یوم یکجہتی کشمیر: تاریخ، سیاست اور عالمی ضمیر کا امتحان
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
جب تاریخ کے اوراق پلٹے جاتے ہیں تو کچھ باب ایسے ہوتے ہیں جو خونِ دل سے لکھے گئے ہیں۔ وہ داستانیں جو صرف جغرافیائی سرحدوں کے جھگڑوں تک محدود نہیں بلکہ ایک پوری قوم کی اجتماعی یادداشت، دکھ، اور مزاحمت کا حصہ بن جاتی ہیں۔ کشمیر اور فلسطین دو ایسے المیے ہیں جو تاریخ کے صفحات پر ابھرتے رہے ہیں، مگر ان کے زخم آج بھی ہرے ہیں۔ ان خطوں کے باسی ایک ایسی جنگ لڑ رہے ہیں جو نہ صرف گولی اور بارود سے لڑی جا رہی ہے بلکہ عالمی ضمیر، انسانی حقوق اور بین الاقوامی انصاف کی سنگین آزمائش بھی ہے۔
کشمیر، جسے جنتِ ارضی کہا جاتا ہے، 7 دہائیوں سے مسلسل جل رہا ہے۔ 1947 کے بعد اس وادی میں جو آگ بھڑکی، وہ آج بھی سرد نہیں ہوئی۔ یہ مسئلہ محض زمین کا نہیں بلکہ ایک پوری قوم کی شناخت، اس کے بنیادی حقوق، اور اس کی آزادی کا ہے۔ پاکستان نے روزِ اوّل سے ہی اس جدوجہد میں کشمیری عوام کا ساتھ دیا، بین الاقوامی فورمز پر ان کے حق میں آواز بلند کی، مگر عالمی سیاست کے بے رحم اصولوں نے ہمیشہ طاقتور کو حق بجانب اور مظلوم کو موردِ الزام ٹھہرایا۔
یہ بھی پڑھیں: ملک بھر میں یوم یکجہتی کشمیر بھرپور جوش و جذبے کے ساتھ منایا جارہا ہے
اقوام متحدہ کی قراردادیں، عالمی انسانی حقوق کے ضابطے اور بین الاقوامی عدالتوں کے فیصلے سب کشمیری عوام کے حق میں ہیں، مگر عملی طور پر کوئی پیش رفت نہیں ہوتی۔ بھارت کی پالیسی ہمیشہ یہی رہی ہے کہ طاقت اور جبر کے ذریعے کشمیریوں کی آواز کو دبایا جائے۔ ایک طرف بھارتی فوجی طاقت کا استعمال، کرفیو، اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں، تو دوسری طرف عالمی برادری کی خاموشی۔
یہی خاموشی فلسطین میں بھی دیکھی جا سکتی ہے، جہاں ایک پوری قوم کو اس کی سرزمین سے بے دخل کیا جا رہا ہے، اس کے گھروں کو ملبے میں بدلا جا رہا ہے، اور معصوم بچوں کی چیخیں عالمی طاقتوں کے ایوانوں میں کہیں کھو جاتی ہیں۔ اسرائیلی قبضہ اور اس کی توسیع پسندانہ پالیسیاں اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں، مگر دنیا کے انصاف پسند ممالک اس پر عملی قدم اٹھانے کے بجائے محض مذمتی بیانات دینے تک محدود رہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: تحریک آزادی کشمیر کی حمایت: مقبوضہ کشمیر کے گلی کوچوں میں وزیراعظم پاکستان اور آرمی چیف کے پوسٹرز آویزاں
بھارت اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ نے کشمیر اور فلسطین کے مسائل کو اور پیچیدہ کیے رکھا ہے۔ اسرائیل اور بھارت کے درمیان دفاعی معاہدے، عسکری تعلقات اور اسٹریٹجک شراکت داری اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ طاقتور ریاستیں اپنے مفادات کے لیے کسی بھی اصول کو پس پشت ڈال سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کو کشمیر میں ظلم کرنے کی کھلی چھوٹ حاصل ہے، جس طرح اسرائیل کو فلسطین میں۔
تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں جب بھی کسی قوم کو اس کے حق سے محروم کیا گیا، جب بھی کسی خطے میں طاقت کے نشے میں چور حکمرانوں نے انسانوں کو محکوم بنانے کی کوشش کی، تو وہاں ایک مزاحمت جنم لیتی ہے۔ کشمیر اور فلسطین کی تحریکِ آزادی صرف ایک سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ ایک نظریاتی، ثقافتی، اور انسانی بقا کی جنگ ہے۔ یہ وہ معرکہ ہے جس میں قلم اور بندوق، سوچ اور نظریہ، صبر اور قربانی سب ایک ساتھ چل رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کا 74واں یوم جمہوریہ، مقبوضہ کشمیر سمیت دنیا بھر میں یوم سیاہ
کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ ایک اور پہلو سے بھی مماثلت رکھتا ہے، اور وہ ہے عالمی طاقتوں کا دوہرا معیار۔ جہاں مغرب جمہوریت، آزادی، اور انسانی حقوق کا چیمپیئن بنتا ہے، وہیں یہی اصول فلسطین اور کشمیر کے معاملے میں غائب نظر آتے ہیں۔ اگر عالمی انصاف واقعی غیرجانبدار ہوتا، اگر اقوام متحدہ واقعی آزاد ہوتی، تو آج کشمیر اور فلسطین کی صورتحال مختلف ہوتی۔
مگر تاریخ بتاتی ہے کہ آزادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ صرف دشمن کا ظلم نہیں ہوتا، بلکہ اپنوں کی خاموشی اور عالمی برادری کی بے حسی بھی ہوتی ہے۔ یہ عالمی طاقتوں کی وہ مجرمانہ غفلت ہے جس نے ان تنازعات کو مزید الجھا دیا ہے۔ لیکن وقت یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ جبر کی تاریکی جتنی بھی گہری ہو، ایک دن سحر ضرور طلوع ہوتی ہے۔ کشمیر اور فلسطین کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ وہاں کی سرزمین صرف خون ہی نہیں پیتی، بلکہ عزم، حوصلہ، اور قربانیوں کے بیج بھی اگاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کشمیریوں اور فلسطینیوں کے حالات بہت کچھ کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہیں، آرمی چیف جنرل عاصم منیر
آج جب ہم یوم یکجہتی کشمیر کے عنوان سے یکجہتی کے دعوے کرتے ہیں، تو یہ ضروری ہے کہ یہ دن محض رسمی تقریبات تک محدود نہ رہے۔ یہ یکجہتی محض الفاظ میں نہیں بلکہ عملی اقدامات میں بھی نظر آنی چاہیے۔ پاکستان نے ہمیشہ کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھائی، اور فلسطینی عوام کی جدوجہد کو بھی سپورٹ کیا، مگر یہ آواز صرف حکومتی ایوانوں تک محدود نہیں رہنی چاہیے۔ عوامی سطح پر، سفارتی محاذ پر، اور بین الاقوامی میڈیا میں ان مظلوم قوموں کا مقدمہ مزید موثر انداز میں لڑنا ہوگا۔
یہ تاریخ کا وہ لمحہ ہے جب دنیا کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ طاقت کے اصول کو مانتی رہے گی یا واقعی انصاف کا پرچم بلند کرے گی۔ کشمیر اور فلسطین کی تحریکیں صرف مظلوموں کی نہیں، بلکہ ان تمام لوگوں کی جدوجہد کا استعارہ ہیں جو دنیا میں حقیقی آزادی، انصاف، اور برابری چاہتے ہیں۔ یہ تحریکیں یاد دلاتی ہیں کہ جب تک دنیا میں ایک بھی مظلوم چیخ رہا ہے، جب تک ایک بھی زمین غیر منصفانہ قبضے میں ہے، تب تک انسانیت کا ضمیر مکمل طور پر آزاد نہیں ہو سکتا۔
