کچھ بھی کرلو، غزہ نہیں چھوڑیں گے، امریکی صدر کے قبضے کے اعلان پر فلسطینیوں کا رد عمل
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
فلسطینی شہریوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر قبضہ کرنے کے اعلان پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ کچھ بھی ہوجائے، ہم کسی صورت غزہ چھوڑ کر کسی اور مقام پر منتقل نہیں ہوں گے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق زیادہ تر فلسطینیوں کی طرح غزہ کے جنوبی شہر رفح کے رہائشی حاتم عزام نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان پر سخت غم و غصے کا اظہار کیا جس میں انہوں نے کہا کہ غزہ کے رہائشیوں کو مصر یا اردن منتقل ہو جانا چاہیے۔
34 سالہ شہری نے ٹرمپ کے گزشتہ ہفتے غزہ میں صفائی سے متعلق اپنے منصوبے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے استعمال کیے گئے الفاظ پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہ ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ غزہ کچرے کا ڈھیر ہے، ایسا بالکل نہیں ہے۔
امریکی صدر کو فریب کا شکار کہتے ہوئے شہری نے کہا کہ ٹرمپ مصر اور اردن کو تارکین وطن لینے پر ایسے مجبور کرنا چاہتے ہیں گویا کہ یہ ملک ان کے ذاتی فارم ہیں۔
مصر اور اردن دونوں نے ٹرمپ کے خیال کو سختی سے مسترد کر دیا ہے اور ان ممالک کے علاوہ غزہ اور دیگر ہمسایہ ممالک نے بھی اسے ماننے سے انکار کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی صدر نے غزہ پر قبضہ کرنے کا اعلان کردیا، ہم اس کے مالک ہوں گے، ٹرمپ
ٹرمپ اور نیتن یاہو کو فلسطینی عوام اور غزہ کے لوگوں کے حوالے سے حقائق کو سمجھنا چاہیے، یہ وہ لوگ ہیں جن اپنی سرزمین میں گہری جڑیں ہیں، اہم کہیں نہیں جائیں گے۔
رفح کے ایک اور 30 سالہ رہائشی ایحاب احمد نے افسوس کا اظہار کیا کہ ٹرمپ اور نیتن یاہو "اب بھی فلسطینی عوام اور ان کے اپنی زمین سے انسیت کو نہیں سمجھتے، ہم اس سرزمین پر رہیں گے، چاہے کچھ بھی ہو، چاہے ہمیں خیموں اور سڑکوں پر ہی رہنا پڑے، ہم اپنی زمین سے جڑے رہیں گے۔
ایحاب احمد نے اے ایف پی کو بتایا کہ فلسطینیوں نے برطانیہ کے مینڈیٹ کے بعد 1948 کی جنگ سے سبق سیکھا جب اسرائیل کے قیام کے وقت لاکھوں فلسطینیوں کو گھروں سے محروم کیا گیا اور انہیں واپس جانے کی اجازت نہیں دی گئی، دنیا کو اس پیغام کو سمجھنا چاہیے کہ اس بار ہم اس طرح سے کہیں نہیں جائیں گے جیسا کہ 1948 میں ہوا تھا۔"
یاد رہے کہ آج وائٹ ہاؤس میں صہیونی ریاست اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئےامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطین کی محصور اور اسرائیل کے ہاتھوں تباہ کی گئی پٹی غزہ پر قبضہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ امریکا غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لے گا اور ہم اس کے مالک ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: مغربی کنارے میں ملٹری چیک پوسٹ پر فلسطینی نوجوان کا حملہ؛ 2 اسرائیلی فوجی ہلاک اور 8 زخمی
ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ غزہ پر قبضہ کرکے ہم اسے مستحکم کریں گے اور یہاں ملازمتوں کے مواقع پیدا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں طویل مدتی ملکیت کی پوزیشن دیکھ رہا ہوں، ہم غزہ پر قبضہ کرکے اسے ترقی یافتہ بنائیں گے، جس سے علاقے کے لوگوں کو ملازمتیں ملنے کے ساتھ دوسرے شہریوں کو بسنے کا موقع بھی ملے گا۔
امریکی صدر نے مزید کہا کہ فلسطینیوں کو اردن اور مصر میں بسایا جائے گا، اب دیکھنا ہے کہ اردن اور مصر کے رہنماؤں کا ردعمل کیا ہوتا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ خطے کے دیگر رہنماؤں کو اس منصوبے سے متعلق بتایا، جسے انہوں نے پسند کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کے پاس غزہ چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ہمسایہ ممالک اردن اور مصر بے گھر فلسطینیوں کو اپنی پناہ میں لے لیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر کرتے ہوئے انہوں نے ٹرمپ کے کہ غزہ
پڑھیں:
امریکی صدر نے غزہ پر قبضہ کرنے کا اعلان کردیا، ہم اس کے مالک ہوں گے، ٹرمپ
