یوم یکجہتی کشمیر: تاریخ، سیاست اور عالمی ضمیر کا امتحان
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
جب تاریخ کے اوراق پلٹے جاتے ہیں تو کچھ باب ایسے ہوتے ہیں جو خونِ دل سے لکھے گئے ہیں۔ وہ داستانیں جو صرف جغرافیائی سرحدوں کے جھگڑوں تک محدود نہیں بلکہ ایک پوری قوم کی اجتماعی یادداشت، دکھ، اور مزاحمت کا حصہ بن جاتی ہیں۔ کشمیر اور فلسطین دو ایسے المیے ہیں جو تاریخ کے صفحات پر ابھرتے رہے ہیں، مگر ان کے زخم آج بھی ہرے ہیں۔ ان خطوں کے باسی ایک ایسی جنگ لڑ رہے ہیں جو نہ صرف گولی اور بارود سے لڑی جا رہی ہے بلکہ عالمی ضمیر، انسانی حقوق اور بین الاقوامی انصاف کی سنگین آزمائش بھی ہے۔
کشمیر، جسے جنتِ ارضی کہا جاتا ہے، 7 دہائیوں سے مسلسل جل رہا ہے۔ 1947 کے بعد اس وادی میں جو آگ بھڑکی، وہ آج بھی سرد نہیں ہوئی۔ یہ مسئلہ محض زمین کا نہیں بلکہ ایک پوری قوم کی شناخت، اس کے بنیادی حقوق، اور اس کی آزادی کا ہے۔ پاکستان نے روزِ اوّل سے ہی اس جدوجہد میں کشمیری عوام کا ساتھ دیا، بین الاقوامی فورمز پر ان کے حق میں آواز بلند کی، مگر عالمی سیاست کے بے رحم اصولوں نے ہمیشہ طاقتور کو حق بجانب اور مظلوم کو موردِ الزام ٹھہرایا۔
یہ بھی پڑھیں: ملک بھر میں یوم یکجہتی کشمیر بھرپور جوش و جذبے کے ساتھ منایا جارہا ہے
اقوام متحدہ کی قراردادیں، عالمی انسانی حقوق کے ضابطے اور بین الاقوامی عدالتوں کے فیصلے سب کشمیری عوام کے حق میں ہیں، مگر عملی طور پر کوئی پیش رفت نہیں ہوتی۔ بھارت کی پالیسی ہمیشہ یہی رہی ہے کہ طاقت اور جبر کے ذریعے کشمیریوں کی آواز کو دبایا جائے۔ ایک طرف بھارتی فوجی طاقت کا استعمال، کرفیو، اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں، تو دوسری طرف عالمی برادری کی خاموشی۔
یہی خاموشی فلسطین میں بھی دیکھی جا سکتی ہے، جہاں ایک پوری قوم کو اس کی سرزمین سے بے دخل کیا جا رہا ہے، اس کے گھروں کو ملبے میں بدلا جا رہا ہے، اور معصوم بچوں کی چیخیں عالمی طاقتوں کے ایوانوں میں کہیں کھو جاتی ہیں۔ اسرائیلی قبضہ اور اس کی توسیع پسندانہ پالیسیاں اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں، مگر دنیا کے انصاف پسند ممالک اس پر عملی قدم اٹھانے کے بجائے محض مذمتی بیانات دینے تک محدود رہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: تحریک آزادی کشمیر کی حمایت: مقبوضہ کشمیر کے گلی کوچوں میں وزیراعظم پاکستان اور آرمی چیف کے پوسٹرز آویزاں
بھارت اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ نے کشمیر اور فلسطین کے مسائل کو اور پیچیدہ کیے رکھا ہے۔ اسرائیل اور بھارت کے درمیان دفاعی معاہدے، عسکری تعلقات اور اسٹریٹجک شراکت داری اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ طاقتور ریاستیں اپنے مفادات کے لیے کسی بھی اصول کو پس پشت ڈال سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کو کشمیر میں ظلم کرنے کی کھلی چھوٹ حاصل ہے، جس طرح اسرائیل کو فلسطین میں۔
تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں جب بھی کسی قوم کو اس کے حق سے محروم کیا گیا، جب بھی کسی خطے میں طاقت کے نشے میں چور حکمرانوں نے انسانوں کو محکوم بنانے کی کوشش کی، تو وہاں ایک مزاحمت جنم لیتی ہے۔ کشمیر اور فلسطین کی تحریکِ آزادی صرف ایک سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ ایک نظریاتی، ثقافتی، اور انسانی بقا کی جنگ ہے۔ یہ وہ معرکہ ہے جس میں قلم اور بندوق، سوچ اور نظریہ، صبر اور قربانی سب ایک ساتھ چل رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کا 74واں یوم جمہوریہ، مقبوضہ کشمیر سمیت دنیا بھر میں یوم سیاہ
کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ ایک اور پہلو سے بھی مماثلت رکھتا ہے، اور وہ ہے عالمی طاقتوں کا دوہرا معیار۔ جہاں مغرب جمہوریت، آزادی، اور انسانی حقوق کا چیمپیئن بنتا ہے، وہیں یہی اصول فلسطین اور کشمیر کے معاملے میں غائب نظر آتے ہیں۔ اگر عالمی انصاف واقعی غیرجانبدار ہوتا، اگر اقوام متحدہ واقعی آزاد ہوتی، تو آج کشمیر اور فلسطین کی صورتحال مختلف ہوتی۔
مگر تاریخ بتاتی ہے کہ آزادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ صرف دشمن کا ظلم نہیں ہوتا، بلکہ اپنوں کی خاموشی اور عالمی برادری کی بے حسی بھی ہوتی ہے۔ یہ عالمی طاقتوں کی وہ مجرمانہ غفلت ہے جس نے ان تنازعات کو مزید الجھا دیا ہے۔ لیکن وقت یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ جبر کی تاریکی جتنی بھی گہری ہو، ایک دن سحر ضرور طلوع ہوتی ہے۔ کشمیر اور فلسطین کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ وہاں کی سرزمین صرف خون ہی نہیں پیتی، بلکہ عزم، حوصلہ، اور قربانیوں کے بیج بھی اگاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کشمیریوں اور فلسطینیوں کے حالات بہت کچھ کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہیں، آرمی چیف جنرل عاصم منیر
آج جب ہم یوم یکجہتی کشمیر کے عنوان سے یکجہتی کے دعوے کرتے ہیں، تو یہ ضروری ہے کہ یہ دن محض رسمی تقریبات تک محدود نہ رہے۔ یہ یکجہتی محض الفاظ میں نہیں بلکہ عملی اقدامات میں بھی نظر آنی چاہیے۔ پاکستان نے ہمیشہ کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھائی، اور فلسطینی عوام کی جدوجہد کو بھی سپورٹ کیا، مگر یہ آواز صرف حکومتی ایوانوں تک محدود نہیں رہنی چاہیے۔ عوامی سطح پر، سفارتی محاذ پر، اور بین الاقوامی میڈیا میں ان مظلوم قوموں کا مقدمہ مزید موثر انداز میں لڑنا ہوگا۔
یہ تاریخ کا وہ لمحہ ہے جب دنیا کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ طاقت کے اصول کو مانتی رہے گی یا واقعی انصاف کا پرچم بلند کرے گی۔ کشمیر اور فلسطین کی تحریکیں صرف مظلوموں کی نہیں، بلکہ ان تمام لوگوں کی جدوجہد کا استعارہ ہیں جو دنیا میں حقیقی آزادی، انصاف، اور برابری چاہتے ہیں۔ یہ تحریکیں یاد دلاتی ہیں کہ جب تک دنیا میں ایک بھی مظلوم چیخ رہا ہے، جب تک ایک بھی زمین غیر منصفانہ قبضے میں ہے، تب تک انسانیت کا ضمیر مکمل طور پر آزاد نہیں ہو سکتا۔
یہ جنگ زمین کی نہیں، نظریے کی ہے۔ اور تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ نظریے کبھی مٹائے نہیں جا سکتے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اسرائیل بھارتی تسلط جبر زیر قبضہ ظلم غیرقانونی فلسطین مقبوضہ کشمیر ہندوتوا ہندوستان یوم یکجہتی کشمیر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل بھارتی تسلط فلسطین ہندوتوا ہندوستان یوم یکجہتی کشمیر کشمیر اور فلسطین کی یوم یکجہتی کشمیر بین الاقوامی نہیں بلکہ تک محدود ہیں جو رہا ہے اور اس
