ٹرمپ کی فسطائیت؛ امریکا سے تارکین وطن کو گوانتانا موبے بھیجا جا رہا ہے
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
امریکی جیلوں سے مختلف جرائم میں قید تارکین وطن کو بدنام زمانہ گوانتانا موبے جیل منتقل کرنے کے لیے پہلی پرواز روانہ ہوگئی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکا سے خصوصی فوجی طیارے میں ایک درجن سے زائد تارکین وطن قیدیوں کو گوانتاناموبے منتقل کیا جا رہا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ مختلف جیلوں میں قید 30 ہزار سے تارکینِ وطن کو بدنام زمانہ گوانتا موبے کے حراستی مرکز میں رکھا جائے۔
جس کے لیے کیوبا میں موجود امریکی بحری اڈے پر ہزاروں تارکین وطن کو رکھنے کی تیاری جا ری ہے۔
قبل ازیں بتایا گیا تھا کہ ٹیکساس، ایل پاسو اور کیلیفورنیا کے شہر سان ڈیاگو کی جیلوں میں زیر حراست 5 ہزار سے زائد تارکین وطن کو ملک بدر کیا جائے گا۔
علاوہ ازیں تارکین وطن قیدیوں کو ایل سلواڈور بھیجنے کا بھی امکان ہے جس کے لیے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ایل سلواڈور کے نائب صدر سے گفتگو بھی کی ہے۔
خیال رہے کہ امریکی صدر کے حکم پر تارکین وطن کو ان کے ملک واپس بھیجا جا رہا ہے تاہم جیلوں میں قید تارکین وطن کو ان کے ممالک بھی لینے کو تیار نہیں ہیں۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: تارکین وطن کو
پڑھیں:
امریکا کا عربی چینل الحرہ بند، ٹرمپ انتظامیہ نے فنڈنگ روک دی
واشنگٹن: ٹرمپ انتظامیہ نے امریکی حکومت کے زیرِ سرپرستی چلنے والے عربی زبان کے ٹی وی چینل "الحرہ" کی فنڈنگ روک دی ہے، جس کے بعد چینل نے نشریات بند کرنے اور بیشتر عملہ فارغ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
"الحرہ" کی بنیاد 2004 میں اس وقت رکھی گئی تھی جب امریکہ نے عراق جنگ کے دوران قطر کے چینل الجزیرہ کی خبروں سے ناراض ہو کر اپنا نکتہ نظر پیش کرنے کے لیے یہ چینل شروع کیا۔
یہ فیصلہ ایلون مسک کی قیادت میں کیے جانے والے بجٹ کٹوتیوں کے بڑے منصوبے کا حصہ ہے۔ مارچ میں ٹرمپ انتظامیہ نے اعلان کیا تھا کہ تمام سرکاری میڈیا اداروں کی فنڈنگ بند کر دی جائے گی۔
اس سے پہلے وائس آف امریکہ (VOA) بھی اس کٹوتی کا شکار ہو چکا ہے، جہاں ملازمین نے عدالت سے رجوع کر لیا ہے۔
اب "الحرہ" روایتی نشریات بند کر دے گا، البتہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر چند درجن افراد کے عملے کے ساتھ کام جاری رکھنے کی کوشش کرے گا۔
یہ چینل 22 ممالک میں ہفتہ وار 30 ملین ناظرین تک پہنچنے کا دعویٰ کرتا ہے، تاہم ہمیشہ سے اسے الجزیرہ، العربیہ اور اسکائی نیوز عربیہ جیسے بڑے چینلز سے سخت مقابلے کا سامنا رہا ہے۔