Express News:
2025-04-16@04:48:59 GMT

سیاہ،سفید اور سرخ انقلاب

اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT

نام تو ان کا کچھ اور تھا لیکن مشہور لالا کامریڈ کے نام سے تھے۔ایک ایسے سرکاری محکمے میں معمولی ملازم تھے جہاں صرف تنخواہ کے دن حاضری ضروری تھی، باقی دن’’فیلڈ‘‘ میں گزرتے تھے چنانچہ لالا کو جب بھی دیکھتے، کاندھیپر ایک تھیلی لٹکائے یا تو کہیں جارہے ہوتے یا آرہے ہوتے۔ پوچھتے تو،’’بس تنظیم کا کام کرنے گئے تھے یا جارہے ہیں‘‘۔ اس تھیلی میں ماوزے تنگ کے اقوال،مارکس اور اینگلز کے اقوال یا لینن اور اسٹالن کے اقوال پر مبنی اردو کتابچے ہوتے تھے۔

ادھر فیملی پلاننگ ایسی کہ کرکٹ کی پوری ٹیم مع بارویں کھلاڑی کے پوری کرلی تھی۔اور آمدن کا چونکہ ہینڈٹو ماؤتھ والا معاملہ تھا، اس لیے ایسے تمام لوگوں کی طرح اولاد کو کھلا چھوڑ دیا تھا۔چنانچہ سب کے سب گلیوں کوچوں کی سرگرمیوں میں خوب منجھ گئے تھے۔  لالا جب بھی سُر میں ہوتے تو کہتے،’’ دیکھنا بہت جلد سرخ انقلاب آئے گا‘‘۔پھر دو باتیں ہوگئیں، ایک تو ایوب خان کے پرانے اور عنقریب گرنے والے درخت کی جڑوں سے نئیکونپل پھوٹے گی، روٹی، کپڑا، مکان ، اسلام ہمارا دین، جمہوریت سیاست، سوشلزم ہماری معیشت کی بانسری پر گزشتہ پون صدی کی کیمونسٹ سوشلسٹ تحریک کو لے جاکر خلیج بنگال میں پھینک دیا گیا۔ پھر روٹی کپڑا مکان چھیننے والوں کی منڈلی کا سرتاج بن گیا۔دوسری بات لالا کی زندگی میں یہ پیدا ہوئی کہ اس کی بیوی کی کہیں پر ایک بہت بڑی جائیداد نکل آئی۔

ہوا یوں تھا کہ اس کی بیوی کا باپ ایک بہت بڑے جاگیردار خاندان سے تھا لیکن اپنے باپ سے پہلے فوت ہوگیا، اس لیے زندہ رہنے والے بھائیوں نے اس کی بیوی بچوں کو کچھ بھی نہیں دیا بلکہ گھر بھی چھین لیا، اس کی بیوہ اپنے بیٹے اور بیٹی کو لے کر اس گاؤں میں آگئی اور محنت مزدوری کرکے بچوں کو پالنے لگی۔ بیٹا تو آوارہ بن کر نہ جانے کہاں چلا گیا۔اور بیٹی کا بیاہ لالا سے ہوگیا۔اب جب ایوب خان کے عائلی قوانین لاگو ہوگئے اور اس میں مرنے والے بیٹے کی اولاد کو دادا کی جائداد میں برابر کا حصہ دار بنایا گیا۔تو لالا کی بیوی اپنے باپ کی جائیداد کی واحد وارث بن گئی۔بلی کے بھاگوں چھنپکا ٹوٹا۔ لالا گیا تو اب وہاں نہر آنے کے سبب زمین اور بھی قیمتی ہوچکی تھی چنانچہ ایک ٹکڑا بیچنے سے گھر میں جیسے عید ہوگئی۔

نہ صرف خالی گھر بھر گیا بلکہ نیا بھی ہوگیا۔ایک اچھی دودھیل بھینس بھی آگئی۔ لالا کی بیوی غربت میں پلی بڑھی تھی، اس لیے بھینس کا فالتو دودھ بیچ دیتی تھی، یہاں سے ان کے دوبیٹوں کے دماغ میں جو تقریباً جوان ہوگئے تھے، یہ آئیڈیا آیا کہ ان پڑھوں کی نوکری کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ تو کوئی اور کام دھندہ کرنے کے بجائے ’’بھینسوں‘‘ کو کیوں نہ کاروبار بنایا جائے چنانچہ بھینسیں پانچ ہوگئیں۔پھر کچھ اور زمین بیچ کر باقاعدہ فارم بنایا گیا۔ گاؤں سے باہر زمین خرید کر اچھا خاصا فارم بن گیا۔جس کے پیچھے عالی شان مکان بھی بن گیا۔ بھینس تو زندہ جانور ہے اور زندہ جانور بچے بھی دیتے ہیں، اس لیے تھوڑے ہی عرصے میں دس نہ بیس نہ تیس پوری اسی بھینسیں بن گئیں۔ایک اور پلس پوائنٹ یہ تھا کہ افرادی قوت کا بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ بارہ کے بارہ بیٹے فارم ہی میں مصروف ہوگئے۔