پڑھیں:
عالمی برادری نظربند کشمیریوں کی رہائی کیلئے اقدامات کرے
ریاض احمدچودھری
ڈی ایف پی کے ترجمان ایڈووکیٹ ارشد اقبال نے سرینگر میں جاری ایک بیان میں نامساعد موسم ، بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی اور اپنے گھروں سے دور بھارتی جیلوں میں نظربندسینکڑوں کشمیریوں کو درپیش سنگین صورتحال کو اجاگرکرتے ہوئے کہاکہ کشمیری نظربندوں کو پینے کے صاف پانی، صحت بخش خوراک اور مناسب طبی دیکھ بھال جیسی بنیادی ضروریات سے محروم رکھا گیا ہے جس سے انہیں صحت کے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ بہت سے نظربند بے چینی، ڈپریشن اورذہنی تنائو سمیت صحت کے مختلف مسائل سے دوچار ہیں جو سورج کی روشنی، مناسب غذائیت اور علاج ومعالجے کے فقدان کی وجہ سے سنگین رخ اختیارکررہے ہیں۔ڈی ایف پی نے انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں سے مطالبہ کیاکہ وہ کشمیری نظربندوں کو خاص طور پر تہاڑ جیل میںجہاں نظربندوں کو ان کے اہل خانہ سے ہزاروں کلومیٹر دور رکھا جارہا ہے، درپیش صورتحال کی تحقیقات کریں۔ انسانی حقوق کے اداروں کو موثر کارروائی کرنی چاہیے اور موقع پر جاکرجائزہ لینا چاہیے۔ مسئلہ کشمیر حل نہ ہونے کی وجہ سے خطے میں بڑے پیمانے پرانسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔
گزشتہ برس جنیوا میں کمیشن برائے انسانی حقوق کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں،حریت قیادت کو مسلسل جیلوں میں بند رکھنے، کشمیریوں کی جائیدادوں پر بھارتی فوج کا قبضہ، غیر کشمیری باشندوں کو آباد کرنے پر تحریک کشمیر یورپ کے زیر اہتمام احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین نے مختلف بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے اور وہ مطالبہ کر رہے تھے کہ کمیشن برائے انسانی حقوق کشمیریوں کا قتل عام بند کرائے، حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم، یاسین ملک، شبیر شاہ،نعیم خان، ڈاکٹر قاسم فکٹو،آسیہ اندرابی، ایاز اکبر، نہیدا نسرین، پیر سیف الدین، فہمیدہ صوفی اور دیگر رہنماؤں کی رہائی کیلئے ٹھوس اقدامات کرے ۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں، میڈیا پر مقبوضہ کشمیر میں داخلے پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں۔
حریت رہنماؤں نے خطاب کرتے ہوئے کہا بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو جیل خانے میں تبدیل کر رکھا ہے، حریت قیادت سمیت 10لاکھ کشمیری غیر قانونی طور پر جیلوں میں بند ہیں، کشمیریوں کے ساتھ انتہائی ظالمانہ سلوک کیا جارہا ہے، عالمی برادری اپنی خاموشی توڑے، کشمیر یوں کی نسل کشی اور قتل عام بند کرایا جائے۔ بھارت کا اصل روپ دنیا کے سامنے بے نقاب ہوچکا، مودی انسانیت کا دشمن اور قاتل ہے، بھارت نام نہاد جمہوریت کے لبادے میں دنیا کو دھوکہ دے رہا ہے، کشمیری اپنے حق خودارادیت کیلئے جدوجہد کررہے ہیں، یہ حق انہیں عالمی امن کے علمبرداروں اور اقوام متحدہ نے دیا ہے، بھارت کے ناپاک عزائم اور سازشوں کو نہ روکا گیا تو خطے میں تباہی اور بربادی کی ذمہ داری اقوام متحدہ پر ہوگی۔
اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کشمیر پر اپنی رپورٹوں پر عمل درآمد کرائے، اپنے وفد کو مقبوضہ کشمیر بھیج کر حالات کا خود مشاہدہ کرے اور بھارت کے ظلم کا سختی سے نوٹس لیا جائے۔دہلی پولیس کے خصوصی سیل نے 14/ستمبر 2020ء کو جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سابق طالب علم عمر خالد کو فروری 2020ء میں شمالـمشرقی دہلی میں ہوئے فسادات میں ان کے مبینہ کردار کے لیے سخت غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (UAPA) کے تحت گرفتار کیا تھا۔ پولیس کا دعویٰ تھا کہ وہ ان فسادات کے اہم سازشی ہیں۔ چار سال مکمل ہونے کے بعد بھی وہ کسی ضمانت یا ٹرائل کے بغیر تہاڑ جیل کی انتہائی سیکیورٹی کی حامل قید میں ہیں۔ ان چار سالوں میں عمر خالد نے ضمانت کی خاطر مختلف عدالتوں سے رجوع کیا۔ (واضح رہے کہ) سپریم کورٹ نے متعدد مواقع پر (ضمانت کو ) ایک ”قاعدے” کے طور پر بیان ہے، ایک ایسا قاعدہ جو یو اے پی اے جیسے خصوصی قوانین کے لیے بھی لائق اطلاق ہے۔ 36 سالہ جہد کار، جو ہنوزمجرم قرار نہیں دیے گئے ہیں بلکہ صرف ایک ملزم ہیں، کہتے ہیں کہ انہوں نے صرف ایک پرامن احتجاج میں حصہ لیا تھا۔
فسادات کے بعد مختلف کیسوں کے تحت دہلی پولیس نے چند مہینوں کے اندرون 2500 افراد کو گرفتار کیا۔ ان مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے گذشتہ چار سالوں میں نچلی عدالتوں نے اکثر مواقع پر پولیس کو ناقص تفتیش پر ڈانٹ لگاتے ہوئے 2000 سے زائد افراد کو ضمانت دے دی ہے۔ 2020ء کے فسادات سے متعلق مقدمات میں ایک بڑا سازشی مقدمہ وہ ہے جس میں پولیس نے مسٹر خالد کو دیگر 17 افراد کے ساتھ ملزم قرار دیا ہے، جن میں سے کئی ضمانت پر رِہا ہیں۔قید کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد پہلی مرتبہ انہیں مارچ 2022ء میں کارکاردوما عدالت کی جانب سے ضمانت دینے سے منع کر دیا گیا تھا۔ بعدازاں انہوں نے دہلی ہائی کورٹ کا رخ کیا۔ ہائی کورٹ نے بھی اکتوبر 2022ء میں انہیں اس حوالے سے کسی بھی قسم کی راحت فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد خالد نے ضمانت کی عرضی سپریم کورٹ میں داخل کی۔ فروری 2024ء تک سپریم کورٹ میں ان کی درخواست سماعت سے پہلے ہی 11 مہینوں میں 14 دفعہ ملتوی کی جا چکی تھی۔ یہ التوا کبھی فریقین میں سے کسی وکیل کی غیر حاضری کے باعث ہوا تو کبھی استغاثہ کی درخواست پر۔
اگست 2023ء میں جسٹس اے ایس بوپنا اور پی کے مشرا کی ایک بینچ نے عمرخالد کی سماعت کو یہ کہتے ہوئے ملتوی کر دیا کہ ”(ججوں کے) اس مجموعے میں سماعت نہیں کی جاسکتی”۔ بعد ازاں 5 ستمبر 2023ء کو مقدمہ ایک بینچ کو منتقل کر دیا گیا جس کی قیادت جسٹس بیلا. آم. ترویدی کر رہے تھے جسے خالد کے وکیل کی درخواست پر ملتوی کر دیا گیا۔ اگلے موقع پر 12/ اکتوبر کو بینچ نے ”وقت کی کمی” کا حوالہ دیتے ہوئے معاملے کو ملتوی کر دیا۔ نومبر میں ”متعلقہ سینئر وکلاء کی عدم دستیابی” کے باعث ضمانت کی عرضی کو دوبارہ ملتوی کر دیا گیا۔