قومی ترانے کی دھن کے خالق احمد غلام علی چھاگلہ کی برسی
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
گزشتہ لگ بھگ ڈھائی سال پہلے جب پاکستان کے قومی ترانے کو نئے جدید آلات موسیقی اور گلوکاروں کے ساتھ ریکارڈ کیا گیا تو ذہن کو اُس عظیم موسیقاراحمدغلام علی چھاگلہ کی یاد ستا گئی جنہوں نے ایک صبر آزما اور طویل جدوجہد کے بعد پاکستانی قومی ترانے کی دھن تیار کی تھی اور اسی کو سنتے ہوئے ہم بچپن سے جوانی کی دہلیز تک پہنچے۔
احمد غلام علی چھاگلہ کی پرکشش اور متاثر کن شخصیت کو دیکھ کر کہیں سے بھی نہیں لگے گا کہ وہ موسیقار تھے۔ ظاہری طور پر کسی قانون دان کی طرح ہی لگتے۔ 31 مئی 1902 کو کراچی میں جنم لینے والے احمد غلام علی چھاگلہ نے سندھ مدرسہ کراچی سے تعلیم مکمل کی۔ موسیقی کا جنون کی حد تک شوق تھا اسی لیے مہراج سوامی داس کی شاگردی اختیار کی۔
یہی نہیں اس شعبے میں اور مہارت اور منفردیت کے لیے برطانیہ کے ٹرنٹی کالج آف میوزک تک کا سفر طے کیا۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے قبل احمد غلام علی چھاگلہ بمبئی کی فلم نگری سے بھی وابستہ رہے۔ یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے کم نہیں کہ جب نو زائیدہ مملکت کے قومی ترانہ بنانے کا مرحلہ آیا 4 جولائی 1949 کو ماہرین کی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں ان میں سے ایک کمیٹی میں احمد غلام علی چھاگلہ بھی شامل تھے جنہوں نے کمیٹی کے روبرو خود کی تیار کی ہوئی دھن بھی پیش کی۔
مختلف کتابوں کے حوالے کے مطابق سال 1950 کے آغاز میں ایران کے نوجوان بادشاہ رضا شاہ پہلوی سرکاری دورے پر پاکستان پہنچے۔ رسم و رواج اور پروٹوکول کا تقاضا تھا کہ بادشاہ کا استقبال ترانے کی تقریب سے کیا جائے۔ اس لیے سرکاری ترانے کی ضرورت سنجیدگی سے محسوس کی گئی لیکن پاکستان نے ابھی تک اپنے ترانے کا فیصلہ نہیں کیا تھا، حکام کے پاس وقت کی کمی تھی۔
انہیں نا صرف اس خاص موقع کے لیے بلکہ مستقبل میں ہونے والے پروگراموں کے لیے بھی فوری طور پر قومی ترانے کی ضرورت تھی، کیونکہ ایک بار جب قومی ترانہ منتخب کرکے بجایا جاتا تو اسے تبدیل کرنا ناممکن ہوتا۔ ایسے میں احمد غلام علی چھاگلہ کی تیار کردہ دھن کو منظور کیا گیا۔ کراچی کے ہوائی اڈے پر پاکستان بجریہ کے بینڈ نے عبدالغفور کی قیادت میں اسی دھن کو ایرانی شہنشاہ کی آمد پر پیش کیا۔
یہ اولین موقع تھا جب پاکستانی ترانے کو کسی سرکاری محفل کا حصہ بنایا گیا۔ یہاں یہ بھی بتادیں کہ 13 اگست 1954 کو ریڈیو پاکستان سے پہلی بار جب قومی ترانہ پیش کیا گیا تو اس وقت تک حفیظ جالندھری نے اس دھن پر اپنے بول بٹھا کر اسے اور ممتاز بنادیا تھا۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا احمد غلام علی چھاگلہ نے قومی ترانے کی دھن آزمائشی بنیاد پر تیار کی تھی جسے کمیٹی نے منظور بھی کرلیا۔ اور جب کمیٹی کو کسی دھن میں کوئی کشش نظر نہیں آئی تو عارضی بنیادوں پر احمد غلام علی چھاگلہ کی دھن کوہی منتخب کرلیا گیا۔ اور اس کا باقاعدہ اعلان 21 اگست 1949 کو کیا گیا۔
