2014ء میں انڈیا میں نریندر مودی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سے اب تک انڈیا اور پاکستان میں سرکاری سطح پر مذاکرات کا عمل معطل چلا آرہا ہے لیکن اس سے پہلے دونوں ممالک کے درمیان ناکام ڈائیلاگ کی ایک اپنی تاریخ ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جب بھی دو طرفہ مذاکرات کا اعلان ہوتا تھا میڈیا اس کو ضرورت سے زیادہ اچھالنا شروع کر دیتا تھا یہاں تک کہ کس تیسرے ملک میں دونوں ممالک کے سربراہان آپس میں ہاتھ بھی ملا لیتے تو اس کو سب سے بڑی پیش رفت بنا کر پیش کیا جاتا کہ ناظرین دیکھیں انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملا لیا ہے حالانکہ ہاتھ ملانے سے لے کر کس طرح کے معاہدے تک کا سفر بہت کٹھن ہوتا ہے۔ دسمبر میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سپیکر قومی اسمبلی کی مصالحت سے شروع ہونے والے مذاکرات کم و بیش انہی حالات میں شروع ہوئے جو عموماً انڈیا پاکستان ڈائیلاگ کے مابین ہوا کرتے تھے اور پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بننے کے باوجود جن کا نتیجہ کچھ نہیں نکلتا تھا۔ ان مذاکرات کا آغاز اور انجام بالکل اسی طرح کی ناکامی پر ہوا۔ دنیا بھر میں ڈپلومیسی کا اصول یہ ہے کہ جب آپ ٹیبل ٹاک کرتے ہیں تو اس کی سب سے پہلی شرط یہ ہوتی ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف لفظی گولہ باری بند کریں جب تک یہ نہ ہو آپ بات نہیں کر سکتے اعتماد سازی کا مرحلہ اس کے بعد آتا ہے۔ لیکن ن لیگ اور پی ٹی آئی مذاکرات میں ناکامی بات چیت شروع ہونے سے پہلے ہی نظر آرہی تھی کیونکہ مذاکرات بھی چل رہے تھے اور ایک دوسرے کے خلاف زہر افشانی میں بھی کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ گویا آغاز میں ہی انجام کی باتیں واضح تھیں۔
حکومت اور اپوزیشن مذاکرات میں ہمیشہ حکومتی stakes زیادہ ہوتے ہیں لہٰذا حکومت پر زیادہ بھاری ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ مذاکرات کو میاب کرانے کے لیے وہ سیاسی پختگی کا ثبوت دے کیونکہ ناکامی کی صورت میں نقصان بھی حکومت کا ہی زیادہ سمجھا جاتا ہے لیکن ن لیگی حکومت میں عرفان صدیقی جیسے فاختہ صفت مذاکرات کار کی زبان میں لچک یا صلح جوئی کا عنصر ناپید رہا جبکہ ڈائیلاگ سے باہر کی ن لیگی عقاب صفت رہنما جیسا کہ خواجہ آصف تھے وہ تابڑ توڑ حملے کرتے رہے اور اپنی حکومت کو سر عام کہتے رہے کہ ان سے ڈائیلاگ ختم کریں۔ اپوزیشن کا کہنا تھا کہ حکومت کے بس میں کچھ نہیں ہے جو حکومت وعدے کے باوجود ان کے پس زنداں لیڈر سے ملاقات نہیں کرا سکی وہ فیصلے کرنے میں کتنی آزاد یا خود مختار ہے۔ اسی دلیل کو تقویت دینے کے لیے عمران خان نے جیل سے آرمی چیف کے نام خط میں پالیسی پر نظر ثانی کے لیے خط لکھا ہے بہرحال مذاکرات جہاں سے چلے تھے اسی مقام پر ایک انچ آگے بڑھے بغیر ختم ہو گئے ۔ اس ناکامی کا ملبہ بلاشبہ حکومت کے کھاتے میں جائے گا۔
