Daily Ausaf:
2025-04-15@06:28:10 GMT

قرآن کریم پڑھنے کے سات مقاصد

اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
اس سلسلہ میں اس بات پر غور کر لیجئے کہ رحمتیں اور برکتیں لے کر فرشتے آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے یہ کام عالم اسباب کے درجے میں انہی کے سپرد کر رکھا ہے، مگر ہمارے گھروں کا ماحول فرشتوں کی آمد و رفت کے لیے سازگار نہیں ہے۔ فرشتے وہاں آتے ہیں جہاں قرآن کریم کی تلاوت ہوتی ہے، جہاں نماز پڑھی جاتی ہے، ذکر و اذکار کا ماحول ہوتا ہے، درود شریف پڑھا جاتا ہے اور خیر کے اعمال ہوتے ہیں۔ جناب نبی اکرمؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’البیت الذی لیس فیہ القرآن کالبیت الخرب‘‘ وہ گھر جس میں قرآن کریم کی تلاوت نہیں ہوتی وہ ویران گھر کی طرح ہے۔ دوسری حدیث میں جناب نبی اکرمؐ فرماتے ہیں کہ ’’صلوا فی بیوتکم ولا تجعلوھا قبورا‘‘ گھروں میں بھی نماز پڑھا کرو اور انہیں قبرستان نہ بناؤ۔ گویا گھروں کی آبادی نماز اور تلاوت قرآن کریم سے ہے، اور جن گھروں میں نماز اور تلاوت کا معمول نہیں ہے وہ آباد گھر نہیں ویران اور اجڑے ہوئے گھر اور قبرستان ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہمارے گھروں میں عام طور پر اس کا معمول نہیں رہا اس لیے فرشتوں کا آنا جانا بھی نہیں رہا۔
اس کے برعکس ہمارے گھروں میں جو کچھ ہوتا ہے اس پر بھی ایک غیبی مخلوق کی آمد و رفت رہتی ہے، جو فرشتے بہرحال نہیں ہیں، وہ مخلوق جن و شیاطین کی ہے۔ وہ آتے ہیں تو اپنے اثرات لے کر آتے ہیں اور اپنی نحوستیں چھوڑ کر جاتے ہیں۔ شیاطین کی نحوستیں کس قسم کی ہوتی ہیں اس پر جناب نبی اکرمؐ کا ایک ارشاد گرامی سن لیجئے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ شیاطین کا ایک پورا نظام ہے جو دنیا میں کام کر رہا ہے اور دنیا کے مختلف اطراف میں شیاطین کی بڑی تعداد ہر وقت کام کرتی ہے اور بڑے شیطان کو اس کی رپورٹ بھی پیش کرتی ہے، جو پانی پر تخت بچھائے ہوئے ہے اور اپنے شیطانی نیٹ ورک کے کام کی نگرانی کرتا رہتا ہے۔ فرمایا کہ شیطان اپنے جس کارندے کو سب سے بڑی شاباش دیتا ہے اور اس کی پیٹھ تھپتھپاتا کر اسے سینے سے لگاتا ہے، اسے اس بات پر شاباش ملتی ہے کہ وہ کسی گھر میں جھگڑے کا ایسا ماحول پیدا کر دے کہ میاں بیوی میں طلاق ہو جائے، کسی گھر میں طلاق کا ہو جانا شیطان کے نزدیک اس کے کسی کارندے کا سب سے اچھا عمل ہوتا ہے جس پر وہ بہت خوش ہوتا ہے۔
ظاہر ہے کہ ہمارے گھروں میں شیطانوں کی آمد و رفت ہو گی تو اسی طرح کی بے برکتی اور نحوست ہو گی اور اسی بے اتفاقی اور بے اعتمادی کا دور دورہ ہو گا۔ اس کا حل صرف یہ ہے کہ ہم اپنے گھروں میں شیاطین کی آمد و رفت کو روکیں اور فرشتوں کی آمد و رفت کا ماحول بنائیں جو قرآن کریم کی تلاوت اور نماز و ذکر کی کثرت سے بنے گا۔ ایک مثال سے بات سمجھ لیجئے کہ میرا گھر اگر صاف ستھرا ہے، غسل خانے اور نالیوں میں صفائی ہے، گھر کے صحن میں کیاری موجود ہے جس میں پھول کھلے ہوئے ہیں، ظاہر ہے کہ اس ماحول میں بلبل آئے گی، تتلیاں آئیں گی، جگنو آئیں گے۔ لیکن اگر میرے گھر میں صفائی نہیں ہے، غسل خانہ اور نالیاں گندی ہیں اور کوڑا کرکٹ ہر طرف بکھرا ہوا ہے تو مکھیاں بھنبھنائیں گی، مینڈک ٹرائیں گے، مچھروں اور کاکروچوں کا ہر طرف بسیرا ہو گا، اس پر میں یہ کہنا شروع کر دوں کہ کسی نے کچھ کر دیا ہے اور سارے محلے کے کاکروچ اکٹھے کر کے میرے گھر میں بھیج دیے ہیں تو کس قدر عجیب بات ہو گی۔ میرے گھر میں بلبل اور جگنو کا ماحول ہو گا تو وہ آئیں گے اور مچھروں اور مکھیوں والی فضا ہو گی تو وہ ڈیرہ ڈالیں گے، اس کے لیے کسی کو ملامت کرنے کی بجائے مجھے اپنے گھر کے ماحول کی صفائی کرنا ہو گی اور اسے بہتر بنانا ہو گا۔ اسی طرح میرے گھر میں اگر فرشتوں کی آمد و رفت ہو گی تو وہ آئیں گے اور رحمت و برکت لائیں گے اور اگر ہر وقت شیاطین ڈیرہ ڈالے رہیں گے تو ان سے بے برکتی، نحوست اور نا اتفاقی ہی ملے گی اور وہی کچھ ہو گا جس کی ہمیں اپنے گھروں میں اس وقت شکایت رہتی ہے۔ تو میں نے عرض کیا ہے کہ تیسرا مقصد جس کے لیے ہم قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں برکت کا حصول ہے اور وہ اس عمل پر بلاشبہ حاصل ہوتی ہے۔
