غزہ: جنگ بندی کے بعد اب تک دس لاکھ افراد کو غذائی امداد کی فراہمی
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 06 فروری 2025ء) غزہ میں 19 جنوری کو حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی پر عملدرآمد ہونے کے بعد 10 لاکھ سے زیادہ لوگ غذائی مدد وصول کر چکے ہیں جبکہ ایسے علاقوں میں بھی مدد کی فراہمی شروع ہو گئی ہے جہاں قبل ازیں رسائی ناممکن یا بہت مشکل تھی۔
امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے بتایا ہے کہ جنگ بندی کے بعد امدادی سرگرمیوں کے لیے حالات سازگار ہیں اور بفر زون جیسی جگہوں کے علاوہ دیگر مقامات پر مدد پہنچانے کے لیے اسرائیلی حکام سے رابطوں یا اجازت لینے کی ضرورت نہیں رہی۔
غذائی امداد میں اضافہگزشتہ دو ہفتوں کے دوران عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے 10 ملین میٹرک ٹن سے زیادہ غذائی امداد غزہ میں بھیجی ہے جس سے تقریباً 10 لاکھ لوگوں نے استفادہ کیا۔
(جاری ہے)
یہ مدد 24 جنوری کو شمالی غزہ میں دوبارہ فعال ہو جانے والے تنوروں پر تیار کی جانے والی روٹی اور اجتماعی باورچی خانوں کے ذریعے تقسیم کیے جانے والے کھانے کے علاوہ ہے
ادارے نے شمالی علاقے میں پانچ تنوروں کو چالو رکھنے کے لیے ایندھن بھی مہیا کیا ہے جس سے ان کی پیداواری صلاحیت میں 40 فیصد تک اضافہ ہو گیا ہے۔
علاوہ ازیں، غزہ بھر میں ہنگامی طبی امداد مہیا کرنے والی 25 ٹیمیں بھی کام کر رہی ہیں۔پناہ کے سامان کی ضرورت'اوچا' کے مطابق، جنگ بندی کے بعد بڑے پیمانے پر انسانی امداد غزہ میں آئی ہے تاہم پہلے دو ہفتوں میں لوگوں کو خوراک کی فراہمی ترجیح رہی جس کے باعث پناہ کا حسب ضرورت سامان علاقے میں نہیں پہنچ سکا۔
فلسطینی ہلال احمر سوسائٹی (پی آر سی ایس) نے سوموار کو شمالی غزہ میں 3,000 خیمے پہنچائے تھے جبکہ آئندہ دنوں میں مزید 7,000 خیمے بھی بھیجے جا رہے ہیں۔
'اوچا' نے بتایا ہے کہ شدید بیمار اور زخمی لوگوں کی علاج کے لیے بیرون ملک روانگی کا عمل بھی شروع ہو گیا ہے۔ یکم اور 3 فروری کے درمیان 100 بچوں سمیت 105 مریضوں اور ان کی نگہداشت کرنے والے 176 افراد کو غزہ سے باہر بھیجا گیا ہے۔
'اوچا' کا اندازہ ہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل سے اغوا کیے گئے 79 یرغمالی یا ان میں ہلاک ہو جانے والوں کی باقیات تاحال غزہ میں موجود ہیں۔ گزشتہ ہفتے انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (آئی سی آر سی) نے تیسرے اور چوتھے مرحلے میں یرغمالیوں کی رہائی میں سہولت مہیا کی ہے۔ حالیہ جنگ بندی کے بعد غزہ سے مجموعی طور پر 18 یرغمالی رہائی پا چکے ہیں جبکہ اسرائیل کی جیلوں سے 583 قیدیوں کو آزاد کیا گیا ہے۔
30 جنوری کو اسرائیل کے تین اور تھائی لینڈ سے تعلق رکھنے والے پانچ یرغمالیوں کو غزہ سے نکال کر اسرائیلی حکام کے حوالے کیا گیا ہے جبکہ 110 فلسطینیوں کی اسرائیلی حراستی مراکز سے رہائی عمل میں آئی۔ ان فلسطینی قیدیوں میں 30 بچے بھی شامل تھے۔ 20 قیدیوں کا تعلق مغربی کنارے سے ہے جنہیں غزہ کی پٹی میں آزاد کیا گیا۔
اس سے اگلے روز تین اسرائیلی یرغمالیوں کو غزہ سے اسرائیل بھیجا گیا جبکہ 183 فلسطینی قیدیوں کو اسرائیل کی جیلوں سے رہائی ملی۔
