کانگریس پارلیمانی پارٹی کی چیئرپرسن سونیا گاندھی اور انکی بیٹی اور پارٹی کی رکن پارلیمنٹ پرینکا گاندھی نے نرمان بھون پہنچ کر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ اسلام ٹائمز۔ دہلی اسمبلی کی 70 نشستوں کے لئے آج ووٹنگ کا عمل انجام پا گیا۔ آج صبح 7 بجے سے ووٹنگ شروع ہوئی تھی جو شام 6 بجے کے بعد تک جاری رہی۔ ووٹنگ کا وقت شام 6 بجے ختم ہوگیا تھا، لیکن قطار بند لوگوں کو وقت ختم ہونے کے بعد بھی حق رائے دہی کا موقع فراہم کیا گیا۔ الیکشن کمیشن کے ذریعہ ابھی ووٹنگ کا حتمی فیصد جاری نہیں کیا گیا ہے، لیکن 5 بجے تک کا جو ڈاٹا فراہم کیا گیا ہے، اس کے مطابق 57.

70 فیصد ووٹنگ ہوئی ہے۔ دہلی اسمبلی انتخاب کے پیش نظر ووٹنگ کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے۔ الیکشن کمیشن کے ذریعہ دی گئی جانکاری کے مطابق شام 5 بجے تک 57.70 فیصد ووٹ ڈالے گئے ہیں۔ کئی مقامات پر بڑی تعداد میں ووٹرس قطار بند ہیں جو اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ دہلی میں صبح 7 بجے سے شروع ہونے والی ووٹنگ اب آخری مرحلہ میں پہنچ چکی ہے اور الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ کے مطابق سہ پہر تین بجے تک 46.55 فیصد پولنگ ریکارڈ کی گئی۔

الیکشن کمیشن کے مطابق دہلی کی تمام 70 اسمبلی سیٹوں پر مجموعی طور پر 33.31 فیصد پولنگ ریکارڈ کی گئی۔ دہلی اسمبلی انتخابات کے لئے ووٹنگ کا عمل صبح 7 بجے سے جاری ہے اور اب تک متعدد اہم شخصیات اپنا حق رائے دہی استعمال کر چکے ہیں۔ ووٹ ڈالنے والے لیڈران میں دہلی کے سابق وزیراعلیٰ اروند کیجریوال اور عام آدمی پارٹی کے کنوینر اروند کیجریوال بھی شامل ہیں۔ اروند کیجریوال اپنی اہلیہ سنیتا کیجریوال، والد گوبند رام کیجریوال اور گیتا دیوی کے ہمراہ ووٹ ڈالنے کے لئے پہنچے تھے۔ کانگریس پارلیمانی پارٹی کی چیئرپرسن سونیا گاندھی اور ان کی بیٹی اور پارٹی کی رکن پارلیمنٹ پرینکا گاندھی نے نرمان بھون پہنچ کر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ پولنگ مرکز پر نئی دہلی سیٹ سے پارٹی کے امیدوار سندیپ دکشت ان کے ساتھ موجود تھے۔

اس موقع پر پرینکا گاندھی نے کہا کہ یہ سب سے بڑا اور اہم حق ہے، اپنے اس حق کا استعمال کریں، اپنے مسائل کو حل کرنا ہے تو گھروں سے باہر نکلیں اور ووٹ ڈالیں۔ دہلی میں اسمبلی انتخابات کے لئے ووٹنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق صبح 11 بجے تک 19.95 فیصد ووٹروں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کر لیا تھا۔ کانگریس کے خزانچی اجے ماکن نے اپنا ووٹ ڈال دیا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ دس برسوں میں دہلی کو ایل جی بمقابلہ سی ایم سے یاد کیا جاتا ہے۔ جو کام ہونے ہوتے ہیں وہ ان کی لڑائی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ ایک وقت ایسا تھا جب دہلی میں کانگریس کی حکومت تھی جبکہ مرکز میں بی جے پی کی حکومت تھی، اس کے باوجود دہلی کی ترقی ہوتی تھی اور تو تو میں میں نہیں ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ دہلی کے لوگ اب پھر کانگریس کو یاد کر رہے ہیں۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اپنے حق رائے دہی کا استعمال الیکشن کمیشن کے دہلی اسمبلی استعمال کر پارٹی کی کے مطابق ووٹنگ کا بجے تک کے لئے

پڑھیں:

گلگت بلتستان: جماعت پنجم اور ہشتم کے نتائج میں طالبات نے میدان مار لیا

گلگت بلتستان بورڈ آف ایلیمنٹری کے تحت سال 25-2024 کے جماعت پنجم اور جماعت ہشتم کے نتائج میں طالبات نے میدان مار لیا۔

جماعت ہشتم کے نتائج کے مطابق گرلز ہائی اسکول جٹیال گلگت کی طالبہ نصیب ولد افتخار نے 800 میں سے 729 نمبر لے کر پہلی پوزیشن حاصل کی۔

یہ بھی پڑھیں گلگت بلتستان: تعلیم اور زراعت سمیت مختلف محکموں میں فیسوں اور ٹیکس کا نفاذ معطل

