شہ رگ کب تک زیرِ خنجر رہے گی؟
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
5 فروری کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے۔ یہ دن کشمیریوں کی تحریک آزادی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، اس دن نہ صرف آزاد کشمیر اور پاکستان بلکہ دنیا بھر میں مقیم کشمیری، پاکستانی اور مہذب اقوام جہاں کشمیر و اہل کشمیر کی مظلومیت کے ساتھ یکجہتی کا بھر پور اظہار کرتے ہیں، وہیں بھارتی بربریت، سفاکیت اور کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم کی مذمت اور غاصب بھارتی درندوں سے نفرت کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ یوم یکجہتی کشمیر کا آغاز کب، کہاں اور کیسے ہوا۔ اپنی تاریخ سے نابلد نسل نو کو علم ہونا چاہیے تاکہ ان کے اندر اپنے آباؤاجداد کی طرح کشمیر اور اہل کشمیر سے محبت اور آزادیِ کشمیر کے سربکف رہنے کا جذبہ بیدار رہے۔
5فروری 1990 کو قاضی حسین احمد مرحوم نے آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے اس دن کو یوم یکجہتی کشمیر کا نام دے کر منانے کا آغاز کیا۔ تب سے آج تک یہ دن پاکستان اور آزاد کشمیر میں سرکاری سطح پر منایا جارہا ہے، پورے ملک میں عام تعطیل ہوتی ہے، ملک بھر میں دینی، سیاسی اور سماجی تنظیموں کی جانب سے جلسے جلوس، سمینارز، تقاریب اور ریلیاں منعقد کی جاتی ہیں۔
ہر سال پانچ فروری کو دارالحکومت اسلام آباد بینروں اورپلے کارڈز سے سجایا جاتا ہے، جن پر اہل کشمیر کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرنے اور کشمیر کی آزادی تک سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت کا یقین دلانے کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کے حق میں تحریریں درج ہوتی ہیں مگر لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے، جب شہہ رگ زیر خنجر ہو تو صرف نعروں اور بینروں سے جان نہیں چھوٹتی عملی اقدامات کرکے خنجر چھین کر دشمن سے نپٹنا پڑتا ہے اس لیے اس دن کو کشمیر کی آزادی کے لیے تن من دھن کی بازی لگانے اور آزادی چھیننے کے لیے تجدید عہد کے طور پر منانا چاہیے۔
ریاست پاکستان کی جانب سے اپنے کشمیری بہن بھائیوں کو اس امر کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے کہ اہل پاکستان کل بھی ان کی حمایت و مدد کے لیے کمربستہ تھے اور ہمیشہ رہیں گے۔ مگر اب ریاست پاکستان کو بھی عملی اقدام اور عوام کو ریاست کے شانہ بشانہ لڑ نے کی ضرورت ہے کہ ظلم کی یہ رات ڈھل جائے۔
کراچی سے خیبر اور بولان سے گلگت بلتستان تک تمام سیاسی، مذہبی، سماجی اور سول سوسائٹی کی جانب سے جلسے جلوسوں میں اپنے کشمیری بھائیوں کو بھارت کے غاصبانہ اور ناجائز قبضے کے خاتمے کی جدوجہد پر خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ ہم سنتے چلے آرہے ہیں کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے جو گزشہ 77 برسوں سے زیر خنجر ہے مگر نہ جانے کب تک ہماری شہ رگ زیرِخنجر رہے گی؟ بھارت نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کرکے کشمیریوں کو یر غمال بنا کر ان کے حقوق سلب کر رکھے ہیں۔ ایک طرف کشمیر کی خود مختار حیثیت کو ختم کرکے وہاں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے لیے جہاں ہندو انتہاپسندوں کو لا کر آباد کیا جارہا ہے تو دوسری طرف وہاں اہل کشمیر کا قتل عام بھی کیا جارہا ہے۔
کشمیریوں نے گزشتہ 77 برسوں سے مقبوضہ جموں وکشمیر پر بھارت کے غیر قانونی، غیر آئینی، غیر اخلاقی، غاصبانہ اور ناجائز قبضے کے خاتمے اور اپنی حق خودارادیت کے حصول کے لیے جو عظیم اور لازوال جدوجہد شروع کی ہے اس میں اب تک ایک لاکھ کے قریب کشمیری اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں، بھارتی دہشت گردی کے نتیجے میں23 ہزار سے زائد خواتین بیوہ اور ایک لاکھ گیارہ ہزار بچے یتیم ہوچکے ہیں۔