اسی اثنا میں حکومت نے Prevention of electronic crime یا PECA قانون میں پارلیمنٹ میں بحث کے بغیر من مانی ترمیم کرتے ہوئے فیک نیوز کی اشاعت پر 3سال قید کی سزا پر انسانی حقوق سول سوسائٹی اور بطور خاص میڈیا کو اپنے خلاف صف آرائی کا موقع دے دیا ہے۔ اس قانون سے اظہار رائے کی آزادی پر دور رس اثرات مرتب ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے حکو مت کے خلاف بولنے والوں کے گرد گھیرا تنگ ہوتا نظر آرہا ہے اس کی جو تشریح کی جا رہی ہے یہ ہر بر سر اقتدار حکومت کے ہاتھ میں ایک ایسا ہتھیارآجائے گا جسے دیکھتے ہوئے کوئی حکومت کے خلاف بولنے کی جرأت نہیں کر سکے گا۔ اس قانون کے نتیجے میں کرپشن اور بدعنوانی کو بے نقاب کرنا سب سے مشکل ہو جائے گا۔
پاکستان کے ماضی کے بدنام زمانہ مہران بینک سکینڈل کے مرکزی کردار یونین حبیب مرحوم سے پوچھا گیا تھا کہ آپ سیاستدانوں میں کرورڑوں روپے تقسیم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اس کاثبوت دیں تو انہوں نے تاریخی جواب دیا تھا کہ کرپشن کے لین دین میں رسیدیں نہیں دی جاتیں ان کے پاس ہاتھ سے لکھی ہوئی پرچیاں تھیں کہ کس کس کو کتنا کتنا مال دیا گیا تھا۔
پیکا ایکٹ بال سے باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز وہ رسی ہے جس پر چلتے ہوئے صحافیوں کو نظر آرہا ہے کہ اس رسی کو عبور کرتے ہوئے اگر گر گئے تو تین سال کی قید یقینی ہے۔ ان حالات میں ادارہ جاتی کرپشن پر کون آواز بلند کرے گا اور جب کوئی نہیں بولے گا تو فائدہ کس کو ہو گا۔ اس لیے اسمبلی کے فلور پر ANP نے اس کو Draconian law یا ظالمانہ قانون کہا ہے جبکہ اپوزیشن کی تو بات سنی ہی نہیں گئی۔ ان حالات میں اخباری اداریے جو پہلے ہی ہومیو پیتھک ہیں مزید فرینڈلی ہو جائیں گے اور یہی گورنمنٹ چاہتی ہے۔ اس قانون کا اطلاق سوشل میڈیا سے زیادہ main stream میڈیا پر ہونا ہے اسی لیے پارلیمانی رپورٹر زنے قانون پاس ہونے کے دن وہاں سے واک آؤٹ کیا تھا۔ اردو کا محاورہ ہے کہ کہنا بیٹی کو اور سنانا بہو کو یہ بظاہر تو سوشل میڈیا کہتے ہیں لیکن اس کی زد میں آپ دیکھیں گے کہ کون کون آتا ہے جس میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ہدف ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا تو پیمرا کے ذریعے پہلے ہی سوئی کے ناکے سے گزارا جا چکا ہے۔آپ حکومت کی اجازت کے بغیر اپوزیشن کی کوریج کر کے دکھائیں۔
اس ترمیم کے ذریعے حکومت میڈیا کو مائیکرو مینج کرنا چاہتی ہے اس خواہش سے تو جنرل مشرف جیسی آہنی حکومتوں نے بھی گریز کیا تھا۔ تمام صحافی تنظیموں نے اس پر احتجاج کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے لیکن ابھی تک حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ حکومتی ترجمان کہتے ہیں کہ اگر اس قانون کی کوئی خامی ہے تو آئیں بیٹھ کر بات کرتے ہیں اور حل نکالتے ہیں یہ وہی دعوت ہے جو حکومت نے اپوزیشن کو مذاکرات سے پہلے دی تھی کہ آئیں بیٹھ کر حل نکالتے ہیں مگر بعد میں اپنی عدم سنجیدگی کے باعث موقع ضائع کر دیا۔
