Islam Times:
2025-04-15@09:27:25 GMT

پرنس کریم آغا خان کی زندگی پر ایک نظر

اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT

پرنس کریم آغا خان کی زندگی پر ایک نظر

پرنس کریم آغا خان کے 3 بیٹے رحیم آغا خان، علی محمد آغا خان اور حسین آغا خان ہیں جبکہ ایک بیٹی زہر آغا خان ہیں۔ پرنس کریم آغا خان نے اپنی زندگی پسماندہ طبقات کی زندگیوں میں بہتری لانے میں صرف کی، وہ اس بات پر زور دیتے رہے تھے کہ اسلام ایک دوسرے سے ہمدردی، برداشت اور انسانی عظمت کا مذہب ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اسماعیلی کمیونٹی کے روحانی پیشوا پرنس کریم آغا خان 88 برس کی عمر میں پرتگال کے دارالحکومت لزبن میں انتقال کرگئے ہیں۔ اسماعیلی امامت کے دیوان کے مطابق پرنس کریم آغا خان اسماعیلی مسلم کمیونٹی کے 49 ویں امام یعنی روحانی لیڈر تھے۔ اسماعیلی کمیونٹی کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق پرنس کریم آغا خان پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی حضرت بی بی فاطمہ اور پیغمبر اسلام کے کزن حضرت علی علیہ سلام کی نسل سے تھے۔ پرنس کریم آغا خان 1936ء میں سوئٹزرلینڈ میں پیدا ہوئے اور بچپن کے ابتدائی ایام نیروبی میں گزارے۔ انہوں نے 1957ء میں 20 برس کی عمر میں امامت سنبھالی تھی۔ پرنس کریم آغا خان پرنس علی خان کے بڑے بیٹے تھے، پرنس کریم کے دادا سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوم تھے۔ انہوں نے سوئٹزرلینڈ کے Le Rosey اسکول اور پھر 1959ء میں ہارورڈ یونیورسٹی سے اسلامی تاریخ میں بیچلر آف آرٹس کی ڈگری لی تھی۔ آغا خان سوم نے تیرہ سو برس کی تاریخی روایات کے برعکس بیٹے کی جگہ پوتے کو جانشین بنایا تھا۔

پرنس کریم آغا خان کو برطانوی شہریت بھی دی گئی تھی، مگر زندگی کا زیادہ تر عرصہ انہوں نے فرانس میں گزارا۔ وینٹی فئیر میگزین نے انہیں ون مین اسٹیٹ کا نام دیا تھا۔ ان کی پہلی اہلیہ برطانوی ماڈل سیلی کروکر Sally Croker-Poole تھیں، جن سے ان کی شادی 1969ء میں ہوئی۔ سیلی کروکر سے پرنس کریم کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہوئیں۔ یہ شادی پچیس برس چلی، جس کے بعد انہوں نے 1998ء میں شہزادی Gabriele zu Leiningen سے پیرس کے نواحی علاقے میں شادی کی، جرمن شہزادی نے اسلام قبول کرکے اپنا نام انارہ اختیار کر لیا تھا، جوڑے کا ایک بیٹا ہوا، تاہم 6 برس بعد جوڑے نے علیحدگی اختیار کرلی۔ پرنس کریم آغا خان کے 3 بیٹے رحیم آغا خان، علی محمد آغا خان اور حسین آغا خان ہیں جبکہ ایک بیٹی زہر آغا خان ہیں۔ پرنس کریم آغا خان نے اپنی زندگی پسماندہ طبقات کی زندگیوں میں بہتری لانے میں صرف کی، وہ اس بات پر زور دیتے رہے تھے کہ اسلام ایک دوسرے سے ہمدردی، برداشت اور انسانی عظمت کا مذہب ہے۔

آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک کے ذریعے انہوں نے دنیا کے مختلف خطوں خصوصاً ایشیا اور افریقا میں فلاحی اقدامات کیے، یہ اقدامات زیادہ تر تعلیم، صحت، معیشت اور ثقافت کے شعبوں میں تھے۔ صرف سن 2023ء میں آغا خان فاؤنڈیشن نے 58 ملین پاؤنڈ وقف کیے تھے۔ پرنس کریم آغا خان نے امریکا کے صدر رونالڈ ریگن اور سابق سوویت یونین کے صدر میخائل گورباچوف کی جنیوا میں سفارتی بات چیت ممکن بنائی تھی۔ وہ گھوڑوں کے شوقین تھے اور فرانس میں گھڑ دوڑ اور بریڈنگ کے سب سے بڑے ادارے کے مالک تھے۔ ان کے مشہور ترین گھوڑوں میں Shergar بھی تھا، جس نے 1981ء میں ایپسن ڈربی ریس میں رکارڈ قائم کیا تھا۔ تاہم اس گھوڑے کو آئرش فارم سے مبینہ طور پر آئی آر اے کے اراکین نے چُرا کر 2 ملین پاؤنڈ تاوان طلب کیا گیا تھا، تاہم ٹیلے فونک رابطوں کے بعد اغواکاروں نے رابطے ختم کر دیئے تھے اور گھوڑے کا اس کے بعد کچھ پتہ نہ چل سکا تھا۔ پرنس کریم کو مختلف ممالک اور یونیورسٹیوں کی جانب سے اعلیٰ ترین اعزازات اور اعزازی ڈگریوں سے نوازا گیا تھا۔ 

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: آغا خان ہیں انہوں نے

پڑھیں:

والدین علیحدگی کے باوجود دوست تھے، وفات سے قبل والد ہی والدہ کو اسپتال لیکرگئے: بیٹی نور جہاں

پاکستان کی لیجنڈ اداکارہ و گلوکارہ نور جہاں کی بیٹی نازیہ اعجاز درانی نے والدہ کی نجی زندگی سے متعلق بات کی ہے۔حال ہی میں انہوں نے نجی ٹی وی چینل میں شرکت کی اور دوران انٹرویو والدہ کی زندگی کی  یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ والدہ 9 سال کی عمر سے اسٹار تھیں، انہوں نے بہت زیادہ شہرت اور مداحوں کی محبت دیکھی مگر وہ گھر میں ایک عام ماں کی طرح ہوتی تھیں۔نازیہ اعجاز نے کہا کہ والدہ نے ہمیشہ اپنے ہاتھوں سے کھانا بنایا اور کھلایا اور ہمارے سب ناز نخرے بھی اٹھائے، بڑی بہن ظِلّ ہما کی شادی کے بعد والدہ نے ہم 3 چھوٹی بہنوں کو بورڈنگ اسکول میں ڈال دیا تھا۔انہوں نے انکشاف کیا کہ والدہ اور والد اعجاز درانی میں علیحدگی کے باوجود دوستانہ تعلقات تھے، بورڈنگ اسکول ہماری سالگرہ منانے کے لیے دونوں آیا کرتے تھے۔ والدہ کی وفات سے قبل جب ان کی طبیعت خراب ہوئی تو اس دوران بھی اعجاز درانی ہی والدہ کو اسپتال لے کر گئے تھے۔نازیہ اعجاز درانی نے مزید کہا کہ مجھے کبھی کبھار محسوس ہوتا ہے کہ میں اپنی والدہ جیسی زندگی جی رہی ہوں، میں بھی سنگل مدر ہوں، علیحدہ رہتی ہوں اور اپنے بچوں کی دیکھ بھال بالکل اس طرح سے کرتی ہوں جیسے نورجہاں ہماری کیا کرتی تھیں۔انہوں نے کہا کہ جیسے جیسے میری عمر بڑھ رہی ہے، لوگ مجھے کہنے لگے ہیں کہ میں اپنی والدہ سے بہت زیادہ ملتی ہوں، مجھے لگتا ہے میں اپنی والدہ کی زندگی ری کری ایٹ کر رہی ہوں۔

متعلقہ مضامین

  • والدین علیحدگی کے باوجود دوست تھے، وفات سے قبل والد ہی والدہ کو اسپتال لیکرگئے: بیٹی نور جہاں
  • معاشرتی سچائیوں کو قلم کے نشتر سے طشت از بام کرنے والے ممتاز ادیب
  • ریٹائرمنٹ کی منصوبہ بندی
  • ستاروں کی روشنی میں آج بروزاتوار ،13اپریل 2025 آپ کا کیرئر،صحت، دن کیسا رہے گا ؟
  • مطالعہ کیوں اورکیسے کریں؟
  • وقت گزر جاتا ہے
  • ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا (آخری حصہ)
  • عمر رواں، ایک عہد کی داستان
  • امن و امان کی بگڑتی ہوئی کیفیت نے عوام کی زندگی کو مفلوج کیا ہے، علامہ مقصود ڈومکی
  • چشمہ رائٹ کنال منصوبہ کے پہلے فیز کے ٹینڈر اوپن ہو گئے، فیصل کریم کنڈی