بھارتی درندوں نے 12ہزارکے قریب کشمیری خواتین کی اجتماعی آبرویزی کی، لاکھوں کشمیری گرفتار کرکے انھیں بھارتی عقوبت خانوں میں قید رکھ کر ہزاروں کو دوران حراست فرضی جھڑپوں میں شہید کیا گیا، مقبوضہ جموں وکشمیر کے طول عرض میں ہزاروں گمنام قبریں دریافت ہوچکی ہیں، ایک ایک قبر میں سیکڑوں کشمیریوں کو اجتماعی طور پر دفن کیا گیا تھا، اربوں روپے کی جائیداد و املاک کو تباہ کیا گیا کئی دہائیوں سے جاری بھارتی دہشت گردی کے نتیجے میں کھیت و کھیلان تباہ ہوکر ویران بیاباں کے مناظر پیش کررہے ہیں۔ کشمیر میں کوئی گھر ایسا نہیں جس کی چوکھٹ سے شہیدوں کے جنازے نہ اٹھے ہوں، آج بھی معصوم کشمیری نوجوانوں کو بھارتی درندوں کے ہاتھوں فرضی جھڑپوں میں شہید کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ان تمام ظالمانہ اور سفاکانہ کارروائیوں کا مقصد اہل کشمیر کو جدوجہد آزادی سے دستبردار کرانا ہے۔
سوال یہ ہے کہ 77 برسوں سے جاری اس ظلم و بربریت اور لاکھوں شہادتوں کے باوجود کیا اہل کشمیر کے دلوں سے جذبہ حریت مٹ چکا ہے؟ انھوں نے کیا بھارت کی غلامی کو قبول کرلیا ہے؟ ہرگز نہیں۔ 77 سال پہلے اہل کشمیر کے دلوں میں جو جذبہ آزادی موجود تھا، اسے غزہ پر اسرائیلی درندوں کی 471 دن کی مسلسل بربریت کے سامنے معصوم فلسطینی مسلمانوں کی عزم صمیم نے کشمیریوں کی تیسری نسل کے خون میں موجود وارثت میں ملا جذبہ آزادی کو پہلے سے کہیں زیادہ توانا اور قوی کیا ہے۔ ایک نہ ایک دن بھارت کو اقرار کرنا پڑے گا کہ کشمیر "تقسیم ہند" کا نامکمل ایجنڈا ہے۔
بھارتی درندے کشمیریوں کے دلوں سے آزادی و حریت کا جذبہ ختم نہیں کرسکتے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں اس کا حل نہ نکلا تو کشمیری خنجر بن کر بھارت کے پیٹ میں پیوست ہوکر ہندو بنئے سے آزادی چھین لیں گے۔ آزادیِ کشمیر کے بغیر جنوبی ایشیاء میں قیام امن کا خواب ادھورا ہے اور ادھورا ہی رہے گا۔ دو ایٹمی طاقتوں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کا بنیادی سبب مسئلہ کشمیر ہے اور اگر اس کو حل کرنے کا کوئی راستہ نکال لیا جائے تو اس سے نہ صرف کشمیر کے کروڑوں باشندوں کی سیاسی و اقتصادی ترقی کے راستے کھل سکتے ہیں بلکہ جنوبی ایشیاء میں ترقی کے نئے باب روشن ہو سکتے ہیں لیکن اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے بھارت کی جابر و ظالم مودی سرکار تیار نہیں۔
اقوام متحدہ خاص طور پر مسئلہ فلسطین اور کشمیر کو حل کرنے میں جس بری طریقے سے ناکام ہوئی ہے وہ اس کے وجود پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنی قراردادوں میں کہا ہے کہ کشمیر کا حتمی فیصلہ کشمیری عوام عالمی ادارے کی زیر نگرانی رائے شماری کے ذریعے کریں گے۔ بھارت نے اس فیصلے کو قبول کیا ہے اور وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 25 کے مطابق اس کی تعمیل کا پابند ہے۔ بھارت کو کشمیرکی حیثیت کو تبدیل کرنے کے لیے کسی قسم کی یکطرفہ کارروائی کرنے کا کوئی حق نہیں۔ وہ کشمیریوں کی حق خودارادیت کی جائز جدوجہد کو بے شرمی سے کچلنے میں مصروف ہے اور مقبوضہ علاقے میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی لانے کی جو بھونڈی کوششیں کر رہا ہے وہ علاقائی امن کے لیے سنگین خطرہ ہے۔
اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل میں استصواب کی منظور شدہ قراردادیں موجود ہیں مگر اقوام متحدہ آج تک ان قراردادوں پر عمل درآمد کرانے سے قاصر ہے۔ پاکستان سفارتی اور اخلاقی سطح پر کشمیری عوام کے حق میں دامے درمے قدمے سخنے ہر بین الاقوامی فورم پر آواز اٹھاتا رہتا ہے۔ اقوام متحدہ کو جانبدارانہ رویہ ترک کرنا چاہیے اور اپنی منظور شدہ قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر حل کرانے میں مزید وقت ضایع نہیں کرنا چاہیے۔
اصولی طور پر یہ اقوام متحدہ کی ہی ذمے داری ہے کہ وہ جارح بھارت کو نکیل ڈال کر مقبوضہ کشمیر میں استصواب کے لیے آمادہ کرے، اگر وہ اس طرف نہیں آتا تو عالمی سطح پر اس کے خلاف کارروائی عمل میں لا کر اس پر اقتصادی پابندیاں عائد کی جائیں۔ جب تک مسئلہ کشمیر کا پائیدار حل عمل میں نہیں آتا خطے میں امن کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ اقوام متحدہ کشمیر و فلسطین پر اگر اپنا غیر جانبدارانہ کردار ادا نہیں کرتا تو مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس کا حشر بھی لیگ آف نیشن جیسا ہی ہوگا کیونکہ کشمیریوں کواب آزادی سے زیادہ دیر تک دور نہیں رکھا جاسکتا، بہت جلد مقبوضہ کشمیر نہیں بھارت زیر خنجر ہوگا۔ ان شاء اللہ
