تبصرہ ، تنقید، شکوہ اور شکائت
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
تبصرہ … شکوہ و شکائت کی تمہید ہے، اور تنقید … اس پر مہرِ تصدیق! شکوہ … دراصل انسان کی توقعات کے ٹوٹنے سے پیدا ہوتا ہے۔ اگر انسان، انسانوں سے توقعات ہی کم وابستہ کرے تو شکوہ و شکایت کا موقع کم کم نمودار ہوگا۔
دراصل انسان اپنے بارے میں ایک مخصوص رائے قائم کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ لوگ اْس کی اِس رائے سے اتفاق کریں۔ لازم نہیں کہ سب لوگ ہمارے بارے میں ہماری رائے سے متفق ہوں۔ جب لوگ اپنے قول و فعل سے ہمارے بارے میں ہماری ہی رائے سے انحراف کرتے ہیں تو ہمیں دکھ ہوتا ہے۔ یہ دکھ الفاظ کی شکل میں نمودار ہوتا ہے تو شکوہ اور شکایت کی کوئی صورت اختیار کر لیتا ہے۔
انسان کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر اْس کے اندر کوئی صفت ہے تو اْس صفت کی تعریف اور پذیرائی صرف اور صرف اس صفت کے شناسا لوگوں کے ہاں ہی ممکن ہے۔ اسے جاننا چاہیے کہ جو لوگ اس صفت سے آشنا ہی نہیں، وہ اْس کی تعریف کیوں کر کر سکیں گے۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ صفت کے شناسا لوگ بھی دو گروہوں میں منقسم ہیں۔ ایک وہ گروہ ہے، جو بے لوث ہے۔ وہ اِس صفت کی تبلیغ و ترویج میں بے لوث ہے ، بے غرض ہے، درجہِ اخلاص پر فائز ہے، وہ خود سے خود کو نکالنے پر قادر ہے۔ ایک دوسرا گروہ ہے ، جو ہے تو اس صفت کا شناسا ، لیکن وہ اس صفت کے ساتھ ساتھ اپنی ذات کا نفاذ بھی لازم تصور کرتا ہے۔ جب وہ اپنے نفاذ میں کوئی کمی محسوس کرتا ہے تو اعترافِ صفت کی بجائے اعتراضِ صفت میں مصروف ہو جاتا ہے۔ اگر اسے حاسد کہا جائے تو وہ خود پر حسد کے الزام کا انکار کرتا ہے ، لیکن اْس کی طرف سے صفت کا اِنکار دراصل حسد کے اظہار ہی کا ایک ثبوت ہوتا ہے۔
اخلاص ایک صفت ہے۔ یہ صفت کم یاب ہے ، اس لیے کم کم لوگوں کودست یاب ہے۔ یہ خوش بختوں کا نصیبہ ہے۔ اب اس صفت کی ستائش اگر مفاد پرست گروہ میں چاہی جائے تو یہ ایک ایسی توقع ہے جو لغو بھی ہے اور اہلِ اخلاص کے ہاں قابل ِ گرفت بھی۔ اخلاص بندے کا اللہ کے ساتھ ایک معاملہ ہے، مخلوق کو اس معاملے کی بھنک کیوں پڑے؟ اخلاص ایک خوشبو ہے اور اس خوشبو کو اہلِ اخلاص ہی پہنچانتے ہیں۔ اہلِ دنیا کے قوتِ شامہ بھی قوتِ حافظہ کی طرح کمزور ہوتی ہے۔
گلے اور شکوے سے دْور ہونے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنی فکر کو تنقید کا خوگر نہ ہونے دے۔ وہ خود کو دوسروں میں نقص کی بجائے خوبی دیکھنے کا پابند کرے۔ جب بھی وہ کوئی خوبی دیکھے ، جہاں بھی دیکھے ، جس میں بھی دیکھے… فراخدلی سے اس کی تعریف و توصیف کرے۔ اس کی یہ تعریف دراصل خوبی عطا کرنے والی ذات کی تعریف ہے۔ صفت تو سورج کی کرن کی طرح ہوتی ہے… ہر کرن کا ماخذ و منبع سورج ہے۔ کرن کسی اندھیری جگہ پر سورج ہی کا ایک تعارف ہے۔ کرن کی توصیف دراصل سورج ہی کی تعریف کا عنوان ہوتا ہے۔
خیال… ہر دم رواں لہر کی طرح ہے۔ تنقید اس لہر کی روانی کو متاثر کرتی ہے۔ بعض اوقات تبصراتی رکاوٹ خیال کے وجود میں اتنا بڑا گھاؤ ڈال دیتی ہے کہ خیال کی لہر ایک بھنور کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ بھنور کی لپیٹ میں آئی ہوئی لہر اپنے فرضِ منصبی سے دْور ہو جاتی ہے۔ بھنور ڈبونے کے کام آتا ہے، لہر پار لگانے کے لیے آتی ہے۔