احمد غلام علی چھاگلہ کی یہ دھن ہر ایک کے دل میں گھر کرگئی۔ اس عرصے میں دیگر دھنوں کی کھوج کا مرحلہ بھی آتا رہا۔ ترانہ کمیٹی نے کئی دھنوں کا جائزہ لیا اور پھر 2 دھنوں کو قومی ترانے کی دھن کے لیے حتمی طور پر منظور کیا۔ ان میں ایک دھن احمد غلام علی چھاگلہ کی تھی جبکہ دوسری دھن موسیقار سجاد سرور نیازی نے ترتیب دی تھی۔ اور پھر اگست 1950 میں کمیٹی کو احمد غلام علی چھاگلہ کی دھن اس قدر بھائی کہ اسے مستقل طور پر قومی ترانے کی دھن کے طور پر منظور کیا گیا۔
براڈ کاسٹر جمیل زبیری نے کتاب ’یاد خزانہ‘ میں لکھا ہے کہ پاکستانی قومی ترانے کی موسیقی احمد غلام چھاگلہ نے ترتیب دی۔ جس کے بعد ملک کے سبھی شعرا کرام کو ترانہ لکھنے کے لیے مدعو کیا گیا جس میں حفیظ جالندھری دیگر شاعروں پر سبقت لے گئے۔
یہ بھی کیسا اتفاق ہے کہ 5 فروری 1953 کو احمد غلام علی چھاگلہ اس دنیا سے چل بسے جبکہ ان کی دھن کو باقاعدہ سرکاری طور پر 1954 میں منظور کیا گیا۔ لگ بھگ 43 سال بعد اس وقت کی وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے احمد غلام علی چھاگلہ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے بعد از مرگ صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی دینے کا اعلان کیا۔ ہیوسٹن میں مقیم ان کے صاحبزادے عبدالخالق چاگلہ نے 23 مارچ 1997 کو واشنگٹن ڈی سی میں پاکستانی سفارتخانے میں منعقدہ تقریب میں یہ ایوارڈ وصول کیا۔ اسی طرح 2023 میں صدر پاکستان نے نشان امتیاز سے بھی نوازا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سفیان خانسفیان خان کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے ہیں۔ کئی برسوں سے مختلف پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے بلاگز بھی لکھتے ہیں۔
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: قومی ترانے کی دھن منظور کیا کیا گیا تیار کی دھن کو کے لیے
پڑھیں:
عمران خان 3 سال فوج کے خلاف رہے، اب مدد مانگ رہے ہیں، ملک احمد خان
پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ملک احمد خان نے کہا ہے کہ آرمی چیف کو خط لکھ کر عمران خان اپنے اس سیاسی نظریے پر قائم نہیں رہے جس پر وہ پچھلے 3 سال سے قائم تھے، وہ پہلے فوج کے کردار کے خلاف تھے اور اب اسی فوج سے کردار ادا کرنے کی استدعا کررہے ہیں۔
وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ملک احمد خان نے کہا کہ 2018 میں بھی عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہوکر آئے، عمران خان کی انتخابات کے حوالے سے پوزیشن نئی نہیں، 2014 سے وہ مسلسل ایک ہی رٹی ہوئی بات بار بار دہراتے ہیں، انہیں اس وقت بھی اعتراض تھا، وہ جیت جائیں تو ٹھیک ہے اور اگر نہ جیتیں تو انہیں اعتراض ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان کے آرمی چیف کو لکھے گئے خط کے مزید مندرجات سامنے آگئے