واشنگٹن(نیوز ڈیسک)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطین کی محصور اور اسرائیل کے ہاتھوں تباہ کی گئی پٹی غزہ پر قبضہ کرنے کا اعلان کردیا۔وائٹ ہاؤس میں صہیونی ریاست اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ امریکا غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لے گا اور ہم اس کے مالک ہوں گے۔ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ غزہ پر قبضہ کرکے ہم اسے مستحکم کریں گے اور یہاں ملازمتوں کے مواقع پیدا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں طویل مدتی ملکیت کی پوزیشن دیکھ رہا ہوں، ہم غزہ پر قبضہ کرکے اسے ترقی یافتہ بنائیں گے، جس سے علاقے کے لوگوں کو ملازمتیں ملنے کے ساتھ دوسرے شہریوں کو بسنے کا موقع بھی ملے گا۔امریکی صدر نے مزید کہا کہ فلسطینیوں کو اردن اور مصر میں بسایا جائے گا، اب دیکھنا ہے کہ اردن اور مصر کے رہنماؤں کا ردعمل کیا ہوتا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ خطے کے دیگر رہنماؤں کو اس منصوبے سے متعلق بتایا، جسے انہوں نے پسند کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کے پاس غزہ چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ہمسایہ ممالک اردن اور مصر بے گھر فلسطینیوں کو اپنی پناہ میں لے لیں۔وائٹ ہاؤس میں میں میڈیا سے گفتگو سے قبل انہوں نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے ساتھ امریکہ کی شمولیت کو روکنے اور اقوام متحدہ کے فلسطینی امدادی ادارے یو این آر ڈبلیو اے کی فنڈنگ روکنے کے لئے ایک دستاویز پر بھی دستخط کیے۔انہوں نے ایک صدارتی یادداشت پر دستخط کیے جس میں ایران کے خلاف ایک سخت پالیسی کو دوبارہ نافذ کیا گیا جس کا مقصد ملک کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنا اور تیل کی برآمدات کو محدود کرنا ہے۔وائٹ ہاؤس میں اوول آفس میں خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہو سکتے اور امریکہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دوسرے ممالک کو ایرانی تیل کی فروخت کو روکے۔میمو پر دستخط کرتے ہوئے ٹرمپ نے اسے بہت مشکل قرار دیا اور کہا کہ وہ اس بات پر پریشان ہیں کہ آیا یہ قدم اٹھایا جائے یا نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہو سکتے اور انہیں امید ہے کہ تہران کے ساتھ کوئی معاہدہ طے پا جائے گا۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اپنے ایرانی ہم منصب سے ملاقات کے لیے تیار ہیں تاکہ ایران کو قائل کرنے کی کوشش کی جا سکے کہ وہ جوہری ہتھیار بنانے کی تہران کی کوششوں کو ترک کر دے۔ٹرمپ نے سابق صدر جو بائیڈن پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ تیل کی برآمد پر پابندیوں کو سختی سے نافذ کرنے میں ناکام رہے ہیں، جس کے بارے میں ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اس نے ایران کو جوہری ہتھیاروں کے پروگرام اور مشرق وسطیٰ میں مسلح ملیشیاؤں کی مالی اعانت کے لیے تیل فروخت کرنے کی اجازت دے کر حوصلہ افزائی کی ہے۔اقوام متحدہ کے نیوکلیئر واچ ڈاگ کے سربراہ نے دسمبر میں غیر ملکی میڈیا کو بتایا تھا کہ ایران یورینیم کی افزودگی کو ڈرامائی طور پر 60 فیصد تک بڑھا رہا ہے، جو تقریبا 90 فیصد ہتھیاروں کی سطح کے قریب ہے جبکہ ایران نے جوہری ہتھیار بنانے کی خواہش سے انکار کیا ہے۔
ٹرمپ کے میمو میں دیگر چیزوں کے علاوہ امریکی وزیر خزانہ کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ایران پر زیادہ سے زیادہ اقتصادی دباؤ ڈالیں، جس میں موجودہ پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے والوں پر پابندیاں اور نفاذ کا طریقہ کار بھی شامل ہے۔اس میں محکمہ خزانہ اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو ایک مہم پر عمل درآمد کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے جس کا مقصد “ایران کی تیل کی برآمدات کو صفر تک پہنچانا” ہے۔ منگل کے روز امریکی تیل کی قیمتوں میں کمی اس خبر کے بعد ہوئی کہ ٹرمپ اس میمو پر دستخط کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جس سے واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان محصولات کے ڈرامے کی کچھ کمزوریوں کو دور کیا گیا ہے۔
حکومت مستعفی ہوکر نئے انتخابات کا اعلان کرے، مولانا فضل الرحمٰن