Islam Times:
2025-02-05@08:36:58 GMT

ٹرمپ چاہے، غزہ کی بندر بانٹ

اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT

ٹرمپ چاہے، غزہ کی بندر بانٹ

اسلام ٹائمز: ٹرمپ کے اس اعلان پر یہ لطیفہ یاد آیا، پاگل خانہ میں ایک سینیئر پاگل، پاگلوں کے ایک گروپ سے خطاب کرکے کہہ رہا تھا کہ میں نے سارا پاکستان خرید لیا ہے۔ سب پاگل واہ واہ کر رہے تھے، ہر کوئی اس چکر میں تھا کہ اسکی خوشامد کرکے اپنے لیے کچھ حاصل کر لے۔ دور بیٹھا ایک پاگل زور زور سے ہنسنے لگا۔ ان پاگلوں نے پوچھا تم کیوں ہنس رہے ہو۔؟ اس نے کہا میں نے پاکستان بیچا ہی نہیں ہے، اس نے کہاں سے خرید لیا۔؟ یہ سن کر ان پاگلوں کو کافی مایوسی ہوئی کہ انکی خوشامد فضول میں گئی۔ آج ڈونلڈ ٹرمپ اور اسکی ہاں میں ہاں ملانے والے اسرائیلی وزیراعظم کی حیثیت بھی ایسی ہی ہے۔ ایک ملک خرید رہا ہے اور دوسرا خریدنے پر چاپلوسی کر رہا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

ایک بار دو کووّں کو ایک روٹی مل گئی اور اس کی تقسیم میں ان میں جھگڑا ہونے لگا۔ وہ دونوں ایک بندر کے پاس روٹی کی تقسیم کے لئے گئے۔ بندر نے روٹی کے دو ٹکڑے کئے، لیکن ایک کوّے نے کہا کہ اُس کا ٹکڑا دوسرے کے ٹکڑے سے چھوٹا تھا۔ اس پر بندر نے دوسرے ٹکڑے سے ایک نوالہ کاٹ کر کھا لیا۔ لیکن ایسا کرنے سے اب وہ ٹکڑا پہلے ٹکڑے سے چھوٹا ہوگیا۔ کوّوں نے پھر شکایت کی تو بندر نے پھر بڑے ٹکڑے میں سے ایک نوالہ کتر کر کھا لیا، جس سے پہلا ٹکڑا چھوٹا ہوگیا۔ کوّے شکایت کرتے رہے اور بندر روٹی کھاتا رہا، یہاں تک کہ آخر میں بندر کے پاس روٹی کا نہایت چھوٹا سا ٹکڑا رہ گیا۔ اس نے کہا کہ ’’اب یہ تو اتنا چھوٹا ہوگیا ہے کہ اس کے دو ٹکڑے ہو ہی نہیں سکتے۔‘‘ یہ کہہ کر اُس نے وہ آخری ٹکڑا بھی منہ میں رکھ لیا اور کوّے ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے۔ یوں روٹی کی بندر بانٹ مکمل ہوگئی۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے یہ کہانی کیوں سنائی تو جناب امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ غزہ پر "قبضہ" کرکے اس کی تعمیرِ نو کرسکتا ہے۔ منگل کے روز اسرائیل کے وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ غزہ پر طویل مدتی قبضے کی سوچ رکھتے ہیں، جس کی قیادت امریکہ کرے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ غزہ کی پٹی کا انتظام سنبھال کر "اس پر حقیقی معنوں میں کام" کرسکتا ہے، جیسے کہ ایسے بموں کو ہٹانا جو پھٹے نہیں ہیں، غزہ کی تعمیر نو اور اس کی معیشت کو دوبارہ متحرک کرنا۔ امریکی صدر نے بنا کسی ثبوت کے دعویٰ کیا کہ فلسطینی صرف اسی لیے غزہ واپس جانا چاہتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہے۔

