پیکا ایکٹ اور پیپلزپارٹی کی تشویش؟
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
پاکستان میں صحافتی تنظیموں، وکلا اور اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود بالآخر قومی اسمبلی ا ور سینیٹ میں منظوری کے بعد صدر مملکت نے الیکٹرونک کرائمز کی روک تھام (پیکا) ترمیمی بل 2025 پر دستخط کردیے ہیں، صدر کے دستخط کے بعد اب پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 قانون بن گیا ہے۔
وفاقی حکومت نے 22 جنوری کو پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔ دی پریونشن آف الیکٹرونک کرائم ایکٹ (ترمیمی) بل 2025 میں سیکشن 26 (اے) کا اضافہ کیا گیا ہے، جس کے تحت آن لائن ’جعلی خبروں‘ کے مرتکب افراد کو سزا دی جائے گی، ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ جو بھی شخص جان بوجھ کر جھوٹی معلومات پھیلاتا ہے، یا کسی دوسرے شخص کو بھیجتا ہے، جس سے معاشرے میں خوف یا بدامنی پھیل سکتی ہے، تو اسے تین سال تک قید، 20 لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔ پیکا ایکٹ ترمیمی قانون 2025 کے مطابق سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہوگا، جبکہ صوبائی دارالحکومتوں میں بھی دفاتر قائم کیے جائیں گے۔ ترمیمی ایکٹ کے مطابق اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن اور رجسٹریشن کی منسوخی، معیارات کے تعین کی مجاز ہو گی جب کہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کی سہولت کاری کے ساتھ صارفین کے تحفظ اور حقوق کو یقینی بنائے گی۔ پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی پر اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف تادیبی کارروائی کے علاوہ متعلقہ اداروں کو سوشل میڈیا سے غیر قانونی مواد ہٹانے کی ہدایت جاری کرنے کی مجاز ہوگی، سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں کا متاثرہ فرد 24 گھنٹے میں اتھارٹی کو درخواست دینے کا پابند ہو گا۔ ایکٹ کے مطابق اتھارٹی کل 9 اراکین پر مشتمل ہو گی، سیکرٹری داخلہ، چیئرمین پیمرا، چیئرمین پی ٹی اے (یا چیئرمین پی ٹی اے کی جانب سے نامزد کردہ کوئی بھی رکن) ہوں گے، بیچلرز ڈگری ہولڈر ا ور متعلقہ فیلڈ میں کم از کم 15 سالہ تجربہ رکھنے والا شخص اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جاسکے گا، چیئرمین اور 5 اراکین کی تعیناتی پانچ سالہ مدت کے لیے کی جائے گی۔ ترمیمی ایکٹ پر عملدرآمد کے لیے وفاقی حکومت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل قائم کرے گی، ٹربیونل کا چیئرمین ہائی کورٹ کا سابق جج ہو گا، صحافی، سافٹ ویئر انجینئر بھی ٹربیونل کا حصہ ہوں گے۔
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن سمیت اس بل کے خلاف ملک بھر کی صحافی برادری، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اپوزیشن سراپا احتجاج ہیںحکومتی پارٹنر پیپلزپارٹی و ن لیگ کے رہنمائوں نے بھی اس بل کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ حکومت کے اہم اتحادی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی کے چیرمین بلاول زرداری نے بھی اس قانون پر تشویش کا اظہار کیا ہے میڈیا رپورٹس کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ ’’پیکا ایکٹ پر میڈیا، ڈیجیٹل میڈیا نمائندوں سے مشاورت ہوتی تو بہتر ہوتا، حکومت کو کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے۔ پی پی چیئرمین کا یہ بھی کہنا تھا کہ اپنی مرضی کی قانون سازی کے لیے پیپلز پارٹی کے پاس نمبر نہیں ہیں حالانکہ 26 ویں ترمیم کے سلسلے میں وہ سب سے زیادہ متحرک تھے۔ اس سے قبل جب پہلی مرتبہ پی ٹی آئی کے دور میں اس طرح کی قانون سازی کے خلاف صحافیوں نے پارلیمنٹ کے باہر شامیانہ لگا کر احتجاج کیا تھا تو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری اپنے دو سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجا پرویز اشرف سمیت سب سے پہلے پہنچے تھے۔ پیپلزپارٹی کے ایک اور اہم رہنما و سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے پیکا ایکٹ 2025 کے حوالے سے کراچی پریس کلب پر منعقدہ مکالمے میں پیکا ایکٹ کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے کہا کہ کنٹرولڈ میڈیا اور سوشل میڈیا پر مزید قدغن لگے گی مزاحمت کا کلچر ختم ہوچکا ہے اب مفاہمت کی جاتی ہے۔ میاں رضا ربانی نے کہا کہ جب بھی پارلیمان کے اندر کوئی بل پیش کیا جاتا ہے اس پر بحث کرنے کے بجائے رسمی طور پر بل کو اسٹینڈنگ کمیٹی کو بھیج دیا جاتا ہے۔ دونوں پارلیمان پر بحث کے بغیر ہی منظور کرلیا جاتا ہے۔ اس عمل کا ذمہ دار صرف سیاست دان ہی نہیں سوسائٹی بھی ہے کیوں کہ ہمارے ہاں مزاحمت کا کلچر ختم ہوچکا ہے۔ قانون سازی کے حوالے سے پارلیمان کی وقعت ختم ہوچکی ہے۔ میں صحافیوں کے ساتھ کھڑا ہوں۔ جدوجہد کے کلچر کو فروغ دینا ہوگا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شرمیلا فاروقی نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیکا ایکٹ میں ترمیم پر میڈیا ہاؤسز اور صحافی برادری سے مشاورت نہیں کی گئی۔ پیکا ترامیم کیخلاف صحافی برادری کے تحفظات ہیں، جو ایک حد تک بجا بھی ہیں۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ اس معاملے پر تمام اسٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لیتی اور مشاورت سے ترمیم لاتی۔ وفاقی حکومت ہم سے کسی طرح کی مشاورت نہیں کرتی۔ جب کمیٹی میں کوئی قانون لایا جاتا ہے، تو کہا جاتا ہے کہ بس پاس کردیں۔ ایسا اگر کوئی قانون بن جاتا ہے تو وہ حرف آخر نہیں ہوتا۔ اسی طرح شنید ہے کہ چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی بھی حکومت سے ناراض ہیں۔ انہوں نے سینیٹ اجلاس میں پی ٹی آئی کے رکن سینیٹ اعجاز چودھری کی شرکت کے لیے پروڈکشن آرڈر جاری کیے تھے جو سینیٹ چیئرمین کی ذمے داری اور ہر رکن کا استحقاق ہوتا ہے مگر حکومت نے اس آرڈر پر عملدرآمد ضروری نہیں سمجھا۔ خود بعض حکومتی ارکان اور ن لیگ پارٹی رہنما پیکا ایکٹ سمیت حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرچکے ہیں۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت اور اس کے اتحادیوں کی مرضی کے بغیر یہ قانون سازی کون اور کیوں کر رہا ہے؟ آخر سیاسی جماعتوں کی تشویش اور صحافیوں کے احتجاج کو اہمیت کیوں نہیں دی جارہی ہے!