کوئی چراتا تھا ،کوئی گھاس وغیرہ کاٹ کر لاتا تھا ،کوئی دودھ دوہتا تھا کوئی بیچتا تھا۔ایک دن لالا کو دیکھا، نئی موٹرسائیکل پر بالکل ہی الگ شخصیت بن کر بیٹھے کاندھے پر ترپال کا وہ تھیلا بھی نہیں تھا بلکہ موٹر سائیکل کے پیچھے بریف کیس تھا۔پوچھا ، لالا کہاں؟ بولے،’’باقی کام تو لڑکے کرتے ہیں لیکن شہر میں دکانداروں کے ساتھ حساب کتاب میرے ذمے ہے، ظاہر ہے اتنا دوودھ گاؤں میں تو نہیں بک سکتا تھا، اس لیے دودھکے کین پک اپ پر لاد کر شہر پہنچاتے تھے۔چونکہ فارم گاؤں کے دوسرے سرے پر تھا، اس لیے بہت کچھ ملنا ملانا ہوتا تھا۔پھر ایک دن لالا کو دیکھا تو نئی نویلی کار میں براجمان ہیں۔کاندھے پر تھیلی کے بجائے زرد خانہ دار رومال، سر پر سفید ٹوپی اور ہاتھ میں لمبی تسبیح۔پوچھا ، لالا یہ کیا؟وہ سرخ انقلاب‘‘؟بولے،’’ شکر الحمد اﷲ ، خدا نے گمراہی سے بچالیا اور راہ راست دکھا دیا، اب مسجد میں بیٹھتا ہوں اور اﷲ کو یاد کرتا ہوں۔مجھے حیرت تو ہونا ہی تھی لالا کے اسی منہ سے میں نے انقلاب کے بارے میں کیا کیا نہیں سنا تھا۔

کہا کرتا تھا، یہ جو مولویحضرات کہتے ہیں، اس سے مجھے اتفاق نہیں ہے۔ذرا انقلاب آنے دو ان سب کو دیکھ لوں گا۔ اب اس نے ایسی ایسی باتیں کیں کہ میں نے اس سے بولنا ہی بند کردیا۔اور آج وہی لالا نہ صرف اﷲ اﷲکررہا ہے بلکہ بتا رہا ہے کہ یہ دنیا اور اس کا سب کچھ فضول ہے۔ اصل چیز آخرت ہے۔کچھ دنوں بعد سنا کہ اس نے علاقے میں ایک مسجد بھی تعمیر کروادی ہے اور اس کا سارا انتظام بھی اس کے ہاتھ میں ہے۔اذان اور اقامت پر بھی قبضہ کرچکا ہے، صرف امامت کوئی اور کرتا ہے کہ اسے تلاوت اور قرات نہیں آتی لیکن سیکھ رہا ہے، ہوسکتا ہے کہ کچھ دنوں بعد امامت بھی سنبھال لے۔ اردگرد کے علاقے میں جو پیروں کے آستانے یا دینی مدرسے ہیں، انھیں چندہ وغیرہ بھی دیتا ہے۔