ان میں 11 لوگوں کو 7 اکتوبر کے بعد غزہ سے حراست میں لیا گیا تھا جبکہ سات قیدیوں کو مصر بھیجا گیا ہے۔بےگھر لوگوں کی واپسی'اوچا' نے بتایا ہے کہ 27 جوری کے بعد اپنے علاقوں کی جانب واپس آنے والے لوگوں کی تعداد میں کمی آ گئی ہے۔ اب تک 565,092 لوگوں نے جنوب سے شمال کی جانب واپس نقل مکانی کی ہے جبکہ 45,678 افراد نے شمال سے جنوب کا سفر کیا ہے۔
اندازے کے مطابق تقریباً پانچ لاکھ لوگ غزہ شہر اور شمالی غزہ میں واپس آ گئے ہیں جہاں بڑے پیمانے پر خوراک، پانی، خیموں اور پناہ کے سامان کی ضرورت ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جنگ بندی کے بعد شمالی غزہ میں گیا ہے کے لیے
پڑھیں:
خشک سالی اور غذائی بحران کے خطرات
عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جنھیں اس سال یعنی 2025 سے پانی کے شدید بحران کا سامنا ہوگا۔ رپورٹ کے مطابق اگر پاکستان کی حکومت اور افراد نے مل کر اس بحران کو حل نہ کیا تو اگلے چند سال میں خشک سالی کی وجہ سے پاکستان میں شدید ترین غذائی بحران شروع ہو جائے گا جس سے نہ صرف یہ کہ ملک کا اقتصادی استحکام متاثر ہوگا بلکہ اس کے وجود کو بھی خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
اس وقت پاکستان 50 فیصد سے زائد پانی کی کمی کا شکار ہے اور بڑے آبی ذخائر میں بھی کافی کمی واقع ہو چکی ہے۔ پانی کی اس کمی کی وجہ سے چاول اور گندم کی فصل کی پیداوار بھی متاثر ہوگی۔
پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنے والے ممالک میں پاکستان کے علاوہ لبنان، افغانستان، شام، ترکی، برکینوفاسو، قطر، اسرائیل، قبرص اور کویت شامل ہیں۔ ان سب ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا سامنا تو کرنا ہی پڑ رہا ہے لیکن اس کے علاوہ ہر ملک کے اپنے انفرادی مسائل اس نوعیت کے ہیں جس سے وہاں زیرزمین پانی کی سطح تیزی سے کم ہو رہی ہے۔
پانی کی کمیابی بنی نوع انسان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس کمیابی کا مشاہدہ شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں کیا جا رہا ہے جب کہ صحرائے افریقہ میں پانی کی کمی کے اثرات تو نمایاں طور پر سامنے آرہے ہیں۔ دنیا بھر میں پانی کی طلب بڑھ رہی ہے اور جب طلب سپلائی سے بڑھ جائے تو یہ کمی قوموں کو ایک دوسرے کے مقابل میدان جنگ میں لا کھڑا کرتی ہے۔
پانی کی کمی اور خشک سالی کی وجہ سے خدشہ ہے کہ 24 کروڑ آبادی کا ملک پاکستان اپنی تاریخ کے ایک بڑے خوراک کے بحران کی جانب بڑھ رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پانچ براعظموں میں پچاس سے زائد ممالک پانی کے مسئلے پر ایک دوسرے سے نبرد آزما ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔
اس لیے اشد ضروری ہے کہ یہ ممالک جتنا جلد ممکن ہو سکے، دریاؤں اور زیرزمین پانی کے ذرایع کو محفوظ تر بنانے اور اس کے مشترکہ استعمال پر مبنی معاہدوں پر متفق ہو جائیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو مستقبل قریب میں پانی کے مسئلے پر جھگڑے اور جنگیں جلد دنیا کے مختلف خطوں میں سر اٹھانے لگیں گے۔
جنوبی ایشیاء میں پانی کے منڈلاتے خطرات کے پیش نظر علاقائی منظرنامے پر نظر رکھنے والے ماہرین نے پاکستان اور بھارت کے درمیان اگلی جنگ پانی کے مسئلے پر چھڑنے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کی جانب سے بھارت پر اپنے حصے کے پانی کی چوری کے الزام کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تناؤ پہلے ہی بڑھ رہا ہے۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ بھارت اس کے حصے میں آنے والے دریاؤں پر بندھ باندھ کر اور ڈیم تعمیر کر کے دونوں ممالک کے درمیان عالمی بینک کے ذریعے 1960ء میں طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
