کشمیر: تعمیراتی تکنیک کی تبدیلی نے گھروں کو سرد کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 05 فروری 2025ء) وادئی کشمیر جو کہ سردیوں کے دوران خوبصورتی کا ایک الگ منظر پیش کرتی ہے، برف باری کے دوران سفید چادر سے ڈ ھک جاتی ہے۔ روزمرہ کی زندگی کی رفتار سست پڑجاتی ہے۔ درجہ حرارت دسمبر سے ہی صفر سے کئی ڈگری نیچے گرتا ہے اور فروری کے آخر تک یہاں منجمد درجہ حرارت ہی رہتا ہے۔ کشمیر میں مسلسل پانچ مہینوں تک سردیاں رہتی ہیں۔
اکیس دسمبر سے اکتیس جنوری تک کے چالیس دن سب سے زیادہ سرد ہوتے ہیں جنہیں ''چلئ کلان‘‘ کہا جاتا ہے۔چلئی کلان کے دوران لوگ شدید سردی سے بچنے کے لیے زیادہ تر وقت گھر کے اندر گزارتے ہیں۔ گھر کو گرم رکھنے کے لیے بجلی اور گیس کے ہیٹر استعمال کیے جاتے ہیں۔ زیادہ تر گھروں میں 'حمام‘ کو لکڑی کی آگ سے گرم کیا جاتا ہے،جہاں گھر کے ارکان ایک ساتھ بیٹھ کر سیاسی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے خشک سبزیوں سے بنے پکوان اور میوہ جات کے ذائقے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
(جاری ہے)
دراصل حمام ایک کمرہ ہوتا ہے، جس میں لکڑی سے آگ جلانے کے لیے گڑھا کھودا جاتا ہے۔ جس کے اوپر پتھر کی موٹی، ہاتھ سے تراشی ہوئی سلیب ہوتی ہے، جو گرمی فراہم کرتی ہے۔حمام کا فرش ایک مخصوص پتھر سے تعمیر کیا جاتا تھا، جسے کشمیری زبان میں ''دیوری کن‘‘ کہا جاتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ حمام کو کشمیر میں مغلوں نے متعارف کرایا تھا۔
سردیوں میں کشمیریوں کی زندگی کی محافظ ' کانگڑی‘
چند عشروں پہلے جب کشمیر میں سردیاں حالیہ دور کے مقابلے میں کہیں زیادہ سخت ہوتی تھیں اور گیس یا بجلی کے ہیٹر دستیاب نہیں تھے، تو سارا گھر ایک چولہے کی تپش سے گرم ہو جاتا تھا کیونکہ گھروں کی تعمیر کشمیر کے موسمی حالات کے مطابق کی جاتی تھی۔ان کی تعمیر میں لکڑی، اینٹیں اور مٹی کا استعمال کیا جاتا تھا۔
مٹی کی ایک اہم خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس سے بنی دیواروں چھتوں اور فرش پر مشتمل گھر گرمیوں میں ٹھنڈے اور سردیوں میں گرم رہتے ہیں۔لیکن 1970 کی دہائی میں کشمیر میں گھروں کی تمیر کا کام کرنے والے ماہرین نے اپنے مقامی طرزِ تعمیر ترک کر کے گھروں کے جدید طرزِ تعمیرکو اپنا لیا جس میں لوہا، اسٹیل، ماربل، اور سیمنٹ استعمال کیا جاتا ہے۔
اس جدید تعمیراتی فن نے کشمیر کے قدیم ثقافتی فن تعمیر کو نہ صرف بدل ڈالا بلکہ موسم کے اعتبار سے اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔کشمیر کا سرد موسم اور مقامی آبادی کی حالت زار
کشمیر کے فن تعمیر پر سن 1992 میں فن تعمیر کے مورخ رینڈولف لانگن باخ ایک مقالے میں تحریر کیا تھا کہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ نئے مکانات سردیوں میں ان کچے مکانوں سے بھی زیادہ ٹھنڈے ہوتے ہیں، جن میں حمام نہیں ہوتے تھے۔
جرنل آف ایمبیئنٹ انرجی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کشمیر میں جدید گھروں کی کھڑکیوں اور دروازوں کو اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ وہ سردی کو روکنے میں غیر موثر ثابت ہوئے ہیں۔
معروف کشمیری مورخ اور اردو ادیب زریف احمد زریف، جنہوں نے کشمیری مکانات کی جدید کاری پر متعدد نظمیں لکھی ہیں، کہتے ہیں''پرانے زمانے میں لکڑی کے مکانات تازہ ہوا سے بھرپور ہوتے تھے، جس سے ہماری اداس روحوں کو تازگی ملتی تھی۔