کچھ دن بعد حاجی بھی ہوگیا۔جس دن حج سے واپس آرہا تھا، اس دن بیٹوں نے انتہائی مرغن دعوت کا اہتمام کیا تھا اور رات سے مسجد میں نعت خوانی اور تلاوت چل رہی تھی۔جی تو نہیں چاہتا تھا لیکن اس کے ساتھ ایک ہلکا سا رشتہ تھا، اس لیے چلا گیا۔یہ لمبی داڑھی، رنگ برنگے رومال سر اور کاندھوں پر ، ہاتھ میں نہایت چمکدار سو دانوں کی تسبیح اور ہر ایک سے یہی کہتا کہ وہاں میں نے تمہارے لیے دعا کی تھی۔ ایک دن میں گاؤں کے کسی کام سے گیا تھا، سوچا لالا کا فارم بھی دیکھ لیں۔لالا سامنے چارپائی پر بیٹھے تھے۔ دونوں طرف بڑے بڑے گاو تکیے تھے اور تسبیح ہاتھ میں لٹکائے ہوئے، علیک سلیک کے بعد اس نے چائے بولی۔تب میں نے دیکھا کہ لمبے برآمدے میں اس کے چار پانچ بیٹے کچھ مشینوں کے ساتھ مصروف تھے۔ادھر ادھر کچھ کچھ ڈبے اور بوتلیں تھیں، مشین سے دودھ کی دھار نکل رہی تھی جس سے کین بھر کر پک میں لادے جارہے تھے۔

پوچھا، لالا یہ کیا ہے؟ بولے دراصل شہر میں دودھ کی مانگ بڑھ گئی، بھینسیں پورا نہیں کرپارہی ہیں، اس لیے۔مگر لالا یہ تو بے ایمانی ہے۔بولے کاہے کی بے ایمانی۔صاف ستھری چیزیں ملا رہے ہیں، کوئی حرام چیز نہیں اور یہ تو کاروبارہے۔میں اٹھ گیا۔لیکن سامنے والے برآمدے میں دیکھا جس میں دودھیل بھینسیں کھڑی تھیں لیکن یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ بھینسیں بہت زیادہ تھیں اور بچے بہت کچھ کم۔وہاں کھڑے ہوئے، اس کے بیٹے سے پوچھا کہ بچے اتنے کم کیوں ہیں لیکن بیٹے کے کچھ کہنے سے پہلے ہی لالا تسبیح پھیرتے ہوئے آیا، بولا، زندہ جانور ہیں، اکثر کے بچے مرجاتے ہیں۔یہ تو مجھے بعد میں اس کے ایک بیٹے سے پتہ چلا کہ بچے مرتے نہیں مار دیے جاتے ہیں۔

بھینس اکر کٹٹری جنے تو اسے زندہ چھوڑ دیتے ہیں اور اگر کٹٹرا ہوتا ہے تو اسی وقت چھری پھیر دیتے ہیں، اس کا گوشت قصائی لے جاکر چھوٹے گوشت کے نام بیچ دیتے ہیں اور اس کے حصے کا دودھ ان کا ہوتا ہے۔انقلاب زندہ باد کٹٹروں کے خون کا سرخ انقلاب۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سرخ انقلاب دیتے ہیں ہاتھ میں کی بیوی اور اس اس لیے

پڑھیں:

اسلامی جمہوریہ ایران کی ترقی(2)

اسلام ٹائمز: ایران نے چالیس سال سے زیادہ محاصرے، پابندیوں، دھمکیوں اور جنگی سازشوں کے باوجود ایک استقامت اور خود داری کی ریاست قائم رکھی ہے۔ اس نے امریکہ، اسرائیل اور ان کے حواریوں کی عسکری و سفارتی برتری کو بار بار چیلنج کیا ہے۔ اس مضمون کا مقصد یہ بتانا ہے کہ مغربی میڈیا کی طرف سے جو شور مچایا جا رہا ہے، کہ ایران اقتصادی طور پر مرنے والا ہے، کہ ایران بکھر جائے گا، یہ صرف ایک نفسیاتی جنگ کا حصہ ہے۔ ایران کا حقیقی چہرہ۔۔۔۔ ایک خود دار، مزاحمتی، ترقی پذیر اور عالمی اسٹریٹیجی رکھنے والی ریاست ہے، جو دنیا کے سامنے آنا چاہیئے۔ تحریر: سید نوازش رضا


4۔ داعش کے خلاف جنگ، مغربی دعووں کی نفی
سابق امریکی صدر اوباما نے 2014ء میں کہا تھا کہ داعش کو ختم کرنے میں 20-30 سال لگ سکتے ہیں۔ (ماخذ: The Atlantic, 2014) ایران نے شہید جنرل قاسم سلیمانی کی قیادت میں 2014ء سے 2018ء کے درمیان داعش کو شام، عراق اور لبنان کے علاقوں سے بزور طاقت نکالتے ہوئے 21 نومبر 2017ء کو جنرل قاسم سلیمانی نے رہبر معظم آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ‌ای کو تاریخی خط لکھتے ہوئے اس کی شکست کا اعلان کیا۔ (ماخذ: Al-Monitor, Press TV, The Guardian)
Nations CTED Reports 2024 یہ کامیابی محض فوجی مہارت کا نتیجہ نہیں، بلکہ اعلیٰ اسٹریٹیجک ذہانت، مقامی رابطوں اور مقاومتی قوتوں کی استقامت کی مرہونِ منت ہے۔ یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ جب پورا یورپ، امریکہ اور اسرائیل اپنے تمام مالی وسائل کے ساتھ داعش کی پشت پناہی کر رہے ہیں، تو ایران نے بھی اپنے تمام اقتصادی وسائل کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا۔ یہ ایران کی اقتصادی صلاحیتوں کا واضح مظہر ہے۔