چوتھا مقصد جس کے لیے ہم عام طور پر قرآن کریم پڑھتے ہیں شفا کا حصول ہے اور وہ بھی قرآن کریم کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ قرآن کریم ہماری جسمانی بیماریوں کی شفا بھی ہے اور روحانی و اخلاقی بیماریوں کا بھی علاج ہے۔ خود قرآن کریم نے اپنے آپ کو شفا کہا ہے اور فرمایا ہے کہ ’’قد جاءتکم موعظۃ من ربکم وشفاء لما فی الصدور‘‘ (سورہ یونس ۵۷) تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آئی ہے اور وہ سینوں کی بیماریوں کے لیے شفا ہے۔ یہ شفا اصلاً تو روحانی بیماریوں کی ہے لیکن اس کے ساتھ جسمانی بیماریوں کے لیے بھی شفا ہے۔
بخاری شریف کی روایت کے مطابق حضرت ابو سعید خدریؓ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ چند ساتھیوں کے ہمراہ سفر پر تھے کہ ایک بستی کے قریب رات کا وقت ہو گیا اور انہوں نے بستی والوں سے کہا کہ وہ مسافر ہیں انہیں کھانا کھلا دیا جائے۔ بستی والوں نے اس سے انکار کر دیا تو وہ بستی کے قریب ایک جگہ ڈیرہ لگا کر سو گئے۔ اتفاق کی بات ہے کہ بستی کے سردار کو کسی زہریلی چیز نے ڈس لیا، زہر کا اثر دماغ تک پہنچا تو وہ بے قابو ہونے لگا، بستی والوں نے اپنے تئیں علاج وغیرہ کیا مگر کوئی افاقہ نہ ہوا، انہیں خیال آیا کہ جو لوگ بستی سے باہر ٹھہرے ہوئے ہیں ہو سکتا ہے کہ ان کے پاس اس کا کوئی علاج موجود ہو، وہ نصف شب کے وقت ان کے پاس آئے اور کہا ہمارے سردار کو کسی زہریلی چیز نے ڈس لیا ہے اور ہمارے پاس کوئی علاج نہیں ہے، تمہارے پاس کوئی علاج ہو تو ہمارے ساتھ آؤ اور ہم پر مہربانی کرو۔ ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ ہمارے ذہن میں یہ بات تھی کہ انہوں نے ہمیں کھانا نہیں کھلایا اس لیے ہم نے کہا کہ علاج ہمارے پاس ہے مگر ہم معاوضہ کے بغیر علاج نہیں کریں گے اور معاوضہ تیس بکریاں ہو گا، وہ آمادہ ہو گئے، ہم نے جا کر اسے دم کیا اور وہ ٹھیک ہو گیا۔ ہم بکریاں لے کر واپس آئے تو خیال ہوا کہ یہ بکریاں جو ہم نے دم کے عوض لی ہیں شاید ہمارے لیے جائز نہ ہوں، اس لیے جناب نبی اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر واقعہ عرض کریں گے، اس کے بعد ان بکریوں کے بارے میں کوئی فیصلہ کریں گے۔ چنانچہ جب نبی اکرمؐ کو سارا واقعہ سنایا گیا تو آپ نے دل لگی کے طور پر فرمایا کہ ان بکریوں میں سے میرا حصہ بھی نکالو، یہ اشارہ تھا کہ بکریاں لے کر تم نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ نبی اکرمؐ نے اس موقع پر پوچھا کہ دم کس نے کیا تھا اور کیا پڑھا تھا؟ ابو سعید خدریؓ نے کہا کہ میں نے دم کیا تھا اور سورۃ فاتحہ پڑھی تھی۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آنحضرت نے پوچھا کہ تمہیں کس نے بتایا تھا کہ اس میں شفا ہے تو ابو سعید خدریؓ نے عرض کیا کہ ایک بار آپ کی زبان سے سنا تھا کہ اس سورۃ کا نام ’’الشفاء‘‘ بھی ہے، اسی یقین پر میں نے دم کر دیا اور اللہ تعالیٰ نے شفا دے دی۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: قرا ن کریم کی تلاوت جناب نبی اکرم کی ا مد و رفت میرے گھر میں ہمارے گھروں گھروں میں شیاطین کی کا ماحول ا تے ہیں ہوتا ہے نہیں ہے کے لیے ہے اور ئیں گے گے اور اور وہ