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ کی مسئلہ کشمیر اہل کشمیر بھارت کے کہ کشمیر کشمیر کی کشمیر کے کشمیر کا کے لیے ہے اور
پڑھیں:
کشمیری عوام 77 سال سے غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں، طاہر کھوکھر
سابق وزیر نے کشمیر کے مسئلے پر صرف سیاسی مذمت تک محدود رہنے پر سخت تنقید کی اور کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ کشمیر کی آزادی کے لیے عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔ اسلام ٹائمز۔ سابق وزیر سیاحت و ٹرانسپورٹ محمد طاہر کھوکھر نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیری عوام 77 سال سے غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں اور نہ انہیں معاشرتی آزادی حاصل ہے اور نہ ہی مذہبی۔انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام ہمارے جسم کا حصہ ہیں، انہیں چوٹ پہنچتی ہے تو ہمیں بھی درد ہوتا ہے۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے طاہر کھوکھر نے کہا کہ یہ ہمارے حکمرانوں اور پوری دنیا کے لیے شرم کا مقام ہے کہ وہ کشمیری عوام کی آزادی کے لیے کوئی عملی کردار ادا نہیں کر سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کی آزادی صرف نعروں اور بیانات سے ممکن نہیں، اگر ایسا ہوتا تو آج کشمیر آزاد ہوتا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ کشمیریوں کو ہماری عملی جدوجہد اور توجہ کی ضرورت ہے۔ ہم مقبوضہ کشمیر کی عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ ہیں اور ان کے لیے ہر محاذ اور ہر فورم پر ان کی آواز بن کر بولیں گے اور ان کی آزادی کے لیئے لڑیں گے، انڈیا نے کشمیریوں کا استحصال کیا، کشمیری عوام کو شہید کیا اور بے گناہ کشمیریوں کو بدنام زمانہ جیلوں میں پابند سلاسل رکھا ہوا ہے، تاکہ کشمیری عوام کی آزادی کی تحریک کو دبایا جا سکے مگر کشمیری جنگجو، بہادر، پہاڑی قوم ہے وہ جھکنے والی نہیں ہے، ان کے حوصلے بلند ہیں کشمیری مائوں نے جنگجو پیدا کیے ہیں جو 77سال سے ٹوٹے نہیں انڈیا کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہیں جن پر بھارت نے 10لاکھ سے زائد فوج، بدنام ایجنسیاں، ہندووں دہشت گرد تنظیمیں مسلط کی ہوئی ہیں مگر ان کا حوصلہ نہیں توڑ سکی ہیں ہم کشمیری مائوں اور بھائیوں کی ہمت کو سلام پیش کرتے ہیں۔
طاہر کھوکھر نے کہا کہ بیس کیمپ کو بحال کیا جائے اور دنیا اور بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی جائے۔ انہوں نے پاکستانی حکمرانوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جائیدادیں اور کاروبار بیرون ممالک ہیں، جس کی وجہ سے وہ بھارت کے سامنے مضبوط موقف نہیں اپنا پاتے، ان کا کہنا تھا کہ ہمارے حکمرانوں کو اپنی سیاست اور اقتدار عزیز ہے، وہ کشمیر کے مسئلے پر سنجیدہ نہیں ہیں۔ سابق وزیر نے کہا کہ جہاد ہی کشمیر کی آزادی کا واحد راستہ ہے، بیس کیمپ کو بحال کر کے کشمیری عوام کو خود اپنی جدوجہد کرنی ہو گی، دنیا نے کشمیریوں کو دھوکہ دیا ہے اور کشمیریوں کے قتل عام اور مظالم کے ذمہ دار ہمارے حکمران اور پوری دنیا ہے جو سب کچھ دیکھنے کے باوجود خاموش ہے۔ طاہر کھوکھر نے کشمیر کے مسئلے پر صرف سیاسی مذمت تک محدود رہنے پر سخت تنقید کی اور کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ کشمیر کی آزادی کے لیے عملی اقدامات اٹھائے جائیں، کشمیری عوام کی جدوجہد کو نعروں سے آگے بڑھ کر عملی شکل دی جائے۔ کشمیر کا مسئلہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں مرکزی اہمیت رکھتا ہے اور اس کے حل کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