اگرچہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ سنہ 1990 سے ہر سال 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر مناتا ہے۔ اس موقع پر پاکستان کے وزیراعظم یا صدر آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے رہے ہیں۔ لیکن یہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اور فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر دونوں ہی مظفرآباد میں موجود تھے۔

یہ غیر معمولی بات ہے کہ وزیراعظم اور فوجی سربراہ بیک وقت پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد اور راولپنڈی جی ایچ کیو میں موجود نہیں تھے۔ وہ دونوں ہی کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے مظفرآباد میں تھے اور پورا دن ریاستی دارالحکومت میں گزارا۔

یہ بھی پڑھیں کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں، بھارت تنازعہ کشمیر پر بامعنی اور نتیجہ خیز مذاکرات کرے، وزیراعظم شہباز شریف

وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے آزاد کشمیر اسمبلی سے خطاب کیا۔ اس سے قبل وزیراعظم اور آرمی چیف نے یادگار شہدا پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی۔

فوج کے سربراہ نے مقامی عمائدین سے خطاب کیا، یوم یکجہتی کے موقع پر پاکستان اور آزاد کشمیر میں عام تعطیل رہی۔ اس موقع پر روایتی طور پر پاکستان اور آزاد کشمیر کے انٹری پوائنٹس پر انسانی ہاتھوں کی زنجیریں بنائی گئیں۔ اس میں وزیر حکومت پنجاب بلال یاسین اور ممبر صوبائی اسمبلی بلوچستان ڈاکٹر اشوک کمار نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔

پانچ فروری یوم یکجہتی کشمیر منانے کا آغاز کب اور کیوں ہوا؟

پاکستان ہر سال 5 فروری کو انڈیا سے آزادی کے خواہاں مقبوضہ کشمیر میں بسنے والوں سے اظہارِ یکجہتی کے دن کے طور پر مناتا ہے۔

اس دن پاکستان اور آزاد کشمیر میں عام تعطیل ہوتی ہے اور طول و عرض میں سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی طرف سے احتجاجی جلسے جلوس منعقد کیے جاتے ہیں۔ جبکہ سرکاری سطح پر بھی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔

اس دن پاکستان کے صدر یا وزیراعظم آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہیں۔ اس بار بھی پاکستان اور آزاد کشمیر میں عام تعطیل رہی اور کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے جلسے جلوس منعقد کیے گئے۔

وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے آزاد کشمیر اسمبلی سے خطاب کیا۔ جبکہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے وزیراعظم کے ہمراہ مظفرآباد میں شہدا کی یاد گار پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی۔ جبکہ فوجی سربراہ نے کشمیری عمائدین سے خطاب بھی کیا۔

لیکن اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان میں اس دن کو منانے کی شروعات کب اور کیسے ہوئی؟

سنہ 1990 سے پاکستان میں 5 فروری یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منایا جاتا ہے جس کا مقصد مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ اظہر یکجہتی کرنا ہے۔ اس روز پاکستان اور آزاد کشمیر میں عام تعطیل ہوتی ہے۔

سنہ 1990 میں جماعت اسلامی پاکستان کے سربراہ قاضی حسین احمد نے پاکستانیوں سے اپیل کی کہ وہ کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے پانچ فروری کو ملک گیر سطح پر ہڑتال کریں۔ یہ وہ وقت تھا جب مقبوضہ کشمیر میں بھارت سے آزادی کی تحریک عروج پر تھی۔

قاضی حسین احمد کے اتحادی اور اسلامی جمہوری اتحاد جسے عمومی طور پر آئی جے آئی کے نام سے پکارا جاتا تھا، کے صدر وزیراعلیٰ پنجاب محمد نواز شریف نے بھی ہڑتال کی حمایت اور پنجاب میں چھٹی کا اعلان کردیا۔

دوسری جانب اس وقت کی پاکستان کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے بھی اس کال کی حمایت کی۔

انہوں نے نا صرف ملک گیر ہڑتال اور سرکاری چھٹی کا اعلان کیا بلکہ مظفرآباد میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’ہم جگ موہن (انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے گورنر) کو بھاگ موہن بنا کر دم لیں گے۔‘

اس کے بعد سے ہر سال پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے۔ ابتدا میں یہ دن صرف جماعت اسلامی مناتی تھی، پھر بعد ازاں اس دن کو سرکاری طور پر منایا جانے لگا۔ اس دن کی کوئی تاریخی حیثیت نہیں ہے لیکن تاریخی طور پر کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی تاریخ پرانی ہے۔