پڑھیں:

جھوٹی یاد داشتیں اور ان کا منفی اثر

یاد داشت ایک عجیب چیز ہے۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے جیسے ماضی کی تصویریں ذہن میں صاف اور مکمل محفوظ ہیں، مگر پھرکوئی ایک لمحہ، ایک جملہ، ایک خوشبو سب کچھ بدل کر رکھ دیتی ہے۔کبھی کچھ یاد آتا ہے، پھر شک ہوتا ہے کہ یہ واقعی ہوا تھا یا محض میرا گمان تھا؟

مجھے یہ بات اس وقت زیادہ شدت سے سمجھ آئی جب میں نے ایک مطالعے کے دوران پڑھا کہ بعض اوقات انسان کو وہ چیزیں بھی یاد رہتی ہیں جوکبھی وقوع پذیر نہیں ہوتیں۔ ابتدا میں مجھے یہ بات ناقابلِ یقین لگی۔کیا واقعی ایسا ممکن ہے؟ کیا دماغ اتنی بڑی غلطی کرسکتا ہے؟ لیکن جوں جوں میں نے اس موضوع پر پڑھا، تو میرے سامنے حیران کن حقیقتیں کھلتی چلی گئیں۔

انسانی یاد داشت پتھر پر لکیر نہیں ہوتی۔ یہ تو پانی پر بنتی لکیروں جیسی ہے، جوکبھی واضح ہوتی ہیں،کبھی دھندلی اورکبھی بالکل ہی غائب۔ بعض اوقات ہمیں ایسے واقعات یاد آتے ہیں جو ہمارے ساتھ پیش ہی نہیں آئے ہوتے۔ ہم ان پر یقین بھی کرتے ہیں، ان کی تفصیل بھی بتاتے ہیں۔

حتیٰ کہ ان سے جذباتی وابستگی بھی محسوس کرتے ہیں۔ یاد داشت انسانی ذہن کا ایک بنیادی اور پیچیدہ عمل ہے۔ ہماری یادیں ماضی کے تجربات کو محفوظ کرنے اور مستقبل کے فیصلوں میں مدد دینے کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ تاہم،کبھی کبھی انسان ایسی باتیں بھی یاد رکھتا ہے جو درحقیقت کبھی نہیں ہوتیں۔ ایسی یاد داشتوں کو نفسیات کی اصطلاح میں False Memories یا ’’ جھوٹی یادیں‘‘ کہا جاتا ہے۔

