Nai Baat:
2025-02-05@06:50:06 GMT

پاکستانیوں کی عزت نفس

اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT

پاکستانیوں کی عزت نفس

معروف دانشور اشفاق احمد نے کیا خوب کہا تھا کہ انسان غیروں سے ملی عزت اور اپنوں سے ملی ذلت کو کبھی نہیں بھولتا۔ گویا
عزت نفس سے ہر حرف کو اونچا رکھو
اپنی آواز نہیں ظرف کو اونچا رکھو
انسانی رویے اپنا اثر رکھتے ہیں۔ الفاظ کی کاٹ اور لہجے کی درشتگی کا انسان کے کردار و عمل کی تعمیر میں اہم کردار ہوتا ہے۔ معاشرہ اور قوموں کی تشکیل میں عزت نفس کا ایک اہم کردار ہے۔ انسانی معاشروں میں عزت نفس کا خیال چاہے انفرادی سطح پر کیا جائے یا پھر اجتماعی سطح پر، دونوں پہلوؤں کے انسانی رویوں پر گہرے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ جب کسی کو نصیحت کرو تو لہجے کو درست رکھو اور بات خوشگوار انداز میں کرو کیونکہ لہجے کی کرختگی اور عزت نفس کو مجروح کرنے سے ایسا بگاڑ پیدا ہوتا ہے جس کے اثرات نسلوں تک رہتے ہیں۔ کسی کو گالی دینا اور حقیر سمجھنا انسانی نفسیات کے لیے زہر قاتل ہے۔سینئر بیوروکریٹ صغیر شاہد انتہائی خوش اخلاق اور شائستگی سے بھرپور انسان ہیں ایک ملاقات میں ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی ریاست یا معاشرے کی ترقی محض مادی وسائل اور ترقیاتی منصوبے شروع کرنے سے منتج نہیں ہے بلکہ اس کا انحصار اس امر پر ہے کہ ریاست، ارباب اختیار اور اس کی مشینری اس ریاست کے باسیوں کے عزت نفس کا کتنا خیال رکھتے ہیں یعنی احترام انسانیت میں ہی معاشروں اور ریاست کی اصل ترقی مضمر ہے۔آپ چاہے جتنی بھی اچھی عمارتیں تعمیر کر لیں یا پھر سڑکوں کا جال بچھا لیں یا پھر بھلائی کے دیگر منصوبے شروع کر لیں لیکن اگر سرکاری مشینری اپنے شہریوں کی تذلیل کو اپنا شعار بنا لیتی ہے تو پھر آپ بھول جائیں کہ اس ریاست کے باشندے اس کی ترقی میں دل سے اپنا حصہ ڈالیں گے۔