پیپلز پارٹی ایک جمہوری اور عوامی جماعت ہونے کی دعویدار ہے، مگر اس نے اس کے بالکل برعکس ہی جس طرح سے دریائے سندھ سے 6 نئی نہریں نکالنے کے مذموم فیصلے، 26 آ ئینی ترمیم کی غیر مناسب انداز میں منظوری اور اب حال ہی میںآ زادیٔ رائے کا گلا گھونٹنے کے لیے پیکا ایکٹ جیسے سیاہ ترین ایکٹ کی وطن عزیز میں نفاذ کے لیے جو آئین، جمہوریت، صحافت اور عوام دشمنی پر مبنی مکروہ اقدامات کے لیے آ گے بڑھ چڑھ کر غیر جمہوری قوتوں کا ساتھ دیا ہے اور ان کے لیے ایک ادنیٰ سہولت کار کا کردار تک ادا کرنے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی ہے اور اس کی وجہ سے اب وہ جس طرح سے مختلف النوع سنگین الزامات کی زد میں آ چکی ہے، اس پر اس کی قیادت کو ضرور غور و فکر کرکے اپنا محاسبہ کرنا چاہیے۔ یہ بھی ایک حقیقت بن کرسامنے آچکی ہے کہ جس طرح آج پیپلزپارٹی عوام کے سامنے ایکسپوز ہوچکی ہے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ مطلب یہ کہ وہ حکومت میں بھی ہیں اور اپوزیشن میں بھی! بدقسمتی سے یہی کچھ حال مسلم لیگ ن کا ہے۔ جب اقتدار سے باہر ہوتی ہے تو جمہوریت کی رٹ اور اظہار رائے کی آزادی کا شور غوغا کرتے نہیں تھکتی مگر اقتدار کی کرسی ملتے ہی آمرانہ، عوام و صحافت دشمن اقدامات میں لگ جاتی ہے، انتقامی سیاست سے لیکر پیکا ترمیمی بل کے ذریعے آزادی اظہار کا گلا گھونٹنے تک کے حکومتی اقدامات اس کا واضح ثبوت ہے۔
زندہ، ترقی یافتہ اور جمہوری معاشروں میں اظہار رائے کی آزادی اس طرح سے ضروری ہے جس طرح ایک انسان کے زندہ رہنے کے لیے ہوا اور پانی کی ضرورت ناگزیر ہوتی ہے۔ فیک نیوز یا کسی فرد کی تذلیل و توہین کی کوئی بھی ذی شعور آدمی ہرگز حمایت نہیں کرسکتا تاہم فیک نیوز کی آڑ میں آزادی اظہار پر قدغن تشویش ناک اور قابل مذمت ہے۔ آج کے حکمرانوں کو یہ بھی ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ خود جب اپوزیشن میں ہوں گے یہی الزامات ان پر لگ جائیں تو پھر کیا ہوگا؟ مثبت تنقید کے ذریعے اپنی اصلاح اور پالیساں مرتب کی کرتی ہیں البتہ اندھے، گونگے، بہرے معاشروں میں آزادی اظہار کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے۔!
حکمران طبقے کو یاد رکھنا چاہیے کہ حق گوئی کا فریضہ سر انجام دینے والے پیکا ایکٹ کے نفاذ کے باوجود اسے خاطر میں لائے بغیر ہر دور کی طرح اب بھی ان شاء اللہ تعالیٰ بلا خوف وخطر حق بات کہتے اور لکھتے رہیں گے۔ حکمران خواہ کتنی ہی پابندیاں عائد کر دیں اور ہزار ہا قدغنیں اور بھی لگا دیں علامہ اقبال ؒ کا یہ شعر حق گوئی کے خوگر افراد کا ہمیشہ شعار بنا رہے گا۔
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
ازل سے یہی رہا ہے قلندروں کا طریق
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سوشل میڈیا پر پیپلز پارٹی پیکا ایکٹ کے مطابق پارٹی کے جاتا ہے میں بھی پی ٹی ا کے لیے
پڑھیں:
یہ سب کیسے چلے گا؟
