بہادرکشمیری خواتین کی جدو جہد آزادی
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
ریاست جموں وکشمیر کی مقبوضہ وادی بھارتی فوج کے مظالم کے خلاف سراپا احتجاج ہے ۔ جدوجہدآزادی میںکشمیری مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین نے بھی بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔کشمیری مائیں،بہنیں،بیٹیاں وادی سے بھارتی فوج کے انخلا،کشمیر کی آزادی اوروہاں اسلامی نظام کے قیام کے لئے جدوجہد ،قربانیوں ، جرأت اور بہادری کی لا زوال اور بے مثال داستانیں رقم کر کے اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ ان کے شوہر،والد اور بیٹے شہید ہو رہے ہیں، کشمیری ماؤں نے اس جدوجہد میں اپنے جگر کے ٹکڑوں کو نہ صرف قربان کیا بلکہ شوق شہادت کا جذبہ نسل در نسل منتقل بھی کیا ہے۔بھارتی فوج کے مظالم اور تشدد کے خلاف وہ گرفتار بھی ہوئیں اور شہادت کا رتبہ بھی حاصل کیا۔خواتین اور طالبات قابض فوج پر پتھر برسا کر ان کے ظلم کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کرتی ہیں۔عصمت دری کے لرزہ خیز واقعات کے باوجود نہ صرف وہ اپنے خاندان کی کفالت بلکہ تحریک ِ آزادی کو بھی تقویت پہنچا رہی ہیں۔
مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کی خواتین کشمیر کی تحریک آزادی میں پیش پیش ہیں۔کشمیر یونیورسٹی میںزیر تعلیم کشمیری طالبہ سیدہ آسیہ اندرابی نے کشمیری قوم پر بھارتی مظالم کے خلاف ،کشمیر کی بھارت سے آزادی اور نظام مصطفیٰؐ کے نفاذ کے لئے ایک تنظیم کے پلیٹ فارم سے متحدہ جدو جہد کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اس عظیم مقصد کے لئے کشمیر یونیورسٹی سے گریجوئیشن کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کی بجائے 1987ء میں دختران ملت کی بنیاد رکھی۔ بھارتی مظالم سے تنگ آ کر جب خواتین گھروں سے باہر نکلنے پر مجبور ہوئیں تو پھر باقاعدگی سے اس تحریک حریت کا حصہ بننے لگیں۔یہ مقبوضہ کشمیر میں خواتین کی سب سے بڑی اور اہم جماعت ہے ۔ دخترانِ ملت کشمیر کی مسلمان خواتین کا ایک منظم اور مضبوط پلیٹ فارم ہے جو اسلام کے دائرے اورحدود میں رہ کر مردوںکے شانہ بشانہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر آواز اٹھانے ،کشمیریوں پر بھارتی افواج کے مظالم کے خلاف مسلمانوں میں شعور بیدا کرنے ، اسلامی نظام کے نفاذ اورکشمیر کی آزادی کے لئے دن رات کوشاں ہے۔ دختران ِ ملت اپنے بچوں اورگھر کے مردوں کی اسلامی کردار سازی کو اولیت دیتی ہیں اوران کے کاموں میں ان کے ساتھ ہیں۔ اسکولوں اور کالجوں ،گھرگھر، گلی گلی ، قریہ قریہ اور گائوں گائوں جاکر لوگو ںمیں شعور بیدارکرنے اور شہدا کے گھروں میں جاکر ان کی بیوائوں اوربچوں کی خبرگیری کرنے کا اہم فریضہ بھی ادا کر رہی ہیں۔ بھارتی حکومت نے 2023ء میںدختران ملت پر پابندی لگا دی تھی لیکن سیل رواں کی طرح ان کی سرگرمیاں جاری ہیں۔
دختران ملت کی بانی سیدہ آسیہ اندرابی کی دست راست اور شوریٰ کی سابق فعال رکن نورجہاں نے اپنی زندگی کے روز و شب دختران ملت کے لئے وقف کر دیئے۔وہ پاکستان میں رہائش پذیر ہیں۔ان کا دل اب بھی کشمیری خواتین کے ساتھ دھڑکتا ہے ۔ نور جہاں مقبوضہ جموں وکشمیر کے علاقے خؤانیار سری نگر میں پیدا ہوئیں اوروہیں تعلیم حاصل کی ۔آپ نے کم عمری میں ہی دختران ملت میں شامل ہو کربھارتی فوج کے مظالم کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔بھارتی فوج نے انہیں کئی بار گرفتار بھی کیا ۔ راقم الحروف سے ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا تھا کہبھارت کے آٹھ لاکھ فوجی وہاں لوگوں پرمسلط ہیں جو کشمیریوں کی آبادی سے بھی زیادہ ہیں۔ وہ خواتین کوہراساں اورمختلف طریقوں سے تنگ کرتے ہیں۔دختران ملت سکولوں ،کالجوں ، گھرگھر ، گائوں گائوں ،قریہ قریہ اوربستی بستی جاکر لڑکیوں اورخواتین میں دین کاشعور بیدار کرتی ہیں ۔ خواتین کوبتاتی ہیں کہ مرد اپنے گھر کے نان نفقے کی ذمہ داری ادا کرنے کے لئے گھر سے باہر رہتا ہے لیکن ایک عورت پورا خاندان چلاتی اوربچوں کی کردار سازی کی ذمہ دار ہوتی ہے ۔وہ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرکے پورے عالم کا نقشہ بدل سکتی ہے۔انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہہم پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں۔ہم پاکستان کے ساتھ مل کر ایک مضبوط طاقت بنیں گے۔ جب تک ہماری رگوں میں خون اورجسم میں جان ہے ا س وقت تک ہم بھارت کے ساتھ لڑتے رہیں گے ،کشمیر کی آزادی تک انشا اللہ ہماری جدوجہد جاری رہے گی ۔
مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر انسانی ظلم و جبر کی بدترین مثال ہے ۔بالخصوص وہاں عورتوں اور بچوں کے حقوق کی صورتِ حال انتہائی دگرگوں ہے۔ قابض بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں نے کشمیر میں بچوں اور خواتین پر انسانیت سوز مظالم کی ہر حد پار کر دی ہے۔خواتین کی عصمت دری اوربے حرمتی کے افسوسناک واقعات بڑھ رہے ہیں۔ اس صورتحال میں کشمیری خواتین مسلسل خوف اور اذیت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔بھارت عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہا ہے۔یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے منظور کردہ خواتین کے حقوق کے عالمی بل (CEDAW) کے تحت خواتین کو معاشرتی،سیاسی و زندگی کے ہر شعبہ میں بنیادی حقوق اور آزادی حاصل ہے لیکن کشمیر میں خواتین کے ساتھ اس کے بالکل بر عکس ہو رہا ہے۔کشمیری خواتین اور بچوں کے حقوق کی بد ترین پامالی کی جا رہی ہے۔ بچوں پر ظلم کی انتہا تو یہ ہے کہ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار بچوں پر پیلٹ گنز کے استعمال کر کے سینکڑوں بچوں اور نوجوانوں کو زخمی اور بصارت سے محروم کر دیا گیا۔ ان کے سامنے ان کے والدین کو شہید کیا گیا۔ کشمیری بچے ایسے ہی دردناک مناظر دیکھ کر بڑے ہوتے ہیں جس سے انہیں شدید نفسیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بچوں کو خوراک، صحت اور تعلیم کے شدید مسائل کا سامنا ہے ۔ وہ عام بچوں کی طرح کنڈرگارٹن نہیں جاتے،نرسری کی نظمیں نہیں سیکھتے، کھلونوں سے نہیں کھیلتے نہ ہی وہ آزاد ماحول میں اپنے والدین کی محبت،شفقت اور نگہداشت میں پرورش پا رہے ہیں۔یتیموں کو صحت اور تعلیم کی سہولیات میسر نہیں ۔
مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کی خواتین 1947ء سے اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ ہزاروں کشمیری طالبات بھارتی فوجیوں کی طرف سے فائرنگ اورپیلٹ گنزکے استعمال سے زخمی ہو چکی ہیں ۔ ان کی جانیں اور عزتیں محفوظ نہیں۔ ہزاروں خواتین کے شوہر اور گھر کے دوسرے مرد لا پتہ ہیں۔بچے تعلیم اور صحت کی سہولیات سے محروم ہیں۔عصمت دری اور جنسی ہراسمنٹ کے لرزہ خیز واقعات کے باوجود نہ صرف وہ اپنے خاندان کی کفالت بلکہ تحریک ِ آزادی کو بھی تقویت پہنچا رہی ہیں۔بھارت کے ناجائز تسلط سے آزادی، پاکستان کے ساتھ الحاق،اپنے وطن میں امن اور بنیادی حقوق کے حصول کے لئے قربانیاں دے رہی ہیں۔ ظلم و ستم، کریک ڈاؤن، جعلی مقابلوں، گمشدگیوں، بہیما نہ تشدد اورقتل و غارت کے باوجود وہ پختہ عزم کے ساتھ کھڑی ہیں۔خواتین رہنماؤں کی گرفتاری ،بھارتی فوج کے مظالم اور رکاوٹوں کے باوجوددخترانِ ملت کشمیریوں پر بھارتی افواج کے مظالم کے خلاف مسلمانوں میں شعور بیدا کرنے ، بچوں اور اپنی کردار سازی پر خصوصی توجہ اورگھرگھر، گلی گلی ، قریہ قریہ اور گائوں گائوں جاکر لوگوںمیں شعور بیدارکررہی ہیں۔
