Islam Times:
2025-04-13@16:48:23 GMT

ٹرمپ چاہے، غزہ کی بندر بانٹ

اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT

ٹرمپ چاہے، غزہ کی بندر بانٹ

اسلام ٹائمز: ٹرمپ کے اس اعلان پر یہ لطیفہ یاد آیا، پاگل خانہ میں ایک سینیئر پاگل، پاگلوں کے ایک گروپ سے خطاب کرکے کہہ رہا تھا کہ میں نے سارا پاکستان خرید لیا ہے۔ سب پاگل واہ واہ کر رہے تھے، ہر کوئی اس چکر میں تھا کہ اسکی خوشامد کرکے اپنے لیے کچھ حاصل کر لے۔ دور بیٹھا ایک پاگل زور زور سے ہنسنے لگا۔ ان پاگلوں نے پوچھا تم کیوں ہنس رہے ہو۔؟ اس نے کہا میں نے پاکستان بیچا ہی نہیں ہے، اس نے کہاں سے خرید لیا۔؟ یہ سن کر ان پاگلوں کو کافی مایوسی ہوئی کہ انکی خوشامد فضول میں گئی۔ آج ڈونلڈ ٹرمپ اور اسکی ہاں میں ہاں ملانے والے اسرائیلی وزیراعظم کی حیثیت بھی ایسی ہی ہے۔ ایک ملک خرید رہا ہے اور دوسرا خریدنے پر چاپلوسی کر رہا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

ایک بار دو کووّں کو ایک روٹی مل گئی اور اس کی تقسیم میں ان میں جھگڑا ہونے لگا۔ وہ دونوں ایک بندر کے پاس روٹی کی تقسیم کے لئے گئے۔ بندر نے روٹی کے دو ٹکڑے کئے، لیکن ایک کوّے نے کہا کہ اُس کا ٹکڑا دوسرے کے ٹکڑے سے چھوٹا تھا۔ اس پر بندر نے دوسرے ٹکڑے سے ایک نوالہ کاٹ کر کھا لیا۔ لیکن ایسا کرنے سے اب وہ ٹکڑا پہلے ٹکڑے سے چھوٹا ہوگیا۔ کوّوں نے پھر شکایت کی تو بندر نے پھر بڑے ٹکڑے میں سے ایک نوالہ کتر کر کھا لیا، جس سے پہلا ٹکڑا چھوٹا ہوگیا۔ کوّے شکایت کرتے رہے اور بندر روٹی کھاتا رہا، یہاں تک کہ آخر میں بندر کے پاس روٹی کا نہایت چھوٹا سا ٹکڑا رہ گیا۔ اس نے کہا کہ ’’اب یہ تو اتنا چھوٹا ہوگیا ہے کہ اس کے دو ٹکڑے ہو ہی نہیں سکتے۔‘‘ یہ کہہ کر اُس نے وہ آخری ٹکڑا بھی منہ میں رکھ لیا اور کوّے ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے۔ یوں روٹی کی بندر بانٹ مکمل ہوگئی۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے یہ کہانی کیوں سنائی تو جناب امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ غزہ پر "قبضہ" کرکے اس کی تعمیرِ نو کرسکتا ہے۔ منگل کے روز اسرائیل کے وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ غزہ پر طویل مدتی قبضے کی سوچ رکھتے ہیں، جس کی قیادت امریکہ کرے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ غزہ کی پٹی کا انتظام سنبھال کر "اس پر حقیقی معنوں میں کام" کرسکتا ہے، جیسے کہ ایسے بموں کو ہٹانا جو پھٹے نہیں ہیں، غزہ کی تعمیر نو اور اس کی معیشت کو دوبارہ متحرک کرنا۔ امریکی صدر نے بنا کسی ثبوت کے دعویٰ کیا کہ فلسطینی صرف اسی لیے غزہ واپس جانا چاہتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہے۔

