کسی بھی قدرتی آفت پر خوشی منانا انسانیت کے منافی ہے۔ سوشل میڈیا پہ کچھ اس طرح کا تاثر ملا کہ پاکستان میں کچھ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ امریکا پر آئی حالیہ آفت اﷲ کا عذاب ہے اور کچھ لوگ اس پر خوش ہیں، لیکن ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ قدرتی آفات کہیں بھی آ سکتی ہیں اور کسی بھی انسان یا قوم کے لیے اس پر خوشی منانا نہ صرف اخلاقی طور پر غلط ہے بلکہ انسانیت کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ یہ بات ہمیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ آفات اور قدرتی حادثات ہمیشہ دکھ اور تباہی کا سبب بنتے ہیں جن کا سامنا انسان کو کرنا پڑتا ہے، چاہے وہ کسی بھی قوم یا ملک کا ہو۔
لاس اینجلس کیلی فورنیا میں لگنے والی آگ نے بے شمار انسانوں کی جانیں لے لیں اور ہزاروں لوگوں کو بے گھرکر دیا۔ یہ آگ نہ صرف امیر طبقے کے لوگوں کے گھروں تک محدود رہی بلکہ غریبوں کے گھروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ایسے میں خوشی منانے کے بجائے ہمیں ان کے دکھ میں شریک ہونا چاہیے تھا۔ کسی بھی انسانی زندگی کا ضیاع چاہے وہ امریکا میں ہو یا پاکستان میں قابلِ افسوس ہے اور ہمیں اس پر خوشی نہیں منانی چاہیے۔
ہمیں انسانیت کے ناتے ان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔یاد رہے کہ کشمیر میں 2005 میں آنے والا زلزلہ بھی ایک بڑا سانحہ تھا اور اس کے بعد پاکستان میں آنے والے سیلاب نے بھی بے شمار لوگوں کی زندگیوں کو تباہ کیا۔ ان قدرتی آفات کے بعد ہم نے اپنے محدود وسائل کے باوجود لوگوں کی مدد کی مگر کبھی یہ نہیں سوچا کہ ان آفات پر خوشی منائی جائے۔ ہم نے یہ سمجھا کہ یہ قدرتی آفات انسانیت کا امتحان ہیں اور ان کا مقابلہ ہم سب کو مل کرکرنا ہے۔ مگر ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ امریکا جیسے ترقی یافتہ ممالک میں جب ایسی آفات آتی ہیں تو ان کے پاس ان آفات سے نمٹنے کے لیے بہتر وسائل اور ٹیکنالوجی موجود ہوتی ہے۔
لاس اینجلس میں لگنے والی آگ کی مثال لیں جہاں امدادی کاموں میں جدید ٹیکنالوجی اور وسائل کا استعمال کیا گیا جس سے نقصانات کو کم کیا جا سکا اور متاثرین کی مدد کا عمل بہتر طریقے سے جاری رہا۔ اس کے برعکس پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں جب قدرتی آفات آتی ہیں تو ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ ہم ان کا بہتر مقابلہ کر سکیں۔ کشمیر میں 2005 کے زلزلے کے دوران سیکڑوں افراد جاں بحق ہوئے اور ہم اس پر اتنے مؤثر انداز میں نہیں قابو پا سکے۔ ہمارا انفرا اسٹرکچر وسائل اور ٹیکنالوجی اس سطح پر نہیں ہیں کہ ہم ان قدرتی آفات کے اثرات کو کم کر سکیں۔
پاکستان میں آئے دن سیلاب آتے ہیں، ایک سال خشک سالی ہوتی ہے اور اگلے سال سیلاب آ جاتے ہیں اور ہر دفعہ ان قدرتی آفات کا سامنا کرنے کے لیے ہمارے پاس مناسب وسائل کی کمی ہوتی ہے۔ ان قدرتی آفات کی شدت اور بار بار کے واقعات نے ہمارے سماجی ڈھانچے کو بھی متاثر کیا ہے۔ ہم ان آفات کا بہتر انداز میں مقابلہ کرنے کے بجائے ہر دفعہ ان سے نمٹنے کے لیے عارضی اقدامات کرتے ہیں۔ جب تک ہم ان قدرتی آفات کے مقابلے کے لیے بنیادی ڈھانچے وسائل اور ٹیکنالوجی میں بہتری نہیں لایں گے، ہم اسی طرح ان کا سامنا کرتے رہیں گے۔
لیکن اس کے باوجود جب کشمیر میں 2005 کا زلزلہ آیا تو پاکستانی عوام نے دل کھول کر امداد فراہم کی۔ کراچی سے لے کر پورے پاکستان تک لوگ امدادی سامان کے ساتھ میدان میں اُترے۔ کراچی سے ٹرکوں کے ٹرک بھر کر کھانے کا سامان کپڑے اور ضروریات زندگی کا دیگر سامان کشمیر روانہ کیا گیا۔ نہ صرف پاکستان بھر سے امدادی سامان آیا بلکہ لوگ خود رضاکار کے طور پرکام کرنے کے لیے کشمیر پہنچے۔ ان کی مدد نے متاثرین کی زندگیوں میں امید کی ایک کرن روشن کی اور اس دکھ کی گھڑی میں انسانی ہمدردی اور یکجہتی کی ایک خوبصورت مثال قائم کی۔ یہ ایک ایسا وقت تھا جب ہم نے اپنے محدود وسائل کے باوجود انسانیت کے ناتے ایک دوسرے کی مدد کی اور دکھ کا بوجھ بانٹا۔
