5 فروری، یومِ یکجہتی کشمیر
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
بھارتی مظالم کے شکار کشمیری عوام سے یکجہتی کے اظہار کے لیے آج پورے ملک میں یومِ یکجہتی کشمیر منایا جارہا ہے، 77 سال گزرنے کے باوجود کشمیری عوام آج بھی بھارتی جبرو استبداد کا شکار ہیں، یہ اعزار جماعتِ اسلامی پاکستان کے سابق امیر جناب قاضی حسین احمد (مرحوم) کا ہے کہ جنہوں نے 1990 میں یومِ یکجہتی کشمیر منانے کی روایت ڈالی جسے بعد ازاں سرکاری طور پر منانے کا اعلان کیا گیا تب سے یہ دن کشمیری عوام سے یکجہتی کے اظہار کا استعارہ بن گیا، اس دن کو منانے کا مقصد جہاں ایک جانب کشمیری عوام سے یکجہتی کا اظہار ہے تو وہیں دوسری جانب دنیا کو بھارتی مظالم سے آگاہ کرنا بھی ہے، افسوس ناک امر یہ ہے کہ بھارت طویل عرصے سے کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے، انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اپنی رپورٹس میں بھارتی مظالم کے اعداد وشمار اور انسانی حقوق کی پامالی کا ذکر کر رہی ہیں اس کے باجود نہ عالمی ادارے حرکت میں آرہے ہیں اور نہ ہی بھارت ٹس سے مس ہونے کو تیار ہے، ایک رپورٹ کے مطابق، 1947 سے اب تک بھارت نے کشمیر میں ڈھائی لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کیا ہے، کشمیر میڈیا سروس کے مطابق، 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے اب تک 955 کشمیریوں کو شہید کیا گیا، جن میں 18 خواتین اور 31 نوجوان شامل ہیں۔ اس دوران 251 کشمیریوں کو جعلی مقابلوں یا دوران حراست شہید کیا گیا، جبکہ 2,480 کشمیریوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنا کر زخمی اور 25,591 کو گرفتار کیا گیا، یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ کشمیر آج بھی سلگ رہا ہے، یہاں جو کچھ ہورہا ہے، یہ صورتحال رونما ہی نہ ہوتی اگر تقسیم کے فارمولے کے تحت کشمیر کو پاکستان کا حصہ بننے دیا جاتا، مگر بھارت نے کشمیر میں اپنی فوجیں اُتار کر اپنے جارحانہ عزائم کا اظہار کیا اور کشمیر کو کشمیری عوام کی امنگوں کے خلاف بھارت کا حصہ بنانا چاہا جس پر قائد اعظم کو فوری طور پر کشمیر میں اپنی فوجیں اُتارنے کا حکم دینا پڑا، پھر جب معاملہ اقوام متحدہ گیا اور وہاں سلامتی کونسل نے فیصلہ کیا کہ استصوابِ رائے کے ذریعے کشمیری عوام کو اپنی قسمت کے فیصلے کا اختیار دیا جائے، تب بھی بھارت مسئلے کے پر امن حل پر آمادہ نہیں ہوا، اور آج 75 سال گزرنے کے باوجود تنازع جوں کا توں ہے، حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کے تنازع میں برطانیہ نے متعصبانہ کردار ادا کیا، برصغیر میں اپنے قبضے کے پورے دور میں اس نے ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کے فارمولے پر عمل کیا، اور جب یہاں سے اس کے انخلا کا وقت آیا تو اس نے اپنی پرانی بدطینتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خطے