ایک اسسٹنٹ کمشنر کی جانب سے شہریوں کی گاڑیوں کے ٹائروں کو پنکچر کرتے ہوئے دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ریاست کی مشینری اور بیکار کریسی کیسے پاکستانی شہریوں کو اپنا غلام سمجھتی اور ان کے ساتھ وہ ناروا رویہ رکھنا اپنا حق سمجھتی ہے۔ اس اقدام سے اس امر کی بھی غمازی ہوتی ہے کہ ریاست پاکستان میں حکمران اور حکمران مشینری شہریوں کو سہولیات فراہم کرنے کے بجائے قانون اور نظام کے نام پر ’’رگڑا‘‘ لگانے پر یقین رکھتی ہے۔ملتان میں ایک بزرگ شہری کے ساتھ غیر ملکی کرکٹ ٹیم کے سڑک سے گزرنے کے دوران ایک سرکاری اہل کار نے جس ’’تہذیب و تمدن‘‘ کا اظہار کیا وہ ساری قوم کا سر شرم سے جھکانے کے لیے کافی ہے۔ ہمارے ایک اور دوست معروف صنعت کار اور لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے سابق وائس چیئرمین ایس ایم عمران کا کہنا ہے نظام کو چلانے کے دو طریقے ہیں ایک جبر، سخت قوانین اور ڈنڈے کے زور پر اور دوسرا عوام کو عزت دے کر، انہیں سہولیات فراہم کر کے اور ہمدردی اور محبت کا اظہار کر کے۔ بدقسمتی سے دوسرا طریقہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ کو آتا ہے اور نہ ہی سرکاری مشینری کو، وہ ایسا کرنا سیکھے ہی نہیں یہ نظام کو طاقت اور جبر سے چلانا چاہتے ہیں۔ ترقی کے پروجیکٹ شروع کرنے سے عوام کو سہولت میسر آتی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اگر نواز شریف دور میں موٹروے بنی تو وہ نواز شریف کی جانب سے پاکستانی قوم کو ایک تحفہ تھا۔ سڑکوں کا جال بننے سے انسان قریب آتے ہیں اور ملک ترقی کرتا ہے۔ تاہم ایسے بڑے ترقیاتی پروجیکٹ بھی عوام کی نظر میں اپنی اہمیت اور افادیت کھو دیتے ہیں اگر ان کی عزت نفس کو مجروح کیا جائے یا پھر ان کی تذلیل کی جائے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے ایک دوست بیرون ملک چلے گئے اور انہوں نے وہاں کی حکومت کو ایک خط لکھا کہ ان کے پاس ایک لاکھ ڈالر ہے اور وہ کوئی کاروبار کرنا چاہتے ہیں تو انہیں بتایا جائے کہ ان کے لیے کون سا کاروبار بہتر ہے۔ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ انہیں درجنوں سرکاری محکموں نے رابطہ کر لیا اور انہیں مختلف کاروبار کرنے کی فزیبلٹی رپورٹس فراہم کر دی گئیں۔ اس دوران ان سرکاری محکموں میں انہیں بہت عزت و احترام دیا گیا۔ تاہم یہاں دیکھ لیں کہ اس ملک میں کیا ہو رہا ہے تاجروں کو اور بزنس مینوں کو سرکاری سطح پر جس تحقیر کا سامنا ہے اور جس طرح انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اس کے بعد کیا آپ سمجھتے ہیں کہ کوئی پاکستان میں انویسٹمنٹ کرنا پسند کرے گا۔
ملک کی معیشت کی صورت حالات پہلے ہی دگر گوں ہے۔ صنعت کار اپنا کاروبار سمیٹ کر بیرون ملک شفٹ ہو رہے ہیں جب کہ نوجوان روزگار کی تلاش میں بیرون ملک اپنی جانیں گنواتے نظر آتے ہیں۔ ان کے بیرون ملک جانے میں بھی وہ تلخ رویہ اور ناروا سلوک بھی ذمہ دار ہے جس کا سامنا سرکاری مشینری کی جانب سے ہر پاکستانی کو ہے۔ قارئین! یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت ہر مقام اور عہدے پر ایک فرعون بیٹھا ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ کوئی بڑا فرعون ہے تو کوئی چھوٹا فرعون۔ کوئی بھی کام پیسے دئیے بغیر نہیں ہوتا۔ ایسے میں تضحیک اور بے توقیری کا احساس ہر شہری کے لیے کسی اذیت سے کم نہیں ہوتا۔ عزت نفس کا احساس ناتوانوں کو ذلت و پستی کی گمراہیوں سے نکالتا ہے اور ستاروں کی بلندی اور چمک سے روشناس کراتا ہے۔ یاد رکھیے! ذلت اور پستی کا علاج سر اٹھانے میں ہے، دنیا کی سروری، شمشیر و سناں میں اور قوم کا رعب ان کے اتحاد میں پوشیدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی‘‘۔
دینی عزت اور اسلام کا شرف وہ قیمتی احساسات ہیں جن کا بیج شریعت ربانی نے ہماری کشت جان میں بویا اور مسلمانوں کو ذلت و پستی کے گڑھوں میں گرنے سے محفوظ رکھا ہے۔ ایک مسلمان فطری طور پر صاحبِ حمیت اور غیرت مند ہوتا ہے، وہ کبھی ذلت و پستی کو گوارا نہیں کرتا۔ وہ کسی سرکش کے سامنے سر نہیں جھکاتا، وہ کسی زبان دراز سے خوفزدہ ہوتا ہے اور نہ الزام تراشی کو خاطر میں لاتا ہے۔ وہ کسی بھی جابر کے سامنے کمزور نہیں پڑتا، وہ کسی کی خوشامد نہیں کرتا، کسی کی مکاری میں آتا اور نہ کسی کمینے بزدل کی رفاقت اختیار کرتا ہے۔ اس لیے کہ عزت نفس مسلمانوں کے خون میں گردش کرتی ہے۔ اللہ وحدہ کی توفیق سے اس میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ اس راہ میں دینِ ربانی اس کا مددگار اور حقیقی ایمان اس کا سرمایہ ہے۔ پاکستان کی ترقی کا راز بھی اس میں مضمر ہے کہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ، نظام اور مشینری اس کے باسیوں کو عزت دے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: عزت نفس کا بیرون ملک ا ہے اور ہوتا ہے وہ کسی کے لیے

پڑھیں:

5000 کا نوٹ اصلی ہے، یا نقلی؟ پہچان جانیں

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)پاکستان میں بھی جعلی کرنسی مارکیٹ میں گردش کرتی ہے آج ہم آپ کو 5 ہزار روپے مالیت کے اصلی نوٹ کی پہچان بتائیں گے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان 10 روپے سے 5000 روپے مالیت تک کے نوٹ جاری کرتا ہے۔ لیکن مارکیٹ میں آئے دن جعلی نوٹوں کی گردش کی خبریں بھی سامنے آتی رہتی ہیں۔ اگر بڑی مالیت کا جعلی نوٹ کسی کو ملے تو اس کو مالی نقصان کے ساتھ شدید ذہنی کوفت اور بعض اوقات ناقابل یقین غیر متوقع حالات سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔

اسٹیٹ بینک جو بھی نوٹ جاری کرتا ہے۔ اس کے کچھ خصوصی حفاظتی فیچرز نوٹ کی سطح پر ہوتے ہیں جن کے ذریعہ نوٹ کے اصلی یا نقلی ہونے کی پہنچان با آسانی ہو سکی ہے۔

