Express News:
2025-04-15@09:47:35 GMT

عرب ممالک کی ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن میں پاکستان کیلیے مواقع

اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT

کراچی:

ٹیک انڈسٹری سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب، یو اے ای اور قطر تیزی سے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا مرکز بننے کی جانب گامزن ہے، پاکستان کو ان مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے. 

یو اے ای اپنی جی ڈی پی کا 1.5 فیصد، قطر 0.7 فیصد اور سعودی عرب 0.5 فیصد ریسرچ اور ڈیولپمنٹ پر خرچ کر رہے ہیں. 

ٹیک پروفیشنل اور این آئی سی کراچی کے پراجیکٹ ڈائریکٹر سید اظفر حسین نے کہا کہ پاکستان کی  ٹیکنالوجی کمپنیوں کے پاس یو اے ای اور سعودی عرب میں کام کرنے کا سنہری موقع ہے کیوں کہ وہاں ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن صنعتوں کی شکل کو تبدیل کر رہی ہے.

 

ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کیلیے پاکستانی کمپنیوں کو اسٹریٹجک پارٹنر شپ بنانا، کوسٹ ایفیکٹیو حل پیش کرنا، اور سعودی عرب کے وژن 2030 سے ہم آہنگ کرنا ہوگا. 

پاکستان کی ٹیک انڈسٹری کے پاس ایسی مصنوعات تیار کرکے ترقی کرنے کا ایک بہت بڑا موقع ہے جو مقامی اور عالمی منڈیوں میں جگہ پاسکیں، صرف خدمات پیش کرنے کے بجائے، کمپنیوں کو فنٹیک، سائبرسیکیوریٹی، صنعتی آٹومیشن اور AI جیسے شعبوں میں ٹیک پروڈکٹس بنانے پر توجہ دینی چاہیے. 

ان کا کہنا تھا کہ تحقیق، صارف دوست ڈیزائن، اور ڈیٹا پر مبنی حکمت عملیوں میں سرمایہ کاری کرکے، پاکستان آؤٹ سورسنگ سے آگے بڑھ سکتا ہے اور جدید ٹیکنالوجی کا مرکز بن سکتا ہے، نئی منڈیوں کے دروازے کھول سکتا ہے اور دنیا بھر میں سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کر سکتا ہے۔

مشرق وسطیٰ میں ایک آئی ٹی ایکسپورٹر سعد شاہ نے کہا کہ گلف کوآپریشن کونسل (جی سی سی) کا خطہ پاکستان کی آئی ٹی کمپنیوں کے لیے ابھرتی ہوئی مارکیٹ ہے، خاص طور پر دو ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بہت پرکشش مارکیٹیں ہیں اور یہاں شاندار مواقع موجود ہیں. 

ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی آئی ٹی کمپنیوں کو چاہیے کہ وہ متحدہ عرب امارات میں بڑی صنعتوں اور مختلف بزنس ٹائیکونز کو ون ونڈو سلوشن کے تحت اینڈ ٹو اینڈ سلوشنز اور متعدد خدمات فراہم کرنے کے لیے اپنی طاقت کے مطابق مشترکہ منصوبے بنائیں۔

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

جہاز رانی میں مضر ماحول گیسوں کا اخراج کم کرنے پر تاریخی معاہدہ طے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 13 اپریل 2025ء) دنیا بھر کے ممالک نے عالمگیر جہاز رانی سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کا معاہدہ طے کر لیا ہے جس میں ایندھن کے استعمال پر لازمی ضوابط تشکیل دیے گئے ہیں اور اس صنعت میں کاربن کے اخراج کی قیمت وصول کرنے کا طریقہ کار متعارف کرایا گیا ہے۔

یہ معاہدہ بحری امور پر اقوام متحدہ کے عالمی ادارے (آئی ایم او) کی سمندری ماحول کے تحفظ کی کمیٹی کے اجلاس میں طے پایا۔

اس کا مقصد 2050 تک اس شعبے سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو نیٹ زیرو سطح پر لانا ہے۔ معاہدےکی رسمی منطوری رواں سال اکتوبر میں دی جائے گی اور یہ 2027 میں نافذ العمل ہو گا۔ Tweet URL

معاہدے کے ضوابط کا اطلاق 5,000 ٹن سے زیادہ وزنی بحری جہازوں پر ہو گا جو جہاز رانی سے 85 فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس خارج کرنےکے ذمہ دار ہیں۔

(جاری ہے)

