عمرانی سیاست کا ایک اور منفی موڑ
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
عمران خان کسی طرح بھی مان نہیں رہا ہے۔ وہ مزاحمتی سیاست نہیں بلکہ ’’میں نہیں تو کوئی نہیں‘‘ کی راہ پر گامزن ہے۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی تک وہ اپنے علاوہ دیگر سیاست دانوں کیخلاف سینہ سپر تھا۔ نوازشریف ہو یا شہبازشریف، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمان، اچکزئی اور کوئی بھی سیاستدان، سب عمران خان کی تنقید کا نشانہ بن رہے تھے۔ 2013ء میں عمران خان حکمران اتحاد کے ساتھ ملنے کے لئے تیار نہیں تھا، 2018ء میں جب وہ خود حکمران تھا تو اپوزیشن لیڈر کے ساتھ ہاتھ ملانے کے روادار نہیں تھا، 2022ء میں حکومت سے رخصت کئے جانے کے بعد اس نے اسٹیبلشمنٹ کو بھی نشانے پر رکھ لیا اور ہنوز وہ اسے للکار رہا ہے۔ اس وقت عمران خان جیل میں سزا بھگت رہا ہے۔ مارچ 2022ء میں امریکی سائفر لہرانے سے لے کر نومبر 2024ء میں اسلام آباد پر لشکرکشی کی۔ ’’فائنل کال‘‘ دینے تک پونے تین برس پر محیط اس عرصے میں عمران خان اور اس کی پارٹی مشکلات کی دلدل میں دھنستی چلی گئی لیکن عمران خان مزاحمت سے باز نہیں آیا۔ ہاں 23دسمبر 2024ء سے لے کر 23جنوری 2025ء تک ایک وقفہ ہے جس میں اپنے مزاحمتی بیانئے سے انحراف کرتے ہوئے عمران خان پارٹی نے مذاکرات کا ڈول ڈالا، بہت سے ماہرین سیاست کا خیال تھا کہ مذاکرات کی بیل منڈھے نہیں چڑھنے والی ہے کیونکہ عمران خان اور اس کی پارٹی کے خمیر میں ہی مذاکرات، بات چیت جیسی اعلیٰ صفات شامل ہی نہیں ہیں۔ عملاً ایسا ہی ہوا۔ مذاکرات کی پہلی نشست 23دسمبر کو ہوئی جس میں طے پایا کہ پی ٹی آئی اپنے مطالبات تحریری شکل میں پیش کریگی۔ 2جنوری کو دوسری نشست ہوئی لیکن پی ٹی آئی تحریری مطالبات پیش کرنے میں ناکام رہی۔ ایسے لگا کہ جیسے مذاکرات ناکام ہو چکے ہیں۔ اس دوران پی ٹی آئی کے جیالے ٹیلی وژن اور سوشل میڈیا پر اپنے مطالبات بیان کرتے رہے، دھراتے رہے حتیٰ کہ 16جنوری کو ہونے والی مذاکرات کی تیسری بیٹھک میں پی ٹی آئی نے مطالبات تحریری صورت میں پیش کئے اور ساتھ ہی حکم جاری کیا کہ اگر 7دن کے اندر اندر ان مطالبات پر عملدرآمد کرنے کا اعلان نہ کیا گیا تو مذاکرات ختم سمجھے جائیں گویا 28جنوری فائنل ڈے قرار پایا۔ حکومت نے اعلان کیا کہ 7ورکنگ ڈیز میں پی ٹی آئی کے چارٹر آف ڈیمانڈ کا تحریری طور پر جواب دیا جائے گا۔ حکومتی کمیٹی نے اس حوالے سے کام شروع کر دیا۔ تین اجلاس ہوئے، مشاورت شروع ہو گئی۔ حکومت موقف کے خدوخال تراشے گئے۔ سات ایام کار کے ابھی پانچ دن باقی تھے کہ 23جنوری 2025ء کو اڈیالہ جیل کے پھاٹک سے باہر آتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے مذاکرات کا سلسلہ ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ گویا پی ٹی آئی ایک شارٹ بریک کے بعد ایک بار پھر اپنی اوقات پر واپس آ گئی۔ لڑائی جھگڑا، مزاحمت، مقاومت اور میں نہ مانوں کی رٹ، ڈیڈ لائن پوری ہونے سے پہلے ہی مذاکرات کے خاتمے کا اعلان، پی ٹی آئی کی اس حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد ملکی سیاست میں ہر وقت ہلچل مچائے رکھنا ہے۔ عمران خان 1996ء میں تحریک انصاف کے قیام سے لے کر 2011ء میں مقتدرہ کا کھلاڑی بننے تک پھر 2018ء میں حکومت بنانے تک، 2022ء میں حکومت سے نکالے جانے تک اور اس کے بعد 23جنوری 2025ء میں مذاکرات کے خاتمے کے اعلان تک، عمران خان کی حکمت عملی ملک میں سوائے افتراق و انتشار پھیلانے کے علاوہ اور کیا رہی ہے۔ عمران خان ایسا ہی سب کچھ کرنے پر مامور کیا گیا ہے اور وہ یہ کام بخوبی اور بطریق احسن سرانجام دے رہا ہے۔ عمران خان حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں، آزاد ہو یا جیل میں، اس کی زبان صرف اور صرف نفرت اور حقارت کے شعلے اگلتی نظر آتی رہی ہے۔ یہ نفرت افراد سے ہوتی ہوئی سیاسی جماعتوں، اداروں اور اب ملک کے لئے وبال جان بن چکی ہے۔ عمران خان بیرون ملک پاکستانیوں کو اُکسا رہا ہے کہ وہ زرمبادلہ پاکستان نہ بھیجیں۔ پاکستان اس وقت ایک ایک ڈالر کا محتاج ہے۔ پاکستان کی قومی سلامتی دائو پر لگی ہوئی ہے ایسے میں بیرون ممالک بسنے والے پاکستانیوں کو زرمبادلہ نہ بھیجنے کی ترغیب دینا ملک دشمنی نہیں تو اور کیا ہے۔ عمران خان نے تو مذاکراتی وقفے کے دوران بھی اپنے اس ملک دشمن بیانئے سے اجتناب برتنا مناسب نہیں سمجھا۔
