غیرقانونی بھارتی تارکین کو لانے والے امریکی فوجی جہاز کی امرتسر میں لینڈنگ
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
امرتسر: امریکا کا ایک فوجی جہازطیارہ ٓحال ہی میں ملک سے ڈی پورٹ کیے گئے غیرقانونی تارکین کو لے کر بھارت پہنچ گیا ۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق بدھ کو بھارت کے شمالی شہر امرتسر کے ایئرپورٹ پر امریکی فوجی جہاز کو لینڈ کرتے ہوئے دیکھا۔
بھارتی مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ اس جہاز میں 205 افراد کو لایا گیا جب کہ کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ تعداد 105 ہے۔ ان افراد میں سے بیش تر کا تعلق پنجاب اور گجرات سے ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے امیگریشن سے متعلق ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے بڑے پیمانے پر فوجی اڈوں اور طیاروں کو بروئے کار لا رہے ہیں۔
اس سے قبل بھی امریکا سے غیرقانونی طور پر مقیم بھارتی شہریوں کو واپس بھیجا جاتا رہا ہے تاہم اس مقصد کے لیے فوجی جہاز کا استعمال پہلی مرتبہ ہو رہا ہے
رپورٹ کے مطابق ایک سی۔17 طیارہ بھارتی تارکین کو لے کر روانہ ہوا ہے لیکن وہ 24 گھنٹے تک بھارت نہیں پہنچ سکا تھا۔ اس دوران اسے پبلک فلائٹ ٹریکرر کی مدد سے دیکھا بھی نہیں جا سکتا تھا۔
بعد ازاں بدھ کو بھارتی مقامی میڈیا نے اس جہاز کے امرتسر میں لینڈ کرنے کی فوٹیج نشر کی ہے۔
بھارت اور امریکا کے درمیان تارکین وطن کے معاملے پر پہلے بھی بات چیت ہوتی رہی ہے اور اگلے ہفتے واشنگٹن میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ممکنہ ملاقات میں بھی اس پر بات گفتگو متوقع ہے۔
اس سے قبل بھارت نے کہا تھا کہ وہ دستاویزات کی جانچ کے بعد غیرقانونی تارکین کو واپس لے گا۔
دوسری جانب پینٹاگون نے کہا ہے کہ وہ گرفتار کیے گئے 5 ہزار غیرقانونی تارکین کو بے دخل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: تارکین کو فوجی جہاز
پڑھیں:
بھارت کے لمحۂ موجود کا سچ
بھارت نے 2019 میں پاکستان کے ساتھ جھڑپ کے بعد فوجی جدیدکاری کی رفتار تیز کر دی ہے، لیکن نئے ہتھیاروں اور دفاعی شراکت داریوں کے باوجود ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں بھارتی افواج ممکنہ تصادم کے لیے تاحال پوری طرح تیار نہیں ہیں۔ نیویارک ٹائمز کے لیے مجیب مشعل اور سہاسنی راج لکھتے ہیں کہ جب بھارت اور پاکستان کے درمیان مستقل تنائو آخری بار تصادم میں بدلا، تو بھارتی حکام کو ایک تلخ حقیقت کا سامنا کرنا پڑاکہ ملک کی بڑی بھاری بھرکم، فرسودہ فوج سرحدوں پر فوری خطرات سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں تھی۔2019 میں پاکستان کے ہاتھوں بھارتی طیارے کی ہزیمت آمیز تباہی نے بھارت کی جدیدکاری کی کوششوں میں نئی ہنگامی کیفیت پیدا کر دی۔ وزیراعظم نریندر مودی نے فوج پر اربوں ڈالر خرچ کیے، اسلحے کی خریداری کے لیے بین الاقوامی شراکت دار تلاش کیے اور ملک میں دفاعی پیداوار کی صلاحیت بڑھانے کی کوشش کی۔ یہ اقدامات کس حد تک مؤثر ثابت ہوئے ہیں، اس کا جلد ہی امتحان ہو سکتا ہے۔بھارت اور پاکستان ایک اور ممکنہ فوجی تصادم کے دہانے پر ہیں، کیونکہ بھارت نے کشمیر میں ایک مہلک دہشت گرد حملے کا بدلہ لینے کا وعدہ کیا ہے، جس کا الزام وہ پاکستان پر عائد کرتا ہے۔کشیدگی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ بھارت نے پاکستان کی طرف بہنے والے ایک بڑے دریا کے بہائو کو روکنے کی دھمکی دی ہے۔ ایسا قدم جو اس نے ماضی میں دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والی جنگوں کے دوران بھی نہیں اٹھایا تھا۔پاکستان، جو کشمیر حملے میں ملوث ہونے کی تردید کرتا ہے، نے پانی کے بہاؤ روکنے کے فیصلے کو ’’اعلانِ جنگ‘‘ قرار دیا ہے۔ منگل کے روز ایک خوبصورت وادی میں دو درجن سے زائد سیاحوں کے قتل عام نے بھارتی عوام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور وزیراعظم مودی پر پاکستان کے خلاف کارروائی کے لیے شدید اندرونی دبائو بڑھا دیا۔تجزیہ کار خبردار کرتے ہیں کہ سفارتی چینلز کے برسوں پہلے منقطع ہونے اور عالمی طاقتوں کی دیگر بحرانوں میں مصروفیت کے باعث دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان ایک طویل اور خطرناک تعطل پیدا ہو سکتا ہے، لیکن تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت کو احتیاط سے کام لینا ہوگا تاکہ ایک ایسی فوج کو بےنقاب ہونے سے بچایاجاسکے جو ابھی تک تبدیلی کے مراحل میں ہے۔2018 میں ایک پارلیمانی رپورٹ نے بھارت کے 68 فیصد فوجی سازوسامان کو ’’فرسودہ‘‘، 24 فیصد کو موجودہ اور محض 8 فیصد کو جدید ترین قرار دیا تھا۔ پانچ برس بعد، ایک تازہ رپورٹ میں فوجی حکام نے تسلیم کیا کہ اتنے بڑے چیلنج کے باعث خاطر خواہ تبدیلی نہیں آ سکی۔ پارلیمانی گواہی کے مطابق 2023 میں جدید ترین سازوسامان کا تناسب تقریباً دوگنا ہو گیا تھا، لیکن یہ اب بھی ایک جدید فوج کی ضروریات سے بہت کم تھا۔زیادہ تر سازوسامان پرانا ہی رہا۔ماہرین کے مطابق یہ پابندیاں مودی کو ایک زیادہ محدود اور درست کارروائی کی طرف لے جا سکتی ہیں جیسا کہ سرحد کے قریب محدود فضائی حملے یا خصوصی دستوں کے چھاپے، جو عوامی غصے کو کم کر سکیں، شرمناک ناکامیوں کے خطرے کو گھٹا سکیں اور جوابی شدت پسند کارروائی سے بچاجاسکے۔
پاکستانی حکومت نے کسی بھی بھارتی حملے کا بھرپور جواب دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔جہاں عوامی جذبات مودی کو پاکستان پر حملہ کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں، وہیں بھارت کی جمہوریت ان پر یہ دبائو بھی ڈال سکتی ہے کہ صورتحال کو بگڑنے نہ دیا جائے۔ پاکستان میں، جہاں طویل عرصے سے فوجی اسٹیبلشمنٹ پردے کے پیچھے سے حکومت چلاتی رہی ہے، قیادت کو زیادہ کھلی چھوٹ حاصل ہے اور وہ ممکنہ طور پر تصادم کےبڑھنے سے ، زیادہ داخلی فوائد حاصل کر سکتی ہے۔