یہ جنگ زمین کی نہیں، نظریے کی ہے۔ اور تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ نظریے کبھی مٹائے نہیں جا سکتے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اسرائیل بھارتی تسلط جبر زیر قبضہ ظلم غیرقانونی فلسطین مقبوضہ کشمیر ہندوتوا ہندوستان یوم یکجہتی کشمیر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل بھارتی تسلط فلسطین ہندوتوا ہندوستان یوم یکجہتی کشمیر کشمیر اور فلسطین کی یوم یکجہتی کشمیر بین الاقوامی نہیں بلکہ تک محدود ہیں جو رہا ہے اور اس
پڑھیں:
5 فروری: یوم یکجہتی کشمیر اور نئی صف بندی
ریاست جموں و کشمیر نظریاتی، جغرافیائی، ثقافتی اور ہر اعتبار سے پاکستان کا حصہ ہے۔ اس کی اسی اہمیت کے پیش نظر قائد اعظم محمد علی جناح نے اسے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا اور قائد اعظم محض لفاظی نہیں کرتے تھے، بلکہ ان کا ہر جملہ اپنے اندر ایک معنی رکھتا تھا اور اس کے اندر ایک پورا پیغام موجود ہوتا تھا۔ برصغیر کی تقسیم کی اصولوں کے مطابق ریاست جموں و کشمیر کو قدرتی طور پر پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہیے تھا۔ پچاسی فی صد سے زیادہ مسلمانوں کی آبادی پر مشتمل یہ ریاست جس کے تمام قدرتی راستے اور رشتے مملکت پاکستان کے ساتھ وابستہ تھے۔ ہندوستان کے ساتھ اس کا کوئی زمینی راستہ بھی نہیں تھا۔ اس کے باوجود ہندوستانی برطانوی سامراج اور کانگریس نے سازش کرتے ہوئے مہاراجا کو اپنا مہرہ بنایا اور پاکستان کے ساتھ اس کے فطری الحاق کے راستے میں رکاوٹ پیدا کر کے اس پر بالجبر قبضہ کر لیا۔ اس کے خلاف کشمیریوں نے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔ ان کی مدد کے لیے ہمارے قبائل سے غیرت مند بھائی بھی پہنچے اور ان کے شانہ بشانہ جہاد کیا۔ ریاست کے کافی حصے کو فتح کرنے کے بعد وہ سری نگر تک دستک دے رہے تھے کہ ہندوستان خوفزدہ ہو کر سلامتی کونسل میں جا پہنچا اور اس نے درخواست دی کہ جنگ بند ہونی چاہیے اور پرامن طور پر اس مسئلے کا حل ہونا چاہیے۔ بھارت کی اپیل پر جنگ بندی ہوئی اور پھر سلامتی کونسل کی قراردادیں پاس ہوئیں جس میں یہ طے پایا کہ کشمیری آزادانہ طور پر اقوام متحدہ کے تحت منعقدہ ایک ریفرنڈم میں اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ اس وقت سے لے کر آج تک کشمیری اپنے حق خود ارادیت کے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور ان کی اس برحق جدوجہد کو تسلیم کرنے کے بجائے بھارت نے ہمیشہ طاقت اور فوجی قبضے کی بنیاد پر اس پرامن اور آئینی تحریک کو کچلنے کی کوشش کی۔
بھارت نے 1947ء میں جموں میں قتل عام کیا تاکہ ریاست کی ڈیموگرافی تبدیل ہو جس میں لاکھوں لوگ شہید ہوئے اور لاکھوں ہجرت پر مجبور ہوئے۔ 1965 اور 1971ء میں اسی طرح کے کئی واقعات دہرائے گئے۔ 1990 سے آج تک یہی عمل ہندوستان نے جاری رکھا ہوا ہے۔ اس طاقتور تحریک کو کچلنے کے لیے ہندوستان نے ہر طرح کے ہتھکنڈے آزمائے اور کالے قوانین نافذ کیے۔ پچھلی تین دہائیوں سے زائد عرصے میں اس حد تک ظلم اور ستم کیا کہ ایک لاکھ سے زیادہ لوگ شہید، ہزاروں زخمی، ہزاروں لاپتا اور ہزاروں اب بھی جیلوں میں پڑے ہوئے ظلم برداشت کر رہے ہیں۔
