بلاول بھٹو کی امریکی صدر کے دعائیہ ناشتے کی تقریب میں شرکت
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو—فائل فوٹو
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دعائیہ ناشتے کی تقریب میں شرکت کی۔
پیپلز پارٹی کے ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو زرداری امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دیے گئے ناشتے میں شریک ہوئے۔
اس کے علاوہ دنیا بھر سے اہم سیاسی شخصیات بھی تقریب کا حصہ تھیں۔
بلاول بھٹو زرداری کا ڈیجیٹل بل آف رائٹس لانے کا اعلانپی پی پی چیئرمین نے کہا کہ آج کی دنیا میں انٹرنیٹ بنیادی انسانی حق ہے، تیز اور افورڈیبل انٹرنیٹ تک رسائی کا حق چھین کر لیں گے، ڈیجیٹل رائٹس بل کیلئے نوجوانوں سے مل کر جدو جہد کریں گے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی وینس اس ہفتے کئی نیشنل پریئر اور فیتھ تقاریب میں شرکت کریں گے۔
بلاول بھٹو زرداری نے امریکا میں اہم سفارتی محاذ سنبھال لیا
دوسری جانب صدر آصف علی زرداری نے چینی ہم منصب سے ملاقات کی۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: بلاول بھٹو امریکی صدر
پڑھیں:
بلاول وزیر اعظم کس قیمت پر؟
جب ملک میں 26 ویں آئینی ترمیم منظور کرانے کے سلسلے میں سیاسی سرگرمیاں عروج پر تھیں اور سیاستدانوں کی آپس کی ملاقاتیں جوشیلے انداز میں جاری و ساری تھیں۔ اس میں مولانا فضل الرحمن بارات کے دولہا بنے ہوئے تھے وہ سب کی توجہ کا مرکز تھے۔ اسلام آباد میں ان کا گھر سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھا جہاں تمام ہی پارٹیوں کے ذمہ داران مولانا سے ملنے کے لیے صبح شام آتے جاتے رہتے تھے۔بلاول زرداری اس مہم میں بہت زیادہ پیش پیش تھے۔ وہ ایک دن میں مولانا فضل الرحمن سے دو دو بار ملاقاتیں کرتے تھے۔ کیونکہ مولانا نے سرکاری پارٹی کے پرجوش تحرک میں اس وقت رنگ میں بھنگ ڈال دیا جب حکومت نے تمام ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹرز کو اسلام آباد میں روکا ہوا تھا کہ وہ جلد بازی میں اس ترمیم کو منظور کرانا چاہتے تھے۔ پھر اس جوش میں کچھ ٹھیرائو آیا اور حکومت نے اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا اور سوچا گیا کہ یہ ترمیم تمام اسٹیک ہولڈروں کو اعتماد میں لے کر منظور کی جائے۔ اس لیے سیاستدانوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ مولانا فضل الرحمن نے پی ٹی آئی کو بھی انگیج کیا ہوا تھا۔ حکومتی وزراء کی طرف سے یہ دھمکیاں بھی دی جاتی رہیں کہ ہمارے پاس نمبر پورے ہیں مولانا ساتھ نہ بھی آئیں ہم یہ ترمیم منظور کراسکتے ہیں۔