5۔ مغربی پروپیگنڈا، کرائے کے جنگجو اور مالی امداد کا جھوٹا بیانیہ
مغربی میڈیا اکثر دعویٰ کرتا ہے کہ ایران حزب اللہ، فلسطین میں جہاد اسلامی، حماس، انصار اللہ (یمن)، عراق کی مزاحمتی قوتوں جیسے گروہوں کو لاکھوں ڈالر ماہانہ ادا کرتا ہے۔ لیکن۔۔۔۔۔۔ یہ بات خود مغربی میڈیا کے بیانیے سے واضح ہوتی ہے کہ ایران مالی طور پر اتنا مضبوط ہے کہ وہ ان گروہوں کو سپورٹ کرسکتا ہے۔ ان قوتوں کی تکنیکی اور مالیاتی بنیاد اتنی مضبوط ہوچکی ہے کہ وہ اب میدان جنگ میں امریکہ، یورپ و اسرائیل جیسے ممالک کا سامنا کر رہے ہیں۔ اگر ایران واقعی بقول امریکہ و یورپ اقتصادی طور پر ایک تباہ حال ملک ہوتا، تو یہ سب ممکن نہ ہوتا۔

6۔ تعمیرِ نو میں ایران کا کردار، غزہ اور لبنان کی مثالیں
لبنان پر 2006ء کی اسرائیلی جنگ کے بعد ایران نے چند مہینوں میں بنیادی انفراسٹرکچر بحال کیا۔ (ماخذ: BBC Arabic, Al Jazeera) ایران آج بھی دعویٰ کرتا ہے کہ اگر غزہ پر حملے بند ہوں تو وہ چند سالوں میں اسے دوبارہ آباد کرسکتا ہے، برخلاف امریکی دعووں کے کہ 30-40 سال لگیں گے۔ (ماخذ: Iranian Foreign Ministry Statements 2024)

7۔ ایرانی قوم کی وقار پر مبنی اجتماعی شناخت
ایرانی قوم عمومی طور پر ایک ایسی قوم کے طور پر جانی جاتی ہے، جو خودداری، منظم رویئے اور معاشی خود مختاری کے نمایاں اوصاف کی حامل ہے۔ ایرانی شہری عام طور پر بیرونِ ملک امداد یا خیرات پر انحصار کرنے کے بجائے خود انحصاری کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ ذلت آمیز یا کم درجے کی ملازمتوں سے اجتناب کرتے ہیں اور باوقار روزگار کے لیے منظم طریقے سے کوشش کرتے ہیں۔ عمومی طور پر ایرانی قوم معاشی و سماجی اعتبار سے ایسے مناظر میں دکھائی نہیں دیتی جہاں بھیک، مجبوری یا بے سروسامانی کا تاثر پیدا ہو۔ مختلف ممالک میں ان کی موجودگی اکثر پیشہ ورانہ، تعلیمی یا تجارتی نوعیت کی ہوتی ہے، جس سے ان کے قومی مزاج میں وقار اور خود داری کا عنصر ظاہر ہوتا ہے۔ *یہ تمام نکات اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ ایرانی قوم ذہنی، سماجی اور تمدنی سطح پر اپنی غیرت و خودداری کو مقدم رکھتی ہے۔۔۔۔ جو کہ ایک زندہ، باوقار اور باشعور معاشی طور پر مظبوط قوم کی علامت ہے*