آلودگی کی روک تھام

'آئی ایم او' کے سیکرٹری جنرل آرسینیو ڈومینگیز نے اس کامیابی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے معاہدے پر موثر عملدرآمد کے لیے مشترکہ جذبے سے کام لینے پر زور دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ معاہدے کے مسودے میں 'آئی ایم او' کے نیٹ زیرو فریم ورک کے حوالے سے ترامیم کی منظوری موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کی اجتماعی کوششوں میں ایک اور نمایاں قدم ہے۔

یہ ترامیم جہاز رانی سے آلودگی کے اخراج کی روک تھام کے بین الاقوامی کنونشن کی شرائط کے تحت کی گئی ہیں جس میں خاص طور پر فضا میں شامل ہونے والی آلودگی کو روکنا شامل ہے۔اس طرح جہاز رانی کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

اس معاہدے میں جہازوں کے لیے توانائی کی استعداد کے حوالے سے شرائط بھی شامل ہیں جن پر اتفاق رائے کے لیے لندن میں 'آئی ایم او' کی کمیٹی کے اجلاس میں کڑی گفت و شنید ہوئی۔

اطلاعات کے مطابق امریکہ سمیت درجن بھر ممالک نے معاہدے کی مخالفت کی۔ تاہم اس تجویز پر رائے شماری کرائی گئی جس میں اسے منظوری مل گئی۔جہاز راں صنعت کے لیے اہم موڑ

اس معاہدے میں دہرا طریقہ کار متعارف کرایا گیا ہے جس میں بحری جہازوں میں استعمال ہونے والے ایندھن کے حوالے سے عالمگیر ضوابط کے نفاذ کی بدولت گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں نمایاں کمی آئے گی۔

دوسری جانب، گرین ہاؤس گیسوں بالخصوص کاربن کے اخراج پر قیمت عائد کرنے کے نتیجے میں بحری جہاز مخصوص حد سے زیادہ مقدار میں آلودگی خارج کرنے پر ادائیگی کے پابند ہوں گے۔

معاہدے کے تحت، جو بحری جہاز مقررہ حد سے کم مقدار میں کاربن خارج کریں گے انہیں مالی فوائد دیے جائیں گے اور اس طرح سمندری نقل و حمل کو ماحول دوست بنانے میں مدد ملے گی۔

کمزور ممالک کی مدد

'آئی ایم او' کا نیٹ زیرو فنڈ بھی اس معاہدے کا ایک اہم حصہ ہے جس میں کاربن کے اضافی اخراج پر جہازوں یا جہاز راں کمپنیوں سے حاصل ہونے اولا معاوضہ جمع کیا جائے گا۔ اس فنڈ کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کو جہازرانی کے شعبے میں اختراع، تحقیق، بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور ماحول دوست اقدامات کی جانب منتقلی کے لیے مدد فراہم کی جائے گی۔

اس فنڈ کو چھوٹے جزائر پر مشتمل ترقی پذیر ممالک (ایس آئی ڈی ایس) اور کم ترین ترقی یافتہ ممالک (ایل سی ڈی) پر فضائی آلودگی کے منفی اثرات میں کمی لانے کی غرض سے بھی استعمال کیا جائے گا۔ یہ ممالک موسمیاتی تبدیلی کے علاوہ جہاز رانی کے شعبے میں معاشی دباؤ کے منفی اثرات بھی جھیلتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • سیاسی استحکام کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا: احسن اقبال
  • وزن کم کرنے کے لیے چار چیزیں جو صبح نو بجے سے پہلے کر لینا چاہیں
  • سعودی عرب کے ترقیاتی منصوبوں میں پاکستانیوں کا کردار، ملازمت کے نئے مواقع پیدا ہورہے ہیں، پاکستانی سفیر احمد فاروق
  • آئینی بینچ میں مزید دو ججز شامل کرنے کیلیے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس طلب
  • پاکستان سب سے زیادہ ترسیلات زر وصول کرنے والے دس ممالک میں شامل
  • بیلاروس کا ڈیڑھ لاکھ پاکستانیوں کو ملازمتیں دینے کا اعلان، کیا مواقع موجود ہیں؟
  • پاکستان تباہ کن ’امریکی ٹیرف‘ سے کے اثرات سے کس طرح محفوظ رہ سکتا ہے؟  
  • جہاز رانی میں مضر ماحول گیسوں کا اخراج کم کرنے پر تاریخی معاہدہ طے
  • غزہ میں امداد کے داخلے کو جنگ بندی سے منسلک نہیں کیا جا سکتا، سعودی وزیر خارجہ
  • کم عمرونوجوان صارفین میں محفوظ ڈیجیٹل عادات کے فروغ کیلئے ٹک ٹاک نے والدین کے کنٹرول کا فیچرمتعارف کردیا