ماورہ حسین اور امیر گیلانی رشتہ ازدواج میں بندھ گئے؟ افواہیں سرگرم
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
سوشل میڈیا پر افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ پاکستان شوبز کی اداکارہ ماورا حسین اپنے قریبی دوست اور ساتھی اداکار امیر گیلانی کے ساتھ رشتہ ازدواج میں بندھ گئی ہیں۔
فوٹو اینڈ ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم انسٹاگرام کے مختلف پیجز پر یہ خبر شیئر کی جارہی ہیں کہ ماورا رواں ماہ امیر گیلانی کے ساتھ شادی کرنے والی ہیں۔
View this post on InstagramA post shared by Irfanistan ???? (@irfanistan)
تاہم ایک انسٹاگرام پیج کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ اداکارہ گزشتہ روز رشتہ ازدواج میں بندھ چکی ہیں۔
البتہ دونوں اداکاروں کی جانب سے تاحال شادی کا اعلان نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی ان افواہوں کی تردید کی گئی ہے۔
View this post on InstagramA post shared by Showbiz Spy (@showbizspy_)
دوسری جانب ماورا اور امیر گیلانی کے مداح اس خوبصورت جوڑی کی شادی کی خبر پر بےحد خوش ہیں اور ان سے نیک تمناؤں کا اظہار کر رہے ہیں۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: امیر گیلانی
پڑھیں:
رولنگ کا یہ حشر قبول نہیں
سینیٹ‘ ہائوس آف فیڈریشن ہے اور اعلیٰ جمہوری آئینی ادارہ ہے لیکن کیا وجہ ہے کچھ دنوں سے چیئرمین سینیٹ اجلاس کی صدارت نہیں کر رہے، وجہ بھی سب کو معلوم ہے مگر سب خاموش ہیں۔ چیئرمین سینیٹ مخدوم یوسف رضا گیلانی نے پی ٹی آئی سینیٹر اعجاز چودھری کے پروڈکشن آرڈرز پر عمل درآمد ہونے تک سینیٹ کے اجلاس کی صدارت سے انکار کردیا۔ انہوں نے اعجاز چودھری کو جیل سے لانے کے پروڈکشن آرڈرز دیے ہوئے ہیں مگر جیل انتظامیہ اس پر عمل درآمد نہیں کر رہی، جس پر چیئرمین سینیٹ نے گزشتہ روز احتجاجاً سینیٹ کی اجلاس کی صدارت نہیں کی۔ اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ کی رولنگ اور آرڈرز قانونی حیثیت کے حامل اور حتمی ہوتے ہیں۔ حکومت ہی ان پر عمل نہیں کرتی تو یہ اس کے لیے کسی نیک نامی کا باعث نہیں ہو سکتا۔
سید یوسف رضا گیلانی ماضی میں بھی کئی مرتبہ اسی طرح کے جرأت مندانہ اقدامات کر چکے ہیں۔ 90ء کی دہائی میں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے درمیان اختلافات ذاتیات کی حد تک چلے گئے تھے۔ یوسف رضا گیلانی اسپیکر قومی اسمبلی تھے۔ اپنی کتاب ’’چاہ یوسف سے صدا‘‘ میں وہ لکھتے ہیں کہ مسلم لیگ نون کے اسیر ارکان قومی اسمبلی شیخ رشید احمد، شیخ طاہر رشید اور حاجی بوٹا کے پیپلز پارٹی کے وزراء کے مشورے کے بعد پروڈکشن آرڈرز جاری کیے گئے۔ بعد میں پارٹی نے انہیں پروڈکشن آرڈرز واپس لینے پر اصرار کیا۔ حتیٰ کہ وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے بھی ان آرڈرز کی واپسی کے لیے کہا۔ اس پر ان کی طرف سے انکار کرتے ہوئے کہا گیا کہ وہ پروڈکشن آرڈرز واپس لینے کے بجائے اسپیکر کے عہدے سے استعفا دینا پسند کریں گے۔ ہمارے ہاں انسانیت کے لیے کام کرنے اور آئین پر عمل کرنے کو بھی کبھی کبھار جرم سمجھ لیا جاتا ہے۔ یوسف رضا گیلانی کو قید کی سزا اس بنا پر سنا دی گئی کہ انہوں نے کئی لوگوں کو اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ملازمتیں دی تھیں۔ ان کو عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ کی طرف سے اس وقت نا اہل قرار دے دیا گیا جب انہوں نے بطور وزیراعظم سوئس حکام کو خط لکھنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ ایسا کرنا آئین کے خلاف ہے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق ان کو وزارت عظمیٰ سے بھی الگ ہونا پڑا تھا۔ اس میں کسی کو سرِ مو اختلاف نہیں ہے کہ پاکستان میں صرف آئین ہی سپریم ہے۔ اسی لیے یوسف رضا گیلانی نے اس وقت کی عدالت عظمیٰ کا غیر آئینی حکم ماننے کے بجائے آئین پر عمل کرنے کو ترجیح دی تھی۔ یہ ان کا جرأت مندانہ اور درست اقدام تھا۔ جس کو اسی عدالت عظمیٰ کی طرف سے ایک دہائی کے بعد جواز مانتے ہوئے ان کی نااہلیت کو ختم کر دیا۔ مگر اس وقت تک جو نقصان ہونا تھا وہ ہو چکا تھا۔ آج چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے سینیٹر چودھری اعجاز احمد کے جو پروڈکشن آرڈر جاری کیے ہیں وہ آئین اور قانون کے مطابق ہیں۔ حکومت ان پر عمل کر دیتی تو چیئرمین سینیٹ کو اجلاس کی صدارت سے انکار تک نہ جانا پڑتا۔ اب بھی حکومت معاملات سمیٹنے کی کوشش کرے۔ یوسف رضا گیلانی کے ماضی کا ریکارڈ یہی بتاتا ہے کہ ان کو اصولوں کے مقابلے میں عہدوں کی کبھی پروا نہیں رہی۔ حکومت چیئرمین سینیٹ کے جاری کردہ پروڈکشن آرڈرز کی خوشدلی سے تعمیل کرکے اپنا قد بھی اونچا کرسکتی ہے۔ یہی کہنا ہے کہ وجہ بھی سب کو معلوم ہے۔ مگر سب خاموش ہیں۔