قائد حریت سید علی گیلانی 10 سال سے زائد اپنے گھر میں محصور رہے۔ علاج معالجے کی سہولتوں سے محروم رکھ کر ان کو گھر ہی میں شہید کیا گیا۔ ان کے جنازے میں اہل خانہ کو بھی شریک ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ عظیم حریت پسند رہنما اور گیلانی صاحب کے دست راست جناب اشرف صحرائی جیل میں شہید ہوئے اور ان کی نماز جنازہ میں بھی ان کے چاہنے والوں اور عزیزوں کو شرکت کی اجازت نہیں ملی۔ اسی طرح یہ عمل اب بھی جاری ہے اور آج وہاں پر صف اول کے قائدین شبیر احمد شاہ یا یاسین ملک، آسیہ اندرا بی اپنی 34 حریت پسند خواتین کے ساتھ ڈیتھ سیلز میں اپنے انجام کو منتظر ہیں۔ مسرت عالم اور جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے امیر ڈاکٹر عبدالحمید فیاض اور اسی طرح سے دیگر قائدین تہاڑ جیل کے اندر بند ہیں۔ ان پر بلا جواز قتل و غارت گری اور منی لانڈرنگ کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
ان کی زندگیاں بھی اس وقت خطرے میں ہیں۔ ان کے ساتھ اور ہزاروں نوجوان حتیٰ کہ وہاں کے صحافی خرم پرویز نامور انسانی حقوق کے رہنما جنہوں نے بھارتی مظالم اجاگر کرنے کے لیے بین الاقوامی ایوارڈز بھی ملے۔ ان پر دہشت گردی کا الزام لگا کر انہیں ساری زندگی کے لیے جیل میں بند کر دیا گیا ہے۔ نریندر مودی نے جب دیکھا کہ اس کے تمام ہتھکنڈے ناکام ہو گئے ہیں تو پانچ اگست 2019ء کوآئینی دہشت گردی کا ارتکاب کرتے ہوئے ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تحلیل کرنے کی کوشش کی۔ بین الاقوامی قوانین اور دو طرفہ ہندوستان پاکستان کے تمام معاہدات منہدم اور نظر انداز کر تے ہوئے یکطرفہ طور پر یہ قدم اٹھایا۔ اس کے بعد وہ پے در پہ اقدام کر رہا ہے کہ ریاست کا اسلامی اور مسلم تشخص تحلیل ہو۔ وہاں پر احتجاج کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ مسجدیں اور دینی ادارے بند کر دیے گئے ہیں۔ حریت پسندوں کی جائدادیں اور اثاثے ضبط کیے جا رہے ہیں۔ جماعت اسلامی سے وابستہ ادارے خاص طور پر ان کا ہدف ہیں۔ اسی طرح مسلم اوقاف جو کہ تعلیم، دعوت اور سماجی خدمات کے حوالے سے مسلمانوں کا بہت بڑا ادارہ رہا ہے اسے ختم کیا جا رہا ہے۔ اس میں من پسند قوانین بنائے جا رہے ہیں تاکہ مسلمانوں کی محدود آزادی جو اپنے عقیدے کے تحفظ کے لیے موجود ہے اس کو بھی ختم کیا جائے۔
آج ان حالات میں ہم یوم یکجہتی منا رہے ہیں۔ ہم اہل کشمیر کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ وہ اس جدوجہد میں تنہا نہیں۔ خاص طور پر جماعت اسلامی اس کو اپنا دینی اور ایمانی فریضہ سمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 1990 میں جب ہزاروں کی تعداد میں مجاہدین اور مہاجرین مقبوضہ کشمیر سے آزاد کشمیر کے بیس کیمپ میں وارد ہوئے تو اس وقت کے امیر جماعت قاضی حسین احمدؒ نے ان کو گلے سے لگایا۔ پوری پاکستانی قوم کی طرف سے ان کو پیغام دیا کہ وہ اس جدوجہد میں تنہا نہیں ہیں پھر انہوں نے اپیل کی کہ پوری پاکستانی قوم ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرے۔ اس وقت کی وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اور اس وقت کے اپوزیشن لیڈر میاں نواز شریف جو کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے دونوں نے اس کی تائید کی اور یوں ریاستی اور قومی سطح پر پرجوش طریقے سے یکجہتی کا اہتمام ہوا۔ اسی یکسوئی کے نتیجے میں ریاست پاکستان نے بین الاقوامی سطح پر اس مسئلے کو اٹھایا اور شملہ معاہدے کے بعد ایک طویل سکوت کے بعد اقوام متحدہ میں اس کی بازگشت سنائی دی گئی اور او آئی سی میں قراردادیں جو کہ پاکستان نے پیش کیں وہ کشمیریوں کے حق میں منظور کی گئیں۔ او آئی سی میں ایک رابطہ گروپ تشکیل پایا۔ او ائی سی نے کشمیریوں کی مدد کے لیے فنڈ بھی قائم کرنے کا فیصلہ کیا اور اسی طرح سے ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجنے کا فیصلہ بھی ہوا۔ یہ بڑے اچھے اقدامات تھے جن پر بد قسمتی سے کوئی فالو اپ نہ ہو سکا۔ بہرحال اس پورے تحرک میں جو کہ پاکستان میں ہوا اور پھر قاضی صاحب نے اور پروفیسر خورشید صاحب نے اپنے روابط کو بروئے کار لاتے ہوئے پوری مسلم دنیا میں اہل دانش کو مسئلہ کشمیر کا ترجمان بنایا۔ اسی طرح پارلیمانی قومی وفود لے کر مسلم دنیا میں گئے اور وہاں کے حکمرانوں، ریاستوں اور اہل دانش کو متوجہ کیا اور یوں الحمدللہ سفارتی محاذ پر ایک طویل عرصے بعد کشمیر کی ترجمانی کا حق ادا ہوا۔ ہم اپنے کشمیری بھائیوں کو یقین دلاتے ہیں کہ جماعت اسلامی اپنے اسی کردار کے تسلسل میں ان کی پشتیبان ہے۔ میں نے دو فروری مظفر آبادکے جلسے میں جو ایک بڑا تاریخی اجتماع تھا میں کہا کہ ہم صبح آزادی تک کشمیریوں کے شانہ بشانہ ہیں۔ اس کے لیے بیس کیمپ کو فعال اور متحرک بنانے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم آزاد کشمیر نے بھی دو ٹوک انداز میں جس طرح سے اعلان کیا کہ جہاد ہماری طاقت ہے اور ضرورت پڑی تو سفارتی، سیاسی سے آگے بڑھ کر ہم اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ ہوں گے۔ یہ باتیں محض اعلان نہیں ہونی چاہیں بلکہ اس کے لیے بھرپور تیاری کا اہتمام ہونا چاہیے۔ اسی طرح پاکستان کو دو ٹوک انداز سے دنیا پر واضح کرنا چاہیے کہ پاکستان اس تحریک سے لا تعلق نہیں رہ سکتا ہے کشمیریوں کی قربانیوں کے نتیجے میں کئی مواقع آئے کہ پاکستان فیصلہ کن کردار ادا کرتا تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا تھا لیکن بدقسمتی سے ہمارے حکمران ہمیشہ امریکی سائے میں رہے اور اس خوف کے نتیجے میں
کشمیریوں کی جدوجہد نے جو مواقع ہمیں دیے وہ ہم نے ضائع کر دیے۔ گزشتہ عرصے میں باجوہ ڈاکٹرائن کے نتیجے میں جو ایک خلیج پیدا ہو چکی ہے اس کو عبور کرنا اس وقت سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اس کے لیے ریاست پاکستان کو یکسوئی سے اور بھرپور طور پر اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہوگا۔ یہ کس قدر افسوسناک ہے کہ ایک چھوٹا سا ملک مالدیپ جس کی چند لاکھ آبادی ہے اس کے صدر نے اس بنیاد پہ الیکشن لڑے کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد وہاں سے بھارتی اثر رسوخ کو ختم کرے گا۔ مالدیپ تقریباً بھارتی ایجنسیوں کے کنٹرول میں تھا۔ اقتدار میں آتے ہی چوبیس گھنٹے کے اندر اس نے وہاں سے بھارتی فوج اور ایجنسیوں کو بے دخل کیا۔