فروری 1975 میں پاکستان میں کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے ملک گیر ہڑتال ہوئی۔

اس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ 22 برس کی طویل سیاسی کشمکش کے بعد بالآخر شیخ عبداللہ نے انڈین حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ جسے ’اندرا عبداللہ ایکارڈ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، کرکے کانگریس کی مدد سے دوبارہ مقبوضہ کشمیر کا اقتدار حاصل کرلیا لیکن اس بار وہ وزیراعظم نہیں وزیراعلیٰ بننے پر راضی ہوئے۔

پاکستان اور اس کے زیرانتظام کشمیر میں اس معاہدے پر سخت ردعمل سامنے آیا۔ چنانچہ اس وقت کے وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے اعلان کیاکہ فروری کے آخری جمعہ کو ایک پُرامن ہڑتال کی جائے گی۔

انہوں نے کہاکہ یہ ہڑتال نا صرف پاکستان اور اس کے زیرانتظام کشمیر میں ہوگی بلکہ انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں بھی ہوگی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس دن جلسے یا احتجاجی مظاہرے سے منع کیا اور کہاکہ پرامن طریقے سے کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جائے۔

بین الاقوامی قانون کے ماہر ڈاکٹر شیخ شوکت حسین نے فروری 2017 میں لکھا کہ کشمیر ڈے تاریخی طور پر 1932 سے منایا جارہا ہے۔ یہ سب سے پہلے اس وقت کی کشمیر کمیٹی نے تجویز کیا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ 1930 کی دہائی میں یہ دن کشمیریوں کی جدوجہد کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے منایا جاتا تھا جو ڈوگرہ حکمران مہاراجا ہری سنگھ کی شخصی حکمرانی کے خلاف لڑ رہے تھے۔ اب کشمیر ڈے بھارت کے خلاف برسرپیکار کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے طور پر منایا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں یوم یکجہتی کشمیر: صدر اور وزیراعظم کا مظلوم کشمیریوں کی مکمل اخلاقی، سفارتی اور سیاسی حمایت جاری رکھنے کا عزم

ڈاکٹر شوکت حسین کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر یہ ’کشمیر ڈے‘ پنجاب کے غیر منقسم حصے سے شروع ہوا تھا اور تب سے اسے وقفوں کے ساتھ منایا جاتا رہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews آرمی چیف اظہار یکجہتی بینظیر بھٹو جنرل عاصم منیر ذوالفقار علی بھٹو شہباز شریف فوجی سربراہی قاضی حسین احمد نواز شریف وزیراعظم پاکستان وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ا رمی چیف اظہار یکجہتی بینظیر بھٹو ذوالفقار علی بھٹو شہباز شریف فوجی سربراہی نواز شریف وزیراعظم پاکستان وی نیوز کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے کشمیر میں عام تعطیل کے زیرانتظام کشمیر وزیراعظم پاکستان یوم یکجہتی کشمیر اسمبلی سے خطاب پاکستان اور ا اظہار یکجہتی پاکستان کے شہباز شریف کے طور پر ا رمی چیف کشمیر کے فروری کو جاتا ہے کے لیے

پڑھیں:

 مظلوم کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی!

 

مظلوم کشمیری مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے 5 ؍فروری کا دن امسال بھی بھرپور جوش و جذبے سے منایا جارہا ہے۔

حسب روایت اس سال بھی پاکستان ،آزاد کشمیر اور دنیا میں جہاں جہاں بھی پاکستانی اورکشمیری آباد ہیں جلسوں، کانفرنسوں، ریلیوں اور سیمینارز کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ ان پروگراموں میں تحریک آزادی کشمیر میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ کشمیری عوام کی حمایت کرتے رہنے کے عزم کابھی اعادہ کیا جارہاہے۔

یومِ یک جہتیِ کشمیر ایک تاریخی دن کے طور پر منایا جاتا ہے، کشمیر کی آزادی کی تحریک کے لیے مسلح جدوجہد سے آج تک کا تجزیہ کریں تو کیاجائے تو پتہ چلے گا کہ اگرچہ اس دوران پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے، لیکن یہ مسئلہ پہلے سے زیادہ گمبھیر صورت اختیار کرچکا ہے ۔