انھوں نے غزہ کو کسی تباہ شدہ علاقے سے تشبیہ دی۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم پہلے جیسے حالات کی طرف واپس نہیں جا سکتے، ورنہ تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ ایک خود مختار علاقے کا انتظام سنبھالنے کی بات کر رہے ہیں تو صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ غزہ پر طویل مدتی قبضے کی سوچ رکھتے ہیں، جس کی قیادت امریکہ کرے گا۔ سبحان اللہ، کیا عالی شان انصاف فرمایا ہے۔ اصل میں امریکہ کی موجودہ قیادت اور فیصلہ کرنے والے انہی کی اولادیں ہیں، جنہوں نے امریکہ کے اصل باشندوں کا قتل عام کرکے اس ساری زمین پر قبضہ کر لیا۔ ٹرمپ اور امریکی قیادت کی غزہ کے بارے میں بھی یہی رائے ہے۔ یہ لوگ غزہ کی زمین میں دلچسپی رکھتے ہیں، انہیں وہاں کی عوام سے کسی قسم کی دلچسپی نہیں ہے۔ یہ لوگ کسی صورت میں فلسطینیوں کو زندگی کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

ٹرمپ اور دوسرے لوگوں میں یہ فرق ہے کہ یہ اپنے خیالات کا اظہار کر دیتا ہے اور انہیں چھپاتا نہیں ہے، ورنہ اسّی سال سے امریکہ کی ریاستی پالیسی یہی رہی ہے۔ ٹرمپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ امریکہ کو یہاں تاریخ کی شدید ترین مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ شام کو ترکی اور چند ایجنٹوں کے ذریعے کنٹرول کرنے کی پالیسی زیادہ دیر نہیں چلے گی۔ ٹرمپ کے اس اعلان پر یہ لطیفہ یاد آیا، پاگل خانہ میں ایک سینیئر پاگل، پاگلوں کے ایک گروپ سے خطاب کرکے کہہ رہا تھا کہ میں نے سارا پاکستان خرید لیا ہے۔ سب پاگل واہ واہ کر رہے تھے، ہر کوئی اس چکر میں تھا کہ اس کی خوشامد کرکے اپنے لیے کچھ حاصل کر لے۔ دور بیٹھا ایک پاگل زور زور سے ہنسنے لگا۔ ان پاگلوں نے پوچھا تم کیوں ہنس رہے ہو۔؟ اس نے کہا میں نے پاکستان بیچا ہی نہیں ہے، اس نے کہاں سے خرید لیا۔؟ یہ سن کر ان پاگلوں کو کافی مایوسی ہوئی کہ ان کی خوشامد فضول میں گئی۔

آج ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کی ہاں میں ہاں ملانے والے اسرائیلی وزیراعظم کی حیثیت بھی ایسی ہی ہے۔ ایک ملک خرید رہا ہے اور دوسرا خریدنے پر چاپلوسی کر رہا ہے۔ دنیا کو بھی ٹرمپ کی یہ بات کسی صورت قبول نہیں ہے۔ جرمن چانسلر اولاف شولر نے ٹرمپ کے غزہ کے فلسطینیوں کو اردن اور مصر سمیت عرب ممالک میں منتقل کرنے سے متعلقہ بیان کے بارے میں کہا ہے کہ "کسی بھی قسم کی نو آبادیاتی  منصوبہ بندیاں یا پھر غزہ کے لوگوں کو مصر یا اردن میں منتقل کرنے کا خیال ناقابل قبول ہے۔" پانچ عرب وزرائے خارجہ اور ایک سینیئر فلسطینی عہدیدار نے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کو ایک مشترکہ خط بھیجا ہے، جس میں فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنے کے منصوبے کی مخالفت کی گئی ہے۔ یہ خط پیر کے روز بھیجا گیا اور اس پر اردن، مصر، سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ کے دستخط تھے، جبکہ فلسطینی صدارتی مشیر حسین الشیخ نے بھی اس پر دستخط کیے ہیں۔ خط لکھنے والوں عربوں سے کہوں گا، کیا خوب دانش پائی ہے۔ آپ کے متعلق حضرت میر صدیوں پہلے کہہ گئے ہیں:
میرؔ کیا سادے ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب​
اُسی عطّار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں​

