سہ فریقی سیریز کیلئے ٹکٹوں کا حصول، کوریئر سینٹرز میدان جنگ میں تبدیل
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
سہ فریقی سیریز کے ٹکٹوں کے حصول کیلئے کوریئر سینٹرز میدان جنگ میں تبدیل ہو گئے۔کراچی اور لاہور میں ٹی سی ایس کے متعدد مراکز پر توڑ پھوڑ کی گئی، یہ مراکز پاکستان نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ کی سہ فریقی ون ڈے سیریز کے آن لائن ٹکٹوں کی فروخت کے لیے قائم کیے گئے تھے۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے ٹی سی ایس کے یہ مراکز شائقین کی سہولت کے لیے قائم کیے تھے جنہیں توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ میں املاک کو نقصان پہنچایا گیا، شیشے توڑ دیئے گئے اور عملے کو بھی زدوکوب کیا گیا تاہم حالات کو کنٹرول کرنے کیلئے پولیس کو طلب کرنا پڑا، ان واقعات کے بعد ان سینٹرز پر کام روک دیا گیا اور ٹکٹوں کی فروخت بھی روک دی گئی ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
مغربی بنگال میں وقف بل کی منظوری کے بعد ہنگامے، مرشد آباد میدانِ جنگ بن گیا
مغربی بنگال میں وقف بل کی منظوری کے بعد ہنگامے، مرشد آباد میدانِ جنگ بن گیا WhatsAppFacebookTwitter 0 14 April, 2025 سب نیوز
بھارت میں مسلم مخالف وقف بل کی منظوری کے بعد مغربی بنگال شدید احتجاج اور کشیدگی کی لپیٹ میں ہے۔ ریاست کے مختلف علاقوں میں مشتعل مظاہرین نے سڑکوں پر نکل کر بل کے خلاف سخت احتجاج کیا، جس کے دوران مرشد آباد میں پرتشدد جھڑپیں ہوئیں۔ ان جھڑپوں میں تین افراد جان کی بازی ہار گئے جبکہ 150 سے زائد مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا۔
پرتشدد مظاہروں کو روکنے کے لیے علاقے میں انٹرنیٹ سروس تاحال معطل ہے، جبکہ سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات ہے۔ صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے مزید گرفتاریاں بھی جاری ہیں۔
بی جے پی حکومت مظاہرین کی آواز دبانے کے لیے سخت اقدامات کر رہی ہے۔ بی جے پی کے رکنِ پارلیمنٹ جیوتیرمے سنگھ مہتو نے وزیر داخلہ امیت شاہ کو خط لکھ کر آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ (AFSPA) نافذ کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ یہ متنازع قانون فورسز کو بغیر وارنٹ گرفتاری، تلاشی اور فائرنگ جیسے غیر معمولی اختیارات فراہم کرتا ہے۔
“کالا قانون” قرار دیے جانے والے اے ایف ایس پی اے کے اطلاق سے ریاست میں مزید کشیدگی بڑھنے کا خدشہ ہے۔ ناقدین نے اس اقدام کو بی جے پی کی جانب سے مغربی بنگال کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی اس قانون کے ذریعے مسلمانوں کو ریاستی جبر کا نشانہ بنا کر ان کی آواز ہمیشہ کے لیے خاموش کرنا چاہتی ہے۔ کیا مذہبی شناخت بھارت میں جرم بن چکی ہے؟ کیا مغربی بنگال میں بنیادی انسانی حقوق پامال کیے جا رہے ہیں؟ یہ سوالات اب بھارت کے جمہوری چہرے پر سنگین دھبے بن کر ابھر رہے ہیں۔