جانیے کہ یو این امن کار 65 سال سے کانگو میں کیا کر رہے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 05 فروری 2025ء) جمہوریہ کانگو (ڈی آر سی) کی تاریخ مسلح تنازعات، بے رحم ملیشیاؤں، قدرتی وسائل کے استحصال اور معصوم شہریوں کی نقل مکانی جیسے مسائل سے عبارت رہی ہے اور حالیہ عرصہ میں ملک کو ایک مرتبہ پھر یہی کچھ درپیش ہے۔
'ڈی آر سی' نے 1960 میں آزادی حاصل کی تھی اور تب سے اقوام متحدہ نے ملک میں قیام امن کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے جہاں اب تک اس مقصد کے لیے تین مشن بھیجے جا چکے ہیں۔
اس بارے میں درج ذیل معلومات سے آگاہی ضروری ہے:
1۔ اقوام متحدہ کی طویل موجودگی30 جون 1960 کو جمہوریہ کانگو نے بیلجیئم کی 75 سالہ نوآبادیاتی حکمرانی سے آزادی حاصل کی اور اس سے چند ہفتے بعد ہی اقوام متحدہ کو ملک میں آنا پڑا۔
نوآبادیاتی دور میں کانگو کے قدرتی وسائل اور اس کی افرادی قوت کا استحصال کیا گیا جبکہ ملک سیاسی خودمختاری کے لیے عملی طور پر تیار نہیں تھا۔
(جاری ہے)
جولائی 1960 میں معدنیات سے مالا مال دو صوبوں کاٹانگا اور جنوبی کاسائی کی علیحدگی کے باعث ملک کی آزادی کو خطرات لاحق ہو گئے۔ جنوبی کاسائی کی باغی حکومت کو بیلجیئم اور دیگر ممالک کی حمایت حاصل تھی جو وہاں کے وسائل پر قبضہ برقرار رکھنے کے خواہاں تھے۔
اس کے بعد جمہوریہ کانگو کو ایک بڑے سیاسی بحران کا سامنا رہا اور اس دوران 1961 میں ملک کے وزیراعظم پیٹرک لوممبا کو قتل کر دیاگیا۔
جولائی 1960 میں اقوام متحدہ نے ملک میں اپنا مشن بھیجا تھا جسے 'کانگو میں اقوام متحدہ کی کارروائی' (او این یو سی) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
یہ بڑے پیمانے پر تعینات کیا جانے والا پہلا امن مشن تھا جسے لیوپولڈ ویل (اب دارالحکومت کنشاسا) میں حکومت کو نظم و نسق بحال کرنے، ملک کو متحد کرنے اور بیلجیئم کی افواج کی واپسی یقینی بنانے میں مدد فراہم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔
اپنے عروج پر اس مشن میں شامل امن کاروں کی تعداد 20 ہزار تھی۔ اس نے 1963 میں کاٹانگا کو دوبارہ کانگو کے ساتھ یکجا کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور 1964 میں مشن کو ملک سے واپس بلا لیا گیا۔
UN Photo/HP اقوام متحدہ کے اس وقت کے سربراہ ہیمرشولڈ کٹانگا اور بیلجیئم کے نمائندوں کے درمیان یو این امن کاروں کی تعیناتی کا معاہدہ طے پا جانے کے بعد مزاکرات کاروں کے ساتھ۔ 2۔ کانگو کی جنگیں اور دوسرا امن مشن30 سال سے زیادہ عرصہ تک جاری رہنے والی موبوتو سیسی سیکو کی آمریت میں کانگو کا نام تبدیل کر کے زائر رکھ دیا گیا تھا۔ اس حکومت کا خاتمہ ہونے کے بعد ملک کو دو بڑے مسلح تنازعات (پہلا 1996 تا 1997 اور دوسرا 1998 تا 2003) کا سامنا رہا جنہیں کانگو کی جنگیں بھی کہا جاتا ہے۔
1996 میں روانڈا نے ہمسایہ ملک یوگنڈا اور برونڈی کی مدد سے مشرقی زائر میں مداخلت کی جس کا مقصد علاقے سے ہوتو ملیشیاؤں کو نکال باہر کرنا تھا جو 1994 میں تتسی لوگوں کے بدترین قتل عام کی ذمہ دار تھیں اور انہوں نے زائر کے صوبوں شمالی و جنوبی کیوو میں پناہ لے رکھی تھی۔
مئی 1997 میں روانڈا اور یوگنڈا کی عسکری مدد سے لارنٹ کابیلا نے زائر کا اقتدار سنبھال کر موبوتو کو جلاوطن کر دیا اور ملک کا نام دوبارہ جمہوریہ کانگو رکھ دیا گیا۔
1998 میں کابیلا کے اپنے سابق اتحادیوں روانڈا اور یوگنڈا سے اختلافات ہوئے جو ملک کے مشرقی حصے میں باغیوں کی مدد کر رہے تھے۔ اس دوران انہوں نے انگولا، زمبابوے اور نمبییا کی حمایت حاصل کی اور 1999 میں لوساکا جنگ بندی معاہدے پر دستخط کیے۔
اس معاہدے کے نتیجے میں اقوام متحدہ نے جمہوریہ کانگو میں اپنا مشن (مونوک) تعینات کیا جسے معاہدے پر عملدرآمد کی نگرانی کرنا تھی۔2003 میں جنگ بند ہو جانے کے بعد بھی جمہوریہ کانگو نے اپنے غیرمعمولی قدرتی وسائل اور گریٹ لیکس خطے میں استحکام کے لیے اپنے اہم کردار کی وجہ سے علاقائی طاقتوں کے لیے تزویراتی طور پر اہمیت اختیار کیے رکھی۔