سرحدوں کے دونوں اطراف کی سیاسی جماعتیں پانی کے مسئلے پر اپنی سیاست بھی چمکا رہی ہیں۔ پاکستان میں میٹھے پانی کی کمی کے کئی عوامل ہیں جن میں موسمیاتی تبدیلی کے علاوہ بڑھتی ہوئی آبادی کو نہ روکنا اور دیہی آبادی کا شہروں کی طرف تیزی سے منتقل ہونا ہے۔
عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ان دس ملکوں میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے جو سب سے زیادہ پانی کی قلت سے متاثر ہو رہا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق 1950ء میں پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی 5,260 مکعب میٹر تھی، جو 2019ء تک کم ہو کر صرف 1,032 مکعب میٹر رہ گئی ہے۔
اس کے علاوہ ملک کی مجموعی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت صرف 30 دن ہے جب کہ عالمی اوسط 220 دن ہے۔ بحران کی وجوہات میں ماحولیاتی تبدیلی، بڑھتا ہوئا درجہ حرارت اور بارش کا غیرمتوقع پیٹرن ملک کے آبی نظام کو متاثر کر رہا ہے جس کے نتیجے میں خشک سالی اور سیلاب عام ہو جائیں گے۔
پاکستان میں پانی کا دس فیصد استعمال گھریلو ضروریات کے لیے ہوتا ہے، بیس فیصد صغعتوں کے لیے اور باقی ستر فیصد پانی زرعی شعبے میں استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان کو پانی کے بحران سے نمٹنے کے لیے ایک جامع اور مؤثر حکمت عملی اپنانا ہوگی جس کے تحت ہنگامی طور پر کئی اقدامات کرنے ہوں گے۔
پانی کی بچت: جدید آبپاشی نظام، جیسے کہ ڈرپ اریگیشن اور بارش کے پانی کو محفوظ کرنے والے طریقے متعارف کروا کر پانی کے ضیاع کو کم کرنا ہوگا۔ پانی ذخیرہ کرنے کی سہولیات: ملک میں نئے ڈیم اور ذخائر تعمیر کر کے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بڑھائی جائے۔
پاکستان آج بھی دستیاب پانی کا بڑا حصہ سمندر میں گرا کر ضایع کر دیتا ہے۔ 60 کی دہائی کے بعد ہم کوئی بڑا آبی ذخیرہ نہیں بنا سکے، اب وقت آ گیا ہے کہ انسانی زندگی کی بقا کے لیے کالا باغ ڈیم سمیت تمام ڈیزائن کردہ چھوٹے بڑے ڈیمز ترجیحاً تعمیر کیے جائیں اور پانی کے کم استعمال اور اس ’’لیکویڈ گولڈ‘‘ کی حفاظت کا شعور اجاگر کیا جائے۔
زرعی پانی کو ضایع ہونے سے بچانے کے لیے نہروں، راجباہوں کی باقاعدگی کے ساتھ بھل صفائی کی جائے، روز مرہ کے گھریلو استعمال کے لیے ضرورت کے مطابق پانی استعمال کرنے کا کلچر اختیار کیا جائے، یہ بات ذہن نشین رہے کہ جب پٹرول ڈیزل نہیں تھا تب بھی انسانی زندگی موجود تھی، پانی کے بغیر انسانی زندگی ناممکن ہے۔
پاکستان میں پانی کا بحران گھڑی کی ٹک ٹک کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔ اگر ہم نے فوری توجہ اور عملی اقدامات نہ کیے اوراس مسئلے کو نظرانداز کیا تو مستقبل میں ملک کو شدید ماحولیاتی، اقتصادی اور سماجی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پانی کے تحفظ کے لیے بروقت اور مؤثر حکمت عملی اپنا کر ہی ہم ایک محفوظ اور مستحکم پاکستان کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