تبصرہ ، تنقید اور شکوہ وشکائت انسان کی قوتِ تخلیق کو پست درجے پر لے آتی ہیں۔ تنقید کے خوگر ذہن کا تخلیقی جوہر گہنا جاتا ہے، مرکز سے تعلق کمزور پڑ جاتا ہے اور مرکز گریز قوتیں ایسے ناقد مزاج کو اپنے دائرے میں داخل کر لیتی ہیں۔ مثبت سوچ داخل دفتر ہو جاتی ہے اور منفی سوچ باہر بازاروں میں بلند بانگ ہو جاتی ہے۔
تبصرہ و تنقید اور شکوہ وشکایت سے اپنا دامن بچانے کا بہترین راستہ یہ ہے کہ انسان خاموشی کی راہ اختیار کرے۔ خاموشی کسی بھی غیر مہذب بات کا مہذب ترین جواب ہے۔ خاموشی وہ پہلا پہرہ ہے جو انسان اپنی فکری آوارہ گردی کے گرد قائم کرتا ہے۔ خاموش صفت انسان ان تمام برائیوں سے بچ جاتا ہے جن کا تعلق صرف بولنے سے ہے۔ خاموش رہنے والا انسان… غیبت ، شکوہ ، شکائت ، طنز، تشنیع اور اس قبیل کے تمام منفی تبصرہ جات کی لت میں پڑنے سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ خواہش بولتی ہے، قناعت خاموش رہتی ہے۔
تبصرہ و تنقید کرنے والا … زندگی کے حسن کا شاہد نہیں ہو سکتا۔ تنقید کا خوگر مشیت آشنا نہیں ہوتا۔ جسے مشیّت آشنا کرنا ہوتا ہے، اسے پہلے خاموشی کی خلعت عطا کی جاتی ہے۔
انسان تمام عمر اپنے لفظوں کی گرفت میں ہوتا ہے۔ بولنے والا شخص مسلسل گرفت میں ہے۔ لفظوں سے کھیلنے والا خود کھلونا بن جاتا ہے ، دوسروں کے ہاتھ میں! خاموش شخص مردِ آزاد ہے… اپنی سی رائے رکھتا ہے … ! متاثر کرنے والا، متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ لفظوں پر سواری کرنے والا لوگوں کی رائے کا محتاج ہو جاتا ہے۔ جہاں لوگ اسے راستہ نہ دیں، وہاں اس کی زبان پر شکوہ اور شکایت کا سلسلہ دراز ہو جاتا ہے۔
تبصرہ کرنا… راہ چلتے ہوئے الجھنے کے مترادف ہے۔ تبصرہ کرنے والا ایک پرایا جھگڑا مول لیتا ہے۔ انسان اپنے تبصرے میں کہے ہوئے الفاظ میں خود کو گروی رکھ دیتا ہے۔ دراصل الفاظ انسان کی کسی باطنی کیفیت کا اظہار ہوتے ہیں۔ وقت بدلنے سے باطنی کیفیت بدل جاتی ہے، رائے بدل جاتی ہے… لیکن تبصرہ جاتی الفاظ نہیں بدلتے … وہ اس کے انمٹ ماضی کی طرح اس کی سابقہ شناخت کے ساتھ چپک کر رہ جاتے ہیں۔ کیفیت لہر کی طرح ہوتی ہے ، اچھی یا بری، جیسی بھی ہے ، گزر جاتی ہے… اس کیفیت میں کہے ہوئے الفاظ ٹھہر جاتے ہیں … اور وہ الفاظ انسان کے پاؤں کی زنجیر بن جاتے ہیں۔
قوتِ گویائی ایک نعمت ہے… اس نعمت کا شکر ، یہ ہے کہ اسے تعریف و توصیف میں صرف کیا جائے۔ تبصرہ و تنقید ، شکوہ و شکائت میں الفاظ صرف کرنا، قوت ِ گویائی کا اسراف ہے… اور اسراف کرنے والا شیطان کا بھائی ہوتا ہے۔ رحمان کے بندے احسان کرتے ہیں … اور احسان طبعاً خاموش ہوتا ہے۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: ہو جاتا ہے کرنے والا کی تعریف جاتی ہے ہوتا ہے کرتا ہے ہے اور صفت کی اس صفت کی طرح
پڑھیں:
پاکستانیوں کی عزت نفس
معروف دانشور اشفاق احمد نے کیا خوب کہا تھا کہ انسان غیروں سے ملی عزت اور اپنوں سے ملی ذلت کو کبھی نہیں بھولتا۔ گویا
عزت نفس سے ہر حرف کو اونچا رکھو