5؍ فروری 1990 اور آج 5 ؍فروری2025، یہ پورے 35 سال کا عرصہ بنتا ہے۔5؍ اگست 2019کے واقعے کے بعد تو صورتِ حال یکسر بدلی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ اب ہمارے سامنے ایک ایسی نسل ہے جس کی ترجیح ماضی کی نسبت کچھ مختلف ہے۔

آج دنیا میں ٹیکنالوجی کا راج ہے اور جنگیں بھی اسی کی مدد سے لڑی جاتی ہیں۔ کشمیری قوم کا تحریک ِحریت کے دوران میں جو نقصان ہوا ہے اس کی تلافی آج تک نہیں ہوسکی، اور اس وجہ سے تحریک ِ حریت بھی بہت متاثر ہوئی ہے اور دنیا بھی بدل چکی ہے۔

آج مقبوضہ کشمیر میں ظلم کے جو پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور جس طرح وہاں بھارت کی فوجیں قابض ہیں، ان کے خلاف پاکستان نے ہمیشہ اپنے بھائی بہنوں کی اخلاقی اور سفارتی مدد کی ہے۔5 ؍فروری کو یوم یکجہتی منانے کا مقصد اس عزم کااظہار ہے کہ پاکستان کی کشمیر کاز کے ساتھ وابستگی اٹل ہے، اور ایک دن کشمیر ضرور آزاد ہوگا، کشمیری عوام کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی اور وہ آزادی کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں گے۔

یہ صحیح ہے کہ پاکستان کو سنگین سیاسی اور معاشی چیلنجز کا سامنا ہے جن میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی اور ان کی جدوجہد آزادی کی حمایت پاکستان کی کسی ایک جماعت کی جانب سے نہیں ہے بلکہ یہ حمایت پوری قوم کی جانب سے ہے اور کوئی بھی پارٹی برسراقتدار کیوں نہ آئے وہ بھارتی حکومت کیلئے انتہائی نرم گوشہ رکھنے اور اپنی ذاتی تقریبات میں بھارتی حکام اور تاجروں کو مدعو کرنے کو باعث فخر سمجھنے کے باوجود کشمیر کاز کی حمایت سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔

اگرچہ مقبوضہ کشمیر کو غلام بنائے رکھنے کیلئے بھارتی حکومت کے ہتھکنڈے جاری ہیں لیکن، ایک بہتری یہ آئی ہے کہ 5؍ اگست 2019 کی دھند کے اثرات ختم ہوچکے ہیں۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جلد بھارت کا جبر انجام کو پہنچے گا۔ یہ حقیقت تو پوری عالمی برادری کے لیے اظہرمن الشمس ہے کہ کشمیری عوام نے بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد اپنے لاکھوں پیاروں کی جانوں کی قربانیاں دے کر اور بھارتی فوجوں کے ظلم و جبر کا ہر ہتھکنڈہ برداشت کرتے ہوئے استقامت کے ساتھ جاری رکھی ہوئی ہے، اور گزشتہ 76 برس کے دوران کسی ایک مرحلے پر بھی ان کے پائے استقلال میں کبھی لرزش آئی نہ انہوں نے کبھی اپنے کاز پر کسی مفاہمت کا سوچا، مگر بھارت کی ہندو لیڈرشپ کی نیت میں شروع دن سے ہی فتور تھا اور ہے، اس میں کلیدی کردار بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کا ہی تھا جنہوں نے ایجنڈے کے تحت کشمیر میں اپنی فوجیں داخل کرکے اس کے غالب حصے پر تسلط جمالیا جس کا اصل مقصد پاکستان کو کمزور کرنا تھا۔

