اسلام آباد(نمائندہ جسارت) عدالت عظمیٰ میں فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت کے دورن آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ قانون کو
اس کے غلط استعمال پر کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا، توہین رسالت قانون کا غلط استعمال شروع ہوگیا تھا، غلط استعمال روکنے کے لیے ایس پی لیول کے افسر کو تفتیش سونپی گئی، اگر ایک جرم فوجی کرے اور وہی جرم عام آدمی کرے تو ٹرائل الگ جگہ کیسے ہوسکتا ہے؟ عدالت عظمیٰ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آرمی ایکٹ کے مطابق فوجی عدالتوں کے کیا اختیارات ہیں؟ کوئی شخص جو فوج کا حصہ نہ ہو صرف جرم کی بنیاد پر فوجی عدالت کے زمرے میں آ سکتا ہے؟سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ایف بی علی کیس میں بھی کہا گیا ہے کہ سویلنز کا ٹرائل بنیادی حقوق پورے کرنے کی بنیاد پر ہی ممکن ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایف بی علی خود بھی ایک سویلین ہی تھے، ان کا کورٹ مارشل کیسے ہوا؟ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ عدالت نے قرار دیا تھا کہ بنیادی حقوق کی فراہمی ضروری ہے، عدالت نے قرار دیا تھا کہ ٹرائل میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ مرکزی فیصلے کیخلاف دلائل دے رہے ہیں، سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جسٹس عائشہ ملک کا بھی فیصلہ موجود ہے۔سلمان راجا نے کہا کہ 1962ء کا آئین تو شروع ہی یہاں سے ہوتا ہے میں فیلڈ مارشل ایوب خان خود کو اختیارات سونپ رہا ہوں، اس دور میں آرٹیکل چھپوائے گئے، فتوے دیے گئے کہ اسلام میں بنیادی حقوق نہیں ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ فتوے دینے والے وہیں رہتے ہیں حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں، سلمان راجا نے کہا کہ اسی لیے ایوب خان کے دور میں حبیب جالب نے نظم لکھی میں نہیں مانتا، ایسے دستور کو، ایف بی علی بعد میں کینیڈا شفٹ ہوئے جہاں وہ کینیڈین آرمی کے ممبر بن گئے۔سلمان اکرم راجا نے کہا کہ 1977-80 کے دوران بلوچستان ہائیکورٹ نے مارشل میں سزاؤں والوں کو ضمانتیں دینا شروع کیں، ہر 10-8 سال بعد عدلیہ کا تابع لانے کی کوشش ہوتی ہے، پیپلز پارٹی رجسٹریشن کے لیے ایک قانون لایا گیا تھا، عدالت عظمیٰ کی مداخلت کے بعد پیپلز پارٹی کے لیے خلاف بنایا گیا قانون ختم ہوا، عدلیہ کسی بھی وقت قانون کا بنیادی حقوق کے تناظر میں جائزہ لے سکتی ہے۔جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ شروع میں آپ نے ہی عدالت کے دائرہ اختیار پر اعتراض کیا تھا شکر ہے اب بڑھا دیا، وکیل سلمان اکرم نے کہا کہ عدالتی دائرہ اختیار ہمیشہ وقت کے ساتھ بڑھا ہے۔سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جن لوگوں نے فوج جوائن کرکے بنیادی حقوق سرنڈر کیے ان دوسروں سے نہیں ملایا جا سکتا، مجھ پر الزام ہے کہ کسی کو بھیج کر رینجرز کو گاڑی کے نیچے کچلنے کا حکم دیا، ہو سکتا ہے مجھے گرفتار کر لیا جائے اور میرا ٹرائل بھی ملٹری کورٹ میں ہو، الزام کتنا ہی سنگین کیوں نہ ہو ٹرائل آزاد فورم پر ہی ہو سکتا ہے۔انہوں نے مؤقف اپنایا کہ میرے موکل ارزم کو فوجی عدالت سے 6 سال سزا دی گئی، میرا موکل ارزم لاہور کا فرسٹ کلاس کرکٹر ہے، فوجی تحویل میں میرے موکل کے ساتھ غیرانسانی سلوک کیا گیا، تفصیلات کھلی عدالت میں بتائیں تو لگے گا ڈراماٹائز کر رہا ہوں، فوجی عدالت میں اپیل آرمی چیف کے پاس جاتی ہے جس کے حکم پر ہی کورٹ مارشل کیا جاتا، سیشن جج کے حکم پر تو فوجی عدالت میں وکالت نامہ دستخط کروایا گیا۔ملٹری کورٹس کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی، سلمان اکرم راجا پیر کو بھی دلائل جاری رکھیں گے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جسٹس امین الدین غلط استعمال بنیادی حقوق فوجی عدالت نے کہا کہ ا سکتا ہے

