قانون کو اس کے غلط استعمال پر کالعدم قرار نہیں جاسکتا،سربراہ آئینی بینچ
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
اسلام آباد(نمائندہ جسارت) عدالت عظمیٰ میں فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت کے دورن آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ قانون کو
اس کے غلط استعمال پر کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا، توہین رسالت قانون کا غلط استعمال شروع ہوگیا تھا، غلط استعمال روکنے کے لیے ایس پی لیول کے افسر کو تفتیش سونپی گئی، اگر ایک جرم فوجی کرے اور وہی جرم عام آدمی کرے تو ٹرائل الگ جگہ کیسے ہوسکتا ہے؟ عدالت عظمیٰ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آرمی ایکٹ کے مطابق فوجی عدالتوں کے کیا اختیارات ہیں؟ کوئی شخص جو فوج کا حصہ نہ ہو صرف جرم کی بنیاد پر فوجی عدالت کے زمرے میں آ سکتا ہے؟سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ایف بی علی کیس میں بھی کہا گیا ہے کہ سویلنز کا ٹرائل بنیادی حقوق پورے کرنے کی بنیاد پر ہی ممکن ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایف بی علی خود بھی ایک سویلین ہی تھے، ان کا کورٹ مارشل کیسے ہوا؟ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ عدالت نے قرار دیا تھا کہ بنیادی حقوق کی فراہمی ضروری ہے، عدالت نے قرار دیا تھا کہ ٹرائل میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ مرکزی فیصلے کیخلاف دلائل دے رہے ہیں، سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جسٹس عائشہ ملک کا بھی فیصلہ موجود ہے۔سلمان راجا نے کہا کہ 1962ء کا آئین تو شروع ہی یہاں سے ہوتا ہے میں فیلڈ مارشل ایوب خان خود کو اختیارات سونپ رہا ہوں، اس دور میں آرٹیکل چھپوائے گئے، فتوے دیے گئے کہ اسلام میں بنیادی حقوق نہیں ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ فتوے دینے والے وہیں رہتے ہیں حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں، سلمان راجا نے کہا کہ اسی لیے ایوب خان کے دور میں حبیب جالب نے نظم لکھی میں نہیں مانتا، ایسے دستور کو، ایف بی علی بعد میں کینیڈا شفٹ ہوئے جہاں وہ کینیڈین آرمی کے ممبر بن گئے۔سلمان اکرم راجا نے کہا کہ 1977-80 کے دوران بلوچستان ہائیکورٹ نے مارشل میں سزاؤں والوں کو ضمانتیں دینا شروع کیں، ہر 10-8 سال بعد عدلیہ کا تابع لانے کی کوشش ہوتی ہے، پیپلز پارٹی رجسٹریشن کے لیے ایک قانون لایا گیا تھا، عدالت عظمیٰ کی مداخلت کے بعد پیپلز پارٹی کے لیے خلاف بنایا گیا قانون ختم ہوا، عدلیہ کسی بھی وقت قانون کا بنیادی حقوق کے تناظر میں جائزہ لے سکتی ہے۔جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ شروع میں آپ نے ہی عدالت کے دائرہ اختیار پر اعتراض کیا تھا شکر ہے اب بڑھا دیا، وکیل سلمان اکرم نے کہا کہ عدالتی دائرہ اختیار ہمیشہ وقت کے ساتھ بڑھا ہے۔سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جن لوگوں نے فوج جوائن کرکے بنیادی حقوق سرنڈر کیے ان دوسروں سے نہیں ملایا جا سکتا، مجھ پر الزام ہے کہ کسی کو بھیج کر رینجرز کو گاڑی کے نیچے کچلنے کا حکم دیا، ہو سکتا ہے مجھے گرفتار کر لیا جائے اور میرا ٹرائل بھی ملٹری کورٹ میں ہو، الزام کتنا ہی سنگین کیوں نہ ہو ٹرائل آزاد فورم پر ہی ہو سکتا ہے۔انہوں نے مؤقف اپنایا کہ میرے موکل ارزم کو فوجی عدالت سے 6 سال سزا دی گئی، میرا موکل ارزم لاہور کا فرسٹ کلاس کرکٹر ہے، فوجی تحویل میں میرے موکل کے ساتھ غیرانسانی سلوک کیا گیا، تفصیلات کھلی عدالت میں بتائیں تو لگے گا ڈراماٹائز کر رہا ہوں، فوجی عدالت میں اپیل آرمی چیف کے پاس جاتی ہے جس کے حکم پر ہی کورٹ مارشل کیا جاتا، سیشن جج کے حکم پر تو فوجی عدالت میں وکالت نامہ دستخط کروایا گیا۔ملٹری کورٹس کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی، سلمان اکرم راجا پیر کو بھی دلائل جاری رکھیں گے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جسٹس امین الدین غلط استعمال بنیادی حقوق فوجی عدالت نے کہا کہ ا سکتا ہے
پڑھیں:
کنٹونمنٹ میں شاپنگ مالز بن گئے، میں زبردستی اندر جاؤں تو کیا میرا بھی ملٹری ٹرائل ہو گا: جسٹس افغان
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے ہیں اگر ممنوعہ جگہوں پر جانے پر ملٹری ٹرائل شروع ہوئے تو کسی کا بھی ملٹری ٹرائل کرنا بہت آسان ہو گا۔ کیا ملٹری کورٹس میں زیادہ سزائیں ہوتی ہیں اس لیے کیسز جاتے ہیں؟ عام عدالتوں میں ٹرائل کیوں نہیں چلتے۔ دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ڈیفنس آف پاکستان اور ڈیفنس سروسز آف پاکستان دو علیحدہ چیزیں ہیں۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا ممنوعہ جگہ پر داخل ہونا بھی خلاف ورزی میں آتا ہے۔ کنٹونمنٹ کے اندر شاپنگ مالز بن گئے ہیں، اگر میرے پاس اجازت نامہ نہیں ہے اور میں زبردستی اندر داخل ہوں تو کیا میرا بھی ملٹری ٹرائل ہو گا، 1967ء کی ترمیم کے بعد ٹو ڈی ٹو کا کوئی کیس نہیں آیا یہ پہلا کیس ہے جو ہم سن رہے ہیں۔ لاہور، کوئٹہ، گوجرانوالہ میں کینٹ کے علاقے ہیں، ایسے میں تو سویلین انڈر تھریٹ ہونگے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کوئٹہ کینٹ میں تو آئے روز اس نوعیت کے جھگڑے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا شاپنگ مالز کو ممنوعہ علاقہ قرار نہیں دیا جاتا، کراچی میں 6 سے 7 کینٹ ایریاز ہیں، وہاں ایسا تو نہیں ہے کہ مرکزی شاہراہوں کو بھی ممنوعہ علاقہ قرار دیا گیا ہو۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا ہم سپریم کورٹ کے پانچ سے چھ ججز کلفٹن کینٹ کے رہائشی ہیں، وہاں تو ممنوعہ علاقہ نوٹیفائی نہیں ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا مجھے ایک مرتبہ اجازت نامہ نہ ہونے کے سبب کینٹ ایریا میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ ڈیفنس آف پاکستان کی تعریف میں جائیں تو سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ بھی اس میں آتے ہیں۔ پاکستان میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ شروع سے موجود ہے، آرمی ایکٹ درست قانون ہے، جب سے آئین میں آرٹیکل 10 اے آیا پہلے والی چیزیں ختم ہو گئیں، ملٹری ٹرائل کیلئے آزادانہ فورم کیوں نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت 15 اپریل تک ملتوی کردی۔