بھارت اپنی عسکری صلاحیت پر پورا اعتماد ظاہر کرتا ہے کہ وہ بآسانی پاکستان کی فوج کو پسپا کر سکتا ہے۔اگریہ دعویٰ آزمائش میں پڑا، تو بھارت کا ایک اورہمسایہ پہلے ہی اسکی تاک میں ہے،یعنی چین۔حالیہ برسوں میں بھارت نے چین کو پاکستان کے مقابلے میں اپنی سرحدوں پر زیادہ فوری چیلنج تصور کیا ہے، خاص طور پر 2020 میں ہمالیہ کی بلندیوں پر دونوں ممالک کے فوجیوں کے درمیان مہلک جھڑپ کے بعد اور بھارتی علاقے میں چینی دراندازیوں کے نتیجے میں۔ملک کی فوجی قیادت کو دو محاذوں پر جنگ کے امکان کے لیے تیار رہنا پڑا ہے، جس کے نتیجے میں بھارت کے وسائل مزید تقسیم ہوئے ہیں۔ چین کے ساتھ 2020کی جھڑپ، پاکستان کے ہاتھوں بھارتی طیارے کی تباہی اور اس کے پائلٹ کی گرفتاری کے ایک سال بعد ہوئی تھی۔دوشیانت سنگھ، ایک ریٹائرڈ بھارتی جنرل جو نئی دہلی میں قائم تھنک ٹینک ’سنٹر فار لینڈ وارفیئر اسٹڈیز‘ کے سربراہ ہیں، کہتے ہیں کہ طیارے کا واقعہ بھارتی فوج کے لیے ایک تنبیہ تھی۔ان کا کہنا ہے کہ اس کے بعد بھارت نے اپنی فوجی خامیوں کو دور کرنے کے لیے ’’متعدد راستوں‘‘ کی تلاش کی۔بھارت نے امریکہ کی مخالفت کے باوجود روس سے حاصل کردہ نئے میزائل دفاعی نظام تعینات کیے، فرانس سے درجنوں لڑاکا طیارے خریدے، اور امریکہ سے ڈرونز، ہیلی کاپٹر اور میزائل حاصل کیے۔ عالمی سپلائی لائنز پر بھروسہ کم ہونے کے ساتھ، بھارت نے اندرونِ ملک فوجی سازوسامان کی پیداوار میں بھی بھاری سرمایہ کاری کی ہے، دفاعی صنعتوں کو فروغ دیا ہے، جو اگرچہ فی الحال سست روی کا شکار ہیں، لیکن طویل مدتی طور پر فوجی صلاحیت کو بہتر بنائیں گی۔دوشیانت سنگھ کا کہنا تھا، ’’ہماری جنگی برداشت ایسی ہونی چاہیے جو ہماری موجودہ صلاحیتوں سے کہیں آگے ہو۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ ’’یہ نتائج یک دم حاصل نہیں ہوں گے۔ انہیں وقت لگے گا۔‘‘ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کی فوجی جدیدکاری میں کئی طرح کے چیلنجز درپیش ہیں۔ بیوروکریسی، مالی مسائل اور جغرافیائی سیاسی پیچیدگیاں۔مودی دفاعی خریداری کے عمل کو ہموار کرنے اور مختلف افواج کے درمیان ہم آہنگی بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ادارہ جاتی رسہ کشی نے اس کام کو مشکل بنا دیا ہے۔یہ صورتحال اس وقت مزید خراب ہو گئی جب 2021 میں وہ کلیدی جنرل جنہیں فوجی اصلاحات کی ذمہ داری دی گئی تھی، ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ہو گئے۔بھارت کی معیشت اب دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت ہے، جو پاکستان کی معیشت سے تقریباً دس گنا بڑی ہے، جس سے فوج کے لیے زیادہ وسائل میسر آئے ہیں۔تاہم، بھارت کا دفاعی بجٹ اب بھی اس کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے 2 فیصد سے کم ہے، جسے فوجی ماہرین ناکافی قرار دیتے ہیں کیونکہ حکومت کو اپنی بڑی آبادی کی بے پناہ ضروریات کو بھی پورا کرنا پڑتا ہے۔