پڑھیں:

ایف بی علی خود بھی ایک سویلین ہی تھے،ان کا کورٹ مارشل کیسے ہوا؟جسٹس محمد علی مظہرکا استفسار

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)فوجی عدالتوں سویلینز کے مقدمات سے متعلق کیس جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ ایف بی علی خود بھی ایک سویلین ہی تھے،ان کا کورٹ مارشل کیسے ہوا؟سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ عدالت نے قرار دیا تھا کہ بنیادی حقوق کی فراہمی ضروری ہے،عدالت نے قرار دیا تھا کہ ٹرائل میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔

نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق فوجی عدالتوں سویلینز کے مقدمات سے متعلق کیس کی سماعت جاری ہے،جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی آئینی بنچ سماعت کررہا ہے،سزایافتہ ملزم ارزم جنید کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے دلائل  دیتے ہوئے کہاکہ ایف بی علی کیس کا1962کے آئین کے مطابق فیصلہ ہوا،جسٹس جمال مندوخیل نے استفسارکیا کہ آرمی ایکٹ کے مطابق فوجی عدالتوں کے کیا اختیارات ہیں؟فوج سے باہر کا شخص صرف جرم کی بنیاد پر فوجی عدالت کے زمرے میں آ سکتا ہے؟سلمان اکرم راجا نے کہاکہ ایف بی علی کیس میں کہا گیا سویلینز کا ٹرائل بنیادی حقوق پورے کرنے پرہی ممکن ہے۔

فوج سے باہر کا شخص صرف جرم کی بنیاد پر فوجی عدالت کے زمرے میں آ سکتا ہے؟جسٹس جمال مندوخیل 

مزید :

متعلقہ مضامین

  • ایک جرم فوجی کرے اور وہی جرم عام آدمی کرے تو ٹرائل الگ جگہ کیسے ہوسکتا ہے؟. جسٹس امین الدین خان
  • قانون کو اس کے غلط استعمال پر کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا، سربراہ آئینی بینچ
  • ایسا نہیں ہو سکتا ایک ایس ایچ او خود عدالت لگالے، اپیل ایس پی سنے اور توثیق آئی جی کرے،سلمان اکرم راجہ کے دلائل
  • کیا اس اپیل میں ہم آرٹیکل 187کا اختیار استعمال کر سکتے ہیں،جسٹس جمال مندوخیل کا سلمان اکرم راجہ سے استفسار
  • جو شخص فوجی نہ ہو، صرف جرم کی بنیاد پر فوجی عدالت کے زمرے میں آ سکتا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل 
  • آرمی ایکٹ کے مطابق فوجی عدالتوں کے کیا اختیارات ہیں؟ جسٹس جمال مندوخیل
  • ایف بی علی خود بھی ایک سویلین ہی تھے،ان کا کورٹ مارشل کیسے ہوا؟جسٹس محمد علی مظہرکا استفسار
  • فوج سے باہر کا شخص صرف جرم کی بنیاد پر فوجی عدالت کے زمرے میں آ سکتا ہے؟جسٹس جمال مندوخیل 
  • سپریم کورٹ: فوجی عدالتوں کے اختیارات سے متعلق سوال پر سلمان اکرم راجہ کے دلائل جاری