UN Photo/HP گھانا کے سپاہی کانگو میں مونوسکو کے ابتدائی امن کاروں کے طور پر تعینات ہوئے۔ 3۔ تیسرا مشن اور ذمہ داریوں میں توسیع2010 میں مونوک کو جمہوریہ کانگو میں اقوام متحدہ کے استحکامی مشن (مونوسکو) میں تبدیل کر دیا گیا اور اسے شہریوں کو تحفظ دینے اور ملک میں امن و استحکام کو مضبوط بنانے کے لیے کانگو کی حکومت کو مدد فراہم کرنے کی ذمہ داریاں بھی سونپ دی گئیں۔
یہ مشن ملک کے تین مشرقی صوبوں (شمالی کیوو، جنوبی کیوو اور اتوری) میں اب بھی تعینات ہے۔
حکومت کی درخواست پر مشن نے جون 2024 میں جنوبی کیوو سے اپنے اہلکاروں کا انخلا شروع کر دیا تھا اور دسمبر تک اسے یہ عمل مکمل کرنا تھا۔ تاہم، حکومت ہی کی درخواست پر علاقے میں اس کی ذمہ داریوں میں رواں سال کے آخر تک توسیع کر دی گئی ہے۔اقوام متحدہ کی کوششوں کے باوجود اس علاقے میں متعدد مسلح گروہ سرگرم ہیں جن میں الائیڈ ڈیموکریٹک فورسز (اے ڈی ایف) اور مارچ 23 تحریک خاص طور پر قابل ذکر ہیں جو روانڈا کی فوج کے تعاون سے کانگو میں رہنے والے تتسی لوگوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔
ایم 23 اور روانڈا کی فوج رواں سال کے آغاز سے ملک کے مشرقی علاقے میں جاری تشدد کی ذمہ دار ہیں جنہوں نے شمالی اور جنوبی کیوو میں تزویراتی اہمیت کے حامل متعدد شہروں پر قبضہ کر لیا ہے۔
UN Photo/Martine Perret کانگو میں اسلحہ کی روک تھام کے دوران اکٹھا کیا گیا گولہ و بارود۔ 4۔ قدرتی وسائل: تنازعات کا بڑا سببجمہوریہ کانگو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور ملک کے مشرقی صوبوں میں یہ وسائل بکثرت پائے جاتے ہیں جن میں سونے، ہیرے اور الیکٹرانک آلات میں استعمال ہونے والے ٹِن کے وسیع ذخائر بھی شامل ہیں۔
دونوں صوبوں میں کولٹن نامی دھات کے وافر ذخائر بھی موجود ہیں جس کی ٹیکنالوجی کے شعبے میں بہت زیادہ مانگ ہے۔
یہ دھات موبائل فون اور لیپ ٹاپ کے کیپیسٹر بنانے میں استعمال ہوتی ہے۔ دنیا میں کوبالٹ کے سب سے بڑے ذخائر بھی جمہوریہ کانگو میں پائے جاے ہیں۔ یہ دھات دنیا میں دوبارہ چارج ہونے والی تقریباً تمام بیٹریوں کی تیاری میں استعمال ہوتی ہے۔انہی قدرتی وسائل کی وجہ سے ہمسایہ ممالک کی کانگو میں دلچسپی ہے اور یہی اس خطے میں تنازعات کا بنیادی سبب ہے۔
ایم 23 جیسے مسلح گروہوں پر ملکی و غیرملکی کمپنیوں اور ہمسایہ ممالک کی سازباز سے ان وسائل کے غیرقانونی استحصال کا الزام ہے جن کے ذریعے وہ اپنی سرگرمیوں کے لیے مالی وسائل حاصل کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ نے معدنیات کی غیرقانونی تجارت پر قابو پانے کے لیے متعدد اقدامات شروع کیے ہیں جن میں ایسی تجارت میں ملوث کمپنیوں پر پابندیوں کا نفاذ اور جمہوریہ کانگو میں ہتھیاروں کی ترسیل کی ممانعت بھی شامل ہیں۔
تاہم، قدرتی وسائل کے غیرقانونی استحصال کو روکنا اب بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے میں اقوام متحدہ اقوام متحدہ نے قدرتی وسائل ملک میں کر دیا ہیں جن کی ذمہ اور اس کے لیے ملک کے کے بعد
پڑھیں:
بھارت کے مظالم کا خاتمہ ضروری ہے:مولانا فضل الرحمان کا یوم یکجہتی کشمیر پر پیغام
اسلام آباد:جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ 5 فروری ظلم کے خلاف جدوجہد کا دن ہے۔
انہوں نے کشمیر کے شہداء کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کا خون کبھی ضائع نہیں جائے گا اور بھارت کے مظالم تاریخ کا سیاہ ترین باب ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے عالمی طاقتوں سے سوال کیا کہ بھارت کے ظلم کے خلاف کب آواز اٹھائی جائے گی؟ انہوں نے کہا کہ جے یو آئی آج بھرپور طریقے سے یوم یکجہتی کشمیر منائے گی اور بھارت کے منفی رویے کی وجہ سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کشمیر میں استصواب رائے کے بارے میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام رہا ہے اور اس نے قراردادوں کے نفاذ کے لیے موثر اقدامات نہیں کیے۔
مولانا فضل الرحمان نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ بھارت کے کشمیر پر غاصبانہ قبضے کا نوٹس لیا جائے اور اقوام متحدہ انصاف کے نام پر کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے فوراً حرکت میں آئے۔