ان گھروں کی تعمیر کشمیر کے موسمی حالات کے مطابق ہوتے تھی۔ دیواریں مٹی، اینٹوں اور لکڑی سے بنی ہوتی تھیں، جو سردیوں میں گرمی اور گرمیوں میں سردی فراہم کرتی تھیں۔ اس گھر کا ایک اور فائدہ یہ تھا کہ ہم گھر کے اوپر مٹی سے بنی چھت پر پھول اور جڑی بوٹیاں اگاتے تھے۔‘‘زریف کا خیال ہے کہ سیمنٹ سے بنے مکانات نہ صرف کشمیر میں پھیپھڑوں کی بہت سی بیماریاں کا باعث بنے ،بلکہ بہت سی ہلاکتوں کے ذمہ دار بھی ہیں، جو کہ دم گھٹنے کی وجہ سے ہوئیں۔
روایتی کشمیری گھر اس طرح بنائے گئے تھے کہ سورج کی روشنی کو جذب کرنے کے لیے ان کا رخ جنوب کی طرف تھا- گھر میں داخل ہونے کے لیے ایک دروازہ اور لکڑی کی کھڑکیوں کی قطاریں ہوتی تھیں۔ ان کھڑکیوں کے اندر چھوٹے چھوٹے رنگ کے آئینے لگائے جاتے تھے جس سے فن تعمیر کی خوبصورتی میں اضافہ ہوتا تھا۔ اینٹوں کی موٹی دیواروں کو اندر سے کیچڑ سے پلستر کیا جاتا تھا جس کی وجہ سے شدید سردی اس کے اندر داخل ہی نہیں ہو پاتی تھی لیکن جیسے جیسے فن تعمیر میں وادی کا ذائقہ بدلتا گیا، گھر ٹھنڈے ہوتے چلے گئے۔
لکڑی کے گھروں کا ایک اور فائدہ یہ تھا کہ یہ زلزلوں کے دوران یہ کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان کی دیواریں لکڑی کی بنی ہوئی تھیں جو زلزلوں کے دوران خمیدہ ہو جاتی تھیں لیکن گرتی نہیں تھیں۔
بلال احمد، جنہوں نے 90 کی دہائی میں کشمیر کے کپواڑہ ضلع میں ایک لکڑی کے گھر میں اپنے خاندان کے ساتھ بچپن گزارا، کہتے ہیں،''ہمارا گھر دیودار کی لکڑی سے بنا تھا اور سخت سردی میں پورے گھر کو صرف ایک چولہے سے گرم رکھا جاتا تھا، جوکہ کشمیر میں (بخاری) کہلاتا ہے۔
‘‘کشمیر کے پرانے قصبوں میں لکڑی کے کچھ گھر اب بھی موجود ہیں جو اس خطے کی تاریخ، رسم و رواج اور ثقافت کی عکاسی کرتے ہیں۔
احمد، جو اب گھر سے بہت دور لندن میں رہتے ہیں، مایوسی کے ساتھ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ لکڑی کے گھر ہماری ثقافت کا حصہ تھے، لیکن بدقسمتی سے جیسے ہی ہم سیمنٹ کے گھروں میں چلے گئے، ہم نے یہ قیمتی ورثہ کھو دیا۔
عاقب فیاض/ ک م
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سردیوں میں کیا جاتا گھروں کی کے دوران کشمیر کے ہوتے ہیں جاتا تھا جاتا ہے کے گھر کے لیے
پڑھیں:
جھارکھنڈ کے ہو قبیلے میں شادی کی انوکھی رسم: دلہن بارات لے کر آتی ہے اور جہیز بھی لیتی ہے
جھارکھنڈ: بھارت کے جھارکھنڈ ریاست میں آدیواسی ’ہو‘ قبیلے کی شادیوں میں ایک نرالی اور منفرد روایت ہے، جہاں عموماً مردوں کی جگہ خواتین کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ یہاں، دولہا بارات لے کر نہیں آتا بلکہ دلہن اپنے خاندان کے ساتھ بارات لے کر آتی ہے اور شادی کے بعد وہ جہیز بھی دولہا سے ہی وصول کرتی ہے۔
’ہو‘ قبائل کے رکن ہیرا کے مطابق، ان کی ثقافت میں دولہا نہیں بلکہ دلہن کو جہیز دیا جاتا ہے اور شادی کے بعد بارات واپس چلی جاتی ہے، مگر دلہن اپنے شوہر کے گھر ہی رہتی ہے۔ لڑکے کے خاندان کو دلہن کے خاندان کو بیل، گائے اور نقد رقم دینی ہوتی ہے، اس رسم کو ’گونونگ‘ کہا جاتا ہے۔
ہیرا کا کہنا ہے کہ ان کے آبا اجداد کا ماننا تھا کہ لڑکیوں کو لڑکوں سے زیادہ عزت دی جانی چاہیے، یہی وجہ ہے کہ یہاں خواتین کو دیوی کی طرح پوجا جاتا ہے اور ان کو زندگی دینے والی طاقت تصور کیا جاتا ہے۔