کی غیر منصفانہ تقسیم سے ایک ایسے تنازع کی بنیاد رکھی جس کی راکھ سے آج بھی دھواں اٹھ رہا ہے بادی النظر میں یہ دو ملکوں کے مابین تنازع ہے مگر بدیہاً اس معاملے میں بس کی گانٹھ برطانیہ ہی ہے، اس کے عزائم، فتنہ پروری و فساد جوئی کو فراموش نہیں کیا جاسکتا اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کشمیر آج بھی فلیش پوائنٹ بنا ہوا ہے، یہ تنازع نہ صرف دونوں ممالک کے لیے مشکلات اور چیلنجز کا باعث ہے بلکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسلسل کشیدگی اور دشمنی کی بنیاد بھی یہی ہے، اس مسئلے پر اب تک تین جنگیں ہوچکی ہیں، بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن کی خلاف ورزی معمول کا حصہ بن چکی ہے، سدِ جارحیت کے لیے مجبوراً ًپاکستان کو ایٹمی دھماکا کرنا پڑا، خطیر دفاعی بجٹ کی وجہ سے تعلیم، صحت اور عوام کے دیگر فلاحی منصوبے متاثر ہو رہے ہیں، معاشی ترقی اور خطے کی خوشحالی ایک خواب بن کر رہا گیا ہے، غیر ملکی سرمایہ کاری کے عدم فروغ کی بھی ایک اہم وجہ یہی مسئلہ ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کہ شہ رگ قرار دیا تھا۔ کشمیر تاریخی، جغرافیائی، مذہبی، ثقافتی اور نظریاتی اعتبار سے پاکستان کا حصہ ہے، اس کی اقتصادی اور اسٹرٹیجک اہمیت سے انکار ممکن نہیں، جہلم، چناب اور سندھ جیسے اہم دریا کشمیر ہی سے نکلتے ہیں جو پاکستان کی زراعت کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، ہماری زراعت کا انحصار ہی ان دریاؤں پر ہے، بھارت جب چاہے ان دریاؤں کے بہاؤ کو روک کر پاکستان کے لیے مشکلات کھڑی کرسکتا ہے، مگر المیہ یہ ہے کہ کشمیر کی آزادی کے لیے حکومتی سطح پر جس بالغ نظری، دور اندیشی اور موثر و جامع حکمت عملی کی ضرورت تھی اسے بروئے کار نہیں لایا گیا، پرویز مشرف نے اپنے دورِ اقتدار میں بیرونی دباؤ اور اقتدار کی مجبوریوں کے تحت کشمیر کی تقسیم کا فارمولا پیش کیا، مگر خوش آئند امر یہ تھا کہ حریت کانفرنس کے سربراہ سید علی گیلانی کشمیر کے اصولی اور دیرینہ موقف پر ڈٹ گئے اور دہلی میں ہونے والے ایک اجلاس میں مشرف سے ہاتھ ملانے تک سے انکار کردیا، انہوں نے کشمیر سے متعلق ’’مشرف فارمولا‘‘ کو کشمیری عوام کے احساسات و جذبات کے منافی اور پاکستان کے اصولی موقف اور مفادات کے خلاف قرار دیا، جس کے نتیجے میں حریت کانفرنس سخت گیر اور اعتدال پسند دھڑوں میں تقسیم ہوگئی، یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں اقتدار پر قابض رہنے والے فوجی و سول حکمرانوں نے کشمیر کاز کے لیے وہ کچھ نہیں کیا جو انہیں کرنا چاہیے تھا۔ بے نظیر دورِ حکومت میں چوتھی سارک کانفرنس کے موقع پر جب بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی اسلام آباد آئے تو میریٹ ہوٹل سے کچھ فاصلے پر قائم کشمیر ہاؤس کے سائن بورڈ اُتروا دیے گئے تاکہ راجیو گاندھی کو یہ بورڈ گراں نہ گزرے۔ 