Nai Baat:
2025-04-16@22:51:12 GMT

تبصرہ ، تنقید، شکوہ اور شکائت

اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT

تبصرہ ، تنقید، شکوہ اور شکائت

تبصرہ … شکوہ و شکائت کی تمہید ہے، اور تنقید … اس پر مہرِ تصدیق! شکوہ … دراصل انسان کی توقعات کے ٹوٹنے سے پیدا ہوتا ہے۔ اگر انسان، انسانوں سے توقعات ہی کم وابستہ کرے تو شکوہ و شکایت کا موقع کم کم نمودار ہوگا۔
دراصل انسان اپنے بارے میں ایک مخصوص رائے قائم کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ لوگ اْس کی اِس رائے سے اتفاق کریں۔ لازم نہیں کہ سب لوگ ہمارے بارے میں ہماری رائے سے متفق ہوں۔ جب لوگ اپنے قول و فعل سے ہمارے بارے میں ہماری ہی رائے سے انحراف کرتے ہیں تو ہمیں دکھ ہوتا ہے۔ یہ دکھ الفاظ کی شکل میں نمودار ہوتا ہے تو شکوہ اور شکایت کی کوئی صورت اختیار کر لیتا ہے۔

انسان کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر اْس کے اندر کوئی صفت ہے تو اْس صفت کی تعریف اور پذیرائی صرف اور صرف اس صفت کے شناسا لوگوں کے ہاں ہی ممکن ہے۔ اسے جاننا چاہیے کہ جو لوگ اس صفت سے آشنا ہی نہیں، وہ اْس کی تعریف کیوں کر کر سکیں گے۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ صفت کے شناسا لوگ بھی دو گروہوں میں منقسم ہیں۔ ایک وہ گروہ ہے، جو بے لوث ہے۔ وہ اِس صفت کی تبلیغ و ترویج میں بے لوث ہے ، بے غرض ہے، درجہِ اخلاص پر فائز ہے، وہ خود سے خود کو نکالنے پر قادر ہے۔ ایک دوسرا گروہ ہے ، جو ہے تو اس صفت کا شناسا ، لیکن وہ اس صفت کے ساتھ ساتھ اپنی ذات کا نفاذ بھی لازم تصور کرتا ہے۔ جب وہ اپنے نفاذ میں کوئی کمی محسوس کرتا ہے تو اعترافِ صفت کی بجائے اعتراضِ صفت میں مصروف ہو جاتا ہے۔ اگر اسے حاسد کہا جائے تو وہ خود پر حسد کے الزام کا انکار کرتا ہے ، لیکن اْس کی طرف سے صفت کا اِنکار دراصل حسد کے اظہار ہی کا ایک ثبوت ہوتا ہے۔

اخلاص ایک صفت ہے۔ یہ صفت کم یاب ہے ، اس لیے کم کم لوگوں کودست یاب ہے۔ یہ خوش بختوں کا نصیبہ ہے۔ اب اس صفت کی ستائش اگر مفاد پرست گروہ میں چاہی جائے تو یہ ایک ایسی توقع ہے جو لغو بھی ہے اور اہلِ اخلاص کے ہاں قابل ِ گرفت بھی۔ اخلاص بندے کا اللہ کے ساتھ ایک معاملہ ہے، مخلوق کو اس معاملے کی بھنک کیوں پڑے؟ اخلاص ایک خوشبو ہے اور اس خوشبو کو اہلِ اخلاص ہی پہنچانتے ہیں۔ اہلِ دنیا کے قوتِ شامہ بھی قوتِ حافظہ کی طرح کمزور ہوتی ہے۔
گلے اور شکوے سے دْور ہونے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنی فکر کو تنقید کا خوگر نہ ہونے دے۔ وہ خود کو دوسروں میں نقص کی بجائے خوبی دیکھنے کا پابند کرے۔ جب بھی وہ کوئی خوبی دیکھے ، جہاں بھی دیکھے ، جس میں بھی دیکھے… فراخدلی سے اس کی تعریف و توصیف کرے۔ اس کی یہ تعریف دراصل خوبی عطا کرنے والی ذات کی تعریف ہے۔ صفت تو سورج کی کرن کی طرح ہوتی ہے… ہر کرن کا ماخذ و منبع سورج ہے۔ کرن کسی اندھیری جگہ پر سورج ہی کا ایک تعارف ہے۔ کرن کی توصیف دراصل سورج ہی کی تعریف کا عنوان ہوتا ہے۔