انھوں نے غزہ کو کسی تباہ شدہ علاقے سے تشبیہ دی۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم پہلے جیسے حالات کی طرف واپس نہیں جا سکتے، ورنہ تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ ایک خود مختار علاقے کا انتظام سنبھالنے کی بات کر رہے ہیں تو صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ غزہ پر طویل مدتی قبضے کی سوچ رکھتے ہیں، جس کی قیادت امریکہ کرے گا۔ سبحان اللہ، کیا عالی شان انصاف فرمایا ہے۔ اصل میں امریکہ کی موجودہ قیادت اور فیصلہ کرنے والے انہی کی اولادیں ہیں، جنہوں نے امریکہ کے اصل باشندوں کا قتل عام کرکے اس ساری زمین پر قبضہ کر لیا۔ ٹرمپ اور امریکی قیادت کی غزہ کے بارے میں بھی یہی رائے ہے۔ یہ لوگ غزہ کی زمین میں دلچسپی رکھتے ہیں، انہیں وہاں کی عوام سے کسی قسم کی دلچسپی نہیں ہے۔ یہ لوگ کسی صورت میں فلسطینیوں کو زندگی کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

ٹرمپ اور دوسرے لوگوں میں یہ فرق ہے کہ یہ اپنے خیالات کا اظہار کر دیتا ہے اور انہیں چھپاتا نہیں ہے، ورنہ اسّی سال سے امریکہ کی ریاستی پالیسی یہی رہی ہے۔ ٹرمپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ امریکہ کو یہاں تاریخ کی شدید ترین مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ شام کو ترکی اور چند ایجنٹوں کے ذریعے کنٹرول کرنے کی پالیسی زیادہ دیر نہیں چلے گی۔ ٹرمپ کے اس اعلان پر یہ لطیفہ یاد آیا، پاگل خانہ میں ایک سینیئر پاگل، پاگلوں کے ایک گروپ سے خطاب کرکے کہہ رہا تھا کہ میں نے سارا پاکستان خرید لیا ہے۔ سب پاگل واہ واہ کر رہے تھے، ہر کوئی اس چکر میں تھا کہ اس کی خوشامد کرکے اپنے لیے کچھ حاصل کر لے۔ دور بیٹھا ایک پاگل زور زور سے ہنسنے لگا۔ ان پاگلوں نے پوچھا تم کیوں ہنس رہے ہو۔؟ اس نے کہا میں نے پاکستان بیچا ہی نہیں ہے، اس نے کہاں سے خرید لیا۔؟ یہ سن کر ان پاگلوں کو کافی مایوسی ہوئی کہ ان کی خوشامد فضول میں گئی۔

آج ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کی ہاں میں ہاں ملانے والے اسرائیلی وزیراعظم کی حیثیت بھی ایسی ہی ہے۔ ایک ملک خرید رہا ہے اور دوسرا خریدنے پر چاپلوسی کر رہا ہے۔ دنیا کو بھی ٹرمپ کی یہ بات کسی صورت قبول نہیں ہے۔ جرمن چانسلر اولاف شولر نے ٹرمپ کے غزہ کے فلسطینیوں کو اردن اور مصر سمیت عرب ممالک میں منتقل کرنے سے متعلقہ بیان کے بارے میں کہا ہے کہ "کسی بھی قسم کی نو آبادیاتی  منصوبہ بندیاں یا پھر غزہ کے لوگوں کو مصر یا اردن میں منتقل کرنے کا خیال ناقابل قبول ہے۔" پانچ عرب وزرائے خارجہ اور ایک سینیئر فلسطینی عہدیدار نے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کو ایک مشترکہ خط بھیجا ہے، جس میں فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنے کے منصوبے کی مخالفت کی گئی ہے۔ یہ خط پیر کے روز بھیجا گیا اور اس پر اردن، مصر، سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ کے دستخط تھے، جبکہ فلسطینی صدارتی مشیر حسین الشیخ نے بھی اس پر دستخط کیے ہیں۔ خط لکھنے والوں عربوں سے کہوں گا، کیا خوب دانش پائی ہے۔ آپ کے متعلق حضرت میر صدیوں پہلے کہہ گئے ہیں:
میرؔ کیا سادے ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب​
اُسی عطّار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں​