8۔ ایران میں غیر ملکی مزدوروں کی موجودگی، معاشی استحکام کا پیمانہ
ایران اب ان ممالک میں شمار ہوتا ہے، جہاں دیگر ملکوں کے افراد روزگار کی تلاش میں آتے ہیں۔ پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش افغانستان و دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد ایران کی فیکٹریوں، تعمیراتی منصوبوں، ہوٹلوں اور خدماتی شعبوں میں روزگار حاصل کر رہے ہیں۔ ایران میں اجرت کا معیار جنوبی ایشیائی ممالک سے بہتر ہے اور کام کے حالات بھی زیادہ انسانی اور محفوظ ہیں۔ *یہ رجحان اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ ایران اب خود ایک معاشی منزل بن چکا ہے، نہ کہ ترک وطن کرنے والی ریاست۔*

9۔ ایران: دینے والا ہاتھ، مانگنے والا نہیں
ایران دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے، جو موجودہ عالمی مالیاتی استکباری نظام، جس میں قوموں کو سود کی بنیاد پر قرضے دے کر غلام بنایا جاتا ہے، اس سے غیر وابستہ ہوتے ہوئے اپنی مکمل مالی خودمختاری برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ایران آج کسی بھی عالمی مالیاتی ادارے (IMF, World Bank, Paris Club) کا مقروض نہیں ہے، نہ وہ قرض معاف کروانے کی لائن میں کھڑا ہے، نہ وہ بھیک مانگنے والے ممالک میں شمار ہوتا ہے، بلکہ ایران کا مؤقف یہ ہے کہ اس کے اربوں ڈالرز کے اثاثے جو امریکہ، برطانیہ اور یورپ میں منجمد کیے گئے ہیں، وہ صرف اسے واپس کر دیئے جائیں۔ ایران کے ان اثاثوں پر مغربی ممالک سود کماتے ہیں، اپنے بجٹ پورے کرتے ہیں، جبکہ اصل مالک کو پابندیوں کی آڑ میں محروم رکھا گیا ہے۔

اس کے برعکس ایران آج بھی دنیا کے مظلوم ممالک، جیسے فلسطین، یمن، لبنان، اور افریقی ریاستوں کی مالی، سیاسی اور انسانی سطح پر مدد کرتا ہے۔ مغرب اسے "پراکسی سپورٹ" کہتا ہے، مگر ایران اسے "مظلومین کی مدد" اور اسلامی و انسانی فریضہ کہتا ہے۔ ایک ایسا ملک جو اپنے اثاثوں سے محروم ہے، پھر بھی دوسروں کی مالی مدد کرتا ہے، وہ معاشی طور پر محتاج نہیں بلکہ دینے والے ہاتھ کی علامت ہے۔ یہ تمام پہلو اس حقیقت کو ثابت کرتے ہیں کہ ایران سود خور سرمایہ دارانہ نظام کا غلام نہیں، بلکہ ایک خودمختار، اصولی اور مربّی ریاست کے طور پر کھڑا ہے۔ *جو ملک دوسروں کی مدد کرتا ہو اور خود عالمی اداروں سے قرض کا متقاضی نہ ہو، وہ معاشی خود کفالت کا مظہر ہوتا ہے، نہ کہ کمزور ریاست۔*

10۔ سماجی ترقی اور سوشل انڈیکیٹرز:
● ایران میں شرح خواندگی 96٪ ہے اور خواتین کی یونیورسٹی میں شرکت 65٪ تک ہے۔ (ماخذ: UNESCO)
● ایران کا یونیورسل ہیلتھ کوریج ماڈل WHO کی جانب سے ڈیولپنگ ورلڈ میں بہترین قرار دیا گیا۔
● ایران کی 80٪ سے زائد آبادی صاف پانی، بجلی اور تعلیم تک رسائی رکھتی ہے۔

11۔ ایران: پابندیوں کے باوجود خود کفیل ماڈل
ایران نے چالیس سال سے زیادہ امریکی پابندیوں کے باوجود "اقتصادِ مقاومت" (Economy of Resistance) کی بنیاد پر ایک ایسا ماڈل پیش کیا ہے جو:
》 اقتصادی خودکفالت
》 ٹیکنالوجی میں خود انحصاری
》بیرونی دباؤ کے باوجود ترقی کے قابلِ رشک نمونے پیش کرتا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران  آج عالمی سطح پر ایک ایسی خودمختار قوم کی حیثیت سے ابھرا ہے جو:
مغربی پابندیوں کے باوجود اپنی خودداری برقرار رکھتی ہے۔
سیاسی و اقتصادی دباؤ کے آگے اپنا وقار قائم رکھتی ہے۔
خطے میں ایک مستحکم طاقت کے طور پر اپنی شناخت رکھتی ہے۔