تمہیں علم ہونا چاہیئے کہ تمہاری کوئی حیثیت نہیں ہے، تم اپنی تنخواہ بڑھانے کے لیے یا پرانی تنخواہ میں کٹوتی سے بچنے کے لیے ایک بار پھر فلسطینیوں کے خون کا سودا کرنا چاہتے ہو۔ فلسطینی خود موجود ہیں اور خود بات کریں گے۔ زمین کے اصل وارث موجود ہیں، جنہوں نے اپنے سینے پر گولیاں کھا کر فلسطین کا دفاع کیا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کے نزدیک تمہاری اتنی حیثیت بھی نہیں ہے کہ تمہاری بات سنی جائے۔ ٹرمپ کے اقدامات بتا رہے ہیں کہ دنیا میں کوئی بین الاقوامی قانون نہیں ہے اور دنیا میں کوئی انسانی حقوق نہیں ہیں۔ دنیا میں صرف ایک ہی قانون ہے اور وہ طاقت کا قانون ہے۔ ویسے آج ہی امریکہ کے صدر نے صدارتی حکم جاری کیا ہے کہ امریکہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے نکل گیا ہے۔ نام نہاد عرب ممالک کے لیے بھی سبق ہے کہ اپنے شیر نہ مارو اور اپنے دوستوں کو پہچانو، اگر ایسا نہیں کرو گے تو مزید ذلیل ہوتے رہو گے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ کہ امریکہ کی خوشامد اس نے کہا خرید لیا ٹرمپ اور نہیں ہے ٹرمپ کے اور اس کے لیے بات کر تھا کہ غزہ کی کہا کہ ہے اور رہا ہے

پڑھیں:

 افغانستان میں امریکہ کی واپسی

وفاقی حکومت کی جانب سے پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کو رضاکارانہ طور افغانستان واپس جانے کی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان پناہ گزینوں اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق اس کریک ڈاؤن کے دوران پنجاب میں سب سے زیادہ گرفتاریاں کی گئی ہیں۔ پنجاب میں جہاں جہاں افغان پناہ گزین مقیم ہیں وہاں چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

مرکز اور دیگر صوبوں میں افغان پناہ گزینوں کے خلاف کارروائیوں کے بعد ایسی اطلاعات ہیں کہ اسلام آباد اور پنجاب سے افغان پناہ گزین خیبر پختونخوا کا رخ کر سکتے ہیں لیکن اب تک اس کے کوئی واضح شواہد نہیں ملے ہیں۔

پنجاب میں بھی دیگر صوبوں کی طرح افغان پناہ گزین محنت مزدوری کرتے ہیں لیکن بعض افغان پناہ گزین اپنے ساتھ بھاری دولت لے کر آئے تھے اور انھوں نے بڑے بڑے کاروبار سنبھال لئے ہیں اور پوش مارکیٹوں میں باقاعدہ دکانوں کے مالک بن چکے ہیں،جبکہ بعض پناہ گزین چھوٹے بڑے کاروبار کررہے ہیں۔

افغان پناہ گزینوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے حوالے سے ایک تاثر یہ پھیلایا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا ہ میں افغان پناہ گزینوں کے خلاف کوئی کریک ڈاؤن نہیں کیاجا رہا ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ضلع خیبر میں طور خم کے راستے یکم اپریل 2025 سے اب تک کل 5568 غیر قانونی اور افغان سٹیزن کارڈ کے حامل پناہ گزینوں کو افغانستان بھجوایا گیا ہے۔ طورخم کے راستے بھیجے جانے والوں میں 2355 افراد افغان سٹیزن کارڈ کے حامل اور 3042 غیر قانونی تارکین وطن بھی شامل ہیں۔محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا کے مطابق ستمبر 2023 سے اب تک مجموعی طور پر 4 لاکھ، 88 ہزار، 187 غیر قانونی تارکین وطن کو طورخم سرحد سے افغانستان بھیجوایا گیا ہے۔ جبکہ وفاقی محکمہ داخلہ کے مطابق اب تک اسلام آباد سے 160، صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں سے4227 اور گلگت بلتستان سے ایک افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کو براستہ طورخم افغانستان بھجوایا گیا۔