خواتین کے حقوق کے لئے عالمی اور ملکی سطح پر کام کرنے والے اداروں کا اولین فرض ہے کہ وہ ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف بھر پور صدائے احتجاج بلند کریں۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بھارت اقوام متحدہ کی منظور کردہ قراردادوں کے مطابق ریاست جموں و کشمیر میںاستصواب کروا کر مسئلہ کشمیر کے حل سے پہلو تہی کر رہا ہے۔ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وہ کشمیروں پر بد ترین مظالم ڈھا رہا ہے لیکن ظلم کی یہ رات انشاء اللہ جلد ختم ہو گی، کشمیریوں کی قربانیاں اور جدو جہد رنگ لائے گی ۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: بھارتی فوج کے مظالم ریاست جموں و کشمیر کے مظالم کے خلاف کشمیری خواتین دختران ملت ان کے ساتھ خواتین کے بچوں اور کشمیر کی کے حقوق بچوں کی رہی ہیں رہا ہے کے لئے
پڑھیں:
کشمیریوں سے آزادی کا خواب چھینا نہیں جا سکتا
آپ اگر اس دیرینہ مسئلے کی کیفیت کو سمجھنا چاہیں، تو اس کے لیے اردو میں معروف ہونے والا یہ ’روزمرہ‘ دیکھیے، کہ جب کوئی بھی مسئلہ لاینحل ہونے لگے، تو اسے ’مسئلہ کشمیر‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ حل ہونا بہت مشکل ہے یا یہ کبھی حل ہی نہیں ہو سکے گا۔۔۔!
کشمیر جسے بٹوارے کے ہنگام میں مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے ناتے پاکستان میں شامل ہونا تھا، یا پھر اس کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کے عوام کے ووٹوں سے ہونا قرار پایا تھا، لیکن شومئی قسمت کہ دنیا اس کے انتظار ہی میں رہ گئی، کہ وہاں کب رائے شماری کروائی جائے گی۔
بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہندوستان کی جانب سے استصواب کی کوئی امید بھی جاتی رہی۔ پہلے تو ہندوستان کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہہ کر وہاں استصواب رائے سے مُکرتا رہا تھا، لیکن 5 اگست 2019ء کو تو اس نے اپنے دستور سے دفعہ 370 ہی کو کسی حرف غلط کی طرح مٹا دیا، جس کی بنیاد پر اُس نے ہندوستان نواز کشمیری راہ نماؤں اور اس کی بنیاد پر وہاں کے عوام کو بہت سے لارے دے رکھے تھے کہ ہندوستان بھر میں جموں و کشمیر کی حیثیت کس طرح جداگانہ ہوگی اور کشمیریوں کو ہندوستان میں کون کون سے خصوصی حقوق حاصل ہوں گے۔
کشمیر وہ مسئلہ ہے جو رہتی دنیا تک ’اقوام متحدہ‘ کی پیشانی پر کلنک کا داغ بنا رہے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ اپنے وقت کی بڑی طاقت برطانیہ نے یہاں سے جاتے جاتے کشمیر کے مسئلے کو جان بوجھ کر دونوں ملکوں کے درمیان ہمہ وقت تناؤ اور کشیدگی رہنے کے لیے چھوڑ دیا، بلکہ 77 برس سے دو ارب انسانوں کے اس خطے کو مسلسل سنگین صورت حال سے دوچار کرنے کے واسطے اپنی آنکھیں بھی موندے رکھی ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان جیسی دو متحارب جوہری قوتوں کے درمیان کشمیر کا تنازع امن وامان کی صورت حال کو اور بھی گمبھیر بنا رہا ہے۔