نہرو نے ہی کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دیا اور اپنے ہی پیدا کیے گئے تنازع کشمیر کے حل کے لیے اقوام متحدہ سے رجوع کرلیاتھا، تاہم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے اپنی متعدد قراردادوں کے ذریعے کشمیریوں کا حقِ خودارادیت تسلیم کرتے ہوئے اپنے خصوصی ایلچی کی نگرانی میں مقبوضہ وادی میں استصواب کے اہتمام کی بھارت کو ہدایت کی، مگر نہرو نے اقوام متحدہ کے فورم پر استصواب کے اہتمام کا وعدہ کرنے کے باوجود اقوام متحدہ کی قراردادوں سے انحراف کیا اور بھارتی آئین کی دفعہ 370 میں ترمیم کرکے اور دفعہ 35 میں شق اے کا اضافہ کرکے مقبوضہ وادی کو باقاعدہ بھارتی ریاست کا درجہ دے دیا جس میں آزادی کی تڑپ رکھنے والے کشمیریوں کا جینا دوبھر کردیا گیا۔ نہرو نے خود کشمیریوں کو ان کا حق دلوانے کا وعدہ کیا تھا، لیکن حقیقت اس کے قطعی برعکس ہے ،حقیقت یہ ہے کہ کشمیریوں کے حقوق غصب کرنے کی بنیاد نہرو نے ہی رکھی، جس پر اُن کے بعد آنے والی بھارتی حکومتیں بھی عمل پیرا رہیں اور کشمیریوں کی آزادی کی آواز دبانے کے لیے آج کے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سمیت کسی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

مودی سرکار تو پاکستان اور مسلم دشمنی کے ایجنڈے کے تحت کشمیریوں کی نسل کُشی اور انہیں اقلیت میں تبدیل کرنے کی راہ پر گامزن ہے جس کے لیے مودی نے اپنے دوسرے دورِ حکومت کے آغاز ہی میں کشمیر کی خودمختار حیثیت والی آئینی شقیں ختم کراکے اسے 5؍ اگست 2019 کو باقاعدہ بھارتی اسٹیٹ یونین کا حصہ بنالیا اور اپنے اس جبری اقدام کے خلاف دنیا بھر میں اٹھنے والی کسی بھی آواز پر کان نہیں دھرے، جبکہ وہ اس حوالے سے سلامتی کونسل میں منظور کی گئی قراردادوں کو بھی خاطر میں نہیں لائے۔ مودی سرکار کے مقبوضہ وادی کو بھارت میں ضم کرنے کے اس جبری اقدام کو آج تقریباً2ہزار دن ہوچکے ہیں اور ابھی تک مقبوضہ وادی 9 لاکھ سے زیادہ بھارتی فوجیوں کے نرغے میں ہے جنہوں نے نقل و حمل، مواصلات اور انٹرنیٹ سروس سمیت ہر چیز بند کرکے کشمیریوں کو گھروں میں محصور اور ہر آزادی سے محروم رکھا ہوا ہے۔ اس کے باوجود بھارت کشمیریوں کے حوصلے پست نہیں کرسکا، اور بھارتی جاری مظالم کے خلاف کشمیری عوام نے 26 جنوری کو یوم سیاہ منایا۔

مقبوضہ کشمیرکی کُل آبادی میں95 فی صد آبادی مسلمان ہے، لیکن بھارت وہاں مسلسل ڈیموگرافی تبدیل کررہا ہے، باہر سے ہندوؤں کو لاکر بسایا جارہا ہے۔ انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں نے مذہبی اقلیتوں کے ساتھ بھارت کے بدترین سلوک پر تشویش کا اظہار کیا ہے، اور اعتراف کیا ہے کہ پاکستان اقلیتوں کے حقوق اور ان کے تحفظ کے اعتبار سے سب سے محفوظ اور سازگار ملک ہے، جبکہ بھارت اس معاملے میں بدترین ملک ہے جہاں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی زندگیاں محفوظ ہیں نہ انہیں مذہبی آزادیاں حاصل ہیں۔ بھارت کے اس سلوک نے اُس کے مذہبی اقلیتوں کے ساتھ سلوک پر سوال اٹھا دیے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان نے ہمیشہ مذہبی اقلیتوں کے ساتھ تعاون کے عزم کا اظہار کیا ہے جو بھارت سے آنے والے سکھ یاتریوں کو کرتار پور صاحب، گردواروں اور ان کے دیگر مذہبی مقامات پر جانے کی سہولت دینے سے ظاہر ہوتا ہے۔ پاکستان سکھ اور ہندو یاتریوں کا یکساں طور پر گرم جوشی سے خیرمقدم کرتا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ بھارت میں آج جنونی ہندو معاشرہ غالب آچکا ہے، وہاں انتہا پسند مودی سرکار کی سرپرستی میں آج ہندوتوا کو فروغ مل رہا ہے، اور ہندو انتہا پسند عملاً انسانیت کے قاتل بن چکے ہیں جنہوں نے مسلمان اقلیتوں کا ہی جینا دوبھر نہیں کیا، بلکہ بھارت میں آباد دوسری اقلیتوں اور دلت ہندوؤں کو بھی راندہ درگاہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مسلمان اقلیتوں کے ساتھ تو بھارت کی انتہا درجے کی مخاصمت ہے، کیونکہ وہ پاکستان کی
بھارت کی کوکھ سے تشکیل کے ناتے سے مسلمانوں کو اکھنڈ بھارت کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے۔ اسی پس منظر میں بھارت نے اپنے ناجائز زیرِ تسلط کشمیر میں مسلمانوں کو گزشتہ 76 برس سے بدترین ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنا رکھاہے۔بھارت نے پاکستان کو دبائے رکھنے کی نیت سے ہی کشمیر پر اپنا تسلط جمایا اور تقسیم ہند کے ایجنڈے کے برعکس اس کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہیں ہونے دیا، جبکہ اس کے جنونی توسیع پسندانہ عزائم سے اس پورے خطے اور عالمی امن و سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔

اگر اقوام عالم کو دنیا کی بقاو ترقی مقصود ہے تو پھر بھارت کے ہاتھ روکنے کے لیے نمائندہ عالمی اداروں اور عالمی قیادتوں کو عملیت پسندی پر مبنی ٹھوس کردار ادا کرنا ہو گا۔ بھارت سرکار تو اکھنڈ بھارت کے جنون میں اقوام ِعالم کی سلامتی غارت کرنے پر تلی بیٹھی ہے۔آزاد کشمیر، مقبوضہ کشمیر سمیت دنیا بھر میں مقیم کشمیری عوام 5 جنوری کویوم حقِ خودارادیت مناتے ہیں، پاکستان میں اِس سال بھی یومِ حق خودارادیت اس تجدیدِ عہد کے ساتھ منایا جارہاہے کہ بھارتی تسلط سے نجات کے لیے جدوجہدِ آزادی کی حمایت جاری رکھی جائے گی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 5 جنوری 194کو ایک قرارداد منظور کی جس میں رائے شماری کے ذریعے کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا گیا تھا، لیکن بھارت نے اپنی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سلامتی کونسل کی اس قرارداد پر عمل درآمد نہیں کیا۔ کشمیری عوام نے اس بھارتی جبر و تسلط کو کبھی تسلیم نہیں کیا اور وہ 27 اکتوبر 1947 کو کشمیر پر غیرقانونی بھارتی فوجی قبضے سے آج تک آزادی کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اس جدوجہد میں کشمیری عوام جانی و مالی قربانیوں کی نئی تاریخ رقم کررہے ہیں۔ بھارت کی جانب سے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی درجن بھر قراردادوں پر عمل درآمد کرنا تو کجا، اس نے 5 اگست 2019کو آئین کی دفعات 370، اور 35-A کو حذف کرکے مقبوضہ وادی پر مکمل طور پر قبضہ کرلیا ہے۔ کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کے لیے آواز اٹھانے کی پاداش میں بھارت پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہے۔ وہ پاکستان کو کمزور کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ نہتے اور مظلوم کشمیری عوام گزشتہ 76 سال سے اپنی آزادی کی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ابھی حال ہی میں امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں پاکستان میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے بھارت کا گھناؤنا کردار بے نقاب ہوا ہے۔

بھارت پر امریکہ، کینیڈا اور دوسرے مغربی ممالک میں بھی ٹارگٹ کلنگ مہم چلانے کا الزام ہے جس کے باعث بھارت بین الاقوامی سطح پر سخت تنقید کی زد میں ہے اور اس معاملے میں امریکہ اور کینیڈا کے ساتھ بھارت کے سفارتی تعلقات متعدد بار خراب ہوچکے ہیں۔ ان ممالک کی جانب سے بھارت پر مختلف پابندیاں بھی عائد ہوچکی ہیں۔ حقائق و شواہد کی روشنی میں بھارت پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ کینیڈا اور امریکہ میں بھارتی خفیہ ایجنسی نے سکھ رہنماؤں کو قتل کیا۔ اس سلسلے میں نئی دہلی میں ‘‘را’’ کے افسر وکاش یادیو نے نیویارک میں سکھ علیحدگی پسند رہنما پر قاتلانہ حملے کی ہدایات جاری کیں اور اس قتل کے لیے اپنے ایجنٹ کو ایک مقامی قاتل کی خدمات حاصل کرنے کی ہدایت کی۔