ایک طرف پاکستان میں پناہ گزین افغانوں کو افغانستان بھیجنے کیلئے کریک ڈاؤن کیا جارہاہے اور دوسری طرف یہ افواہیں بھی بہت گرم ہیں کہ افغانستان کی طالبان حکومت نے عالمی تنہائی سے گھبراکر ایک دفعہ پھر امریکہ کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوششیں شروع کردی ہیں ا ور اس کا آغاز بگرام کے فضائی اڈے کو امریکہ کے حوالے کرکے کیاہے ،اگرچہ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ان اطلاعات کو پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے انھیں مسترد کر تے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ افغان طالبان کی حکومت کا بگرام ایئر بیس پر مکمل کنٹرول ہے۔

انہوں نے امریکی فوجی اڈے پر امریکی قبضے کو ناممکن قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت افغانستان میں کسی ملک کی فوجی موجودگی کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور امارت اسلامیہ ایسی کارروائی کی اجازت نہیں دے گی۔انھوں نے کہا کہ امریکی فوجی اڈے پر قبضہ ناممکن ہے اور اس وقت افغانستان میں کسی ملک کی فوجی موجودگی کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور امارت اسلامیہ ایسی کارروائی کی اجازت نہیں دے گی۔

افغانستان کی وزارت خارجہ کے نائب ترجمان ضیا احمد تکل نے بھی اس خبر کی تردید کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ خبر درست نہیں ہے۔پینٹاگون نے اب تک ان رپورٹس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے، لیکن دی انڈپینڈنٹ نے بتایاہے امریکی دفاعی ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ افغانستان میں امریکی فوج کی کوئی موجودگی نہیں ہے،لیکن ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے واضح تردید اور امریکی دفاعی ذرائع کے حوالے سے دی انڈپینڈنٹ میں شائع ہونے والی اس خبر کے باوجود جس میں افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی کی تردید کی عالمی ذرائع ابلاغ اس بات پر مصر نظر آتے ہیں کہ 20 مارچ 2025 کو افغانستان کے حکمران طالبان نے اچانک یو ٹرن لیا ہے جس سے امریکہ اور افغانستان کے تعلقات میں ایسا حیرت انگیز موڑ آیا۔یہ یو ٹرن طالبان کی جانب سے بگرام ایئر بیس کواپنے ماضی کے دشمنوں یعنی امریکہ کے حوالے کر نے کا فیصلہ تھا۔

عالمی ذرائع ابلاغ بالخصوص یوٹیوبرز اس بات پر مصر ہیں امریکی شہری کی رہائی اور امریکی و طالبان حکام کے درمیان ملاقات کے بعد بگرام ایئر بیس امریکہ کے حوالے کرنے کے اس فیصلے سے یہ بات واضح ہوئی کہ دونوں ممالک اپنی پرانی دشمنی کو پیچھے چھوڑ کر ایک نئے دور میں تعاون کی طرف بڑھ رہے ہیں جس کیلئے طالبان نے اپنی پالیسیوں میں بڑی تبدیلیاں کی ہیں، جو ان کے ماضی کے رویے سے مختلف ہیں۔ خبروں میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ افغان طالبان نے ہر ہفتہ ڈالر وصول کرنے کے بدلے امریکہ کو ہوائی اڈے دینے کی سودا بازی کی ہے،ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے واضح تردید کے باوجود بعض عالمی ذرائع ابلاغ کی ان نہ رکنے والی قیاس آرائیوں سے یہ بات واضح ہے کہ اگر افغان طالبان کی حکومت نہیں تو امریکہ ضرور افغانستان میں واپسی کی راہ تلاش کررہا ہے اور پینٹاگون کے پروپیگنڈا کے ماہرین کے ذریعے ایسی خبریں پھیلاکر افغان طالبان کے ارادوں کا اندازہ لگانا چاہتاہے تاکہ اس کے مطابق افغانستان میں واپسی کیلئے اپنی حکمت عملی واضح کرسکے۔