بہرحال چھبیسویں ترمیم منظور ہوگئی اور اس کی حمایت کرنے والے اور مخالفت کرنے والے دونوں کو یہ جانکاری حاصل تھی یہ ترمیم عدلیہ کو حکومتی کنٹرول میں لینے کی کوشش ہے ویسے یہ الگ موضوع ہے اس پر پھر کبھی اظہار خیال کریں گے۔ فی الوقت تو اس تمہید کا اصل مدعا یہ ہے کہ اس پوری مہم میں بلاول زرداری جس طرح فعال تھے اور تمام سیاست دانوں سے زیادہ ان کی دوڑ بھاگ تھی۔ اسی زمانے میں کئی تجزیہ نگار تجزیوں میں یہ نکتہ اُجاگر کررہے تھے کہ طاقتور حلقوں کی طرف سے ایسے کچھ اشارات آصف زرداری کو مل گئے ہیں کہ اگلے وزیر اعظم بلاول زرادری ہوں گے بلکہ ساتھ ساتھ یہ بات بھی آرہی تجھی کہ باپ صدر اور بیٹا وزیر اعظم، یہ سیٹ اپ اندرون و بیرون ملک قبولیت نہ حاصل کرسکے، اس لیے پھر یہ بات آرہی تھی بلاول وزیر اعظم اور مولانا فضل الرحمن صدر ہوں گے۔ 23 اکتوبر 2023 کو ایک مضمون بلاول ماموں بن گئے کے عنوان سے لکھا تھا اس کے کچھ اقتباس پیش کرنے کے بعد اپنی مزید بات کریں گے۔
بلاول زرداری کی بہن بختاور کے یہاں تیسرے بیٹے کے پیدائش ہوئی ہے اس طرح بلاول اپنے تیسرے بھانجے کے (یا تیسری دفعہ) ماموں بن گئے اور آصف زرداری تین نواسوں کے نانا بن گئے ویسے تو بلاول زرداری پہلے ہی دو مرتبہ (دو بھانجوں کے) ماموں بن چکے ہیں، ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ بلاول کے تینوں بھانجوں کو صحت والی لمبی زندگی عطا فرمائے۔ آمین اس بات کو یہیں روکتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ اب ہمارے کچھ صحافی، دانشور اور سیاستداں کیا کہہ رہے ہیں۔
’’26 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے بلاول زرداری کے اچانک فعال ہوجانے پر ایک محتاط تبصرہ کسی نے یہ کیا کہ شہباز شریف کے بارے میں ایک تاثر یہ تو پایا جاتا ہے کہ بہت اچھی اطاعت کرنے والے فرد ہیں لیکن انہوں نے کچھ ڈیلیور کرکے نہیں دیا اس لیے ہوسکتا ہے کہ زرداری صاحب کو یہ اشارے ملے ہوں کہ اگر چھبیسویں آئینی ترمیم منظور ہوجاتی ہے تو بلاول زرداری کے بارے میں کچھ سوچا جا سکتا ہے، اس لیے کہ پیپلز پارٹی کو یہ تو معلوم ہے کہ وہ انتخابات جیت کر وفاق میں تو کبھی حکومت تو نہیں بنا سکتی وہ عملاً صوبہ سندھ کی جماعت بن کررہ گئی ہے اس لیے وہ اب مقتدر قوتوں سے جوڑ توڑ کرکے ہی وفاق میں کوئی مرکزی عہدہ حاصل کرسکتی ہے‘‘۔
’’15 اکتوبر کو بلاول زرداری نے مولانا فضل الرحمن سے بلاول ہائوس میں کم و بیش چارگھنٹے تک مذاکرات کیے جس کا نتیجہ میڈیا کو یہ بتایا گیا پیپلز پارٹی اور جے یو آئی میں ترمیم کے حوالے سے اتفاق ہو گیا ہے۔ یہ دوسرا اشارہ ہے بلاول زرداری کے وزیر اعظم بنائے جانے کا۔ پہلا اشارہ تو ان کا تحرک، دوسرا مولانا کا مان جانا میرا ذاتی خیال ہے اس کے لیے بلاول بہت کچھ پیچھے ہٹے ہوں گے اور مولانا نے بھی اپنے مستقبل کے خوشگوار جھونکوں کی سرسراہٹ میں کچھ لچک کا مظاہرہ کیا ہے‘‘ چلتے چلتے ہم ایک اخبار ریاست کی شہ سرخی یہ کہہ کر لکھ رہے ہیں کہ دروغ بر گردن ریاست۔۔۔ کہ بلاول زرداری وزیر اعظم اور مولانا فضل الرحمن صدر ہوں گے ن لیگ کو شدید تحفظات ہیں نواز شریف کو خدشہ ہے کہ اگر بات نہ مانی گئی تو ان کی انتخابی نشست اوپن کردی جائے گی‘‘۔
