ہر سال کی طرح اس سال بھی یہی آوازیں حکومت کی جانب سے آرہی ہیں کہ جنوری کے مہینے میں بھی ٹیکس کے ہدف کے حصول میں ناکامی افسوسناک ہے۔ ٹیکس گزاروں پربوجھ بڑھانے کے بجائے ٹیکس نیٹ میں توسیع کی جائیاورنقد لین دین کی حوصلہ شکنی کے لئے ہر قسم کی خرید و فروخت کو ڈیجیٹلائز کیا جائے توصورتحال بہترہوسکتی ہے۔ جنوری کے مہینے میں ہدف کے مقابلہ میں ٹیکس کا شارٹ فال 85 ارب روپے رہا ہے جبکہ روان مالی سال کے پہلے سات ماہ کے دوران مجموعی ٹیکس شارٹ فال 468 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ ٹیکس شارٹ فال کی ایک وجہ ٹیکس گزاروں پر بوجھ میں مسلسل اضافہ کرنے کی پالیسی ہے جبکہ ٹیکس نیٹ میں توسیع کے لئے زبانی جمع خرچ سے کام چلایا جا رہا ہے۔

میاں زاہد حسین نے کہا کہ عوام اورٹیکس لینے والے اداروں کے مابین اعتماد کا فقدان ہے اورٹیکس گزاروں کا خیال ہے کہ انکے ٹیکس کی رقم عوام کے بجائے ارباب اختیارکی فلاح وبہبود پرخرچ ہوگی اس لئے وہ کسی قیمت پرٹیکس نیٹ میں نہیں آنا چاہتے جو ایک غلط دلیل ہے۔ دوسری طرف ٹیکس کے نظام میں بے شمارخامیاں اور چور دروازے ہیں جسکی وجہ سے سرکاری افسران اورٹیکس چوردونوں فائدہ میں جبکہ ملک نقصان میں رہتا ہے جس کی حالیہ مثال کراچی کسٹم کے فیس لیس سسٹم میں سامنے آنے والی بدعنوانیاں ہیں۔ فیس لیس سسٹم ابھی حال ہی میں نصب کیا گیا تھا مگر اس میں بھی کرپٹ لوگوں نے راستے بنا لیے ہیں اور ان پر چھاپہ مار کر کچھ افسران کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ وزیرخزانہ کے مطابق چند بڑی کمپنیاں ساڑھے تین ہزارارب روپے تک کے ٹیکس فراڈ میں ملوث ہیں جبکہ ایف بی آرکے چئیرمین کے مطابق سب سے زیادہ کمانے والے پانچ فیصد افراد سولہ کھرب روپے کا ٹیکس چوری کرتے ہیں۔ اعلیٰ حکام کی جانب سے یہ انکشافات حیران کن ہیں مگران پر کاروائی بھی ہونی چائیے تاکہ معاملات بہترہوسکیں۔

ماہرین کا خیال ہے کہ معیشت میں بنیادی تبدیلیاں لانے کا عمل سست روی کا شکار ہے اوروہ اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے ہیں جس سے حقیقی تبدیلی لائی جا سکے۔ پالیسی سازاصل مسائل کونظراندازکرکے بیان بازی پرزیادہ توجہ دے رہے ہیں اورریونیوبڑھانے کے لئے پہلے سیعائد ٹیکسوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اہم شعبے اب بھی سبسڈی کے مزے لوٹ رہے ہیں، بجلی اورگیس کی تقسیم میں کھربوں روپے کے نقصانات کا سلسلہ جاری ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس کی وجہ ترسیلات زرمیں اضافہ ہے، برآمدات کے مقابلے میں درآمدات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اورقرض دہند گان مزید قرض دینے سے گریزاں نظرآتے ہیں۔ پٹرول اورڈیزل کی قیمت میں اضافہ پر تبصرہ کرتے ہوئے میاں زاہد حسین نے کہا کہ پٹرول نجی ٹرانسپورٹ، چھوٹی گاڑیوں، رکشوں اوردوپہیوں والی سواریوں میں استعمال ہوتا ہے اوراس کی قیمت میں اضافہ سے متوسط اورغریب طبقہ متاثرہوتا ہے۔ ڈیزل ہیوی ٹرانسپورٹ، ٹرینوں، ٹرکوں، بسوں، ٹریکٹروں، ٹیوب ویلزاورتھریشروغیرہ میں استعمال ہوتا ہے جس کے مہنگا ہونے سے کھانے پینے کی اشیاءمہنگی ہوجاتی ہیں مگر عالمی منڈی میں پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے کی بنا پر اندرون ملک ان اشیاءکی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہے۔