ملک احمد خان نے کہا کہ عمران خان صرف یہ چاہتے ہیں کہ صرف وہی ہوں، ان کے ساتھ جائز اختلاف بھی کرے وہ جیل میں ہو، یہی عمران خان کا کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کے خلاف جو مقدمات درج ہیں، ان سے آرمی چیف کا کیا تعلق ہے، وہ مدعی تو ہوسکتے ہیں لیکن فیصلے کا اختیار تو پاکستان کی آئینی عدالتوں کو ہے، اب وہ ریلیف مانگ رہے جو ایک عجیب سی بات ہے۔
ملک احمد خان نے کہا کہ عمران خان نے 3 سال کیوں قوم کا وقت ضائع کیا، ان 3 برسوں میں ان کی یہی پوزیشن تھی کہ کسی بھی عدالتی، سیاسی یا انتخابی معاملے میں فوج کا کردار نہیں ہونا چاہیے تو اب وہ فوج سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے کردار ادا کرے اور پی ٹی آئی کے بارے میں اپنی پالیسی تبدیل کرے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان نے آرمی چیف کو خط کیوں لکھا؟ بیرسٹر گوہر نے وجہ بتادی
انہوں نے کہا کہ کسی غریب کی جھونپڑی کو آگ لگانے کا جرم ناقابل ضمانت ہوتا ہے تو کیا ایک ہی دن ریڈیو پاکستان سمیت دیگر شہروں میں مختلف مقامات اور عدالتی ریکارڈ جلانے، قانون نافذ کرنے والےا داروں کے اہلکاروں کے خلاف پیٹرول بموں کا استعمال کرنے اور شہدا کے مجسمے جلانے والوں پر مقدمہ نہ ہو۔
ایک سوال کے جواب میں اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں بھی مل جائیں تب بھی وہ پنجاب میں حکومت نہیں بناسکتی، پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں ملنے کے باوجود 60 سیٹوں کا فرق ہوگا، تاہم انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں نہیں مل سکتیں، سپریم کورٹ کا اس حوالے سے فیصلہ بالکل غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ نے قانون منظور کیا ہے، اگر وہ عدالت میں بیٹھ کر سیاست کریں گے تو پارلیمنٹ کے پاس انہیں روکنے کا پورا حق ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان میں زیادہ جمہوری مادہ نہیں، کسی حکومت مخالف اتحاد میں شامل نہیں ہورہے، مفتاح اسماعیل
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا سیاست میں دوبارہ فعال ہونا خوش آئند ہے، ان کی مدبرانہ سیاست میں اس ملک کے مسائل کا حل اور ترقی کا راز ہے، لوگوں کو غربت سے نکالنے کے جو منصوبے ان کے تھے وہ آج مریم نواز کررہی ہیں، نواز شریف کا ملکی سیاست میں بڑا کردار ہے اور وہی ملک سے منفی سیاست کا خاتمہ کریں گے۔
پی ٹی آئی کو لاہور میں جلسے کی اجازت سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان کا قانون ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے جلسے کی اجازت لینا ضروری ہے، اگر آپ پرامن جلسے کی اجازت لے کر اس کا غلط استعمال کرتے ہیں، لوگوں کو بلا کر بلوا کرتے ہیں، لوگوں کی املاک، بینک اور ایمبولینسز جلاتے ہیں، میٹرو بس، پبلک ٹرانسپورٹ، ریڈیو پاکستان کو نذر آتش کرتے ہیں اور چھاؤنیوں میں جاکر آگ لگاتے ہیں تو ایسی انتشاریوں کو ان کے سابقہ کردار کی بنیاد پر ہی اجازت دی جاتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews آرمی چیف اسپیکر پنجاب اسمبلی آگ بانی پی ٹی آئی جلاؤ گھیراؤ خط عمران خان لاہور جلسہ ملک احمد خان وی نیوز