1948ء میں جب کشمیریوں نے ہندوستانی جبر کے خلاف باقاعدہ لڑائی شروع کی، اور اس کے نتیجے میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان پہلی بار جنگی کیفیت بھی پیدا ہوگئی، تو خود ہندوستان نے ’اقوام متحدہ‘ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا اور عالمی سرکردی میں دونوں ممالک کے لیے کشمیر کے درمیان ایک حد بندی لکیر المعروف ’لائن آف کنٹرول‘ قائم کی گئی تھی، جس کی حیثیت عارضی تھی اور دونوں ممالک کو اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق وہاں استصواب رائے یعنی رائے شماری کروانی تھا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ہندوستان اس سے یک سر پھر گیا اور یوں مسئلہ کشمیر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اور کئی جنگوں کا باعث بنتا رہا۔
1965ء کی پاک بھارت جنگ بھی اسی محاذ سے پھوٹنے والے ایک ایڈونچر ہی کا نتیجہ تھی۔ پھر اسی دیرینہ دشمنی کے سبب ہندوستان نے پاکستان کو دولخت کرنے میں اپنا مہلک مداخلانہ کردار ادا کیا، 1971ء میں ہمیں مشرقی پاکستان سے محروم ہونا پڑا اور ہماری تاریخ میں ’سقوط ڈھاکا‘ کے ایک سیاہ باب کا اضافہ ہوا۔
اس کے بعد جولائی 1972ء میں دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات ہوئے اور اس وقت کی ہندوستانی وزیراعظم اندرا گاندھی اور پاکستانی صدر ذوالفقار علی بھٹو نے شملہ معاہدے پر دستخط کیے، جس میں کشمیر کے مسئلے کو دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی بات کی گئی، دوسری طرف ہندوستان نے کشمیر کو متنازع علاقہ تسلیم کیا تھا۔ تجزیہ کار اِس مرحلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں سے پیچھے ہٹنے کی پیش قدمی بھی قرار دیتے ہیں، کیوں کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے واضح طور پر استصواب رائے کا ہی مرحلہ ہونا تھا، اس معاملے میں مذاکرات یا بات چیت کا کہنے کا مطلب ہی یہ بنتا ہے کہ آپ اس موقف سے پیچھے ہٹ رہے ہیں، لیکن کیا کہہ سکتے ہیں، اس وقت پاکستان کے 90 ہزار فوجی اور شہری ہندوستان میں قید تھے اور جنگ میں ہتھیار ڈالے جانے کی بنا پر پاکستان کی حیثیت ویسے ہی کچھ زیادہ اچھی نہیں تھی۔
پھر کشمیری عوام اپنی زندگیوں میں آزادی کے سورج کے انتظار میں رہے، تاوقتے کہ 1989ء میں کشمیری جدوجہد آزادی کا ایک نیا دور شروع ہوگیا۔۔۔ جب کشمیریوں نے بھارتی جبرو استبداد سے تنگ آکر باقاعدہ مسلح تحریک کی شروعات کر دی۔ جس نے ایک طرف ہندوستانی افواج کو بھاری نقصان پہنچایا تو دوسری طرف ہزاروں نوجوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
1993ء میں مقبوضہ کشمیر کی جدوجہد آزادی کا ایک سیاسی رخ کُل جماعتی حریت کانفرنس کی صورت میں سامنے آیا۔ اس موثر اتحاد میں سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق، عبدالغنی بھٹ، عبدالغنی لون، شبیر شاہ، یاسین ملک، محمد عباس انصاری وغیرہ جیسے راہ نما شامل رہے اور کشمیر کی آزادی کی تحریک کو آگے بڑھانے میں جُتے رہے۔
کُل جماعتی حریت کانفرنس لگ بھگ ایک عشرے تک بھرپور فعال اور متحد رہی اور وہاں ہندوستانی چھتری تلے دکھاوے کے انتخابات اور کٹھ پتلی حکومت کا مکمل بائیکاٹ کرتے رہے۔ اس اتحاد میں دراڑ جب پڑی کہ جب ’حریت کانفرنس‘ نے ہندوستانی حکومت سے مذاکرات کیے اور علی گیلانی نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور اس عمل کو ڈھونگ قرار دیا۔ اس کے بعد سید علی گیلانی نے ’کُل جماعتی حریت کانفرنس‘ سے اپنی راہیں الگ کرلیں، تاہم 2016ء میں مقبوضہ وادی میں پیدا ہونے والے پیچیدہ حالات سید علی گیلانی، میرواعظ عمر فاروق اور یاسین ملک کو دوبارہ ایک اتحاد میں جوڑ گئی۔
