پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کیلئے 36 ہزار 718 آڈٹ پیراز زیر التوا ہونے کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
آڈیٹر جنرل نے تجویز دی کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اجلاسوں کیلئے مستقل شیڈول قائم کرنا ہوگا، پی اے سی ہدایات پر ایک عملدرآمد کمیٹی تشکیل دی جائے، چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے پہلی بریفنگ لے لی۔ اسلام ٹائمز۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کیلئے 36 ہزار 718 آڈٹ پیراز زیر التوا ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ دستاویز کے مطابق سال 2011ء سے 2024ء تک 10 اداروں کے آڈٹ پیراز زیرالتوا ہیں، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کیلئے کئی سالوں کی آڈٹ رپورٹس کا جائزہ منتظر ہے۔ 2011ء سے 2024ء تک آڈٹ رپورٹس میں 41 ہزار 700 پیراگراف پرنٹ کیے، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اب تک 13 ہزار 30 آڈٹ پیراز کا جائزہ لیا ہے، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اب تک 4 ہزار 982 تک آڈٹ پیراز کا فیصلہ کر چکی ہے۔ آڈیٹر جنرل کی دستاویز کے مطابق پاور ڈویژن سے متعلق 3987 آڈٹ پیراز زیر التوا ہیں، وزارت توانائی کے 2542 اور وزارت داخلہ کے 2434 آڈٹ پیراز زیر التوا ہیں۔ دستاویز کے مطابق ایف بی آر 1928، مواصلات 2097، دفاع کے 1800 پیراز زیر التوا ہیں، خزانہ 1611، آبی وسائل کے 1365 پیراز زیر التوا ہیں۔
وزارتوں کی جانب سے آڈیٹر جنرل کو کئی چیلنجز کا سامنا کرنا ہے، وزارتیں آڈیٹر جنرل کی آزادی کو محدود کرکے آڈٹ عمل پر اثرانداز ہوتی ہیں، وزارتیں آڈیٹر جنرل کی سفارشات پرعمل کرنے میں تاخیر یا انکار کر دیتی ہیں۔ آڈٹ کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے وزارتیں ریکارڈ کو چھپا دیتی ہیں، بیک لاگ ختم کرنے کیلئے ہائی ویلیو اور ہائی رسک ایریاز توجہ طلب ہیں۔ آڈیٹر جنرل نے تجویز دی کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اجلاسوں کیلئے مستقل شیڈول قائم کرنا ہوگا، پی اے سی ہدایات پر ایک عملدرآمد کمیٹی تشکیل دی جائے، چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے پہلی بریفنگ لے لی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی آڈیٹر جنرل
پڑھیں:
اسلام آباد میں شہریوں کو فراہم کیا جانے والا پینے کا پانی آلودہ ہونے کا انکشاف
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)اسلام آباد میں شہریوں کو فراہم کیا جانے والا پینے کا پانی آلودہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے ۔ سی ڈی اے کے زیرانتظام فلٹریشن پلانٹس میں سے بیشتر پر جدید فلٹریشن سسٹم نصب نہیں ۔ شہری آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔
پینے کا صاف پانی زندگی اور صحت کی ضمانت لیکن شہراقتدار کے باسیوں کو یہ بنیادی سہولت میسر نہیں۔ کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے مختلف سیکٹرز اور ماڈل ولیجز میں 98 واٹر فلٹریشن پلانٹس ہیں ۔ لیکن ان کا انتظام 5 این جی اوز کے سپرد ہے۔
سی ڈی اے کی اپنی حالیہ رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ 16فیصد فلٹریشن پلانٹس کا پانی غیرمحفوظ پایا گیا ۔ پلانٹس پر جدید فلٹریشن سسٹم نصب کرنے کی سفارش کی گئی ۔ ایسے میں شہری پینے کا پانی آلودہ ہونے کا شور نہ مچائیں تو کیا کریں ۔
وفاقی ترقیاتی ادارہ پینے کےصاف پانی کا مسئلہ حل کرنے کیلئے کیا پلاننگ کر رہا ہے ؟ ڈی جی واٹر مینجمنٹ سی ڈی اے سردار خان زمری کا کہنا ہے کہ پولی فارم کی وجہ سے دو سے تین فیصد رزلٹ پازیٹو آ جاتے ہیں ۔ اس کے مستقل حل کے لیے چیئرمین سی ڈی اے نے فنڈز جاری کر دیے ہیں۔ہم ایک باقاعدہ کلورینیشن سسٹم کی تنصیب کرنے جا رہے ہیں ۔ جس کے بعد تھوڑی بہت جو مثبت نتائج آتے ہیں ۔ اس پر بھی قابو پالیں گئے ۔ ائندہ چند مہینوں بعد ایک بھی پازیٹو رزلٹ نہیں آئےگا۔
ماہرین کے مطابق فلٹریشن پلانٹس کی مناسب دیکھ بھال ، کارٹریج فلٹرز اور اسٹرلائزرز کی بروقت تبدیلی سے پانی کی آلودگی کے خطرات کم کئے جا سکتے ہیں ۔
مزیدپڑھیں:ایم ڈی کیٹ ری ٹیسٹ کے حوالے سے بڑی خبر آ گئی