اس حوالے سے ایک بات واضح ہے کہ اب افغانستان میں نہ اسامہ بن لادن کا کوئی اثر و رسوخ ہے، نہ ہی ملا عمر موجود ہیں، جو امریکہ اور نیٹو کے دباؤ کے باوجود اسامہ کو افغانستان چھوڑنے کا حکم دینے سے انکار کر چکے تھے۔جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔

امریکہ کی پالیسیاں ہمیشہ ہی مفادات پر مبنی اور لچکدار رہی ہیں، ایسے میں مزید تبدیلیوں کا سامنا کرنا کوئی غیر متوقع بات نہیں ہوگی۔اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ طالبان کا موجودہ موقف اس قدر تبدیل ہو چکا ہے جس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتاتھا اور کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتاتھا کہ افغان طالبان اس حد تک بدل جائیں گے کہ جو پاکستان شروع دن سے ان کیلئے دیدہ دل فرش راہ کئے ہوئے تھا وہ اسی کی سلامتی کے درپے ہوجائیں گے۔ اطلاعات کے مطابق اب طالبان اپنے نظریات سے ہٹ کر نئے فیصلے کر رہے ہیں،اطلاعات یہ بھی ہیں کہ انھوں نے وہ اسلحہ، جو امریکہ کے انخلا کے وقت چھوڑا گیا تھا،اور جو ان دنوں مبینہ طورپر پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال کیاجا رہا ہے ،واپس کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کردی ہے ۔ یہ فیصلہ یقیناً غیر معمولی ہے، مگر یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس کے عمل درآمد کا لائحہ عمل ابھی تک واضح نہیں ہے۔

تاہم یہ واضح ہے اگر بگرام ایئر بیس یا افغانستان کے کسی دوسرے مقام پر امریکہ رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتاہے تو اس پر امریکی فوجی ہی تعینات ہوں گے اور امریکہ کی خطے میں موجودگی کے باعث، صورتحال خطے کی ریاستوں کے لیے ایک نیا چیلنج بن سکتی ہے۔ امریکی حکومت یوکرین میں مداخلت کر کے روس کے قریب اپنی موجودگی کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہی تھی، مگر اب صورتحال بدل چکی ہے، اور امریکہ افغانستان میں واپسی کی راہ اختیار کر رہا ہے۔

ایک طرف امریکہ عالمی امن کا خواہاں نظر آتا ہے، تو دوسری طرف افغانستان میں امریکی امن منصوبے کے ساتھ متصادم دکھائی دیتا ہے۔ افغانستان میں امریکہ کی موجودگی خطے میں کشیدگی اور دباؤ کا نیا سبب بن سکتی ہے۔

دراصل حقیقت یہ ہے کہ چین کی بڑھتی ہوئی عالمی طاقت نے امریکہ کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ چین نے مختلف شعبوں میں عالمی قیادت حاصل کرنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں، اور وہ اب ایک معاشی اور عسکری قوت بن چکا ہے۔ چین نے بھارت کے ساتھ اپنے تنازعے میں، امریکہ اور اسرائیل کی مدد کے باوجود، لداخ اور تبت میں کامیاب کارروائیاں کی ہیں، جس سے بھارت کے لیے مشکلات کھڑی ہو گئیں۔ دوسری طرف چین نے افغانستان میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھا لیا ہے، اور پاکستان کے ساتھ اس کی شراکت داری مزید مستحکم ہو رہی ہے۔اس صورت حال کا تقاضہ تو یہی ہے کہ افغان طالبان اپنے مفادات کے لیے امریکی اور چینی دباؤ میں توازن قائم رکھیں۔ افغانستان میں امریکہ کی واپسی خود افغانستان کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہے، کیونکہ افغانستان میں واپسی کا اصل مقصد چین کو نشانہ بنانا ہو سکتا ہے۔ افغانستان کو اس صورت حال کو سمجھنا ہوگا اورانھیں امریکہ کے ساتھ تعلقات کے بدلے چین کے ساتھ اپنے مفادات کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ افغانستان کو اپنے دیرینہ دوست پاکستان کے ساتھ بھی تعلقات میں توازن برقرار رکھنا چاہیے، تاکہ مفادات کی کسی قسم کی کشمکش پیدا نہ ہو۔ عالمی سطح پر افغانستان کی استحکام اور ہم آہنگی بہت ضروری ہے، تاکہ وہ عالمی اصولوں کے مطابق ایک مستحکم ریاست کے طور پر ابھر سکے۔ اگر افغانستان نے توازن کا راستہ اختیارنہیں کیا اور اپنے مفادات کو مؤثر طریقے سے تسلیم نہ کرایا، تو وہ ایک اور محاذ آرائی کا شکار ہو سکتا ہے، جس سے بچنا فی الوقت اس کیلئے ضروری ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جب سے ٹرمپ نے امریکی صدارت سنبھالی ہے وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے نئی پالیسیوں کا اعلان کرتے جا رہے ہیں، خواہ وہ اپنے اتحادیوں کو ناراض کریں یا مخالفین کے ساتھ تعلقات میں تبدیلی لائیں۔ اس کا ایک بڑا قدم افغانستان میں طالبان کے ساتھ تعلقات کے نئے باب کا آغاز ہے، جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ چین کو دباؤ میں رکھنے کیلئے افغانستان میں امریکی فوجی اڈہ دوبارہ قائم کرنا ضروری تصور کر تے ہیں۔

