ٹرمپ کا دباؤ قبول نہیں، غزہ پہلے سے زیادہ مضبوط بن کر اٹھے گا، حماس ترجمان
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
اسلام آباد: پاکستان میں حماس کے ترجمان ڈاکٹر خالد قدومی کاکہنا ہے کہ ٹرمپ کی مداخلت اور دباؤ قبول نہیں کریں گے، غزہ پہلے سے زیادہ مضبوط بن کر اٹھے گا۔
تنظیم اسلامی کے زیر اہتمام سیمینار سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے خالد قدومی نے کہا کہ غزہ دوبارہ بنے گا، امریکی صدرکی جانب سے اسرائیل کو قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جائے گا، ہم یہ نہیں ہونے دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم جنگ نہیں صلح کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم اپنے حقوق کا سودا نہیں کریں گے، اسرائیلی فوج کو غزہ کی سرزمین سے واپس جانا پڑے گا۔
خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کی پٹی پر طویل عرصے تک قبضہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
پس منظر
غزہ کی پٹی مشرق وسطیٰ میں ایک اہم اور حساس خطہ ہے، جو فلسطینیوں کے زیرِانتظام ہے لیکن اسرائیل کے محاصرے میں تھا، 2007 سے یہاں اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کی حکومت ہے، جسے اسرائیل اور امریکا دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں جبکہ دونوں ریاستیں دنیا بھر میں دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہیں، عالمی ادارے بھی ان کی دہشت گردی پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان متعدد جنگیں ہوچکی ہیں، جن میں ہزاروں فلسطینی جاں بحق اور زخمی ہو چکے ہیں، حالیہ برسوں میں اسرائیل نے غزہ پر کئی حملے کیے، جنہیں حماس نے مزاحمت کے ذریعے پسپا کیا۔
TagsImportant News from Al Qamar.
ذریعہ: Al Qamar Online
پڑھیں:
کتے تاریخ نہیں پڑھتے (آخری قسط)
مارٹن لوتھر کنگ نے کہا تھا ’’میں کسی گورے کا برادر تو بن سکتا ہوں برادر ان لا نہیں‘‘ صدر ٹرمپ یہودیوں کے برادر بھی ہیں اور برادران لا بھی۔ اپنے پہلے دور حکومت میں انہوں نے خود کو یہود کے مفادات کا تحفظ کرنے والا ثابت کیا تھا۔ اب دوسرے دور حکومت میں وہ پہلے سے بڑھ کر یہود نواز ثابت ہوں گے۔ وہ بین الاقوامی قراردادیں امریکا اور بڑے ممالک نے جنہیں منظور کیا تھا، جن کی خلاف ورزی کرنے والوں کی امریکا سرزنش کرتا تھا، اب ٹرمپ یہود کے مفادات کی مخالف ان قراردادوں کو خود روند رہے ہیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی ان قراردادوں کو بھی روند ڈالا جن کے مطابق مغربی کنارہ مقبوضہ علاقہ ہے، جس پر یہودی وجود کو آباد کاری کا حق نہیں ہے، بلکہ یہودی وجود کو ان علاقوں سے نکل کر 4 جون 1967 کے حدود تک محدود ہونا ہے۔ انہوں نے القدس الشریف کے حوالے سے اقوام متحدہ کی اس قرارداد کو بھی روند ڈالا جس کے مطابق یہ مقبوضہ فلسطینی علاقہ ہے۔ انہوں نے گولان کی پہاڑیوں کا شام کے مقبوضہ علاقے ہونے کی قرارداد کو بھی ملیامیٹ کر کے القدس اور گولان پر یہودی قبضے کو جواز فراہم کر دیا ہے۔ اب وہ غزہ سے اہل غزہ کے انخلا اور مغربی کنارے میں اب تک کی جانے والی آباد کاریوں اور یہود کے قبضے کو قانونی حیثیت دے کر مزید آباد کاری یا اس کی توسیع کے جائز ہونے کی حمایت کرنا چا ہتے ہیں۔ اس کی ابتدا اس وقت ہو گئی تھی جب انہوں نے ان آباد کاروں کے لیے معافی کا اعلان کیا جن پر بائڈن انتظامیہ کے دور میں سزائیں عائد کی گئی تھیں۔
