کوئٹہ کی ایسی مارکیٹ جہاں پرندے ہول سیل ریٹ پر ملتے ہیں
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
آپ نے کپڑوں اور الیکٹرونکس سمیت دیگر اشیائے ضروریہ کی ہول سیل مارکیٹس کا تو سنا ہوگا لیکن کوئٹہ کے علا قے سی روڈ پر پرندوں کی بھی ایک ہول سیل مارکیٹ موجود ہے جہاں انسانوں کی نسبت پرندوں کی آوازیں زیادہ سنائی دیتی ہیں۔
اس مارکیٹ کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں موجود تمام پرندوں کی افزائش مقامی طورپر کی جا تی ہے جبکہ مارکیٹ میں انواع و اقسام کے لَو برڈز، چکور، تیتر اور آسٹریلین طوطوں سمیت کئی اقسام کے پرندے ہول سیل ریٹ پر مل جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ میں طوطا لاپتا، تلاش گمشدہ کے اشتہار آویزاں
وی نیوز سے گفتگو کر تے ہوئے پرندوں کے تاجر محمد حنیف نے بتایا کہ وہ گزشتہ 3 دہائیوں سے اس کاروبار سے منسلک ہیں اور ان کے پاس مختلف اقسام کے پرندے موجود ہیں جن میں سے کچھ کی افزائش وہ خود کر تے ہیں جبکہ باقی پرندے وہ لوگوں سے خرید کر فروخت کرتے ہیں۔
محمد حنیف نے کہا کہ لوگ پرندے پالنے کے شوق کے لیے لاکھوں روپے خرچ کر تے ہیں لیکن یہ مارکیٹ ایسے لوگوں کے لیے ہے جو کم داموں میں پرندے خریدنے کے خواہش مند ہو تے ہیں۔
مزید پڑھیے: ملتان میں ہرن فارمنگ، منافع بخش کاروبار بھی اور ماحولیات کی خدمت بھی
مارکیٹ میں اس وقت سب سے زیا دہ ڈیمانڈ چکور، تیتر اور آسٹریلوی طوطوں کی ہے۔ مہنگائی نے جہاں دیگر کاروباری سرگرمیوں کو متاثر کیا ہے وہیں پرندوں کی اس مارکیٹ میں بھی آج کل کاروبار نہ ہونے کے برابر ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews بلوچستان پرندہ مارکیٹ پرندوں کی ہول سیل مارکیٹ کوئٹہ پرندہ مارکیٹ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلوچستان پرندہ مارکیٹ پرندوں کی تے ہیں
پڑھیں:
مراکش کشتی حادثہ، ڈوبنے والوں کا کوئی ریکارڈ نہیں
مراکش کشتی حادثے میں ملنے والی نعشوں کی شناخت کا عمل مکمل کر لیا گیا ۔ حکام کو 13 نعشیں ملی تھیں، شناخت کے عمل کے دوران ثابت ہوا ہے کہ ان سب کا تعلق پاکستان سے تھا۔
مراکش میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے تیار کی گئی فہرست کے مطابق جن 13 پاکستانیوں کی شناخت ہوئی ہے، ان میں سفیان علی ولد جاوید اقبال (پاسپورٹ نمبر VF1812352)، سجاد علی ولد محمد نواز (پاسپورٹ نمبر XX1836111)، رئیس افضل ولد محمد افضل (پاسپورٹ نمبر MJ1516091)، قصنین حیدر ولد محمد بنارس (پاسپورٹ نمبر AA6421773)، محمد وقاص ولد ثناء اللہ (پاسپورٹ نمبر DJ6315471)، محمد اکرم ولد غلام رسول (پاسپورٹ نمبر DN0151754) اور محمد ارسلان خان ولد رمضان خان (پاسپورٹ نمبر LM4153261) شامل ہیں۔ اس حادثے میں جان کی بازی ہارنے والوں میں حامد شبیر ولد غلام شبیر (پاسپورٹ نمبر CZ5133683)، قیصر اقبال ولد محمد اقبال (پاسپورٹ نمبر GR1331413)، دانش رحمان ولد محمد نواز (پاسپورٹ نمبر SE9154371)، محمد سجاول ولد رحیم دین (پاسپورٹ نمبر AY5593661)، شہزاد احمد ولد ولایت حسین (پاسپورٹ نمبر GN1162802) اور احتشام ولد طارق محمود (پاسپورٹ نمبر CE1170122) بھی شامل ہیں۔
خیال رہے کہ 15 جنوری کو مغربی افریقہ سے سپین جانے والی تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے سے 50 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے 44 پاکستانی تھے۔تارکین وطن کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’واکنگ بارڈر‘ کی سی ای وا ہیلینا مالینو نے ایکس پر لکھا کہ ’کشتی میں سوار افراد نے 13 دن سمندر میں بڑی مشکل میں گزارے اور کوئی ان کی مدد کو نہیں آیا ان پاکستانیوں کی ہلاکتوں کی تصدیق اسی کشتی میں بچ جانے والوں نے کی تھی تاہم حکام کو صرف 13 لاشیں ہی ملیں جن کی 20 روز گزر جانے کے بعد آج تصدیق ممکن ہوئی ہے میتوں کی شناخت کے لیے نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی خدمات حاصل کی گئیں اور نادرا کی جانب سے تصدیقی عمل کے بعد اب نعشوں کی پاکستان منتقلی کا مرحلہ شروع کیا جائے گا۔ ملنے والی نعشیں ناقابل شناخت تھیں جبکہ کسی کے پاس کسی قسم کی کوئی دستاویز بھی موجود نہیں۔ مراکش میں پاکستانی سفارت خانے میں نادرا کا کوئی سیٹ اپ موجود نہیں دوسرا جس مقام پر یہ نعشیں موجود ہیں وہ مراکش کے دارالحکومت سے 22 گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ حکام کے مطابق اسی وجہ سے نعشوں کی شناخت کے عمل میں تاخیر ہوئی۔ جب حکام نے بتایا آن لائن پورٹل موجود ہیں جن کے ذریعے فنگر پرنٹ اور تصاویر نادرا کو بھجوائی گئیں۔ نادرا نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے شناخت کا عمل مکمل کیا۔ اردونیوز کےمطابق جب مراکش میں پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ کیا گیا کہ ابتدا میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 44 بتائی گئی تھی تو پھر ہلاک ہونے والے باقی افراد کی تصدیق کیسے ہو گی؟
اس پر حکام کا کہنا تھا سمندر میں موجود ہونے والے افراد کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تاہم زندہ بچ جانے والوں میں سے کچھ نے ان کے اہل خانہ کو زبانی تصدیق کی ہے کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ جب ان کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے تو سرکاری طور پر ان کی ہلاکت کی تصدیق کرنا بھی ممکن نہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ سفارت خانے کی جانب سے شناخت کا عمل مکمل ہونے کے بعد فہرست وزارت خارجہ کو بھی دی جائے گی جو باضابطہ طور اس کا اعلان کرے گی۔ واضح رہے کہ اس کشتی میں بچ جانے والوں نے انکشاف کیا ہے کہ کشتی کو کوئی حادثہ پیش نہیں آیا بلکہ افریقی ایجنٹوں نے پاکستانی ایجنٹوں کے ساتھ لین دین کا وعدہ پورا نہ ہونے پر ان پاکستانیوں کو تشدد کر کے، سروں میں ہتھوڑے مار کر اور ہاتھ پاؤں توڑ کر قتل کیا تھا۔