خیال… ہر دم رواں لہر کی طرح ہے۔ تنقید اس لہر کی روانی کو متاثر کرتی ہے۔ بعض اوقات تبصراتی رکاوٹ خیال کے وجود میں اتنا بڑا گھاؤ ڈال دیتی ہے کہ خیال کی لہر ایک بھنور کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ بھنور کی لپیٹ میں آئی ہوئی لہر اپنے فرضِ منصبی سے دْور ہو جاتی ہے۔ بھنور ڈبونے کے کام آتا ہے، لہر پار لگانے کے لیے آتی ہے۔
تبصرہ ، تنقید اور شکوہ وشکائت انسان کی قوتِ تخلیق کو پست درجے پر لے آتی ہیں۔ تنقید کے خوگر ذہن کا تخلیقی جوہر گہنا جاتا ہے، مرکز سے تعلق کمزور پڑ جاتا ہے اور مرکز گریز قوتیں ایسے ناقد مزاج کو اپنے دائرے میں داخل کر لیتی ہیں۔ مثبت سوچ داخل دفتر ہو جاتی ہے اور منفی سوچ باہر بازاروں میں بلند بانگ ہو جاتی ہے۔
تبصرہ و تنقید اور شکوہ وشکایت سے اپنا دامن بچانے کا بہترین راستہ یہ ہے کہ انسان خاموشی کی راہ اختیار کرے۔ خاموشی کسی بھی غیر مہذب بات کا مہذب ترین جواب ہے۔ خاموشی وہ پہلا پہرہ ہے جو انسان اپنی فکری آوارہ گردی کے گرد قائم کرتا ہے۔ خاموش صفت انسان ان تمام برائیوں سے بچ جاتا ہے جن کا تعلق صرف بولنے سے ہے۔ خاموش رہنے والا انسان… غیبت ، شکوہ ، شکائت ، طنز، تشنیع اور اس قبیل کے تمام منفی تبصرہ جات کی لت میں پڑنے سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ خواہش بولتی ہے، قناعت خاموش رہتی ہے۔

تبصرہ و تنقید کرنے والا … زندگی کے حسن کا شاہد نہیں ہو سکتا۔ تنقید کا خوگر مشیت آشنا نہیں ہوتا۔ جسے مشیّت آشنا کرنا ہوتا ہے، اسے پہلے خاموشی کی خلعت عطا کی جاتی ہے۔
انسان تمام عمر اپنے لفظوں کی گرفت میں ہوتا ہے۔ بولنے والا شخص مسلسل گرفت میں ہے۔ لفظوں سے کھیلنے والا خود کھلونا بن جاتا ہے ، دوسروں کے ہاتھ میں! خاموش شخص مردِ آزاد ہے… اپنی سی رائے رکھتا ہے … ! متاثر کرنے والا، متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ لفظوں پر سواری کرنے والا لوگوں کی رائے کا محتاج ہو جاتا ہے۔ جہاں لوگ اسے راستہ نہ دیں، وہاں اس کی زبان پر شکوہ اور شکایت کا سلسلہ دراز ہو جاتا ہے۔

تبصرہ کرنا… راہ چلتے ہوئے الجھنے کے مترادف ہے۔ تبصرہ کرنے والا ایک پرایا جھگڑا مول لیتا ہے۔ انسان اپنے تبصرے میں کہے ہوئے الفاظ میں خود کو گروی رکھ دیتا ہے۔ دراصل الفاظ انسان کی کسی باطنی کیفیت کا اظہار ہوتے ہیں۔ وقت بدلنے سے باطنی کیفیت بدل جاتی ہے، رائے بدل جاتی ہے… لیکن تبصرہ جاتی الفاظ نہیں بدلتے … وہ اس کے انمٹ ماضی کی طرح اس کی سابقہ شناخت کے ساتھ چپک کر رہ جاتے ہیں۔ کیفیت لہر کی طرح ہوتی ہے ، اچھی یا بری، جیسی بھی ہے ، گزر جاتی ہے… اس کیفیت میں کہے ہوئے الفاظ ٹھہر جاتے ہیں … اور وہ الفاظ انسان کے پاؤں کی زنجیر بن جاتے ہیں۔
قوتِ گویائی ایک نعمت ہے… اس نعمت کا شکر ، یہ ہے کہ اسے تعریف و توصیف میں صرف کیا جائے۔ تبصرہ و تنقید ، شکوہ و شکائت میں الفاظ صرف کرنا، قوت ِ گویائی کا اسراف ہے… اور اسراف کرنے والا شیطان کا بھائی ہوتا ہے۔ رحمان کے بندے احسان کرتے ہیں … اور احسان طبعاً خاموش ہوتا ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: ہو جاتا ہے کرنے والا کی تعریف جاتی ہے ہوتا ہے کرتا ہے ہے اور صفت کی اس صفت کی طرح