ٹیکس ہدف میں کمی کی ایک وجہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آ) کے ایس آر او 55(i)/2025 کے ذریعے متعارف کرائی گئی ماہانہ اسٹاک اسٹیٹمنٹس، صارف ڈیٹا، پیچیدہ خرید و فروخت اور اسٹاک رپورٹس جمع کرانے کی نئی شرائط آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے تاجروں کے لیے سردرد بن گیا ہے خاص طور پر چھوٹے تاجروں کے لیے پیچیدہ شرائط کو پورا کرنا دشوار ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کیمیکلز اینڈ ڈائز مرچنٹس ایسوسی ایشن (پی سی ڈی ایم اے) کے چیئرمین سیلم ولی محمد نے کہا ہے کہ بزنس کمیونٹی معاشی استحکام کی حامی ہے اور ہر گز ایف بی آر کے اقدامات کی مخالف نہیں تاہم یہ انتہائی ضروری ہے کہ کسی بھی نئے اقدام یا پالیسی نافذ کرنے سے پہلے اس کے بارے میں آگاہی اور شعور ضرور بیدار کیا جائے تاکہ بزنس کمیونٹی اسے بوجھ نہ سمجھے اور اس کی تعمیل میں ایف بی آر کے ساتھ اپنا تعاون پیش کرسکے۔چیئرمین پی سی ڈی ایم اے کا مزید کہنا تھا کہ ایس آر او 55(i)/2025 کے تحت اسٹاک کی تفصیلات جمع کرانے کی پیچیدہ شرائط سے متعلق آگاہی نہ ہونے سے چھوٹے پیمانے کے کاروباری اداروں اور تاجروں کے لیے بروقت ماہانہ سیلز ٹیکس ریٹرنز فائل کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے کیونکہ درآمدکنندگان، تاجر اور ہول سیلرز جوکم منافع کے باعث پیشہ ور اکاؤنٹنٹس یا ٹیکس ماہرین کے اخراجات کا بوجھ ہر گز برداشت نہیں کر سکتے لہٰذا ایف بی آر کو چاہیے کہ وہ تاجر برادری کی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے مذکورہ ایس آر او پر فوری عمل درآمد کے بجائے کچھ وقت دے اور تاجروں کے لیے آگاہی سیشن رکھے جائیں تاکہ وہ شرائط کو باآسانی پورا کرسکیں۔سلیم ولی محمد نے چیئرمین ایف بی آر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پیچیدہ شرائط کو اچانک نافذ کرنے کے بجائے ایف بی آر کو تاجر برادری سمیت اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرنی چاہیے اور باہمی مشاورت سے ایک قابل عمل طریقہ وضع کرنا چاہیے تاکہ اس کی تعمیل باآسانی ممکن بنائی جاسکے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تاجر برادری اور سرکاری ادارے ملک کو ترقی کی طرف لے جانے والی معاشی گاڑی کے پہیے ہیں لہٰذا مل جل کر ہی اس سفر کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے بصورت دیگر معاشی گاڑی کا پہیہ رک جائے گا اور ملک خطیر ریونیو سے محروم ہو جائے گا۔

