الگ فلسطینی ریاست کے بغیر اسرائیل سے تعلقات قائم نہیں کریں گے. سعودی عرب
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
ریاض/واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔05 فروری ۔2025 )سعودی عرب نے کہا ہے کہ وہ فلسطینیوں کی الگ ریاست کے بغیر اسرائیل سے تعلقات قائم نہیں کرے گا سعودی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ فلسطینیوں سے متعلق ریاض کا موقف غیر متزلزل ہے. بیان میں فلسطینیوں کو ان کی زمین سے بے دخل کرنے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کیا گیا ہے عرب نشریاتی ادارے کے مطابق سعودی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان نے سعودی عرب کے موقف کی واضح اور غیر مبہم انداز میں تصدیق کی ہے جس کی کسی بھی صورت میں کوئی اور تشریح نہیں کی جا سکتی.
(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ ہمیں ٹرمپ کے مقاصد کو دیکھنا ہو گا انہوں نے کہا کہ ہمیشہ کی طرح جب ٹرمپ کوئی سیاسی معاملہ تجویز کرتے ہیں تو اس میں دوستی نبھانا اور ذاتی مقاصد کا حصول شامل ہوتا ہے ٹرمپ اور ان کے داماد جیرڈ کشنر کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اس جگہ کو تفریح گاہوں میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں.
واشنگٹن میں قائم سینٹر فار سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز میں شرق اوسط پروگرام کے سربراہ جون آلٹرمین نے غزہ کے باشندوں کی وہاں سے نکلنے پر رضامندی پر سوال اٹھایا رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ غزہ کے بہت زیادہ باشندے ان فلسطینیوں کی اولاد ہیں جو موجودہ اسرائیل کے بعض حصوں سے فرار ہو گئے تھے اور وہ کبھی اپنے سابقہ گھروں کو واپس نہیں جا سکے تھے انہوں نے کہا کہ مجھے اس پر شک ہے کہ وہ تباہ شدہ پٹی چھوڑنے کے لیے تیار ہوں گے. ادھر آسٹریلوی وزیر اعظم انتھونی البانیز نے دو ریاستی حل کی پاسداری پر زور دیتے ہوئے کہا کہ غزہ پر ان کے ملک کا موقف تبدیل نہیں ہوا قبل ازیں گذشتہ روز ٹرمپ نے اردن اور مصر سے ایک بار پھر غزہ کے مکینوں کو قبول کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہاں کے فلسطینیوں کے پاس ساحلی پٹی چھوڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں جبکہ حماس کے خلاف اسرائیل کی تقریباً 16 ماہ تک جاری رہنے والی تباہ کن جنگ کے بعد اس کی تعمیرنو ہو رہی ہے تاہم اس بار انہوں نے اپنی سابقہ تجاویز سے آگے بڑھ کر زور دیا کہ وہ فلسطینیوں کی مستقل آباد کاری کی حمایت کریں گے ان کی سابقہ تجویز تمام عرب ممالک نے سختی سے مسترد کر دی تھی. غزہ کے مکینوں کی جبری نقل مکانی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور نہ صرف خطے میں بلکہ واشنگٹن کے مغربی اتحادیوں کی طرف سے بھی اس کی شدید مخالفت ہو گی غزہ کے بارے میں صدر ٹرمپ کی تجویز ان کے گرین لینڈ اور پاناما نہر پر کنٹرول حاصل کرنے اور اسے خریدنے کے بعد سامنے آئی ہے انہوں نے ایک سے زیادہ بار اعلان کیا کہ کینیڈا کو امریکہ کی 51 ویں ریاست ہونا چاہیے.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ فلسطینی ریاست ریاست کے نہیں کر غزہ کے
پڑھیں:
اسرائیلی وزیرِ اعظم صدر ٹرمپ سے آج ملاقات کریں گے، متعدد موضوعات پر بات چیت متوقع
اسرائیلی وزیرِ اعظم صدر ٹرمپ سے آج ملاقات کریں گے، متعدد موضوعات پر بات چیت متوقع —
اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو منگل کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کر رہے ہیں جس میں فلسطینی عسکریت پسند تنطیم حماس کے خلاف لڑائی میں جنگ بندی، غزہ سے یرغمالوں کی رہائی اور خطے میں مستقبل کے تعلقات متوقع طور پر اہم موضوعات ہوں گے۔
وائٹ ہاوس میں یہ ملاقات ایک ایسے وقت پر ہورہی ہے جب اسرائیل اور حماس امریکہ، مصر اور قطر کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی معاہدے کے اگلے مرحلے پر مذاکرات کرنے والے ہیں جن میں جنگ کا مکمل طور پر خاتمہ اور اسرائیل سے اکتوبر 2023 میں اغوا کیے گئے تمام یرغمالوں کی واپسی مرکزی نکات ہوں گے۔