پڑھیں:

شوبز میں کوئی سچا دوست نہیں ہوتا، سب سوشل میڈیا کی حد تک ہے، نعیمہ بٹ

اداکارہ نعیمہ بٹ کا کہنا ہے کہ شوبز کی دوستیاں صرف سوشل میڈیا تک ہوتی ہیں حقیقت میں کوئی دوست نہیں ہوتا۔

حال ہی میں ڈرامہ ’کبھی میں کبھی تم‘ سے مشہور ہونے والے اداکارہ نعیمہ بٹ ایک نجی ٹی وی پروگرام میں شریک ہوئیں جہاں انہوں نے شوبز انڈسٹری کے کچھ تلخ حقائق پر کھل کر بات کی۔ نعیمہ نے کہا کہ شوبز میں اکثر دوستیاں صرف سوشل میڈیا تک محدود ہوتی ہیں اور حقیقت میں ان میں کوئی گہرائی یا خلوص نہیں ہوتا۔

        View this post on Instagram                      

A post shared by Galaxy Lollywood (@galaxylollywood)

نعیمہ بٹ نے انکشاف کیا کہ ان کے چند ساتھی اداکار سوشل میڈیا پر قریبی دوست بننے کا دکھاوا کرتے ہیں، مگر نجی محفلوں اور تقریبات میں ان کا رویہ بالکل مختلف ہوتا ہے۔

        View this post on Instagram                      

A post shared by Dialogue Pakistan (@dialoguepakistan)

انہوں نے دعویٰ کیا کہ کچھ لوگ ایونٹس کے دوران انہیں پیچھے دھکیلنے کی کوشش کرتے تھے، جبکہ آن لائن یہ تاثر دیتے تھے جیسے وہ بہترین دوست ہوں۔

اداکارہ نے بغیر کسی کا نام لیے کہا کہ شوبز میں دکھائی جانے والی ’فرینڈشپ گولز‘ اکثر ایک مصنوعی تصویر ہوتی ہے۔ نعیمہ نے مزید کہا کہ وہ ایسی جھوٹی اور بناوٹی دوستیوں سے دور رہنا پسند کرتی ہیں اور اپنی توجہ سچے اور بامعنی تعلقات پر مرکوز رکھتی ہیں۔

        View this post on Instagram                      

A post shared by Dialogue Pakistan (@dialoguepakistan)

ان کے اس بے باک مؤقف کو سوشل میڈیا پر خوب سراہا جا رہا ہے جبکہ کئی لوگ انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنا رہے ہیں۔

 

متعلقہ مضامین

  • آٹزم پیدا ہونے کی وجہ اور اس کا جینیاتی راز کیا ہے؟
  • شوبز میں کوئی سچا دوست نہیں ہوتا، سب سوشل میڈیا کی حد تک ہے، نعیمہ بٹ
  • چند اصول ارتقائے ذات کے
  • اسلام آباد: حکومتی ادارے قانون کی خلاف ورزی کیسے کر رہے ہیں؟
  • جنگ  میں سب کچھ جائز نہیں ہوتا!
  • آرمی چیف سچے پاکستانی اور زبردست پروفیشنل ہیں، شہباز شریف
  • پی ایس ایل 10: لاہور قلندرز کے آصف آفریدی نے منفرد ریکارڈ پر نظریں جما لیں
  • ’تم خود غرض ہو دوسروں کے خاندان بیچ رہے ہو‘: رجب بٹ کی پھر فہد مصطفیٰ پر تنقید
  • ’آپ دوسروں کے خاندان بیچ رہے ہیں‘، رجب بٹ کی ایک بار پھر فہد مصطفیٰ پر تنقید
  • خط ملتے ہی انسداد دہشتگردی عدالتیں فوجی عدالتوں میں تبدیل ہو گئیں، فواد چوہدری کا شکوہ