یہی انقلاب بنگلا دیش میں ہم دیکھتے ہیں کہ بھارت کی آشیر باد سے حسینہ واجد کا 17 سالہ اقتدار اختتام پذیر ہوا۔ وہاں کے مسلمانوں کا جذبہ حریت بیدار ہوا اور آج حسینہ واجد کو نشانہ عبرت بنا دیا۔ ایک مرتبہ پھر بنگلا دیش اور پاکستان کے درمیان برادران تعلقات استوار ہو رہے ہیں۔ ان رشتوں کو قائم رکھنے کے لیے جماعت اسلامی کے قائدین نے اور ہزاروں کارکنان نے 1971ء میں بھی قربانیاں پیش کیں۔ اسی جرم کی پاداش جماعت کے صف اوّل کے قائدین کو پھانسیاں دی گئیں تاکہ نفرت کی فضا قائم ہو اور بھارت کوخوش کیا جائے۔ ادھر جماعت اسلامی کی ابھرتی ہوئی طاقت سے خوفزدہ ہو کر بھارت ہی کی حکمت عملی پر وہ سمجھتے تھے کہ جماعت اسلامی اور اسلامی جذبے کو کمزور کر دیا جائے تو بھارت بنگلا دیش کو ہمیشہ کے لیے اپنی کالونی بنانے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ اسی کمزوری سے حسینہ واجد فائدہ اٹھا کر اپنے خاندان کا اقتدار قائم کرنا چاہتی تھیں لیکن الحمدللہ اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور اسی طرح سے سری لنکا، نیپال اور بھارت کے گرد نواح کے ممالک میں جو بھارت کے خلاف نفرت موجود ہے وہ ہمارے لیے اچھا موقع ہے۔ ہندوستان کے اندر مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک ہورہا ہے بابری مسجد سے لے کر آج تک اقدامات میں مسلمانوں کے مقامات مقدسہ، مساجد اور تاریخی عمارات اس کے نشانے پر ہیں۔ انہیں گرانے اور ان پر مندر قائم کرنے کی تیاریاں ہیں مسلمانوں کے لیے جینا دو بھر کر دیا گیا۔ ان کے تہذیبی تشخص کو پامال کیا جا رہا ہے۔ مسلم اوقاف کو تحلیل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اور صرف مسلمانوں پر ہی نہیں بلکہ سکھوں، دلتوں اور عیسائیوں کے ساتھ جو سلوک روارکھا جا رہا ہے خطے کو بارود کے ڈھیر پر بٹھا دیا ہے۔ پھر ان کے مذموم عزائم کے نتیجے میں جس طرح سے انہوں نے کینیڈا، امریکا اوربرطانیہ میں سکھ رہنمائوں کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ اس پر پورے مغرب میں ایک تشویش کی لہر ہے۔ بھارت کا وزیر داخلہ پاکستان میں ٹارگٹ کلنگز کا برملا اظہار کرتا ہے اور بڑے فخر سے کہتا ہے کہ ہم نے یہ اہداف حاصل کیے ہیں اور اس طرح کی کاروائیاں مزید بھی کر سکتے ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ پاکستان جیسے ایٹمی ملک کے حکمران، سیاستدان اور پوری ریاست ان کی جاریانہ دہشت گردی کی کوئی موثر، بھرپور اورجامع حکمت عملی تشکیل نہیں دے سکی جو ہم سب کے لیے لمحہ فکر ہے۔ ریاست پاکستان کا اور پاکستان قوم کا دینی اور اخلاقی فریضہ ہے کہ ہم ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں۔ ہر باغیرت انسان اپنی شہ رگ کو اپنے دشمن کے قبضے میں تادیر نہیں رکھ سکتا۔ تادیر تسلط اس کے وجود کے لیے لمحہ فکر بن سکتا ہے۔ اس لیے آج غیرت ایمانی، پاکستان کے وجود، سلامتی اور اس کی بقا کا تقاضا ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہو۔ یہ اسی صورت ممکن ہوگا کہ ریاست پاکستان اور یہاں کے سیاستدان، حکمران اور ادارے اپنے ذاتی اختلافات اور انا کی لڑائیاں ختم کریں۔ ایک قومی یکجہتی کا ماحول پیدا کرتے ہوئے کشمیریوں کی بھرپور پشتی بانی کا حق ادا کریں۔ پاکستان دنیا پر واضح کرے کہ کشمیر میں ہونے والے مظالم اور مودی کے اقدامات پر وہ خاموش نہیں رہ سکتے۔ وہ ہر ممکن طور پر کشمیریوں کی جدوجہد سیاسی، عسکری اور سفارتی جس محاذ پر بھی ہے ان کی بھرپور مدد کریں گے۔ محض سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت کی مالا جپنے سے بھارتی قبضے اور تصرف کو ختم نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ کشمیریوں کی ٹھوس مدد نہ کی جائے۔ اس کے لیے اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ایک قومی پالیسی تشکیل ہو۔ وزیراعظم پاکستان باقی مسائل پر قومی کانفرنسز بلاتے ہیں تو اس مسئلے پر بھی قومی کانفرنس کا انعقاد ہونا چاہیے جس میں اتفاق رائے سے ایک لائحہ عمل طے کیا جائے۔ اسی طرح بین الاقوامی سطح پر سفارتی مہم کو تیز کرنے کے لیے ایک فوکل پرسن کا تقرر کیا جانا چاہیے۔
مظفرآباد کی عظیم الشان کانفرنس جو جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے زیراہتمام ہوئی۔ اس میں بھی یہی کوشش کی گئی کہ دیگر جماعتیں اور قائدین بھی شریک ہوں اور اسی طرح سے اسلام آباد میں بھی ہم نے قومی کشمیر کانفرنس میں قائدین حریت، آزاد کشمیر اور پاکستان کے تمام قائدین کو مدعو کیا اور ان کی میزبانی کی۔ جماعت اسلامی ہمیشہ اس مسئلے کو قومی اور ملی مسئلہ سمجھتی رہی ہے۔ اس کو محض تنظیمی اور جماعتی مسئلہ بنانے کے بجائے ہم نے قومی اور ملی مسئلہ بنایا ہے تاکہ پوری قوم اور تمام جماعتیں متحد ہو کر تمام سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اتفاق رائے اور یکسوئی سے اس کی پشتیبانی کر سکیں۔ بہرحال ہم اپنی اس جدوجہد اور روایت کو برقرار رکھیں گے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ باقی جماعتیں اور ادارے حکومت کا نظام ان کی پشتیبانی کرے اور آزاد جموں و کشمیر کو حقیقی بیس کیمپ بنائے۔ گلگت بلتستان کے عوام کو باوقار نظام حکومت اور ریاستی وسائل میں با اختیار بنایا جائے تاکہ آزاد خطے تحریک آزادی کشمیر کی تقویت کا ذریعہ بنیں۔ خاص طور پر آزاد کشمیر بین الاقوامی سطح پر ایک کردار ہے جس کی خاطر اس کا ایک وجود الگ رکھا گیا تھا۔ اسے بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ نوشتہ دیوار ہے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ کشمیریوں کی یہ مقدس جدوجہد منزل سے ہمکنار ہوگی لیکن ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے فرائض میں کوتاہی نہ کریں۔ ہم پوری پاکستانی قوم کی طرف سے اہل کشمیر کو یقین دلاتے ہیں کہ اس جدوجہد میں وہ تنہا نہیں ہیں اور جب تک بھارت کا ایک بھی فوجی کشمیر میں موجود ہے اور انہیں جب تک حتمی آزادی کی منزل حاصل نہیں ہوتی ہم ان کی جدوجہد میں شامل حال رہیں گے۔