کینیڈین حکام کی جانب سے بھی بھارتی سفارت کاروں اور ‘‘را’’ کی دہشت گردی کو بے نقاب کیا جا چکا ہے۔ امر واقع یہ ہے کہ بھارت اس خطے میں اپنے توسیع پسندانہ ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو ہمہ وقت آمادہ و تیار رہتا ہے۔ اس کا یہ ایجنڈا ہندو انتہا پسندی کے فروغ پر مبنی ہے۔ پاکستان کی سلامتی کو کسی بھی طریقے سے نقصان پہنچانے کا بھارتی ایجنڈا تو قیامِ پاکستان کے وقت ہی طے پا گیا تھا جس پر عمل کرنے میں بھارت کی کسی بھی حکومت نے کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سیکورٹی فورسز
کی دہشت گردی کا سلسلہ گزشتہ 76 سال سے تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور اب تک لاکھوں کشمیری اس بھارتی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔

بھارت کے ہندو انتہا پسندانہ کلچر میں بھارت کے اندر بھی غیرہندو اقلیتوں کی زندگیاں اجیرن ہوچکی ہیں، بالخصوص مسلمانوں کو تو عملاً دیوار کے ساتھ لگایا جا چکا ہے جن پر ہندو انتہا پسندوں کے حملے روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ بھارت کا یہ جنونی، انتہا پسند اور علاقائی و عالمی امن کے لیے سنگین خطرے کی گھنٹی بجانے والا چہرہ اقوام عالم میں مکمل بے نقاب ہوچکا ہے اور پاکستان کے علاوہ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی بھارتی توسیع پسندانہ، دہشت گردانہ کارروائیوں کا سلسلہ دراز ہوتا نظر آرہا ہے۔ اسی بنیاد پر کچھ عرصہ قبل ایک امریکی جریدے نے اپنی رپورٹ میں بھارت کو عالمی نمبر ون دہشت گرد ریاست قرار دیا تھا جس میں پاکستان، ایران، افغانستان اور سری لنکا کے علاوہ متعدد مغربی ممالک میں بھی بھارتی دہشت گردی کی وارداتوں کے ثبوت پیش کیے گئے، مگر توسیع پسندانہ عزائم میں بھارت کی سرپرستی کرنے والے امریکہ نے امریکی جریدے کی اس رپورٹ پر بھی اپنی آنکھیں دانستہ بند کیے رکھیں۔ آج بھارت اپنے قطعی غیرمحفوظ ایٹمی ہتھیاروں کے باعث بھی علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے لیے سنگین خطرات پیدا کرچکا ہے، جبکہ اپنے مخصوص ایجنڈے کے تحت بھارت کینیڈا اور امریکہ سمیت دوسرے مختلف ممالک میں بھی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع کرکے علاقائی اور عالمی امن کی تباہی کا اہتمام کرتا نظر آرہا ہے۔ اگر اقوام عالم کی جانب سے بھارت کے جارحانہ توسیع پسندانہ عزائم کے آگے بند نہ باندھا گیا تو اس کے ہاتھوں دنیا کی تباہی دیوار پر لکھی نظر آرہی ہے۔

پوری عالمی برادری خاص طورپر وسائل سے مالامال مسلم دنیا کے رہنماؤں کو اس طرف توجہ دینی چاہئے اورمقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کو ان کا پیدائشی حق خود ارادیت دلانے کیلئے ہر سطح پر ان کا بھرپور ساتھ دینا چاہئے۔

متعلقہ مضامین

  •  مظلوم کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی!
  • کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کو اجاگر کرنا ہے، پاکستان
  • کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں، بھارت تنازعہ کشمیر پر بامعنی اور نتیجہ خیز مذاکرات کرے، وزیراعظم شہباز شریف
  • قوم کشمیری عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتی ہے، ان کے جائز حقوق کی جدوجہد کی ہر فورم پر حمایت جاری رکھیں گے ، وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی
  • یوم یکجہتی کشمیر پر وزیراعظم کا کشمیری عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار
  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں یوم یکجہتی کشمیر آج بھرپور طریقے سے منایا جا رہا ہے
  • پاکستان کے عوام اور پاک فوج مظلوم کشمیری بہن بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں، حریت رہنما
  • پاکستانی کشمیریوں کے ساتھ ہیں، کل یوم یکجہتی کشمیر بھرپور طریقے سے منائیں گے، حافظ نعیم
  • یومِ یکجہتیِ کشمیر کے پوسٹر وہاں لگ گئے جہاں توقع نہ تھی