امریکہ اور افغان طالبان کے اس فیصلے نے بلاشبہ پورے خطے میں بے چینی اور تشویش پیدا کی ہے۔ موجودہ صورت حال میں پاکستانی حکام کو اب اس غیر متوقع پیش رفت پر گہری نظر رکھنے کے ساتھ اس کے اثرات کا جائزہ لینا ہوگا، خصوصاًیہ دیکھنا ہوگا کہ ایران اور پاکستان پر اس کے اثرات کیا ہو سکتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب ایران اور امریکہ کے تعلقات اس قدر زیادہ دوستانہ اور مضبوط تھے کہ ایران کو اس خطے میں امریکہ کا پراکسی تصور کیا جاتا تھا۔

یہ دونوں ممالک سرد جنگ کے دوران ایک دوسرے کے اتحادی تھے اور 1955 میں بغداد پیکٹ کے رکن تھے۔ ایران کے بادشاہ، شاہ محمد رضا پہلوی، امریکہ کے قریب ترین اتحادیوں میں شامل تھے اور ایران میں امریکی اثر و رسوخ بہت زیادہ تھا۔ تاہم، 1979 کے اسلامی انقلاب نے ان تعلقات کو مکمل طور پر بدل دیا۔ ایران کی نئی حکومت نے امریکہ کو شیطان بزرگ کا خطاب دیا اور اس طرح دونوں ممالک کے درمیان دشمنی کی بنیاد پڑگئی۔

انقلاب ایران کے بعدسے ایران اور امریکہ کے تعلقات ہمیشہ کشیدہ رہے ہیں، جس کے اثرات نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے خطے پر مرتب ہو رہے ہیں۔1980 میں ایرانی انقلاب کے بعد، امریکہ نے ایران کو کمزور کرنے کے لیے عراق کی حمایت کرنا شروع کی۔ عراقی صدر صدام حسین کو ایران کے خلاف جنگ کے لیے اکسایا گیا اور امریکہ نے عراق کو جدید اسلحہ، مالی امداد اور انٹیلی جنس فراہم کی۔ یہ جنگ تقریباً 8سال تک جاری رہی اور اس میں لاکھوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔

اس جنگ کے نتیجے میں دونوں ممالک کو شدید نقصان اٹھانا پڑا، جبکہ اسرائیل نے اس صورت حال سے فائدہ اٹھایا کیونکہ ایران کے ساتھ جنگ کے بعد عراق اس قدر کمزور ہوگیا کہ وہ اسرائیل کیلئے کوئی خطرہ نہیں رہا 1990 کی دہائی میں امریکہ نے ایران پر مزید اقتصادی پابندیاں عائد کیں۔ اس دوران ایران نے اپنی عسکری طاقت میں اضافہ کیا اور خطے میں اپنے اتحادیوں کو مستحکم کیا، جس سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی تشویش میں اضافہ ہوا۔