1999 میں نواز شریف نے واجپائی کی لاہور آمد کے موقع پر احتجاج کرنے والے جماعت اسلامی کے رہنماؤں اور کارکنوں پر وہ بدترین ریاستی تشدد کیا جس کی مثال ملنا مشکل ہے، جبکہ مشرف نے اپنے اقدامات سے حریت کانفرنس میں دراڑ ڈالنے کا فریضہ انجام دیا، یہ وہ مجہولانہ اور غیر سنجید ہ اقدامات تھے جس سے بھارت کو مزید شہ ملی حتی کہ 5 اگست 2019 کو بھارت نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے دو انتظامی یونٹ میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا، بھارت کے اس اقدام کے خلاف بھی ہمارے حکمران سڑکوں پر قوم کو کھڑا کرکے احتجاج کرنے کے سوا کچھ نہیں کرسکے۔ حکومت نے کشمیر کے مسئلے کو عالمی سطح پر اُجاگر کرنے کے لیے کشمیر کمیٹی تو قائم کردی مگر اس کمیٹی کے دفتر ِ عمل میں اب تک سرکاری مراعات اور بیرونی دوروں کے سوا کچھ نہیں ہے، تاہم اس باب میں جماعت اسلامی نے ماضی میں جو کردار ادا کیا ہے اور اب تک جو کر رہی ہے وہ تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ یومِ یکجہتی کشمیر کے موقع پر ضرورت اس امر کی ہے کہ اقوام متحدہ نے جو قرارداد منظور کی تھی اس کی عالمی سطح پر تائید حاصل کی جائے، اس مسئلے کو اُجاگر کرنے کے لیے سفارتی مہم کا آغاز کیا جائے، مختلف فورموں پر بھارتی مظالم کو اُجاگر کیا جائے اس ضمن میں الیکٹرونک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کواستعمال کیا جائے اور فعال حکمت ِ عملی مرتب کی جائے، بھارت پر دباؤ بڑھانے کے ممکنہ تمام اقدامات کو بروئے کار لایا جائے، اور عالمی طاقتوں کو یہ باور کرایا جائے کہ پاکستان کشمیر کے مسئلے پر استصوابِ رائے کے سوا کسی بھی آپشن پر کبھی تیار نہیں ہوگا، خطے کی خوشحالی اور دیر پا امن کے لیے ناگزیر ہے کہ اس مسئلے کو کشمیری عوام کی امنگوں اور سلامتی کونسل کی قرارداد کی روشنی میں حل کیا جائے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بھارتی مظالم یکجہتی کشمیر کشمیری عوام کشمیریوں کو کشمیر کے کیا جائے یہ ہے کہ کیا گیا ا ج بھی رہا ہے کا حصہ کے لیے
پڑھیں:
نوکِ نیزہ سے لکھیںگے لفظ پاکستان کا
تاریخی اعتبارسے خطہ کشمیر کے عوام مشکلات ہی کاشکاررہے ہیں۔اس لیے کہ شاید یہ پہلاخطہ ہے جس کے عوام کوفروخت کیاگیا۔اس طرح خطہ فروخت کیاگیاجیسے یہ کسی کی خالصتاً ذاتی ملکیت ہو۔عوام کی رائے کااحترام کرنے کارواج ہی یہاںظاہرنہیں کیاگیا۔بھارتی افواج کے غاصبانہ قبضے سے پہلے بھی کشمیری عوام مشکلات کا شکار تھے۔ لیکن برصغیرمیں آزادی کے طلوع ہوتے سورج نے اہلِ کشمیرکوبھی یہ امید بندھائی تھی کہ اب انہیںبھی ان کاخالص حق ملے گا۔انہیں اپنے حقوق کی منزل نظریہ پاکستان ہی میں پنہاں نظرآئی مگر ایک مرتبہ پھر ان کی اْزادی کوطاقت کے ذریعے سلب کرنے کی کوشش کی گئی۔وادی کشمیر جنتِ نظیر معاہدہ امرتسرکے نتیجے میںلارڈلارنس نے گلاب سنگھ کو75لاکھ میںفروخت کی تھی۔