تمہیں علم ہونا چاہیئے کہ تمہاری کوئی حیثیت نہیں ہے، تم اپنی تنخواہ بڑھانے کے لیے یا پرانی تنخواہ میں کٹوتی سے بچنے کے لیے ایک بار پھر فلسطینیوں کے خون کا سودا کرنا چاہتے ہو۔ فلسطینی خود موجود ہیں اور خود بات کریں گے۔ زمین کے اصل وارث موجود ہیں، جنہوں نے اپنے سینے پر گولیاں کھا کر فلسطین کا دفاع کیا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کے نزدیک تمہاری اتنی حیثیت بھی نہیں ہے کہ تمہاری بات سنی جائے۔ ٹرمپ کے اقدامات بتا رہے ہیں کہ دنیا میں کوئی بین الاقوامی قانون نہیں ہے اور دنیا میں کوئی انسانی حقوق نہیں ہیں۔ دنیا میں صرف ایک ہی قانون ہے اور وہ طاقت کا قانون ہے۔ ویسے آج ہی امریکہ کے صدر نے صدارتی حکم جاری کیا ہے کہ امریکہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے نکل گیا ہے۔ نام نہاد عرب ممالک کے لیے بھی سبق ہے کہ اپنے شیر نہ مارو اور اپنے دوستوں کو پہچانو، اگر ایسا نہیں کرو گے تو مزید ذلیل ہوتے رہو گے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ کہ امریکہ کی خوشامد اس نے کہا خرید لیا ٹرمپ اور نہیں ہے ٹرمپ کے اور اس کے لیے بات کر تھا کہ غزہ کی کہا کہ ہے اور رہا ہے

پڑھیں:

ٹرمپ امن ساز ہے یاجنگجو؟

(گزشتہ سے پیوستہ)
مصر کی سیسی حکومت کی پوزیشن البتہ غیر یقینی ہے، سیسی نے ابتدائی طور پر نسل کشی کے آغاز میں اسی طرح کے منصوبوں کو مسترد کر دیا تھا، اور اس نے اس وقت کہا تھا کہ اگر اسرائیل فلسطینیوں کو بےگھر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، تو انہیں فلسطین کے اندر ہی منتقل کیاجائےاور فلسطینی دھڑوں کے خلاف اسرائیلی کارروائیوں کی تکمیل کے بعد انہیں غزہ کی پٹی میں واپس بھیج دیا جائے۔ ہم نے اس حالیہ منصوبے پر بین الاقوامی یا علاقائی کرداروں کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں سنا ہے۔ ہمیشہ کی طرح اقوام متحدہ، یورپی یونین، عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم سمیت سب نے سر ریت میں گاڑ دیا اور کوئی بیان جاری نہیں کیا یہاں تک کوئی معمولی سا ردعمل بھی نہیں دیاجو خطے میں امن کے منصوبے کی خلاف ورزی کا سبب بننے والے ایسے تمام منصوبوں کو مسترد کرنے کا براہ راست اظہار کرتا ہو۔ شمالی غزہ کی پٹی میں ہزاروں شہریوں کو اپنے گھروں کو لوٹتےدیکھنا اورقابضوں کی گولیوں کےسامنے ان کی ثابت قدمی، ٹرمپ کے منصوبے کا براہ راست ردعمل ہے۔ یہ لوگ جو پندرہ مہینوں سے اپنے اوپر بے دریغ پھینکےگئے ٹنوں بموں کے نیچے بغیر کسی گرم بستر کے سردزمین پر سوتے رہے اس لئےکہ انہیں صرف اپنے گھروں کو لوٹنا ہے،(وہ گھر جو اب ملبے کے سوا کچھ نہیں ہیں)، اپنے وطن کی جگہ وہ کسی اوروطن کو قبول نہیں کریں گے۔ زندگی، جسے اسرائیلی جنگی جنون نے 15 ماہ کے دوران تباہ وبرباد کردیا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اب جنگ بندی کے کمزور معاہدے کی روشنی میں بین الاقوامی کرداروں کو فلسطینیوں کی عارضی رہائش، موبائل ہسپتال، بجلی اور پانی کے نیٹ ورک کی مرمت، خصوصی طبی ٹیمیں اور زخمیوں کو ہر قسم کی انسانی امدادی کارروائیوں کو تیز کرتے ہوئے اس معاہدے کی حمایت کرنی چاہیے۔
غزہ کی پٹی کی ہلاکتوں، نقل مکانی اور تباہی کے بعد، بین الاقوامی کرداروں کو ایک بین الاقوامی یا علاقائی کانفرنس کا مطالبہ بھی کرناچاہیے تاکہ ہنگامی امداد اور تعمیر نو کے کاموں کو تقویت دینے اور مددکے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔جیسا کہ ان دیگر ممالک کے لئے کانفرںسوں کا انعقاد کیاگیا جنہیں غزہ کی پٹی کے مقابلے میں بہت کم مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔اس اقدام سے غزہ کی پٹی کے مکینوں کو امید بھرا پیغام جائے گا اور یہ اعتماد بھی حاصل ہو گا کہ وہ تنہا نہیں ہیں اور نیتن یاہو اور ان کےحامیوں کے لیے یہ پیغام ہوگا کہ ان کے منصوبے کے مطابق جنگ میں واپس جانا ناممکن ہے اور یہ اب ماضی کی بات ہو چکی ہے۔
دنیا کے سب سے طاقتور ملک کے صدر کی جانب سے ایسے بدنیتی پر مبنی اور خطرناک منصوبوں کی کھلم کھلا تشہیر مشرق وسطیٰ کی سلامتی اور استحکام کے لیے ان کے لاپرواہ رویے کی عکاسی کرتی ہے۔ وہ تنازعات کی تاریخ کو جو ہمیشہ قابض حکومتوں کی اپنے مقامی لوگوں کی زمینوں کو خالی کرنے کی خواہشات کو ہوا دیتی رہی ہے نظرانداز کرنے کے عادی ہیں۔ اس قسم کا کوئی بھی نقل مکانی کا منصوبہ 7 اکتوبر کو شروع ہونے والی اور اس سے پہلےکی جنگوں سے بڑی جنگ کو بھڑکانے کاباعث ہوگا۔
