتا ہے۔ یہ پروگرام ہر اتوار کے روز اسلام ٹائمز پر نشر کیا جاتا ہے۔ متعلقہ فائیلیںہفتہ وار تجزیہ انجم رضا کے ساتھ
موضوع: پیکا ایکٹ میں ترامیم  صحافتی حلقے سراپا احتجاج
         حکومت اپوزیشن مذاکرات  معطل
مہمان: تصور حسین شہزاد (تجزیہ نگار، صحافی، بلاگر)
میزبان و پیشکش: سید انجم رضا
 تاریخ: 4 فروری 2025

خلاصہ گفتگو و اہم نکات:
پیکا ایکٹ
صحافتی حلقے سمجھتے ہیں کہ پیکا ایکٹ آزادی صحافت پہ قدغن لگانے کی کوشش ہے
 صحافتی تنظیمیں اور اپوزیشن اس کو کالا قانون، آزادی اظہار  رائے اور میڈیا پر حملہ قرار دے رہی ہیں
پاکستان کے سیاسی سماجی اور صحافتی حلقے اس  قانون کے بے جا استعمال کے خدشات  رکھتے ہیں
 حکومت کا یہ کہنا ہے کہ سوشل میڈیا انفلوئنسرز اور یوٹیوبرز کو ریگولیٹ کرنا ضروری ہے۔
پیکا     ترمیمی بل میں ایک طرف نئی ریگولیٹری اتھارٹی، ٹربیونل اور نئی تحقیقاتی ایجنسی کے قیام، اختیارات اور فنکشنز کا ذکر ہے
سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کیلئے سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کے نام سے اتھارٹی قائم کی جائے گی
 سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی چیئرمین اور 8 ممبران پر مشتمل ہوگی۔
بل کے مطابق نیک نیتی سے کیے گئے اقدامات اور فیصلوں پر اتھارٹی، حکومت یا کسی شخص پر مقدمہ یا کوئی کارروائی نہیں کی جا سکے گی۔
 بل کے تحت نیشنل سائبر کرائم ایجنسی قائم کی جائے گی جو اس بل کے تحت انویسٹی گیشن اور پراسیکیوشن کرے گی
 اراکین پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلیوں، عدلیہ، مسلح افواج سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنا بھی قابل گرفت ہوگا 
 ریاستی اداروں کے خلاف پرتشدد کاروائیوں اور دہشتگردی کو حوصلہ افزائی کرنے والا مواد بھی غیر قانونی ہوگا۔
کالعدم تنظیموں کے سربراہان اور نمائندوں کے بیانات کسی بھی طرز پر نشر کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
حکومت اپوزیشن مذاکرات 
تحریکِ انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا عمل اس وقت بظاہر بند گلی میں داخل ہو گیا
پی ٹی آئی نے تحریری طور پر حکومت سے نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات کے حوالے سے سات روز میں جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔
پی ٹی آئی نے حکومت پر واضح کر دیا تھاکہ وہ مذاکرات کے چوتھے دور میں اس وقت تک حصہ نہیں لے گی جب تک عدالتی کمیشن کے قیام کا بنیادی مطالبہ مقررہ مدت میں پورا نہیں ہوتا۔
 پی ٹی آئی کے فیصلے عمران خان کرتے ہیں جن کی ہدایات حتمی ہوتی ہیں اور پارٹی کا کوئی رکن ان میں تبدیلی نہیں کرسکتا۔
 

 
 

متعلقہ مضامین

  • پیکا ایکٹ اور پیپلزپارٹی کی تشویش؟
  • ’’پیکا آرڈیننس‘‘ خطرہ کس کو ہے؟
  • یہ سب کیسے چلے گا؟
  • پیکا ایکٹ میں ترامیم
  • لمحہ فکریہ: امجد صابری کے قتل کے بعد ان کا خاندان شہر کیوں چھوڑ گیا؟
  • صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہر ممکن تعاون کریں گے، ملک احمد خان
  • پیکا قانون 2025ءکے نفاذ کیخلاف صحافیوں کا احتجاجی مظاہرہ
  • پیکا ایکٹ قبول نہیں ہے ،سید عبید شاہ
  • پیکا قانون یک طرفہ، صحافیوں سے مشاورت کی جانی چاہیے تھی، مولانا فضل الرحمان