غزہ پٹی کا کنٹرول امریکی ’ملکیت‘ میں، ٹرمپ کی تجویز
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 05 فروری 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ غزہ سے فلسطینیوں کو ’’مستقل طور پر‘‘ کہیں اور آباد کیا جا سکتا ہے اور امریکہ اس علاقے پر کنٹرول حاصل کر کے اسے اپنی ملکیت میں لے سکتا ہے۔
انہوں نے یہ باتیں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دورہ واشنگٹن کے موقع پر مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کیں، جو ٹرمپ کی اقتدار میں واپسی کے بعد وائٹ ہاؤس کا دورہ کرنے والے پہلے غیر ملکی رہنما ہیں۔
عرب ممالک کا غزہ سے فلسطینیوں کی مجوزہ بےدخلی کے خلاف خط
ٹرمپ اور نیتن یاہو نے کیا کہا؟مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران نیتن یاہو کے ساتھ بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ غزہ پٹی کی ’’ملکیت‘‘ حاصل کرے گا۔
(جاری ہے)
انہوں نے کہا، ’’امریکہ غزہ پٹی پر قبضہ کر لے گا اور ہم اس کے ساتھ ایک کام بھی کریں گے۔
ہم اس کے مالک بن جائیں گے۔ اور خطے میں موجود تمام خطرناک اور ان پھٹے بموں اور دیگر ہتھیاروں کو ختم کرنے کے ذمہ دار ہوں گے۔‘‘ٹرمپ نے علاقے میں واشنگٹن کے کردار کو ’’طویل المدتی ملکیت کی پوزیشن‘‘ کے طور پر بیان کیا۔ ٹرمپ نے غزہ کو ’’ترقی‘‘ دینے کا وعدہ کیا اور کہا کہ سعودی عرب بھی اس میں ’’مددگار‘‘ ہو گا۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ واشنگٹن نے مقبوضہ مغربی کنارے پر اسرائیلی خود مختاری تسلیم کرنے کے حوالے سے ابھی تک کوئی پوزیشن نہیں لی، تاہم امکان ہے کہ وہ اگلے ماہ اس بارے میں کوئی اعلان کریں گے۔
جنگ بندی کے دو ہفتے بعد غزہ میں امدادی کارروائیاں عروج پر
صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ ایران کے ساتھ بھی معاہدہ کرنا پسند کریں گے لیکن اس بات پر زور دیا کہ واشنگٹن تہران کو جوہری ہتھیار تیار کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دے گا۔
اسی پریس کانفرنس کے دوران نیتن یاہو نے ’’وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کو اسرائیل کا اب تک کا سب سے بڑا دوست‘‘ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ اسرائیل سعودی عرب کے ساتھ امن معاہدہ کر لے گا۔ ان کا کہنا تھا، ’’میرے خیال میں اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان امن نہ صرف ممکن ہے، بلکہ میرے خیال میں تو ایسا ہونے والا ہے۔
‘‘" ٹرمپ کا غزہ کے فلسطینیوں کو ’مستقل طور پر‘ کہیں اور آباد کرنے کا مشورہڈونلڈ ٹرمپ نے پریس کانفرنس کے دوران یہ بھی کہا کہ فلسطینیوں کو غزہ سے کسی اور مقام پر منتقل کیا جا سکتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں نیتن یاہو سے ملاقات کے دوران ٹرمپ نے کہا، ’’میں اس بات کی توقع کرتا ہوں کہ ہم واقعی کچھ بہتر اور اچھا کر سکتے ہیں، جہاں سے وہ واپس نہیں آنا چاہیں گے۔
‘‘ انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کو ’’مستقل طور پر‘‘ کہیں اور آباد کیا جا سکتا ہے۔ٹرمپ نے غزہ کے علاقے کو ’’مسمار شدہ جگہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ آخر ’’وہ (فلسطینی) واپس کیوں آنا چاہیں گے؟ یہ جگہ تو جہنم جیسی رہی ہے۔‘‘
نیتن یاہو کا دورہ امریکہ، غزہ جنگ بندی کے دوسرے مرحلے پر بات چیت متوقع
امریکی صدر کا مزید کہنا تھا، ’’آپ اس وقت غزہ میں رہ ہی نہیں سکتے۔
اس سے پہلے صدر ٹرمپ نے ایک منصوبہ تجویز کیا تھا، جس میں بے گھر فلسطینیوں کو غزہ سے باہر اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک جیسے کہ مصر اور اردن میں منتقل کیا جانا شامل تھا۔ البتہ قاہرہ اور عمان دونوں ہی اس تجویز کو یکسر مسترد کر چکے ہیں۔