صنعتی ترقی کے ضروری ہے کہ صنعتکاروں کو بنیادی ضرورت کی جیسے پانی بجلی اوور گیس کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے ۔لیکن اس کے برعکس ملک کے سب سے بڑے سائٹ صنعتی ایریا میں پانی کی بندش کی وجہ سے صنعتی پیداواری سرگرمیاں رک گئی ہیں نتیجتاً مزدور فارغ بیٹھے ہیں اور برآمدی آرڈرز کی بروقت تکمیل بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ سائٹ ایریا کی صنعتوں کو پانی کی فراہمی بند ہونے پر صنعتکاروں کوگہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے میئر کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب، ایم ڈی کے ڈبلیو ایس سی، ایم ڈی سائٹ لمیٹڈ، متعلقہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت تمام متعلقہ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ صنعتوں کو بلاتعطل پانی کی فراہمی سمیت دیگر مسائل فوری طور پر حل کیے جائیں اور اگر وہ ایسا کرنے سے قاصر ہیں تو ہمیں آگاہ کر دیں تاکہ ہم اپنی صنعتیں کہیں اور منتقل کرنے پر غور کریں۔ 4 دنوں سے سائٹ ایریا میں پانی کی عدم فراہمی کے باعث فیکٹریاں بند ہیں لہٰذا صنعتکاروں کے پاس فیکٹریاں بند کرنے اور مزدوروں کو برطرف کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا۔ ڈبلیو ایس سی کی کارروائی کے نتیجے میں زیر زمین پانی کے سپلائرز کی ہڑتال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صنعتوں کو چلانے کے لیے ہمیں ڈیمانڈ کے مطابق پانی کی ضرورت ہے لہٰذا کے ڈبلیو ایس سی کو پانی کی بلاتعطل فراہمی یقینی بنانی چاہیے۔ ہمارا کے ڈبلیو ایس سی اور زیر زمین پانی کے سپلائرز کے تنازعات سے کوئی تعلق نہیں، اس لیے سائٹ کی صنعتوں کو پانی کی فراہمی میں خلل ڈالے بغیر تنازعات کو خوش اسلوبی سے حل کیا جائے۔

پاکستان میں گھی اور کوکنگ آئل کی قلت کا خدشہ پیدا ہوگیا، پورٹ قاسم پر ایڈیبل آئل کی شپمنٹس کی کلئیرنگ گزشتہ ایک ہفتے سے کلیئر نہیں ہوسکیں۔پورٹ قاسم پر ایڈیبل آئل کی شپمنٹس کی کلئیرنس کا عمل تعطل کا شکار ہونے سے ملک میں گھی اور خوردنی تیل کی قلت پیدا ہونے کے خدشات پیدا ہوگئے، گزشتہ ایک ہفتے سے ایڈیبل آئل کے درآمدی کنسائنمنٹس رکی ہوئی ہیں۔پاکستان وناسپتی مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے چئیرمین شیخ عمر ریحان کے مطابق ٹرمینل پر شپمنٹس اتارنے کی جگہ نہیں ہے جبکہ ایڈیبل آئل کے درآمدی کنسائنمنٹس کو ڈسچارج کرانے کے لئے 8 سے 10 بحری جہاز قطاروں میں کھڑے انتظار کررہے ہیں جس میں 70ہزار سے زائد میٹرک ٹن پام آئل لدا ہوا ہے، اس صورتحال کی وجہ سے ملک میں گھی اور خوردنی تیل کی قلت کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ایسوسی ایشن کے مطابق بندرگاہ پر پھنسے ہوئے کنسائنمنٹس پر بھاری ڈیمریجز اور دیگر جرمانے لگ رہے ہیں، کسٹم کا سافٹ ویئر پی ایس ڈبلیو کی بندش سے معیشت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے، کلیئرنس نہ ہونے سے امپورٹرز کو اربوں روپے کے نقصان کا سامنا ہے، پورٹ سے کلیئرنس رکنے کی وجہ سے خوردنی تیل کی قلت کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔شیخ عمر ریحان نے مزید بتایا کہا کہ کسٹم کے سافٹ ویئر پی ایس ڈبلیو کی بندش سے معیشت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے، کلیئرنگ نہ ہونے س امپورٹرز کو اربوں روپے کے نقصان کا سامنا ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: تاجروں کے لیے ڈبلیو ایس سی ایڈیبل ا ئل کرتے ہوئے میں اضافہ ایف بی ا ر کی فراہمی صنعتوں کو کی وجہ سے کے مطابق کے بجائے رہے ہیں ہونے سے ہیں اور پانی کی نہ ہونے گیا ہے رہا ہے کے لئے کیا جا نے کہا کہا کہ ا گاہی ہے اور کی قلت

پڑھیں:

سعودی دارالحکومت ریاض اور مضافات میں ریت کا طوفان‘حدنگاہ انتہائی کم

ریاض(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔12 اپریل ۔2025 )سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض اور مضافات کوریت کے طوفان نے لپیٹ میں لے لیا ہے عرب نشریاتی ادارے کے مطابق ریاض اور اس کے مضافات میں انتہائی تیز ہواﺅں نے دارالحکومت کے علاقے کو شدید گرد و غبار سے ڈھانپ لیا. ریت کے اس طوفان نے اسکائی لائن کو گرد و غبار کے بادلوں سے ڈھانپ دیا ہے جس کے نتیجے میں حد نگاہ انتہائی کم ہو گئی ہے روڈ سیفٹی سے متعلق سعودی اتھارٹی اور سعودی ہائی وے سکیورٹی نے طوفانی صورت حال میں گاڑی چلانے والے شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ سڑکوں پر انتہائی احتیاط سے کام لیں.