2014ء میں انڈیا میں نریندر مودی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سے اب تک انڈیا اور پاکستان میں سرکاری سطح پر مذاکرات کا عمل معطل چلا آرہا ہے لیکن اس سے پہلے دونوں ممالک کے درمیان ناکام ڈائیلاگ کی ایک اپنی تاریخ ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جب بھی دو طرفہ مذاکرات کا اعلان ہوتا تھا میڈیا اس کو ضرورت سے زیادہ اچھالنا شروع کر دیتا تھا یہاں تک کہ کس تیسرے ملک میں دونوں ممالک کے سربراہان آپس میں ہاتھ بھی ملا لیتے تو اس کو سب سے بڑی پیش رفت بنا کر پیش کیا جاتا کہ ناظرین دیکھیں انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملا لیا ہے حالانکہ ہاتھ ملانے سے لے کر کس طرح کے معاہدے تک کا سفر بہت کٹھن ہوتا ہے۔ دسمبر میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سپیکر قومی اسمبلی کی مصالحت سے شروع ہونے والے مذاکرات کم و بیش انہی حالات میں شروع ہوئے جو عموماً انڈیا پاکستان ڈائیلاگ کے مابین ہوا کرتے تھے اور پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بننے کے باوجود جن کا نتیجہ کچھ نہیں نکلتا تھا۔ ان مذاکرات کا آغاز اور انجام بالکل اسی طرح کی ناکامی پر ہوا۔ دنیا بھر میں ڈپلومیسی کا اصول یہ ہے کہ جب آپ ٹیبل ٹاک کرتے ہیں تو اس کی سب سے پہلی شرط یہ ہوتی ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف لفظی گولہ باری بند کریں جب تک یہ نہ ہو آپ بات نہیں کر سکتے اعتماد سازی کا مرحلہ اس کے بعد آتا ہے۔ لیکن ن لیگ اور پی ٹی آئی مذاکرات میں ناکامی بات چیت شروع ہونے سے پہلے ہی نظر آرہی تھی کیونکہ مذاکرات بھی چل رہے تھے اور ایک دوسرے کے خلاف زہر افشانی میں بھی کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ گویا آغاز میں ہی انجام کی باتیں واضح تھیں۔
حکومت اور اپوزیشن مذاکرات میں ہمیشہ حکومتی stakes زیادہ ہوتے ہیں لہٰذا حکومت پر زیادہ بھاری ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ مذاکرات کو میاب کرانے کے لیے وہ سیاسی پختگی کا ثبوت دے کیونکہ ناکامی کی صورت میں نقصان بھی حکومت کا ہی زیادہ سمجھا جاتا ہے لیکن ن لیگی حکومت میں عرفان صدیقی جیسے فاختہ صفت مذاکرات کار کی زبان میں لچک یا صلح جوئی کا عنصر ناپید رہا جبکہ ڈائیلاگ سے باہر کی ن لیگی عقاب صفت رہنما جیسا کہ خواجہ آصف تھے وہ تابڑ توڑ حملے کرتے رہے اور اپنی حکومت کو سر عام کہتے رہے کہ ان سے ڈائیلاگ ختم کریں۔ اپوزیشن کا کہنا تھا کہ حکومت کے بس میں کچھ نہیں ہے جو حکومت وعدے کے باوجود ان کے پس زنداں لیڈر سے ملاقات نہیں کرا سکی وہ فیصلے کرنے میں کتنی آزاد یا خود مختار ہے۔ اسی دلیل کو تقویت دینے کے لیے عمران خان نے جیل سے آرمی چیف کے نام خط میں پالیسی پر نظر ثانی کے لیے خط لکھا ہے بہرحال مذاکرات جہاں سے چلے تھے اسی مقام پر ایک انچ آگے بڑھے بغیر ختم ہو گئے ۔ اس ناکامی کا ملبہ بلاشبہ حکومت کے کھاتے میں جائے گا۔