26 ویں آئینی ترمیم کے بعد اب کسی کے پاس سپریم کورٹ جانے کاآپشن بھی نہیں بچا کہ اس کو چیلنج کیا جائے کیونکہ جو بنچ بھی بنے گا وہ حکومت کی مرضی ہو گی کہ یہ کس کس کے پاس جائے۔ یہ ایک الگ بحث ہے۔ 26 ویں آئین ترمیم اور جو ڈیشل کمیشن پر حکومت کے ہولڈ کے بعد جو نئے ججوں کی induction ہوئی ہے اس سے اگلے 10 سے 15 سال تک اعلیٰ عدلیہ میں ن لیگ کے لائے ہوئے ججوں کا غلبہ طاری رہے گا۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: مذاکرات کا حکومت کے کے خلاف ہے لیکن کے بعد
پڑھیں:
ہمیشہ سے نیلے نہیں تھے بلکہ۔۔۔سمندر اربوں سال پہلے کیسے دکھائی دیتے تھے ؟سائنسدانوں کا نئی تحقیق میں حیران کن انکشاف
ایک نئی سائنسی تحقیق نے دعوی کیا گیا ہے کہ اربوں سال پہلے زمین نیلی نہیں، بلکہ سبز دکھائی دیتی تھی۔یہ تحقیق معروف سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہوئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ آج سے تقریبا 2.4 ارب سال پہلے آرکین دور کے دوران زمین کے سمندر ہرے رنگ کی چمک رکھتے تھے۔
اس وقت زمینی ماحول میں آکسیجن موجود نہیں تھی اور سمندری فرش سے خارج ہونے والے آتش فشانی مادے سمندروں میں بڑی مقدار میں آئرن (لوہا )شامل کرتے تھے۔ قبل ازیں دنیا کے مشہور سائنسدان اور ٹی وی شو کوسموس کے میزبان کارل سیگن نے زمین کو پیل بلیو ڈاٹ(پھیکا نیلا نقطہ ) قرار دیا تھا جب وائجر1 خلائی جہاز نے زمین کی تصویر خلا سے لی تھی۔نئی تحقیق کے مطابق چونکہ اس وقت آکسیجن کی عدم موجودگی کی وجہ سے لوہے کی ایک خاص قسم فیروس آئرن پانی میں حل ہوکر موجود ہوتی تھی، جس نے پانی کے رنگ کو متاثر کیا۔
جب بعد میں آکسیجن پیدا کرنے والے خردبینی جاندار (cyanobacteria) نمودار ہوئے تو انہوں نے فوٹوسنتھیسس کے عمل سے آکسیجن پیدا کی۔ اس آکسیجن نے پانی میں موجود آئرن کو فیرک آئرن میں تبدیل کر دیا، جو کہ پانی میں حل نہیں ہو سکتا اور زنگ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔یہ فیرک آئرن جب پانی میں تیرتا تھا تو وہ سرخ اور نیلی روشنی کو جذب کرتا تھا جبکہ سبز روشنی کو گزرنے دیتا تھا۔ اسی وجہ سے زمین کے سمندر اس وقت سبز رنگ کے دکھائی دیتے، اور اگر اس وقت کیمرے موجود ہوتے تو زمین خلا سے زمردی سبز نظر آتی۔ سائنسدانوں نے جدید جاندار سائانوبیکٹیریا کو جینیاتی طور پر اس طرح تبدیل کیا کہ وہ سبز روشنی جذب کرنے والے ایک خاص رنگ فائکوریتھروبیلن کو استعمال کریں۔
تجربے سے معلوم ہوا کہ یہ جاندار سبز روشنی میں بہتر طور پر نشوونما پاتے ہیں، جس سے یہ مفروضہ تقویت پکڑتا ہے کہ ماضی میں زمین کی فضا اور سمندری ماحول ایسی ہی روشنی کے لیے سازگار تھا۔تحقیق میں یہ بھی پایا گیا کہ سمندر کی گہرائی میں پانچ سے بیس میٹر تک بھی لوہے کے ذرات سبز روشنی کو گزرنے دیتے تھے، جس سے پیل گرین ڈاٹ زمین کا تصور مضبوط ہوتا ہے۔ یہ تحقیق اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ اگر کائنات میں کوئی اور سیارہ خلا سے سبز نظر آئے، تو یہ اس بات کی علامت ہو سکتا ہے کہ وہاں زندگی نے ابتدائی مرحلے میں قدم رکھ لیا ہے، خاص طور پر وہ زندگی جو فوٹوسنتھیسس جیسے عمل سے توانائی حاصل کرتی ہو۔ماہرین کا کہنا ہے کہ، ہماری تحقیق ایک نئے رنگ میں زندگی کے آثار دیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