فلسطینیوں کی نقل مکانی پر ’مشرق وسطیٰ کے ممالک سے بات چیت‘ کا دعویٰنیوز کانفرنس کے دوران ٹرمپ نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ انہوں نے مشرق وسطیٰ کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ غزہ سے فلسطینیوں کی نقل مکانی کی تجویز پر تبادلہ خیال کیا ہے اور یہ دعویٰ بھی کیا کہ ان کے خیال میں ’’وہ اس سوچ کے حامی بھی ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’دوسرے رہنما اس خیال کو پسند کرتے ہیں۔
‘‘جنگ بندی ڈیل کے تحت مزید تین یرغمالیوں کی رہائی ہفتے کو
حیران کن بات یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کے اس بیان سے محض ایک دن قبل ہی پانچ عرب ممالک کے وزرائے خارجہ اور ایک سینیئر فلسطینی اہلکار نے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کو ایک مشترکہ مکتوب بھیجا تھا، جس میں غزہ سے فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کے کسی بھی منصوبے کی مخالفت کی گئی ہے۔
اس مکتوب پر اردن، مصر، سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ اور فلسطینی صدر کے مشیر حسین الشیخ کے بھی دستخط ہیں۔ قبل ازیں امریکی میڈیا ادارے ایکزیئس نے اس کی اطلاع دی تھی اور بتایا تھا کہ گزشتہ ویک اینڈ پر قاہرہ میں اعلیٰ سفارت کاروں کی ایک میٹنگ کے بعد اس ’’زبردستی نقل مکانی‘‘ کے خلاف سخت علاقائی مخالفت کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
غزہ سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنا 'ناقابل قبول'، جرمن چانسلر
سعودی عرب کا فلسطینیوں کی ’آزاد ریاست‘ کے قیام پر اصرارٹرمپ اور نیتن یاہو کی اس مشترکہ پریس کانفرنس کے فوری بعد سعودی عرب نے کہا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اس وقت تک تعلقات پر راضی نہیں ہوگا، جب تک مشرقی یروشلم کے ساتھ ایک فلسطینی ریاست قائم نہیں کی جاتی۔
ریاض میں سعودی وزارت خارجہ نے ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں کہا، ’’سعودی عرب ایک ایسی آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے اپنی انتھک کوششیں جاری رکھے گا، جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو، اور اس کے بغیر سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہیں کرے گا۔‘‘
اس بیان میں کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے ریاض کا موقف ’’غیر متزلزل‘‘ اور ’’ناقابل گفت و شنید‘‘ ہے۔
اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سعودی مملکت ’’فلسطینی باشندوں کو ان کی سرزمین سے بے گھر کرنے کی کوششوں کو مسترد کرتی ہے۔‘‘شمالی غزہ کے بے گھر فلسطینی واپسی کے بعد بھی بے گھر
یہ بیان اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے اس اعتماد کے اظہار کے بعد سامنے آیا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات بہت ہی جلد معمول پر آ جائیں گے۔
جب ٹرمپ سے یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا سعودی عرب فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کر رہا ہے، تو اوول آفس میں نیتن یاہو کے ساتھ بیٹھے ہوئے ٹرمپ نے جواب دیا: ’’نہیں، وہ تو نہیں کر رہے ہیں۔‘‘
اسی پر ریاض حکومت نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا، ’’سعودی عرب کی بادشاہت اس بات پر زور دیتی ہے کہ یہ غیر متزلزل موقف ناقابل گفت و شنید ہے اور اس پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔
دیرپا اور منصفانہ امن کا حصول فلسطینی عوام کے بین الاقوامی قراردادوں کے مطابق جائز حقوق کے حصول کے بغیر ناممکن ہے۔ اس سے قبل بھی سابق اور موجودہ امریکی انتظامیہ دونوں پر یہ بات واضح کی جا چکی ہے۔‘‘مزید اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی پر اتفاق، بے گھر فلسطینی شمالی غزہ میں واپس گھروں کی طرف
غزہ جنگ بندی سے متعلق مذاکراتمنگل کی ملاقات کے دوران دونوں رہنماؤں نے غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان موجودہ جنگ بندی کی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