اپنی آواز نہیں ظرف کو اونچا رکھو
انسانی رویے اپنا اثر رکھتے ہیں۔ الفاظ کی کاٹ اور لہجے کی درشتگی کا انسان کے کردار و عمل کی تعمیر میں اہم کردار ہوتا ہے۔ معاشرہ اور قوموں کی تشکیل میں عزت نفس کا ایک اہم کردار ہے۔ انسانی معاشروں میں عزت نفس کا خیال چاہے انفرادی سطح پر کیا جائے یا پھر اجتماعی سطح پر، دونوں پہلوؤں کے انسانی رویوں پر گہرے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ جب کسی کو نصیحت کرو تو لہجے کو درست رکھو اور بات خوشگوار انداز میں کرو کیونکہ لہجے کی کرختگی اور عزت نفس کو مجروح کرنے سے ایسا بگاڑ پیدا ہوتا ہے جس کے اثرات نسلوں تک رہتے ہیں۔ کسی کو گالی دینا اور حقیر سمجھنا انسانی نفسیات کے لیے زہر قاتل ہے۔سینئر بیوروکریٹ صغیر شاہد انتہائی خوش اخلاق اور شائستگی سے بھرپور انسان ہیں ایک ملاقات میں ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی ریاست یا معاشرے کی ترقی محض مادی وسائل اور ترقیاتی منصوبے شروع کرنے سے منتج نہیں ہے بلکہ اس کا انحصار اس امر پر ہے کہ ریاست، ارباب اختیار اور اس کی مشینری اس ریاست کے باسیوں کے عزت نفس کا کتنا خیال رکھتے ہیں یعنی احترام انسانیت میں ہی معاشروں اور ریاست کی اصل ترقی مضمر ہے۔آپ چاہے جتنی بھی اچھی عمارتیں تعمیر کر لیں یا پھر سڑکوں کا جال بچھا لیں یا پھر بھلائی کے دیگر منصوبے شروع کر لیں لیکن اگر سرکاری مشینری اپنے شہریوں کی تذلیل کو اپنا شعار بنا لیتی ہے تو پھر آپ بھول جائیں کہ اس ریاست کے باشندے اس کی ترقی میں دل سے اپنا حصہ ڈالیں گے۔
ایک اسسٹنٹ کمشنر کی جانب سے شہریوں کی گاڑیوں کے ٹائروں کو پنکچر کرتے ہوئے دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ریاست کی مشینری اور بیکار کریسی کیسے پاکستانی شہریوں کو اپنا غلام سمجھتی اور ان کے ساتھ وہ ناروا رویہ رکھنا اپنا حق سمجھتی ہے۔ اس اقدام سے اس امر کی بھی غمازی ہوتی ہے کہ ریاست پاکستان میں حکمران اور حکمران مشینری شہریوں کو سہولیات فراہم کرنے کے بجائے قانون اور نظام کے نام پر ’’رگڑا‘‘ لگانے پر یقین رکھتی ہے۔ملتان میں ایک بزرگ شہری کے ساتھ غیر ملکی کرکٹ ٹیم کے سڑک سے گزرنے کے دوران ایک سرکاری اہل کار نے جس ’’تہذیب و تمدن‘‘ کا اظہار کیا وہ ساری قوم کا سر شرم سے جھکانے کے لیے کافی ہے۔ ہمارے ایک اور دوست معروف صنعت کار اور لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے سابق وائس چیئرمین ایس ایم عمران کا کہنا ہے نظام کو چلانے کے دو طریقے ہیں ایک جبر، سخت قوانین اور ڈنڈے کے زور پر اور دوسرا عوام کو عزت دے کر، انہیں سہولیات فراہم کر کے اور ہمدردی اور محبت کا اظہار کر کے۔ بدقسمتی سے دوسرا طریقہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ کو آتا ہے اور نہ ہی سرکاری مشینری کو، وہ ایسا کرنا سیکھے ہی نہیں یہ نظام کو طاقت اور جبر سے چلانا چاہتے ہیں۔ ترقی کے پروجیکٹ شروع کرنے سے عوام کو سہولت میسر آتی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اگر نواز شریف دور میں موٹروے بنی تو وہ نواز شریف کی جانب سے پاکستانی قوم کو ایک تحفہ تھا۔ سڑکوں کا جال بننے سے انسان قریب آتے ہیں اور ملک ترقی کرتا ہے۔ تاہم ایسے بڑے ترقیاتی پروجیکٹ بھی عوام کی نظر میں اپنی اہمیت اور افادیت کھو دیتے ہیں اگر ان کی عزت نفس کو مجروح کیا جائے یا پھر ان کی تذلیل کی جائے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے ایک دوست بیرون ملک چلے گئے اور انہوں نے وہاں کی حکومت کو ایک خط لکھا کہ ان کے پاس ایک لاکھ ڈالر ہے اور وہ کوئی کاروبار کرنا چاہتے ہیں تو انہیں بتایا جائے کہ ان کے لیے کون سا کاروبار بہتر ہے۔ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ انہیں درجنوں سرکاری محکموں نے رابطہ کر لیا اور انہیں مختلف کاروبار کرنے کی فزیبلٹی رپورٹس فراہم کر دی گئیں۔ اس دوران ان سرکاری محکموں میں انہیں بہت عزت و احترام دیا گیا۔ تاہم یہاں دیکھ لیں کہ اس ملک میں کیا ہو رہا ہے تاجروں کو اور بزنس مینوں کو سرکاری سطح پر جس تحقیر کا سامنا ہے اور جس طرح انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اس کے بعد کیا آپ سمجھتے ہیں کہ کوئی پاکستان میں انویسٹمنٹ کرنا پسند کرے گا۔
ملک کی معیشت کی صورت حالات پہلے ہی دگر گوں ہے۔ صنعت کار اپنا کاروبار سمیٹ کر بیرون ملک شفٹ ہو رہے ہیں جب کہ نوجوان روزگار کی تلاش میں بیرون ملک اپنی جانیں گنواتے نظر آتے ہیں۔ ان کے بیرون ملک جانے میں بھی وہ تلخ رویہ اور ناروا سلوک بھی ذمہ دار ہے جس کا سامنا سرکاری مشینری کی جانب سے ہر پاکستانی کو ہے۔ قارئین! یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت ہر مقام اور عہدے پر ایک فرعون بیٹھا ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ کوئی بڑا فرعون ہے تو کوئی چھوٹا فرعون۔ کوئی بھی کام پیسے دئیے بغیر نہیں ہوتا۔ ایسے میں تضحیک اور بے توقیری کا احساس ہر شہری کے لیے کسی اذیت سے کم نہیں ہوتا۔ عزت نفس کا احساس ناتوانوں کو ذلت و پستی کی گمراہیوں سے نکالتا ہے اور ستاروں کی بلندی اور چمک سے روشناس کراتا ہے۔ یاد رکھیے! ذلت اور پستی کا علاج سر اٹھانے میں ہے، دنیا کی سروری، شمشیر و سناں میں اور قوم کا رعب ان کے اتحاد میں پوشیدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی‘‘۔
دینی عزت اور اسلام کا شرف وہ قیمتی احساسات ہیں جن کا بیج شریعت ربانی نے ہماری کشت جان میں بویا اور مسلمانوں کو ذلت و پستی کے گڑھوں میں گرنے سے محفوظ رکھا ہے۔ ایک مسلمان فطری طور پر صاحبِ حمیت اور غیرت مند ہوتا ہے، وہ کبھی ذلت و پستی کو گوارا نہیں کرتا۔ وہ کسی سرکش کے سامنے سر نہیں جھکاتا، وہ کسی زبان دراز سے خوفزدہ ہوتا ہے اور نہ الزام تراشی کو خاطر میں لاتا ہے۔ وہ کسی بھی جابر کے سامنے کمزور نہیں پڑتا، وہ کسی کی خوشامد نہیں کرتا، کسی کی مکاری میں آتا اور نہ کسی کمینے بزدل کی رفاقت اختیار کرتا ہے۔ اس لیے کہ عزت نفس مسلمانوں کے خون میں گردش کرتی ہے۔ اللہ وحدہ کی توفیق سے اس میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ اس راہ میں دینِ ربانی اس کا مددگار اور حقیقی ایمان اس کا سرمایہ ہے۔ پاکستان کی ترقی کا راز بھی اس میں مضمر ہے کہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ، نظام اور مشینری اس کے باسیوں کو عزت دے۔