صدر ٹرمپ مشرق وسطیٰ کے دیگر اسلامی ممالک کے اسرائیل کے ساتھ روابط میں اضافے اور تعلقات میں توسیع کے اپنے سابق منصوبے پر توجہ مرکوز رکھیںگے تاکہ اسرائیلی مظالم کو اور اسرائیل کی جانب سے فلسطین کی سرزمین کو غصب کرنے کو خود مسلم ممالک کی طرف سے جواز فراہم ہوسکے۔ اس ہدف کے حصول کے لیے جن ممالک کا انتخاب کیا گیا ہے ان میں سعودی عرب سرفہرست ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ٹرمپ کے ساتھ گہرے مراسم ہیں، جو سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے آرزو مند بھی ہیں اور اس معاملے میں ٹرمپ کے معاون کا کردار بھی اداکرچکے ہیں۔ ٹرمپ کی طرف ان کے غیر معمولی جھکائو کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ شاید اس معاملے میں زیادہ تاخیر نہ ہو۔ ٹرمپ کی ایک ٹیلی فون کال پر امریکی معیشت کو 600 ارب ڈالر فراہم کرنے کا وعدہ کرنے والے سعودی ولی عہد سے کیسے ممکن ہے کہ وہ اگلی کال پر یہود کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا اعلان نہ کر دیں؟
غزہ کو اہل ِ غزہ سے صاف کرنے اور مغربی کنارے کو ان کے باسیوں سے خالی کرکے اسرائیل میں ضم کرنے کے حوالے سے صدر ٹرمپ کے بیان کو اقوام متحدہ کے اسٹیفن ڈیو جاری نے مستردکرتے ہوئے کہا ’’ہم کسی بھی ایسے منصوبے کے خلاف ہیں جس میں لوگوں کو زبردستی بے دخل کیا جائے یا وہ کسی طرح کی نسلی صفائی کا سبب بنے‘‘۔ مصر، اردن، عرب ممالک، جرمنی اور دیگر کئی ممالک نے بھی اس بیان کی مذمت کی ہے لیکن ٹرمپ کو اس احتجاج کی کیا پروا ہوسکتی ہے؟ تو پھر کیا ٹرمپ اردن اور مصر کے حکمرانوں کے گرد گھیرا تنگ کرکے ان کو مشکل میں ڈال رہے ہیں پہلے ہی جن کے اقتدار کی بقا ٹرمپ کی حمایت اور امریکی امداد سے مشروط ہے لیکن اس کے باوجود جنہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ وہ اس نقل مکانی کے حامی نہیں ہیں۔ یا پھر یہ بیان ٹرمپ کی اس عادت کے مطابق ہے جس میں ابتدا وہ انتہائی پرشور دھماکے دار مطالبے سے کرتے ہیں اور ماحول گرمانے کے بعد پھر وہ دوسرا مطالبہ لے آتے ہیں۔
جہاں تک ٹرمپ کے اس بیان کا تعلق ہے کہ ’’میں جب مشرق وسطیٰ کے نقشے پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے اسرائیل بہت چھوٹا سا ٹکڑا نظر آتا ہے۔ میں سنجیدگی سے سوچتا ہوں کہ کیا مزید علاقے حاصل کرنے کا کوئی طریقہ ہے؟ یہ بہت چھوٹا ہے‘‘۔ یہ بیان اسرائیل کی توسیع کے بارے میں تھا جبکہ موجودہ بیان اسرائیل کی توسیع کے ’’طریقے‘‘ کے بارے میں ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ٹرمپ، اردن اور مصرکے ایجنٹ حکمرانوں کے لیے حالات سازگار کر رہے ہیں تاکہ زبردستی نقل مکانی کا راستہ آسان ہو جائے یا پھر یہ نبض دیکھنے کا عمل ہے کہ کیا یہ حکمران ان کے بیان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے لوگوں پر دباؤ ڈال سکتے ہیں؟ اور لوگوں کو ان کی زمین سے نکال کر زمین کو لوگوں سے خالی کر کے یہودی وجود کے حوالے کر سکتے ہیں؟ یا پھر اگر لوگ ان دونوں حکومتوں کے سامنے ڈٹ جائیں اور ان دونوں ممالک کے حکمرانوں کو اللہ اور اس کے رسول اور مومنین کے ساتھ خیانت کرنے والے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے سے روک سکیں تو اس منصوبے کو کسی اور موزوں وقت تک موخر کر دیا جائے۔