صدر ٹرمپ کے ساتھ بات چیت سے قبل نیتن یاہو نے کہا ہے کہ وہ حماس کے خلاف جنگ، ایرانی جارحیت سے مقابلہ کرنے اور عرب ملکوں کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے پر تبادلہ خیال کریں گے۔
واضح رہے کہ صدر ٹرمپ اسرائیل کے مضبوط حامی ہیں۔ انہوں نے اپنی الیکشن مہم کے دوران مشرق وسطیٰ میں جنگوں کے خاتمے کا وعدہ کیا تھا۔ ٹرمپ نے کہا ہے کہ انہوں نے اسرائیل اور حماس میں جاری جنگ بندی کا معاہدہ کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔
واشنگٹن کے دورے کے پہلے روز نیتن یاہو صدر ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے لیے ایلچی اسٹیو وٹکوف سے ملاقات کر رہے ہیں۔نیتن یاہو کے دفتر نے کہا تھا کہ وہ اور وٹکوف اسرائیل کی جنگ بندی کے موقف پر بات کریں گے۔
چھ ہفتوں پر محیط جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے دوران حماس نے اسرائیل کے زیر حراست سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کے بدلے 18 یرغمالوں کو رہا کر دیا ہے۔
اس دوران، حماس، جسے امریکہ اور کچھ مغربی ملکوں نے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہوا ہے، غزہ پر تیزی سے اپنا کنٹرول بحال کر رہی ہے۔جنگ کے دوران اسرائیل نے کہا تھا کہ وہ حماس کو غزہ پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے نہیں دے گا۔
حماس کے عسکریت پسندوں نے کہا ہے کہ وہ جنگ کے خاتمے اور بحیرہ روم کے ساحل پر واقع تنگ علاقے سے اسرائیلی افواج کے مکمل انخلاء کے بغیر جنگ بندی کے دوسرے مرحلے میں مزید یرغمالوں کو رہا نہیں کریں گے۔
اپنے پہلے دور حکومت میں ٹرمپ نے اسرائیل اور چارعرب ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے ’’ابراہم معاہدوں ‘‘ میں ثالثی کی تھی۔ اور وہ اب ایک ایسےوسیع تر معاہدے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں اسرائیل سعودی عرب کے ساتھ تعلقات معمول پر لے آئے ۔
تاہم، ریاض نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کے معاہدے پر راضی ہونے کے لئے چاہتا ہے کہ غزہ میں جنگ ختم ہو اور غزہ، مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں ایک فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے قابل اعتبار راستہ موجود ہو۔ یاد رہے کہ اسرائیل نے 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں ان علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔
ادھر اسرائیل کے اندر نیتن یاہو کو دائیں بازو کے حکومت کے شراکت داروں کی جانب سے مارچ کے شروع میں جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے اختتام پر حماس کے خلاف دوبارہ لڑائی شروع کرنے کا دباو ہے۔
واشنگٹن فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرتا آرہا ہے لیکن نیتن یاہو کی حکومت اس کی مخالفت کرتی ہے۔
اگرچہ غزہ کی جنگ بندی دو ہفتوں سے جاری ہے، اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے میں کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ اتوار کے روز، فوج نے کہا کہ وہ غیر مستحکم شہر جینین پر مرکوز ایک آپریشن کو تمون نام کے قصبے تک بڑھا رہی ہے۔
غزہ جنگ کے حوالے سے نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اسرائیل اب بھی حماس پر مکمل فتح حاصل کرنے اور اکتوبر 2023 میں عسکریت پسندوں کے حملے میں اغوا کیے گئے تمام یرغمالوں کی واپسی کے لیے پرعزم ہے۔
اسرائیلی حکام کے مطابق حماس کے دہشت گرد حملے میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ جنگجووں نے 250 افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔
سات اکتوبر 2023 کےحملے سے شروع ہونے والی 15 ماہ کی جنگ کے دوران اسرائیل کی جوابی کارروائیوں میں حماس کے زیر انتظام غزہ کے صحت کے حکام کے مطابق 47,400 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے نصف سے زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں 17000 عسکریت پسند بھی شامل ہیں۔ تاہم ، اسرائیل نے اس بارے میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا ہے۔
(اس رپورٹ میں کچھ معلومات اے پی اور رائٹرز سے لی گئی ہیں)