نیتن یاہو کے واشنگٹن پہنچنے سے قبل ہی ان کے دفتر نے اعلان کیا تھا کہ وہ اس ہفتے کے آخر میں دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کے نئے دور میں شرکت کے لیے ایک اسرائیلی وفد وہاں بھیجیں گے۔
نیتن یاہو نے مشرق وسطیٰ کے لیے ٹرمپ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف سے ملاقات کی جس کے بعد جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ’’اسرائیل اس ہفتے کے آخر میں دوحہ روانہ ہونے کے لیے ورکنگ لیول کے ایک وفد کی تیاری کر رہا ہے، تاکہ معاہدے کے مسلسل نفاذ سے متعلق تکنیکی تفصیلات پر بات چیت کی جا سکے۔
‘‘یہ اعلان حماس کے ایک حالیہ بیان کے بعد سامنے آیا، جس میں اس نے امریکہ، مصر اور قطر کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات میں شمولیت کے لیے اپنی تیاری کی تصدیق کی تھی۔
ص ز/ ج ا، م م (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے مشترکہ پریس کانفرنس کے پریس کانفرنس کے دوران غزہ سے فلسطینیوں فلسطینیوں کی فلسطینیوں کو نیتن یاہو کے انہوں نے کہا کیا جا سکتا نے کہا کہ خیال میں کے ساتھ سکتا ہے بے گھر کے لیے کے بعد اس بات
پڑھیں:
سعودی عرب نے ٹرمپ کا غزہ پر قبضے کا بیان مسترد کردیا
سعودی عرب نے ٹرمپ کی غزہ سے متعلق تجاویز کو مسترد کردیا، فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں آسکتے۔
سعودی عرب نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غزہ سے متعلق تجاویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں آسکتے۔
غیر ملکی ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کا یہ رد عمل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان پر سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ غزہ کے رہائشیوں کو مصر یا اردن منتقل ہو جانا چاہیے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر امریکا کے قبضے کے بارے میں حالیہ بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے سعودی عرب نے فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کرنے پر زور دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی صدر نے غزہ پر قبضہ کرنے کا اعلان کردیا، ہم اس کے مالک ہوں گے، ٹرمپ
ایک بیان میں سعودی حکومت نے کہا کہ وہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کرے گی۔
یاد رہے کہ آج وائٹ ہاؤس میں صہیونی ریاست اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئےامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطین کی محصور اور اسرائیل کے ہاتھوں تباہ کی گئی پٹی غزہ پر قبضہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ امریکا غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لے گا اور ہم اس کے مالک ہوں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ غزہ پر قبضہ کرکے ہم اسے مستحکم کریں گے اور یہاں ملازمتوں کے مواقع پیدا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں طویل مدتی ملکیت کی پوزیشن دیکھ رہا ہوں، ہم غزہ پر قبضہ کرکے اسے ترقی یافتہ بنائیں گے، جس سے علاقے کے لوگوں کو ملازمتیں ملنے کے ساتھ دوسرے شہریوں کو بسنے کا موقع بھی ملے گا۔
امریکی صدر نے مزید کہا کہ فلسطینیوں کو اردن اور مصر میں بسایا جائے گا، اب دیکھنا ہے کہ اردن اور مصر کے رہنماؤں کا ردعمل کیا ہوتا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ خطے کے دیگر رہنماؤں کو اس منصوبے سے متعلق بتایا، جسے انہوں نے پسند کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کے پاس غزہ چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ہمسایہ ممالک اردن اور مصر بے گھر فلسطینیوں کو اپنی پناہ میں لے لیں۔