اسی اثنا میں حکومت نے Prevention of electronic crime یا PECA قانون میں پارلیمنٹ میں بحث کے بغیر من مانی ترمیم کرتے ہوئے فیک نیوز کی اشاعت پر 3سال قید کی سزا پر انسانی حقوق سول سوسائٹی اور بطور خاص میڈیا کو اپنے خلاف صف آرائی کا موقع دے دیا ہے۔ اس قانون سے اظہار رائے کی آزادی پر دور رس اثرات مرتب ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے حکو مت کے خلاف بولنے والوں کے گرد گھیرا تنگ ہوتا نظر آرہا ہے اس کی جو تشریح کی جا رہی ہے یہ ہر بر سر اقتدار حکومت کے ہاتھ میں ایک ایسا ہتھیارآجائے گا جسے دیکھتے ہوئے کوئی حکومت کے خلاف بولنے کی جرأت نہیں کر سکے گا۔ اس قانون کے نتیجے میں کرپشن اور بدعنوانی کو بے نقاب کرنا سب سے مشکل ہو جائے گا۔
پاکستان کے ماضی کے بدنام زمانہ مہران بینک سکینڈل کے مرکزی کردار یونین حبیب مرحوم سے پوچھا گیا تھا کہ آپ سیاستدانوں میں کرورڑوں روپے تقسیم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اس کاثبوت دیں تو انہوں نے تاریخی جواب دیا تھا کہ کرپشن کے لین دین میں رسیدیں نہیں دی جاتیں ان کے پاس ہاتھ سے لکھی ہوئی پرچیاں تھیں کہ کس کس کو کتنا کتنا مال دیا گیا تھا۔
پیکا ایکٹ بال سے باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز وہ رسی ہے جس پر چلتے ہوئے صحافیوں کو نظر آرہا ہے کہ اس رسی کو عبور کرتے ہوئے اگر گر گئے تو تین سال کی قید یقینی ہے۔ ان حالات میں ادارہ جاتی کرپشن پر کون آواز بلند کرے گا اور جب کوئی نہیں بولے گا تو فائدہ کس کو ہو گا۔ اس لیے اسمبلی کے فلور پر ANP نے اس کو Draconian law یا ظالمانہ قانون کہا ہے جبکہ اپوزیشن کی تو بات سنی ہی نہیں گئی۔ ان حالات میں اخباری اداریے جو پہلے ہی ہومیو پیتھک ہیں مزید فرینڈلی ہو جائیں گے اور یہی گورنمنٹ چاہتی ہے۔ اس قانون کا اطلاق سوشل میڈیا سے زیادہ main stream میڈیا پر ہونا ہے اسی لیے پارلیمانی رپورٹر زنے قانون پاس ہونے کے دن وہاں سے واک آؤٹ کیا تھا۔ اردو کا محاورہ ہے کہ کہنا بیٹی کو اور سنانا بہو کو یہ بظاہر تو سوشل میڈیا کہتے ہیں لیکن اس کی زد میں آپ دیکھیں گے کہ کون کون آتا ہے جس میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ہدف ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا تو پیمرا کے ذریعے پہلے ہی سوئی کے ناکے سے گزارا جا چکا ہے۔آپ حکومت کی اجازت کے بغیر اپوزیشن کی کوریج کر کے دکھائیں۔
اس ترمیم کے ذریعے حکومت میڈیا کو مائیکرو مینج کرنا چاہتی ہے اس خواہش سے تو جنرل مشرف جیسی آہنی حکومتوں نے بھی گریز کیا تھا۔ تمام صحافی تنظیموں نے اس پر احتجاج کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے لیکن ابھی تک حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ حکومتی ترجمان کہتے ہیں کہ اگر اس قانون کی کوئی خامی ہے تو آئیں بیٹھ کر بات کرتے ہیں اور حل نکالتے ہیں یہ وہی دعوت ہے جو حکومت نے اپوزیشن کو مذاکرات سے پہلے دی تھی کہ آئیں بیٹھ کر حل نکالتے ہیں مگر بعد میں اپنی عدم سنجیدگی کے باعث موقع ضائع کر دیا۔
26 ویں آئینی ترمیم کے بعد اب کسی کے پاس سپریم کورٹ جانے کاآپشن بھی نہیں بچا کہ اس کو چیلنج کیا جائے کیونکہ جو بنچ بھی بنے گا وہ حکومت کی مرضی ہو گی کہ یہ کس کس کے پاس جائے۔ یہ ایک الگ بحث ہے۔ 26 ویں آئین ترمیم اور جو ڈیشل کمیشن پر حکومت کے ہولڈ کے بعد جو نئے ججوں کی induction ہوئی ہے اس سے اگلے 10 سے 15 سال تک اعلیٰ عدلیہ میں ن لیگ کے لائے ہوئے ججوں کا غلبہ طاری رہے گا۔