فلسطینیوں کو غزہ میں اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت ہونی چاہیئے، کیئر اسٹارمر
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
غزہ کی پٹی سے لوگوں کو نکالنے اور علاقے کو امریکی کنٹرول میں کرنے کی تجویز کے تناظر میں وزیراعظم کے وقفہ سوالات کے دوران، سر کیئر اسٹارمر نے کامنز کو بتایا ہے کہ فلسطینیوں کو "دو ریاستی حل کے راستے پر دوبارہ تعمیر کرنے کی اجازت ہونی چاہیئے اور ہمیں انکے ساتھ ہونا چاہیئے۔" اسلام ٹائمز۔ وزیراعظم سر کیئر اسٹارمر نے زور دے کر کہا ہے کہ فلسطینیوں کو غزہ میں اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت ہونی چاہیئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ کی پٹی سے لوگوں کو نکالنے اور علاقے کو امریکی کنٹرول میں کرنے کی تجویز کے تناظر میں وزیراعظم کے وقفہ سوالات کے دوران، سر کیئر اسٹارمر نے کامنز کو بتایا ہے کہ فلسطینیوں کو "دو ریاستی حل کے راستے پر دوبارہ تعمیر کرنے کی اجازت ہونی چاہیئے اور ہمیں ان کے ساتھ ہونا چاہیئے۔"
وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے واضح طور پر صدر ٹرمپ کی غزہ پر تجاویز پر تنقید نہیں کی، لیکن انہوں نے ایک پائیدار جنگ بندی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جنگ بندی کا سب سے اہم پہلو اس کا مستقل ہونا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کو مختلف مراحل میں برقرار رکھا جانا چاہیئے، اس میں باقی قیدیوں کی بحفاظت رہائی اور غزہ کے لیے انسانی امداد کی فوری، مناسب فراہمی شامل ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کیئر اسٹارمر نے فلسطینیوں کو کرنے کی
پڑھیں:
برطانیہ جانے کے خواہشمند پاکستانی طلبا کے لئے بڑی خبر
لندن (نیوز ڈیسک) برطانیہ جانے کے خواہشمند پاکستانی طلبا کے لئے بڑی خبر آگئی ، گریجویٹ ویزا پالیسی میں بڑی تبدیلیاں زیر غور ہے۔
تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی حکومت نیٹ مائیگریشن کم کرنے کی وسیع تر کوششوں کے تحت گریجویٹ ویزا پالیسی میں اہم تبدیلیوں پر غور کر رہی ہے، جس کے باعث ہوم آفس اور محکمہ تعلیم کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی ہے۔
فنانشل ٹائمز کی رپورٹ میں بتایا گیا مجوزہ اصلاحات کے تحت بین الاقوامی طلباء کو تعلیم مکمل کرنے کے بعد برطانیہ میں قیام کے لیے گریجویٹ سطح کی ملازمت حاصل کرنا ضروری ہوگا۔
ہوم آفس کا کہنا ہے کہ وہ نیٹ مائیگریشن میں کمی کے حکومتی ہدف کو پورا کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔
ایک اہلکار نے بتایا: “ہمیں وزیر اعظم کی جانب سے نیٹ مائیگریشن کم کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے، اور ہم اس پر عمل درآمد کر رہے ہیں، یہ واقعی مایوس کن ہے کہ محکمہ تعلیم نے یونیورسٹیز یو کے کو اس کے خلاف لابنگ کی ترغیب دی۔”
یاد رہے کہ 2021 میں متعارف کرائی گئی موجودہ گریجویٹ ویزا اسکیم کے تحت بین الاقوامی طلباء کو گریجویشن کے بعد دو سال تک برطانیہ میں رہنے کی اجازت حاصل ہے۔ تاہم مائیگریشن ایڈوائزری کمیٹی کی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ اسکیم کے تحت 60 فیصد سے زائد فارغ التحصیل طلباء ایک سال بعد بھی £30,000 سے کم کما رہے ہیں، جو کہ ایک عام گریجویٹ کی اوسط تنخواہ سے کم ہے۔
دوسری جانب محکمہ تعلیم کو خدشہ ہے کہ ویزا میں تبدیلیاں مالی مشکلات کا شکار یونیورسٹیوں پر مزید دباؤ ڈال سکتی ہیں۔
یونیورسٹیز یو کے کی چیف ایگزیکٹیو ویوین اسٹرن نے کہا کہ اسکیم کو محدود کرنا “غیر دانشمندانہ” فیصلہ ہوگا، کیونکہ بین الاقوامی طلباء ہر سال برطانوی معیشت میں تقریباً £40 بلین کا حصہ ڈالتے ہیں، دو سالہ ویزا طلباء کو عملی تجربہ حاصل کرنے اور ملازمت تلاش کرنے کے لیے ضروری وقت فراہم کرتا ہے۔
ہوم آفس نے اس دباؤ کے جواز میں یہ بھی کہا ہے کہ 2024 میں پناہ کے 40,000 دعوے ایسے افراد کی جانب سے آئے جن کے پاس پہلے برطانیہ کے ویزے تھے، جن میں سے تقریباً 40 فیصد سابق طالب علم ویزا رکھنے والے تھے۔ حکام کا دعویٰ ہے کہ ان میں سے بعض افراد طالب علم یا گریجویٹ ویزا سے سیاسی پناہ کی درخواستوں کی جانب منتقل ہوئے، اور آخرکار حکومتی رہائش تک جا پہنچے، جس میں بعض اوقات دھوکہ دہی کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے۔
متوقع طور پر وزیر اعظم سر کیر اسٹارمر کی زیر قیادت لیبر حکومت اگلے ماہ مائیگریشن پالیسی پر وائٹ پیپر جاری کرے گی، جس میں گریجویٹ ویزا اسکیم میں ممکنہ اصلاحات شامل ہوں گی۔
پچھلی کنزرویٹو حکومت کے برعکس جس نے یونیورسٹیوں پر پڑنے والے اثرات کی وجہ سے صرف معمولی تبدیلیاں کی تھیں، نئی تجاویز میں زیادہ سخت شرائط متعارف کرائے جانے کا امکان ہے۔
مزیدپڑھیں:ملک میں گرمی کی شدید لہر، محکمہ موسمیات نے ہیٹ ویو کا خدشہ ظاہر کردیا