مذاکراتی ناکامی کے بعد ایک بار پھر عمران خان گھیرائو جلائو کی سیاسی نہیں تخریبی راہ پر گامزن ہو چکا ہے۔ آرمی چیف کو لکھا گیا خط کیا ہے۔ پرانی باتیں، شکوے، شکایتیں، نظام پر عدم اعتماد، پارلیمانی کی بے توقیری اور فوج کی قربانیوں کی توصیف کی آڑ میں عوام اور فوج کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی بھونڈی کاوش۔ عمران خان کے لئے یہ بات قطعاً قابل برداشت نہیں ہے کہ 2022ء کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے انہیں اقتدار سے نکالے جانے کے بعد بھی نظام چل رہا ہے۔ 44ماہ تک حکومت کرنے کے بعد جب عمران خان کو چلتا کیا گیا تو 16ماہ کی باقی مدت پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت قائم رہی۔ اس طرح اسمبلی کے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی پھر کیئر ٹیکر حکومت آئی۔ فروری 2024ء میں عام انتخابات ہوئے۔ عمران خان اپنی حماقتوں کے باعث اپنی پاپولیرٹی کو، اپنے پاپولر ووٹ کو الیکٹورل ووٹ میں کنورٹ کرنے میں ناکام ہوا اور اب اس کی پارٹی سڑکوں پر لور لور پھر رہی ہے، جوتے کھا رہی ہے۔ عمران خان اب بھی حقائق سے چشم پوشی کر رہا ہے، اسے جہاں بیٹھ کر یعنی اسمبلی میں بیٹھ کر اپنا فعال کردار ادا کرنا چاہئے اپنے 67ممبران کے ساتھ طاقتور اپوزیشن کا کردار ادا کرنا چاہئے۔ عمران خان، دیگر حکومت مخالف سیاسی جماعتوں کے ساتھ
مل کر اسمبلی میں حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتا ہے لیکن اس کی نظر اپنے ہی اہداف پر ہے اور وہ ان پر یکسوئی کے ساتھ گامزن ہے اور اسے کامیابی بھی مل رہی ہے۔ افتراق و انتشار پھیل رہا ہے۔ ملک کمزور ہوتا چلا جا رہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ریاست ابھی تک قوم کو کوئی مثبت بیانیہ دینے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ 2011ء میں جس طرح پراجیکٹ عمران خان لانچ کیا گیا جس طرح ریاست کے تمام ستونوں کو اس پراجیکٹ کی کامیابی کے لئے استعمال کیا گیا۔ عمران خان کو پاک صاف، اعلیٰ اور انقلابی لیڈر کے طور پر ابھارا گیا حتیٰ کہ عمران خان ایک دیو بنا دیا گیا تھا۔ اسی طرح کا ایک بیانیہ اب درکار ہے جو عمران خان کی اصلی حیثیت قوم کے سامنے رکھے اسے اس کی اوقات دکھائے، قوم کو بتایا جائے کہ عمران خان کیا کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے۔ اس کی منفی پالیسی ملک و قوم کے لئے کس طرح مضر ہے اور پھر قوم کو ایک مثبت بیانیہ دیا جائے، انہیں کسی منزل کا پتہ دیا جائے، انہیں اس منزل کے حصول کے لئے آمادہ کیا جائے، انہیں قربانی دینے اور عزم و ہمت سے حصول منزل کے لئے آمادہ پیکار کیا جائے وگرنہ عمران خان کا منفی بیانیہ اور اس کے مطابق منفی طرز عمل ابھی بھی اتنا طاقتور ہے کہ ملک و قوم کے لئے مضر ثابت ہو سکتا ہے۔ عمران خان کا بیانیہ اور اس کی کالیں حکومت کے لئے ہی نہیں بلکہ ملک کے لئے اور ریاست کے لئے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہیں اور اگر اسے ایسی باتوں سے نہ روکا گیا تو معاملات ناقابل تلافی صورتحال کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: عمران خان کی پی ٹی ا ئی میں حکومت کے لئے ا کے ساتھ کیا گیا اور اس ہے اور رہی ہے رہا ہے میں پی کے بعد
پڑھیں:
وزیر داخلہ اور اسپیکر قومی اسمبلی کی ملاقات، حکومت اور پی ٹی آئی مذاکرات پر گفتگو
وزیر داخلہ محسن نقوی اور اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے اسلام آباد میں ملاقات کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ملاقات میں حالیہ مذاکرات میں حکومت کی طرف سے مثبت پیش رفت اور پی ٹی آئی کے رویے پر گفتگو کی گئی۔
اس دوران ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال اور باہمی دلچسپی کے امور پر بھی بات ہوئی۔
وزیر داخلہ محسن نقوی نے تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے پر اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ اسپیکر نے حکومتی و اپوزیشن جماعتوں کو اکٹھا کرنے کے لیے قابل ستائش کردار ادا کیا۔
وزیر داخلہ اور اسپیکر قومی اسمبلی نے ملک کی بہتر ہوتی معاشی صورتحال اورعوامی مسائل کے حل کے لیے کئے گئے حکومتی اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا گیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ayaz sadiq meeting MUHSIN NAQVI ایاز صادق پی ٹی آئی محسن نقوی مذاکرات