5000 روپے کی خصوصیات:
1۔ اس مالیت کے نوٹ پر بڑھا ہوا واٹر مارک ہوتا ہے۔

2۔ شیروانی میں قائداعظم کی تصویر 5000 روپے کے نوٹ کے اوپر بائیں جانب دکھائی دیتی ہے۔

3۔ الیکٹرو ٹائپ واٹر مارک ہوتا ہے۔

4۔ نوٹ کی قیمت قائداعظم کی تصویر کے نیچے دکھائی دیتی ہے۔

5۔ ونڈو سیکیورٹی تھریڈ

اصلی نوٹ کی پہچان کیسے کریں؟
5000 روپے کے نوٹ پر کاغذ میں جزوی طور پر سرایت شدہ ونڈو سیکیورٹی تھریڈ نوٹ کے اوپری بائیں جانب اوپر سے نیچے تک چلتا ہے۔ دھاگے میں فرق کا ہندسہ ‘5000’ دیکھا جا سکتا ہے۔ دھاگا نوٹ کے آگے چاندی کے نشانات کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔

نوٹ کی مالیت کا عدد جزوی طور پر اوپر بائیں اوپر اور جزوی طور پر ریورس دائیں اوپر ظاہر ہوتا ہے جو روشنی کے ذریعے دیکھنے پر ایک بہترین شکل میں نظر آتا ہے۔

اینٹی اسکین اور اینٹی کاپی لائن پیٹرن نوٹ پر ظاہر ہوتے ہیں، جو صحیح نوٹ کی اسکیننگ اور فوٹو کاپی کو روکتے ہیں۔

جب نوٹ کو مختلف زاویوں سے دیکھا جاتا ہے تو پوشیدہ فرق کا ہندسہ پورٹریٹ کے دائیں جانب عمودی طور پر ظاہر ہوتا ہے۔

آپٹیکل ویری ایبل انک (OVI) کے پرنٹنگ ڈیزائن میں گھرا ہوا چاند اور پانچ کونوں والا ستارہ نوٹ کے اوپری دائیں طرف ظاہر ہوتا ہے۔ جب نوٹ کو مختلف زاویوں سے دیکھا جاتا ہے تو OVI ڈیزائن کا رنگ سبز سے سنہری اور سنہری سے سبز ہوتا ہے۔

جیومیٹریکل پیٹرن کے تحت آرائشی نمونے نوٹ کے سامنے نظر آتے ہیں۔ نوٹ پر نام کے ساتھ فیصل مسجد، اسلام آباد کا نقشہ نظر آتا ہے۔ نوٹ کے نیچے بائیں جانب ‘اسٹیٹ بینک آف پاکستان’ کی مہر نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ نوٹ میں اس کی پرنٹنگ کا سال چیک کریں۔

اوپر بائیں جانب عمودی طور پر تین ابھرے ہوئے حلقے نظر آتے ہیں جو بصارت سے محروم افراد کو نوٹ کی قدر پہچاننے کے قابل بناتے ہیں۔

Intaglio لائنیں نوٹ کے دائیں اور بائیں جانب ظاہر ہوتی ہیں۔ اردو ہندسوں میں فرق دائیں اور بائیں اوپر ظاہر ہوتا ہے جبکہ انگریزی میں فرق دائیں نیچے ظاہر ہوتا ہے۔

سابقہ ​​کے ساتھ سات ہندسوں کا سیریل نمبر نوٹ کے اوپر دائیں اوپر اور واٹر مارک کے نیچے بائیں طرف ظاہر ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ نوٹ کے مرکزی رنگ میں گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان یاسین انور کے دستخط ‘گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان’ کے اوپر چھپے ہوتے ہیں۔

آپ 5 ہزار سمیت تمام مالیت کے اصلی نوٹ کی پہچان کے لیے اسٹیٹ بینک کی جاری کردہ یہ ویڈیو بھی دیکھ سکتے ہیں۔
مزیدپڑھیں:پاکستان ریلویز کا ٹرنیوں کے کرایوں میں اضافے کا اعلان

متعلقہ مضامین

  • تبصرہ ، تنقید، شکوہ اور شکائت
  • جج جس ہائی کورٹ میں تعینات ہوتا ہے، اُسی ہائی کورٹ کیلئے حلف لیتا ہے
  • جس دن عمران خان جیل سے باہر آئے گا، ان کی چھٹی ہو جائے گی، سینیٹر ہمایوں مہمند
  • 5000 کا نوٹ اصلی ہے، یا نقلی؟ پہچان جانیں
  • قرآن کریم پڑھنے کے سات مقاصد
  • تاریخ خود رقم کرنا پڑتی ہے
  • سویلینز کا کورٹ مارشل ممکن ہوتا تو 21ویں ترمیم نہ کرنا پڑتی،وکیل خواجہ احمد حسین 
  • اسٹار کڈز کو بھی بالی ووڈ میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، جیدیپ اہلاوت
  • تجارتی جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا، چینی وزارتِ تجارت