یہ بات بھی ضروری ہے کہ ہمیں فلسطین میں ہونے والے ظلم اور امریکا میں آنے والی آفات کو ایک دوسرے سے جوڑ کر نہیں دیکھنا چاہیے۔ فلسطین میں ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ہماری ذمے داری ہے اور ہمیں ہر فورم پر اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے، لیکن جو لوگ امریکا میں قدرتی آفات پر خوش ہو رہے ہیں۔
ان کے لیے یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ قدرتی آفات انسانی زندگیوں کو متاثرکرتی ہیں اور ان پر خوشی منانے کی کوئی وجہ نہیں۔ جب کبھی کوئی قدرتی آفت آتی ہے چاہے وہ کسی بھی ملک میں ہو ہمیں اس میں متاثرین کے ساتھ ہمدردی کا اظہارکرنا چاہیے۔ ہمیں ان کے دکھ میں شریک ہونا چاہیے نہ کہ اس پر خوشی منانی چاہیے۔ قدرتی آفات کسی قوم یا ملک کے لیے بھی دکھ اور صدمے کا باعث ہوتی ہیں اور انسانیت کے لیے ایک آزمائش ہے اور ہمیں انھیں مل کر حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
انسانی جان کا ضیاع جہاں بھی ہو وہ انسانیت کے خلاف ہے۔ ہمیں ہمیشہ ان آفات میں متاثر ہونے والوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور ہر قسم کے ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے، اگر ظلم فلسطین میں ہو رہا ہے تو ہمیں وہاں کے مظلوموں کے حق میں آواز اٹھانی چاہیے اگر امریکا میں کوئی آفت آتی ہے تو ہمیں وہاں کے متاثرین کے ساتھ ہمدردی کرنی چاہیے۔ انسانیت کا دکھ ہر جگہ یکساں ہے اور ہمیں اس پرکبھی خوش نہیں ہونا چاہیے۔
انسانی جذبات اور احساسات کو سمجھنا اور ان کی قدر کرنا ہماری اجتماعی ذمے داری ہے۔ قدرتی آفات کا سامنا کرنے والے افراد کے ساتھ کھڑا ہونا اور ان کے دکھ میں شریک ہونا انسانیت کے تقاضوں کے مطابق ہے۔ ہر ملک اور قوم کی تقدیر ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے اور ہمیں اس کے مطابق اپنی ذمے داریوں کو سمجھنا چاہیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ان قدرتی ا فات پاکستان میں ہے اور ہمیں امریکا میں انسانیت کے ہونا چاہیے کا سامنا ان ا فات کے خلاف نے والے کسی بھی ہیں اور کے ساتھ ا فات ا اور ان کی مدد میں ہو کے لیے تی ہیں
پڑھیں:
اگلی بار اگر ہمارے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا تو پھر پاکستان نہیں چلے گا، ایمل ولی خان
اگلی بار اگر ہمارے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا تو پھر پاکستان نہیں چلے گا، ایمل ولی خان WhatsAppFacebookTwitter 0 2 February, 2025 سب نیوز
چارسدہ(سب نیوز)اے این پی کے مرکزی صدر ایمل ولی خان نے کہا ہے کہ ہمیں12سال حکومت سے باہر رکھا، ہمیں کمزور کرنے والے ناکام ہو ئے ہیں۔
چارسدہ میں باچا خان اور ولی خان کی برسی کے موقع پر جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے ایمل ولی خان کا کہنا تھا کہ 1948 میں بابڑہ کے مقام پر ہمارے 600 سے زیادہ کارکنان شہید ہوئے تھے، ہمیں اپنے کارکنان پر فخر ہے۔انہوں نے کہا کہ بارہ سال سے ہمیں حکومت سے باہر رکھا جا رہا ہے، ہمیں کمزور کرنے والے ناکام ہو ئے ہیں، ہم عدم تشدد کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں، ہم جانتے ہیں گھی نکالنے کیلئے انگلی ٹیڑھی کرنی پڑتی ہے۔
مرکزی صدر اے این پی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے منتخب اراکین اسمبلی عوام سے دور بھاگتے ہیں، نو مئی کے فیصلوں سے ان کو بہت تکلیف ہوگی، آج حقیقت سننے کو کوئی تیار نہیں۔ایمل ولی خان نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے پختونخوا کے نو حلقے کھولنے کا فیصلہ کیا ہے، میرا مطالبہ ہے چارسدہ کے حلقے بھی کھولے جائیں، ہمیں تین بار ہرایا گیا، یہ نہیں ہو سکتا جہاں سے جیتے خیر ہے جہاں ہار ہو وہ حلقے کھولے جائیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگلی بار اگر ہمارے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا تو پھر پاکستان نہیں چلے گا، کسی کو اچھا لگے یا برا کرک میں جلسہ کروں گا۔