اگر کشمیر کی جدجہد پر امن ہوتی تو شاید مسئلہ کشمیر اب تک حل ہوچکا ہوتا، کامران مرتضیٰ
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
جمعیت علما اسلام پاکستان کے مرکزی رہنما اور سینئر وکیل سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا ہے کہ طاقت کے استعمال سے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوگا، اگر کشمیر کی جدجہد پر امن ہوتی تو شاید مسئلہ کشمیر اب تک حل ہوچکا ہوتا، لڑکر مسائل حل کرنا ملک خطے اور دنیا کے حق میں نہیں، کشمیرکی جدوجہد پر امن ہونی چاہیے، تشدد کا راستہ کہیں سے بھی نہیں ہونا چاہیے۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کامران مرتضیٰ نے کہا کہ بے شک مذاکرات سو دفعہ ناکام ہوجائیں، ہمیں بات چیت کرنا پڑے گی، آخر کار پرامن اور جمہوری طریقوں سے آپ کشمیر کا مسئلہ حل کر سکتے ہیں، طاقت کے بل بوتے پر مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوگا، ہر مسئلے کا حل مذاکرات سے ہی نکلتا ہے۔
ان کاکہناتھاکہ دنیا میں ہماری حیثیت اس وقت ایک عالمی فقیر کی ہے، ہمیں قومی غیرت بحال کرنا ہوگی، پھر ہمارا عالمی کردار بھی درست ہوسکے گا، ہمیں اپنے ملک میں جمہوری سوچ کو پنپنے دینا ہوگا، بصورت دیگر آپ کی دنیا کے معاشروں میں عزت نہیں ہوگی۔
جے یو آئی رہنما نے کہا کہ ہم 8 فروری کے الیکشن کو پہلے ہی مسترد کر چکے ہیں، ہم پورے الیکشن کو ہی غلط سمجھتے ہیں، ہم پورے ملک میں نئے الیکشن کا مطالبہ کرتے ہیں، پی ٹی آئی بڑی جماعت ہے، انہیں ایکشن لینا ہوگا۔
اس موقع پر پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹر خلیل طاہر سندھو نے کہا ہے کہ 4 اگست کو بانی پی ٹی آئی امریکا سے آئے اور کہا کہ ورلڈ کپ فتح کرلیا، 5 اگست کو بھارت نے کشمیرپر قبضہ کرلیا، مسئلے کے حل کیلئے مذاکرات کی طرف آنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کا خط آخری نہیں ہے، اس کے بعد جو خط آئے گا وہ آخری ہوگا، وہ 9 مئی کے حوالے سے معافی نامے کا خط ہوگا۔
لیگی رہنما نے کہا کہ 26 آئینی ترمیم پر سب جماعتیں آن بورڈ تھیں، پیکا ایکٹ پر بھی سب ساتھ تھے، صحافیوں کے ساتھ کھڑے ہیں، اس بل میں ترامیم ہوسکتی ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے سینئررہنما اور رکن قومی اسمبلی عمیر نیازی نے کہا کہ پاکستان کا ہر شہری کشمیری عوام کے ساتھ ہے، چین نے پاکستان سے منہ پھیر لیا ہے، چین سے تعلقات بحال کرنے کیلئے صدر زرداری کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم کسی سے بیک ڈور رابطے کے قائل نہیں ، ایسا کرنا ہوتا تو عمران خان جیل میں نہیں ہوتے وہ بھی 50 روپے کا اسٹام پیپر دے کر باہر چلے جاتے، 26 نومبرکے حوالے سے جوڈیشل کمیشن بن جائے تو ساری چیزیں سامنے آجائیں گی۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: مسئلہ کشمیر نے کہا کہ
پڑھیں:
حماس کی جانب سے صہیونی قیدیوں کی رہائی کے لیے شرائط
حماس کے ایک رہنما نے کہا کہ تحریک کا مسئلہ رہا کیے جانے والے قیدیوں کی تعداد نہیں ہے، بلکہ اسرائیل کا جنگ روکنے کے عزم کا فقدان ہے۔ اسلام ٹائمز۔ حماس کے ایک رہنما نے کہا ہے کہ اس تحریک کو قیدیوں کی تعداد سے کوئی مسئلہ نہیں، بلکہ اصل مسئلہ اسرائیل کی جنگ روکنے کے وعدے پر عدم عملدرآمد ہے۔ فارس نیوز کے مطابق، فلسطینی حماس کے رہنما طاہر النونو نے آج ہفتہ کے روز اعلان کیا کہ فلسطینی مزاحمت تمام صہیونی قیدیوں کو آزاد کرنے کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ غزہ میں جنگ بند ہو اور تعمیر نو کا عمل شروع کیا جائے۔ النونو نے مزید کہا کہ صہیونی حکومت صرف اپنے قیدیوں کی رہائی کی کوشش کر رہی ہے، لیکن جنگ بندی کے معاہدے پر عمل نہیں کرنا چاہتی۔ کچھ گھنٹے قبل حماس کے عسکری ونگ، شہید عزالدین قسام بریگیڈز نے ایک ویڈیو جاری کی جس میں ایک امریکی شہریت رکھنے والا صہیونی قیدی عیدان الکساندر نظر آتا ہے۔
اس قیدی نے ویڈیو میں کہا کہ تین ہفتے پہلے اسے معلوم ہوا کہ حماس اسے رہا کرنے کو تیار ہے لیکن نیتنیاہو کی کابینہ نے اس پیشکش کو رد کر دیا اور ہمیں تنہا چھوڑ دیا۔ عیدان الکساندر نے مزید کہا کہ میں روزانہ دیکھتا ہوں کہ نیتنیاہو نے اسرائیل کو ایک آمریت میں بدل دیا ہے۔ اسرائیلی عوام، نیتنیاہو کی کابینہ، امریکی حکومت اور اسرائیلی فوج – سب نے مجھ سے جھوٹ بولا۔ اس قیدی نے ٹرمپ سے مخاطب ہو کر کہا کہ میں یقین رکھتا تھا کہ تم مجھے زندہ یہاں سے نکالنے میں کامیاب ہو جاؤ گے، لیکن اب سمجھ گیا ہوں کہ تم نیتنیاہو کے جھوٹ میں کیسے پھنسے۔ اس نے اسرائیل میں ہونے والے بے نتیجہ مظاہروں کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ روز بروز دیکھتے ہیں کہ جنگی طیاروں کی بمباری ہم سے قریب تر ہوتی جا رہی ہے، جو کہ انتہائی مشکل صورت حال ہے۔
النونو نے غزہ پٹی کی حکمرانی کے بارے میں بھی کہا کہ یہ ایک فلسطینی داخلی مسئلہ ہے اور ہم کسی بھی بیرونی طاقت کی موجودگی کو قبول نہیں کریں گے۔ حماس کے اس رہنما نے مزاحمتی ہتھیاروں کو غیر قابلِ گفتوگو قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب تک اسرائیلی قبضہ جاری ہے، یہ ہتھیار مزاحمت کے پاس رہیں گے۔ النونو نے آخر میں کہا کہ حماس کا مسئلہ قیدیوں کی تعداد نہیں، بلکہ اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کے وعدے پر عمل نہ کرنا ہے۔