2000 کے بعد امریکہ نے ایران کے نیوکلیئر پروگرام پر دباؤ ڈالنا شروع کیا اور ایران کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی کوششیں کیں۔ 2015 میں ”پی فائیو پلس ون” معاہدہ طے پایا، جس کے تحت ایران نے اپنے نیوکلیئر پروگرام کو محدود کرنے پر اتفاق کیا، اور بدلے میں اس پر عائد پابندیاں نرم کی گئیں۔

تاہم، 2018 میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم کر دیا، جس کے بعد حالات مزید کشیدہ ہو گئے۔2021 میں امریکہ نے افغانستان سے اپنی افواج نکال لیں اور طالبان نے اقتدار سنبھال لیا لیکن اب یہ خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ امریکہ افغانستان میں اپنی موجودگی بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے، خاص طور پر بگرام ایئر بیس کو دوبارہ حاصل کرنیکے بعد خطے میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنا چاہتاہے ۔ اگر ایسا ہوتا ہے، تو یہ پورے خطے میں ایک نیا بحران پیدا کر سکتا ہے۔

افغانستان میں امریکی واپسی کا مطلب یہ ہوگا کہ دہشت گرد تنظیموں کو نئی طاقت ملے گی، جو پاکستان اور ایران کے لیے بڑا خطرہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام پر بھی اس کے سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، کیونکہ خطے میں عدم استحکام بڑھنے کے باعث پاکستان پر عالمی دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی نئی لہر پیدا ہو سکتی ہے، اور سی پیک بھی نشانے پر آ سکتا ہے۔

چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) کو نقصان پہنچانے کے لیے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی کوششیں کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہیں، اس کے علاوہ افغانستان میں امریکی موجودگی کے بڑھنے سے چین کے مفادات پر بھی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، جو پاکستان کے لیے نقصان دہ ہوں گے۔امریکہ اگر افغانستان میں دوبارہ رسائی اور اختیارات حاصل کرنے میں کسی طرح کامیاب ہوجاتاہے تو ایران پر حملوں یا سخت پابندیوں کے امکانات بھی بڑھ سکتے ہیں۔

پاکستان کو اس نازک صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے داخلی سطح پر یکجہتی پیدا کرنی ہوگی۔ سیاسی کشمکش کو ختم کر کے استحکام اور مفاہمت کی فضا قائم کرنا ضروری ہے تاکہ ملک میں انتشار کا خاتمہ ہو سکے۔ قومی سلامتی کے مسائل پر تمام اداروں، سیاسی جماعتوں اور عوام کو ایک پیج پر آنا ہوگا۔

سفارتی محاذ پر فعال کردار ادا کرتے ہوئے اپنے اتحادیوں کو مزید مستحکم کرنا ہوگا، خصوصاً چین، ترکی، ایران اور روس کے ساتھ تعلقات کو مزید گہرا کرنا ہوگا۔ دشمن کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے انٹیلی جنس اور عسکری حکمت عملی کو مزید مضبوط کرنا ہوگا تاکہ اندرونی اور بیرونی خطرات کا بروقت سدباب کیا جا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • امریکہ سے مکالمت صرف جوہری پروگرام اور پابندیوں سے متعلق، ایران
  • ایران امریکہ مذاکرات
  • فیکٹ چیک: محصولات کے بارے میں صدر ٹرمپ کے جھوٹے دعوے
  • ٹرمپ کا اصل ہدف کمزور قوموں کے معدنی ذخائر پہ قبضہ ہے، علامہ جواد نقوی
  • صدر ٹرمپ امریکہ کو دوبارہ دولت مند بنانے کے اپنے مشن میں غیرمتزلزل ہیں .وائٹ ہاﺅس
  • فلسطین : بندر کی بلا طویلے کے سر (حصہ دوم)
  •  افغانستان میں امریکہ کی واپسی
  • سفارت کاری کو ایک حقیقی موقع دینا چاہتے ہیں، ایران
  • امریکا بمقابلہ چین: یہ جنگ دنیا کو کہاں لے جائے گی؟
  • امریکہ نے پاکستانی نژاد شہری کو اندیا کے حوالے کر دیا