یہ عجیب بات ہی توہے کہ ایک خطے کونہ صرف اس کی عوام کی مرضی کے بغیر ایک راجہ کے حوالے کردیاگیابلکہ اسے مکمل طورپہ اس کی ملکیت بنادیاگیا۔جب برصغیر کی تقسیم ہوئی تواس وقت گلاب سنگھ کاجانشین اس پر قابض تھا۔اگرتقسیم کامعیار آبادی کے تناسب کے لحاظ ہی سے کیاگیاتھاتوپھر 1927ء کی مردم شماری کے مطابق کشمیرمیںمسلمانوں کی آبادی تقریباََ 77فیصد تھی۔یہاںاکثریتی آبادی کے قانون کونہ صرف نظراندازکیاگیابلکہ مہذب دنیاکے سارے قوانین کومفادات کے قدموںتلے رونداگیا۔کسی بھی قوم کے ایک قوم نظرآنے کے کچھ قوانین اور دستور ہوتے ہیں۔سب سے پہلی چیز ان کے مذہب کا مشترک ہوناہے،دوسری وجہ ان کی تاریخی روایات ایک سی ہوں،تیسری چیز ان کی رسومات اوررواج میں مماثلت پائی جاتی ہو،چوتھی وجہ ان کی معاشرتی اقدارمیں اشتراک پایاجاتا ہو،پانچویںوجہ ان کی تہذیبی وتمدنی کیفیات ملتی جلتی ہوں،چھٹی وجہ ان میں فطری محبت پائی جاتی ہو،ساتویں وجہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ رشتوںمیںکسی الجھن کے بغیر منسلک ہوسکتے ہوں،آٹھویں وجہ ان کی جغرافیائی صورتِ حال انہیں آپس میں جوڑتی ہو۔ پاکستان اورکشمیرکاخطہ ایک ہی محسوس ہوتاہے اس لیے کہ ہماری مذہبی، تہذیبی، تمدنی، روایتی، تاریخی، فطری اورجغرافیائی صورت حال ایسی ہے کہ ہم الگ ہوہی نہیں سکتے۔کشمیر ہرلحاط سے ہمارا ہی تھا، ہے اوررہے گا۔بھارت ایک طویل عرصے سے اس پہ باقاعدہ غاصبانہ قبضے کی کوشش میں گاہواہے لیکن وہ اپنی ساری طاقت کااستعما ل کرکے بھی اپنے مذموم ارداوں میںکامیاب نہیں ہوسکا۔گلاب سنگھ اور اس کے جانشینوںکی حکمرانی کشمیری عوام کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں تھی۔ان باہرسے آنے والے راجائوںکے ادوارمیں77فیصد مسلم آبادی مشکل زندگی گزار رہی تھی، معاشی حالات سے لے کر معاشرتی کیفیات تک ان کی الجھی ہوئیں تھیں۔ ان سے ہر لحاظ سے نارواسلوک کیا جاتا تھا۔ہری سنگھ کے ظالمانہ سلوک کے خلاف 1930ء میں مظاہروں کا آغاز ہو گیا تھا۔ انسانی شعورکوکبھی بھی طاقت کے ساتھ دبایا نہیں جا سکتا اور نہ ہی انسانوںکوہمیشہ کے لیے ان کے فطری حق سے محروم کیاجاسکتاہے۔یہی احتجاج ڈوگرہ راج کے خلاف بھی جاری رہا۔پاکستان کشمیر کی جغرافیائی صورت حال بھی دونوںکوایک کرنے یادونوں کے ایک ہی ہونے کااعلان کررہی ہے۔پاکستان اور کشمیر کے درمیان مشترکہ سرحد کی لمبائی 902میل پہ پھیلی ہوئی تھی جب کہ بھارت کے ساتھ یہ تعلق صرف 317میل پہ مشتمل تھا۔اس کے علاوہ دواہم دریاجوپاکستان کوپانی مہیاکرنے کاذریعہ ہیںوہ بھی کشمیر ہی سے آتے ہیںیااس طرح کہہ لیجیے کہ ان کاسرچشمہ وادی کشمیر ہی ہے۔ایک سب سے بڑاذریعہ جو کشمیر کوپاکستان کی شہ رگ بناتاہے،وہ ہے وہاںکی عوام،محبت ویگانگت کے جس پختہ اور مضبوط رشتے میںکشمیری عوام پاکستان کے لوگوںسے بندھے ہوئے ہیں انہیں ظلم کاکوئی طوفان بھی الگ نہیں کرسکتااورنہ ہی کسی غاصب میں یہ طاقت موجود ہے کہ اس فطری محبت کو مٹا سکے۔ محبت واخوت کی پکی ڈورسے بندھا یہ رشتہ کیسے ٹوٹ سکتا ہے۔ بھارت نے سرتوڑ کوشش کی ہے اور آج بھی ظلم کابازار گرم کیے ہوئے ہے لیکن نہ ہی اس وقت وہ کامیاب ہوئے تھے اورنہ ہی آج کامیاب ہوسکے ہیںاورنہ ہی مستقبل میں وہ اس رشتے کوختم کرسکیںگے اور نہ ہی آزادی کی شمع کوبجھاسکیںگے۔کشمیری عوام نے پاکستان سے محبت کااظہار یکجہتی کی صورت میں ہمیشہ کیاہے۔انہوںنے اپنی گھڑیان بھی پاکستانی وقت کے ساتھ ملارکھی ہیں،جب کوئی راہِ حق میں شہید ہوتاہے تواسے پاکستان کے ہلالی پرچم میں لپیٹ کردفن کرنابھی اس بات کی دلیل ہے کہ کشمیریوںکی رگ رگ میں پاکستانیت دوڑتی ہے۔بھارت نے پاکستان کے خلاف سلامتی کونسل میں شکایت کی تھی،سلامتی کونسل نے سب کچھ سننے کے بعد اورتحقیق کے بعد کشمیری عوام کواستصوابِ رائے کا کہاتھا۔بھارت کی ہٹ دھرمی ہے کہ78سال بعد بھی جمہوریت کاعلم بلند کرنے والا بھارت کشمیریوں کواستصوابِ رائے کاحق نہ دے سکا۔ایسا نہ کرنے کے لیے بھارت نے کئی بہانے تراشے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی ظالمانہ کاروائیاںبھی جاری رکھیں۔مسئلہ کشمیر کمے حل کے لیے سلامتی کونسل کے سیکڑوںبے نتیجہ اجلاس ہوچکے ہیں۔ عالمی اداروں نے کبھی بھی اس طرح نوٹس نہیںلیاجس طرح نوٹس لیناچاہیے تھا۔اہلِ یورپ ویسے توایک جانور کے مرنے پہ اپنی ہمدردیاںاور حساسیت کا اظہار کرتے ہیں لیکن ہزاروں کشمیریوںکے لہوسے ہولی کھیلنے والی سفاک بھارتی فوج کے خلاف کبھی حساس طبیعت نہیں جاگتی۔ بھارت نے 2020ء میںکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے ایک مرتبہ پھر اپنی بربریت کا ثبوت دیامگر یہ رویہ اورناانصافی بھی کشمیریوںکی آزادی حاصل کرنے کی سوچ کوتبدیل کرنے میںناکام رہی ۔ایسا منافقانہ رویہ انسانیت کی فلاح کاسبب کیسے ہوسکتاہے؟آج بھی کشمیری اپنی بقاکی جنگ لڑنے میںمصروف ہیں،آج بھی بھارتی بربریت جاری ہے، آج بھی کشمیر کی فضائوں میں آزادی کے نغمے گونج رہے ہیں،آج بھی کشمیری سر پہ کفن باندھ کے عید اور شب برات مناتے ہیں،آج بھی انسانیت کودرندگی کچلنے میںمصروف ہے،آج بھی آزادی کے چراغ لہوسے جلانے کی رسم تہوار کی صورت منائی جارہی ہے،آج بھی پُر فضا کشمیر کی سرسبز وادی میںلہوبہانے کی رسم منانے کاسلسالہ جاری ہے،آج بھی جوانیاں یہ کہہ کر قربان کی جارہی ہیں کہ ہم جنت نظیر میں کفر کے راج کونہیں رہنے دیں گے،آج بھی غیرت وحریت کے حامل جوان اپنی جوانیاں برستی گولیوںکے سامنے پیش کررہے ہیں تاکہ آزادی کے کاروان کی رفتار تھم نہ جائے۔کشمیر جل رہا ہے،اسے بچانے کے لیے سب کواپناکرداراداکرناہوگا،انسانی حقوق کی پامالی کوروکنے کے لیے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔کشمیر کی خوبصورت وادیوں کی فرحت بخش فضائوں میں ہوائوں کی لہروں کے ساتھ شہدا کی صدائیں سنائی دیتی ہیں :
اس جوانی کی قسم ، سینۂ کشمیر پہ ہم
نوکِ نیزہ سے لکھیںگے لفظ پاکستان کا