صدر ٹرمپ غزہ کو ایک ایسی ڈیمولیشن سائٹ قرار دیتے ہیں جہاں ہر چیز منہدم ہوچکی ہے اور تعمیر کے لیے ہر چیز کو توڑ کر صاف کیا جائے گا جب تک وہ عرب ملکوں مصر اور اردن سے کہیں گے کہ وہ ان لوگوں کو جن کی تعداد تقریباً 15 لاکھ ہے اپنے یہاں رکھیں اور کسی اور جگہ ان کے لیے مکانات تعمیر کریں جہاں وہ امن سے رہ سکیں۔ صدر ٹرمپ نے تو شاید تاریخ نہیں پڑھی لیکن اہل غزہ اور فلسطینی اپنی تاریخ اور ماضی نہیں بھولے جب وہ فلسطینی پناہ گزین بن کر دوسرے ملکوں میں گئے تھے اور اسرائیل نے ان کا واپس آنے کا حق ان سے چھین لیا تھا۔ فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان طویل تنازع کے کسی حل کی طرف نہ پہنچنے کا ایک سبب اسرائیل کا ان فلسطینیوں کو ان کی واپسی کا حق نہ دینا بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدر ٹرمپ کے اس بیان کو غزہ سے فلسطینیوں کی نسلی صفائی قرار دیا جارہا ہے۔
صدر ٹرمپ اس وقت کا انتظار کریں جب رسول اللہؐ کی امت کے جواں مرد اور مجاہدین ایسے منصوبوں اور بیانات کو گرد و غبار کی طرح اُڑا کر رکھ دیں گے۔ پندرہ ماہ تک امریکا اور یہودی وجود اسرائیل کے وحشیانہ مظالم اور بے حدو حساب بمباری کے باوجود اہل فلسطین نے اپنے گھروں سمیت اپنی سرزمین کو مضبوطی سے تھام رکھا ہے۔
سخت موسمی حالات اور نا گفتہ بہ زمینی صورتحال کے باوجود وہ ہزاروں کی تعداد میں پیدل چلتے ہوئے اپنے گھروں کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں بدبخت یہودیوں نے ان کے گھروں کو برباد کردیا ہے پھر بھی وہ گھر جانے کی جلدی میں ہیں اور واپس پہنچنے کو عظیم کامیابی باورکر رہے ہیں۔ دنیا یہ سب دیکھ لے، غور وفکرکرلے اور جان لے کہ ٹرمپ کے بیانات اور فلسطین کو اس کے باشندوں سے خالی کرنے کی اس کی سازش، چاہے غدار مسلم حکمران بھی اس کے ساتھ مل جائیں، پھر بھی یہ سب اس پر الٹا پڑے گا۔ جلد اور بہت جلد یہ مبارک سرزمین دار الاسلام بن کر اس کے لوگوں کو ہی ملے گی، اور یہ تمام غدار حکمران ہٹا دیے جائیں گے۔ اللہ کے اذن سے خلافت ِ راشدہ قائم ہونے والی ہے، یہود سے قتال اور ان کے وجود کے خاتمے کا وقت آنے والا ہے۔ مسند احمد میں حذیفہ سے روایت کردہ مخبر صادق رسالت مآبؐ کا فرمان ہے ’’پھر نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت قائم ہو گی‘‘۔ صحیح بخاری میں سیدنا عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہؐ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ’’یہود تم سے قتال کریں گے پھر تم ان پر غالب آ جاؤ گے‘‘۔ تب دنیا، القوی اور العزیز اللہ کی مدد سے منور ہو جائے گی۔ تاریخ سے ناآشنا بھونکنے والے کتے تب دھتکار دیے جائیں گے۔