اوپر کے اقتباسات سے تو یہی معلوم ہوتا تھا کہ ترمیم کی منظوری کے بعد کچھ ایسا ہی لگ رہا تھا کہ وفاقی حکومت میں کوئی بڑی اور اہم تبدیلی آنے والی ہے۔ لیکن پی ٹی آئی کی طرف سے احتجاج میں شدت کی وجہ سے یہ سوچا گیا کہ ایسے موقع پر کوئی نیا ارینجمنٹ کرنا مناسب نہیں ہے، جو سیٹ اپ بنا ہوا ہے ابھی اسی کو چلایا جائے۔ جب تک پی ٹی آئی کی عوامی اور سیاسی پوزیشن مضبوط ہے، فارم 47 پر قائم کمزور سے اقتداری ڈھانچے کو نہ چھیڑا جائے۔ کچھ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں بلاول کے ساتھ ہاتھ ہوگیا میں اس سے متفق نہیں ہوں اس لیے کہ صبر اور انتظار کی بھی ایک اہمیت ہوتی ہے، اس لیے یہ بات تو طے ہے کہ بلاول کی فائل اوپر آگئی ہے۔ 26 نومبر کے بعد پی ٹی آئی کی سیاسی پوزیشن پہلے سے کمزور ہوئی ہے لیکن اتنی نہیں کہ رجیم چینج کا خطرہ مول لے لیا جائے۔ لاہور میں جلسے کی اجازت دے ہی دی جاتی پی ٹی آئی والوں کے ہاتھ پیر پھول جاتے اتنے بڑے میدان کو بھرنا کوئی آسان کام نہیں جبکہ پنجاب کی تنظیم پہلے ہی اختلاف، انتشار اور تساہلی کا شکار ہے۔
ایک مضمون میں پڑھا تھا کہ (پتا نہیں اس میں کتنی حقیقت ہے) کالا باغ ڈیم پر صوبوں کے اعتراضات و خدشات دور کردیے گئے ہیں اور اس پر کام شروع ہوگیا ہے بہرحال اس پر صدر صاحب بھی تیار ہوگئے صوبہ سندھ کے تحفظات دور کردیے گئے ہوں گے۔ دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کا جو اشو سامنے آیا ہے اس نے پورے صوبے میں بے چینی بڑھا دی ہے جماعت اسلامی سندھ نے بھی اس پر کل جماعتی کانفرنس بھی بلائی تھی۔ سندھ میں پانی کی قلت کے باعث زراعت تباہ ہورہی ہے سمندر میں میٹھا پانی نہ جانے کی وجہ سے سمندر تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور سالانہ سیکڑوں ایکڑ اراضی سمندر برد ہورہی ہے مزید یہ کہ سندھ سے نہریں نکال کر اسے خشک سالی کی طرف دھکیلا جارہا ہے، بہرحال کوئی قیمت تو ادا کرنی ہے۔ ایک زمانے میں پی پی پی خود پیکا ایکٹ کی شدید مخالفت کررہی تھی اب جب ان کے پاس بل آیا تو انہیں چاہیے تھا کہ اس متنازع بل کو مزید مشاورت کا کہہ کر روک لیتے جس طرح انہوں نے مدرسے کی رجسٹریشن والا بل روکا تھا لیکن انہوں نے ایک اچھے بچوں کی طرح خاموشی سے بغیر کسی تاخیر کے اس پر دستخط کردیے۔ پیر کے اخبارات میں کراچی کی بندرگاہ کی اربوں روپوں کی اراضی پر قبضہ کی رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں 350 ایکڑ پر سندھ حکومت کا قبضہ ہے، کے پی ٹی کی 1448 اور پورٹ قاسم کے 30 ایکڑ پر جو تجاوزات ہیں اس میں سندھ حکومت، سیاستدان اور دیگر لینڈ مافیائیں ملوث ہیں۔ یہ کیس بھی سندھ حکومت پر دبائو بڑھانے کے لیے شاید ہو ابھی سندھ حکومت کی وضاحت آنا باقی ہے۔ ہمیں تو یہ دیکھنا ہے کہ بلاول زرداری کو وزیر اعظم کی سیٹ پر براجمان دیکھنے کے لیے آصف زرداری اور کتنی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔
آخری بات: 26 ویں ترمیم اور پیکا ایکٹ کی من و عن کی منظوری پر ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹرز کی تنخواہوں میں 300 فی صد اضافہ کرکے انہیں انعام دیا گیا ہے یا یوں سمجھ لیں کہ بے چوں و چراں بل کے حق میں ہاتھ اٹھانے کی قیمت وصول کرلی گئی۔