اسی طرح جماعت ہشتم میں دوسری پوزیشن گرلز ہائی اسکول مہدی آباد اسکردو کی طالبہ عقیلہ مریم ولد محمد تقی نے 725 نمبروں کے ساتھ حاصل کی، جبکہ تیسری پوزیشن بھی گرلز ہائی اسکول جٹیال گلگت کی طالبہ مسرت سیف اللہ کے حصے میں آئی، جنہوں نے 724 نمبر حاصل کیے۔

جماعت پنجم میں بھی طالبات نے نمایاں کامیابی حاصل کی۔ گرلز مڈل اسکول چھلت پائین نگر کی طالبہ اقرا زہرا نے 615 میں سے 535 نمبر لے کر پہلی پوزیشن حاصل کی۔

نتائج کے مطابق گرلز پرائمری اسکول ہارنگس تھلے گانچھے کی معصومہ بتول نے 531 نمبروں کے ساتھ دوسری پوزیشن اپنے نام کی، جبکہ بوائز ہائی اسکول کوواس (امیرآباد، ضلع گانچھے) کی بشریٰ مرتضیٰ نے 525 نمبروں کے ساتھ تیسری پوزیشن حاصل کی۔

مجموعی طور پر نتائج مایوس کن رہے، خصوصاً سرکاری اسکولوں میں کامیابی کی شرح کم رہی۔ جماعت پنجم میں کامیابی کا مجموعی تناسب 28.63 فیصد رہا، جو کہ تشویشناک حد تک کم ہے، جبکہ جماعت ہشتم میں مجموعی کامیابی کا تناسب 40.78 فیصد رہا۔

جماعت پنجم میں سب سے کم ترین کامیابی کا تناسب شگر میں 17.04 فیصد، دیامر میں 17.18 فیصد، استور میں 17.87 فیصد، نگر میں 19.14 فیصد اور گانچھے میں 24.87 فیصد رہا۔

سب سے بہتر کارکردگی گلگت میں 51.69 فیصد کے ساتھ رہی جو کہ انتہائی کم تناسب ہے، غذر میں 34.22 فیصد، کھرمنگ میں 32.58 فیصد، ہنزہ میں 31.37 فیصد اور اسکردو میں 28.17 فیصد کامیابی دیکھی گئی۔

جماعت ہشتم میں بھی کئی اضلاع کی کارکردگی انتہائی خراب رہی۔ استور میں کامیابی کا تناسب سب سے کم 22.74 فیصد جبکہ اسکردو میں 31.01 فیصد رہا۔ سب سے زیادہ کامیابی کا تناسب گلگت میں 72.11 فیصد، غذر میں 58.11 فیصد، کھرمنگ میں 50.97 فیصد، ہنزہ میں 47.69 فیصد، نگر میں 36.52 فیصد، گانچھے اور شگر میں 35.02 فیصد اور دیامر میں 32.44 فیصد رہا۔

انتہائی مایوس کن نتائج کی بنیادی وجوہات میں اساتذہ کی کمی، اسکولوں میں بنیادی سہولیات کا فقدان، غیر معیاری نصاب اور حکومتی پالیسیوں پر عمل درآمد میں سستی شامل ہیں۔ جس پر ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس سے قبل بھی نہم اور دہم کے نتائج مایوس کن رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں حکومت کا گلگت بلتستان میں عالمی معیار کا کوہ پیمائی اسکول قائم کرنے کا اعلان

اگر تعلیمی اصلاحات پر فوری توجہ نہ دی گئی تو یہ بحران مزید سنگین ہوسکتا ہے۔ حکومت تعلیمی اداروں، اساتذہ اور والدین کو مل کر تعلیمی نظام میں بہتری لانے کے لیے عملی اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ گلگت بلتستان کے طلبہ کا مستقبل محفوظ بنایا جا سکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews جماعت پنجم جماعت ہشتم گلگت بلتستان نتائج وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • بھارتی دارالحکومت دہلی کے اسمبلی انتخابات کے لیے پولنگ
  • نئی دہلی کے انتخابات خواتین کے لیے جیک پاٹ، دیگر مسائل انتظار کریں
  • گلگت بلتستان: جماعت پنجم اور ہشتم کے نتائج میں طالبات نے میدان مار لیا
  • ملک اور دہلی کو ترقی یافتہ بنانے میں کانگریس کا اہم رول ہے، دیویندر یادو
  • الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹر پارٹی الیکشن کیس 11 فروری کو سماعت کے لیے مقرر کردیا
  • سندھ اسمبلی نے زرعی انکم ٹیکس بل 2025 اتفاق رائے سے منظور کرلیا
  • سندھ اسمبلی نے سندھ ایگریکلچرل انکم ٹیکس ایکٹ اتفاق رائے سے منظور کرلیا
  • پی ٹی آئی انٹرا پارٹی کیس 11 فروری کو سماعت کیلئے مقرر
  • الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹر پارٹی کیس سماعت کیلئے مقرر کر دیا