مقبوضہ وادی کی صورت حال کی بنا پر ہی پاک بھارت تعلقات کبھی معمول پر نہیں آسکے، اسی بنا پر دونوں ممالک آج بھی اپنے دفاع کے نام پر ایک کثیر رقم خرچ کر رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر کرنے کے لیے جتنی مرتبہ مذاکرات ہوئے، وہ کشمیر کے تنازعے کی وجہ ہی سے ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں۔ 1985ء میں مقبوضہ وادی کے بیچوں بیچ واقع دنیا کے بلند ترین محاذ سیاچن پر بھی دونوں طرف کے ہزاروں جوان اپنی جانیں کھو چکے ہیں۔ یہ علاقہ بھی گلگت بلتستان اور مقبوضہ کشمیر کے سنگم پر ہونے کی وجہ سے انتہائی حساس قرار پاتا ہے۔ 1998ء میں مسئلہ کشمیر ’کارگل‘ کے محاذ کی ایک اور گرما گرمی لے کر آیا، لیکن اس موقع کو بھی کشمیر کے حل کے لیے استعمال نہ کیا جاسکا۔
2001ء میں امریکا میں ہونے والے 11 ستمبر کے حملوں نے کشمیریوں کی مسلح جدوجہد آزادی پر بھی اپنے دور رَس اثرات مرتب کیے۔ ہندوستان کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو پہلے ہی دہشت گردی قرار دیتا تھا، اب تو اِسے گویا عالمی سطح پر ایک موافق ماحول میسر آگیا، لیکن پاکستان کا سفارتی محاذ کشمیریوں کی مسلح جدوجہد کو ’تحریک آزادی‘ منوانے کا مورچہ سنبھالے رہا۔ 2002ء میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشیدگی اس قدر بڑھ گئی تھی کہ دونوں ممالک کی فوجیں سرحدوں پر جمع رہیں۔
اس کے بعد بھی متعدد مرتبہ دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ مذاکرات اور ملاقاتوں کا سلسلہ رہا، لیکن یہ خاطر خواہ نتائج نہ لاسکا اور پھر پانچ اگست 2019ء ایک ایسا سیاہ دن کہ جب عالمی طور پر تسلیم شدہ متنازع علاقے کو باقاعدہ ہندوستان میں ضم کر دیا گیا، جس کے نتیجے سامنے آنے والے ردعمل کے خوف سے مقبوضہ وادی میں طویل عرصے تک کرفیو نافذ اور بنیادی انسانی حقوق معطل رکھے گئے۔
2019 میں بھارتی آئین کی دفعہ 340 کو ختم کرنے کے بعد آج کشمیریوں کی جدوجہد آزادی ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے۔ گو کہ منظر نامے پر بہت زیادہ ہل چل دکھائی نہیں دیتی، لیکن دنیا کی ہر تحریک ہی میں ایسے ہی بہت سے نشیب وفراز آتے ہیں، جیسے 1948ء سے 2019ء تک کے سفر میں مقبوضہ وادی کے زندہ دل اور حریت پسند لوگوں نے بھارتی فوج کے جبر کے خلاف بھرپور مزاحمت کی اور وہ ہندوستانی قبضے کے سامنے کبھی ترنوالہ ثابت نہیں ہوئے۔
اس جدوجہد آزادی میں عالمی برادری کی جانب سے کردار ادا کرنے کا انتظار کرنا بھی اسی تحریک کا ایک مرحلہ تھا اور اس کے بعد باقاعدہ مسلح جدوجہد آزادی کا آغاز بھی ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، ’کُل جماعتی حریت کانفرنس‘ کی سیاسی جدوجہد بھی تحریک آزادی کی تاریخ میں اَن مٹ رہے گی۔
آج کی ظاہری صورت حال میں بھی یہ تحریک اپنے ایک خاص مرحلے میں اپنا وجود برقرار رکھتی ہے۔ مقبوضہ وادی میں ہندوستان بہ ظاہر اپنا تسلط پہلے سے مضبوط سمجھ رہا ہے، لیکن اُسے بھی پتا ہے کہ کسی بھی وقت کشمیریوں کے دلوں میں سلگنے والی آزادی کی چنگاری ایک ایسا شعلہ بن سکتی ہے، جو اس کے لیے پریشانی پیدا کرسکتا ہے۔ یقیناً آج نہیں تو کل پھر سے کشمیر کی تحریک آزادی میں ایک نیا جوش خروش پیدا ہوگا، لیکن اس بار جدوجہد کا ڈھب کیا ہوگا اور اس کا محاذ کیسا ہوگا، یہ ہمیں آنے والا وقت ہی بہتر بتا سکتا ہے۔