دوسری قوموں کے مفادات کے تئیں لاپرواہی اور مخالفانہ سوچ کی اس سطح کے ساتھ ساتھ اس کے تباہ کن اثرات پر غور کیے بغیر ایسے منصوبے تجویز کرنے کی جرات،ایک ایسی ذہنیت کی عکاسی ہےجو اب بھی اپنے آباؤ اجداد کےدور میں رہتا ہے جس نے تارکین وطن پر مشتمل ایک ریاست قائم کی جس نے سرزمین کے مقامی لوگوں کو قتل کیا۔ فلسطینی عوام جو ابھی ایک نسل کشی سے نکلے ہیں اور اپنی زندگیوں کو دوبارہ تعمیر کرنے کے لیے سخت جدوجہد کر رہے ہیں ، نقل مکانی کے تمام منصوبوں کو مسترد کرتے ہیں۔وہ اس کی تعمیر نو کے لیے پرعزم ہیں جسے قبضے نے تباہ کیا ہے اور نیتن یاہو حکومت کی جانب سے جنگ بندی کے معاہدے کو کمزور کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔ غزہ نقل مکانی کا منصوبہ جیسا کہ طے ہے،نیتن یاہو کی حکومت کے مذموم عزائم کا پتہ دیتا ہے اور فلسطینیوں کے قتل، تباہی اور بےگھری کے سلسلہ کو دوبارہ شروع کرنے کی ترجمانی کرتا ہے ۔ ٹرمپ کے فیصلے اور نقل مکانی کا منصوبہ غزہ کی پٹی میں دوبارہ جنگ کے آغاز کے نیتن یاہو کے منصوبے سے ہم آہنگ ہے۔ خطے میں ایک حقیقی امن ساز، اس طرزکی جنگی مدد فراہم نہیں کرے گا جس میں مہلک بموں جیسے جرائم کا ارتکاب ہو،یا مغربی کنارے میں تباہی پھیلانے کے لیےنقل مکانی جیسی اسکیمیں تجویز کرے یا مغربی کنارے کو ضم کرنے کے اپنے پرانے نئے منصوبے کو عملی جامہ پہنائے۔ اگر مشرق وسطیٰ کی حکومتوں نے ٹرمپ اور دوسروں کے تابع رہنے کا انتخاب کیا، اور ایسے مطالبات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تیار ہوگئے تو فلسطینیوں کی قیادت میں خطے کے لوگ ایسے منصوبوں کو واضح طور پر مسترد کردیں گے۔ وہ ان زمینوں کے لوگ ہیں، اس کے مالک اور معمار ہیں، چراگاہوں کی تلاش میں آنے والے مہاجرین کا گروہ نہیں۔ عرب ورثے میں وطن محض سامان کی تھیلی یا محض ایک جگہ نہیں ہے۔ یہ گہری جذباتی اور روحانی کیفیت ہے جو شناخت اور تعلق کے احساس کی نمائندگی کرتی ہے۔ جلاوطنی یا نقل مکانی موت کے مترادف ہے۔ باعث حیرت ہے کہ نقل مکانی کے اس طرح کے احمقانہ منصوبوں کے حامی اس قتل و غارت گری سے سبق اور اخلاقیات سیکھنے میں ناکام رہے ہیں جو فلسطینیوں نے نیتن یاہو کے اعلان کردہ نقل مکانی کے منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے 15 ماہ سے زیادہ برداشت کی ہے۔ اگر ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ خطے میں امن و سلامتی کا ایک نیا باب کھولنا چاہتی ہے تو انہیں ایسے فریب کار افراد کے ایجنڈوں سے گریز کرنا چاہیے جو خطے میں ایک اور تباہ کن جنگ کی آگ بھڑکانے کے خواہشمند ہیں۔ اس کے بجائے، انہیں جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درآمد کو ترجیح دینی چاہیے، جو شروع سے ہی نازک تھا اور جسے نیتن یاہو شدت سے کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جیسا کہ جنوبی لبنان میں اس کے موجودہ اقدامات سے ظاہر ہے۔

متعلقہ مضامین

  • تجارتی جنگ اور چین
  • پاک امریکہ تعلقات ایک شخص یا پارٹی تک محدود نہیں: وزیر دفاع 
  • چین کی مصنوعات پر 10 فی صد امریکی ٹیرف نافذ
  • ٹرمپ نے میکسیکو اور کینیڈا کے خلاف محصولات کے نفاذ پر عمل درآمد30 دن کے لیے روک دیا
  • ٹیرف وار: چین کا جوابی حملہ، امریکہ پر پندرہ فیصد محصولات عائد کر دیے
  • پاکستان ٹرمپ انتظامیہ کیساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے کا متمنی ہے‘گیلانی
  • چین پر محصولات عائد کرنے سے “امریکی بیماری” کا علاج نہیں ہوگا، چینی میڈیا
  • ٹرمپ امن ساز ہے یاجنگجو؟
  • افغانستان کے اثاثوں پر امریکہ کا دعویٰ قابلِ قبول نہیں ہے: طالبان