جھوٹی یاد داشت ایسی یاد ہوتی ہے جو انسان کو حقیقت لگتی ہے، لیکن وہ دراصل یا تو غلط ہوتی ہے یا مکمل طور پر خیالی۔ ان یادوں میں کبھی چھوٹے جزئیات بدلے ہوئے ہوتے ہیں اورکبھی پورا واقعہ ہی من گھڑت ہوتا ہے۔ انسان ان جھوٹی یادوں پر اس قدر یقین کر لیتا ہے کہ ان کا انکارکرنا ممکن نہیں رہتا۔

جھوٹی یاد داشتوں کے تصور پر سب سے زیادہ تحقیق ایلزبتھ لوفسٹس نے کی۔ وہ ایک امریکی ماہر نفسیات اور محققہ ہیں، جنھوں نے انسانی یاد داشت، بالخصوص گواہیوں اور جھوٹی یادوں کے حوالے سے انقلابی کام کیا۔ ''False Memory Theory'' دراصل یہ بتاتی ہے کہ انسانی یاد داشت پختہ اور ناقابلِ تغیر نہیں ہوتی بلکہ مختلف اثرات جیسے سوالات کا انداز، جذبات یا دوسروں کے بیانات، یادوں کو تبدیل یا حتیٰ کہ پیدا بھی کرسکتے ہیں۔

لوفسٹس نے 1970 اور 1980 کی دہائی میں ایسے تجربات کیے جن میں انھوں نے ثابت کیا کہ اگرکسی فرد کو بار بار ایک واقعے کا ذکرکیا جائے اگر وہ واقعہ کبھی ہوا ہی نہ ہو تو وہ فرد کچھ عرصے بعد اس واقعے کو ’’ اپنی‘‘ یاد داشت کے طور پر قبول کرلیتا ہے، اگرکسی انسان کو بار بار بتایا جائے کہ اس کے ساتھ کوئی مخصوص واقعہ پیش آیا تھا، تو وہ کچھ عرصے بعد اس جھوٹی بات کو اپنی یاد کا حصہ سمجھنے لگتا ہے۔ جیسے کہ ایک بچہ مال میں گم ہوگیا تھا، حالانکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوا ہوتا۔

فالس میمریز مختلف طریقوں سے بنتی ہیں۔ سماجی دباؤ اور توقعات، بار بار دہرائی گئی باتیں اور بااثر شخصیات کی باتوں کا اثر، یہ سب ہمارے ذہن پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ سوالات کا انداز،غلط معلومات کا دیا جانا، خوابوں کا اثر اور تصورکی طاقت بھی جھوٹی یاد داشتوں کی تشکیل میں کردار ادا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگرکسی کو بچپن میں کہا جائے کہ وہ بہت شرارتی تھا اور اس نے کوئی چیز توڑ دی تھی، تو وہ بچہ آخرکار اس بات کو سچ ماننے لگتا ہے، چاہے اسے اصل واقعہ یاد نہ ہو۔

ایسے جھوٹے تجربات خاندانی قصوں، اجتماعی یاد داشت، تعلیمی نصاب یا مذہبی واقعات کی شکل میں بھی سامنے آسکتے ہیں۔ اس کا اثر صرف انفرادی سطح پر نہیں بلکہ معاشرتی، قانونی اور نفسیاتی سطح پر بھی گہرا ہوتا ہے۔ عدالتوں میں جھوٹی گواہیاں، رشتوں میں بے بنیاد الزامات اور فرد کی اپنی ذات کے بارے میں گمراہ کن یقین وغیرہ۔

یہ سب فالس میمریزکے اثرات میں شامل ہیں۔ سائنسدانوں نے ان یادوں کو روکنے یا پرکھنے کے لیے تحقیق کی ہے۔ ثبوتوں پر زور، تنقیدی سوچ کی تربیت اور ماہرینِ نفسیات سے مشورہ ان کے سدباب کے اہم طریقے ہیں۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ ہم ہر یاد پر آنکھ بند کرکے یقین نہ کریں، بلکہ اس پر سوال اٹھانا سیکھیں۔ کیا یہ واقعی ہوا تھا؟ یا یہ صرف ایک خیال تھا؟