(جاری ہے)

سعودی عرب شہری دفاع سے متعلق ادارے جنرل ڈائریکٹوریٹ آف سول ڈیفنس نے شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ طوفان کے ختم ہونے تک ریت والے علاقوں میں جانے سے گریز کریں نیز محکمہ موسمیات کی طرف سے ملنے والی اطلاعات اور رہنمائی کے مطابق باہر نکلیں . دارالحکومت میں ریاض کے ایک رہائشی کا کہنا ہے کہ ہفتہ بھر کی چھٹی ہونے کی وجہ سے شام کے وقت ہم نے فیملی کے ساتھ گھومنے کے لیے نکلنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن اب ریت کے اس طوفان کی وجہ سے ہم نے گھر میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا ہے یقیناً ایسے خراب موسم میں باہر نکلنا اچھا نہیں ہو سکتا .

بشیر صالح نامی ریاض کے شہری نے اس بات سے اتفاق کیا کہ مقامی حکام نے مختلف علاقوں میں خراب موسم سے پیشگی خبردار کیا ہے کہ اپنی حفاطت کے لیے اس ہفتے کے آخر تک تفریحی ضرورتوں کے لیے گھروں سے باہر نکلنے سے احتیاط برتیں. سرکاری محکموں کی رپورٹس کے مطابق اس طوفان کی وجہ سے سمندری لہریں 1.5 میٹر سے 3 میٹر تک کی بلندی کو پہنچ سکتی ہیں بتایا گیا ہے کہ خلیج عرب میں یہ تیز ہوائیں شمال مشرق سے شمال مغرب کی طرف چل رہی ہیں علاوہ ازیں مملکت کے کئی حصوں میں گرد و غبار سے اٹے طوفان کی پیش گوئی سامنے آئی تھی جبکہ قومی مرکز برائے موسمیات کی طرف سے کی گئی پیش گوئی میں بتایا گیا ہے کہ مکہ مکرمہ، ریاض، قسیم میں اولے پڑنے اور مشرقی و شمالی سرحدی علاقوں کے کچھ حصوں میں گرج چمک کے ساتھ بارش ، اولوں اور گرد آلود ہوائیں چلنے کا امکان ہے.


متعلقہ مضامین

  • مہنگائی کی شرح میں کمی کے ثمرات عوام تک نہ پہنچیں تو کیا فائدہ، صوبوں سے ملکر قیمتیں کنٹرول کرینگے: وزیر خزانہ
  • مہنگائی میں کمی کا فائدہ عوام تک براہ راست نہیں پہنچ رہا، حکومت کا اعتراف
  • وزیر خزانہ نے مہنگائی میں کمی کے اثرات عوام تک نہ پہنچنے کا اعتراف کرلیا
  • وزیراعظم معیشت کو لیڈ کررہے ہیں،جلد نتائج دیکھیں گے،آنیوالے مہینوں میں مزید خوشخبریاں سنائی جائیں گی‘ محمد اورنگزیب
  • سعودی دارالحکومت ریاض اور مضافات میں ریت کا طوفان‘حدنگاہ انتہائی کم
  • معدنیات بل عمران کی اجازت سے مشروط، ناقدین کے اعتراضات اور حکومتی جوابات
  • گرین بانڈز کے ذریعے فنڈنگ حاصل کرنے کا حکومتی فیصلہ : آئی ایم ایف کے اہداف کی تکمیل کیلئے اہم قدم
  • پی اے ایف مسرور بیس پر حملے کی بڑی سازش ناکام بنادی گئی
  • کراچی میں پی اے ایف مسرور بیس پر حملے کی بڑی سازش ناکام بنادی گئی
  • ملک میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کے موجودہ رجحان کا جائزہ ،مہنگائی میں تاریخی اورنمایاں کمی