میری زندگی میں بھی ایسے لمحے آئے جب کسی دوست نے ماضی کا واقعہ سنایا جو مجھے یاد ہی نہیں تھا۔ پھر میں سوچ میں پڑگئی،کیا واقعی ایسا ہوا تھا؟ یا یہ اس کی یاد داشت کا وہ حصہ ہے جس میں، میں کبھی شامل ہی نہیں تھی؟ زندگی میں کئی بار ہمیں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کوئی واقعہ خواب تھا یا حقیقت اورکبھی خواب اتنے واضح ہوتے ہیں کہ ہم انھیں سچ مان لیتے ہیں۔

اس موضوع پر فلمیں ہیں جیسے میمینٹو فلم میں ایک شخص اپنی یاد داشت کھونے کے بعد ایک قتل کی گتھی سلجھانے کی کوشش کرتا ہے، اس کی یاد داشت کی الجھنیں ناظرین کو مسلسل چکر میں ڈالتی ہیں۔

اس موضوع پر فلمیں بنی ہیں جیسے انسپشن فلم جس کا کردار خوابوں میں داخل ہو کر خیالات چرانے اور یادوں کے ذریعے تصور قائم کرتا ہے جس سے جھوٹی حقیقتیں پیدا ہوتی ہیں۔

دی بٹر فلائی ایفیکٹ ایک نوجوان اپنی پرانی یادوں کو بدل کر حال کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے، مگر ہر بارکچھ نیا اور الجھا ہوا سامنے آتا ہے۔

شٹر آئی لینڈ ایک امریکی مارشل جب ایک پاگل خانے کی تفتیش کے لیے جاتا ہے تو حقیقت اور جھوٹ میں فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس کے اپنے ماضی کی یاد داشتوں پر بھی سوال اٹھتے ہیں۔ فلم ’’ ٹوٹل ریکال‘‘ میں ایک شخص ایک خفیہ مشن پر ہے لیکن وہ خود نہیں جانتا کہ اصل کیا ہے اور خیالی کیا۔

اب آتے ہیں حل کی طرف کہ کس طرح جھوٹی یاد داشت کے حصار سے باہر نکلا جاسکتا ہے۔ ثبوت پر انحصارکریں یاد داشت پر اندھا یقین کرنے کے بجائے، تحریری یا تصویری ثبوت پر توجہ دی جائے۔

ذہنی تربیت کی جائے خاص طور پر تنقیدی سوچ کو فروغ دینا اور خود کو بار بار سوال کرنا کہ ’’ کیا یہ واقعہ واقعی ہوا تھا؟‘‘ اس حوالے سے مددگار ہو سکتا ہے۔ ماہر نفسیات کی مدد حاصل کی جاسکتی ہے، اگرکسی کو لگے کہ اس کی یاد داشتوں میں تضاد ہے، تو ماہر نفسیات سے رجوع کرنا بہتر ہے۔ یہ ایک نہایت دلچسپ اور پیچیدہ نفسیاتی مظہر ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ انسان کی یاد داشت ہرگزکامل نہیں۔ ایلزبتھ لوفسٹس نے یہ ثابت کر کے نفسیات کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا کہ ہماری یادیں حقیقت سے زیادہ ہمارے ذہنی عمل، تجربات اور بیرونی اثرات کی پیداوار ہوتی ہیں۔

اس نظریے نے نہ صرف نفسیات، بلکہ قانون، تعلیم، میڈیا اور روزمرہ زندگی میں انسانی رویے کو سمجھنے کے طریقے کو بھی بدل دیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی یادوں کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے بھی دیکھیں،کیونکہ ضروری نہیں جو ہمیں یاد ہو وہ حقیقت بھی ہو۔

متعلقہ مضامین

  • خیبر پختونخوا مائنز اینڈ منرلز ایکٹ 2025 مسترد، اے این پی کا احتجاجی تحریک کا اعلان
  • ٹیرف جنگ کا مستقبل کیا ہے؟
  • اوورسیز پاکستانی ہمارے ملک کی شان اور ہمارے سروں کا تاج ہیں،عطاءاللہ تارڑ
  • پی ایس ایل کی فریاد
  • نون لیگ اور اُس کے پروجیکٹس
  • وورسیز پاکستانی ہمارے سروں کا تاج ہیں، عطاتارڑ
  • آزاد منڈی اور ٹیرف
  • اس کا حل کیا ہے؟
  • جھوٹی یاد داشتیں اور ان کا منفی اثر
  • چشمہ رائٹ کنال منصوبہ کے پہلے فیز کے ٹینڈر اوپن ہو گئے، فیصل کریم کنڈی