12۔ ایرانی شہروں کی جدیدیت اور شہری انفرا اسٹرکچر
ایران کے شہر جیسے تہران، مشہد، اصفہان، شیراز، شہری ترقی اور آرکیٹیکچر میں کئی ترقی یافتہ شہروں کی صف میں نظر آتے ہیں۔ جدید ریلوے، ٹرانسپورٹ میٹرو سسٹمز، ایئرپورٹس، سڑکوں کا جال، اسپتالوں کا نیٹ ورک اور اعلیٰ تعلیمی مراکز و یونیورسٹیاں وغیرہ یہ سب ثبوت ہیں کہ پابندیوں کے باوجود ایران نے شہری تعمیر و ترقی میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔

13۔ تعلیم و صحت: خطے کے بہترین نظاموں میں شامل
ایران کا تعلیمی نظام دنیا کے کئی ترقی پذیر ممالک سے بہت آگے ہے۔ ہزاروں طلبہ دنیا بھر سے ایران کی یونیورسٹیوں میں پڑھنے آتے ہیں۔ ایرانی میڈیکل سسٹم WHO، اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے مطابق بہترین ترقی پذیر نظاموں میں سے ایک ہے۔
ایران میڈیکل ٹورازم کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ *پہلے جہاں کبھی ڈاکٹر بھارت و پاکستان و دیگر مملک سے آتے تھے، آج دنیا وہاں علاج کروانے جا رہی ہے۔*

14۔ ایرانی صنعت کا عالمی اثر
ایران کی مصنوعات عالمی معیارات کے مطابق تسلیم شدہ ہیں، جو نہ صرف قیمت کے لحاظ سے سستی بلکہ معیار کے اعتبار سے بھی کئی ترقی یافتہ ممالک کی مصنوعات سے بہتر ہیں۔ ایران کی صنعتی صلاحیتوں کا یہ عالمی عکس اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ اقتصادی پابندیاں اس کی ترقی کو روک نہیں سکیں، بلکہ اس نے متبادل راستوں سے اپنی مصنوعات کو عالمی منڈی تک پہنچانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ایران کی موٹر سائیکل، کار، زرعی مشینری، ہوم اپلائنسز اور ٹائل انڈسٹری بھی غیر ملکی منڈیوں میں موجود ہے۔ *ترقی صرف GDP یا ڈالر نہیں، خوداری اور ادارہ جاتی خود انحصاری ہے* ایران نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ: *ترقی وہ نہیں جو مغرب طے کرے، بلکہ وہ ہے، جو قوم خود اپنے اندر پیدا کرے۔*

مسقط مذاکرات کی ناکامی ایران پر اقتصادی پابندیوں کا بیانیہ اور حقیقت کا تضاد
مغربی میڈیا ان مذاکرات کو ایران پر آخری دباؤ کے طور پر پیش کر رہا ہے، کہ اگر اس نے امریکی مطالبات کے سامنے لچک نہ دکھائی تو تباہ کر دیا جائے گا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ: ایران نے 2018ء میں JCPOA سے امریکہ کے انخلا کے بعد مزید پابندیاں برداشت کیں، مگر تباہ نہیں ہوا۔ یورپ اور امریکہ صرف شور مچاتے ہیں، کیونکہ ان کی اصل طاقت پراپیگنڈا اور میڈیا کنٹرول کے ذریعے ذہن سازی کرنا ہے، جبکہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ زمینی حقائق (ground realities) کو بدلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ایران نے اپنی معیشت کو پٹرول سے نان-آئل شعبوں میں منتقل کیا اور پابندیوں کے باوجود نہ صرف ملکی سطح پر خود کفیل ہوا بلکہ برآمدات جاری رکھیں۔

ایران نے چالیس سال سے زیادہ محاصرے، پابندیوں، دھمکیوں اور جنگی سازشوں کے باوجود ایک استقامت اور خود داری کی ریاست قائم رکھی ہے۔ اس نے امریکہ، اسرائیل اور ان کے حواریوں کی عسکری و سفارتی برتری کو بار بار چیلنج کیا ہے۔ اس مضمون کا مقصد یہ بتانا ہے کہ مغربی میڈیا کی طرف سے جو شور مچایا جا رہا ہے، کہ ایران اقتصادی طور پر مرنے والا ہے، کہ ایران بکھر جائے گا، یہ صرف ایک نفسیاتی جنگ کا حصہ ہے۔ ایران کا حقیقی چہرہ۔۔۔۔ ایک خود دار، مزاحمتی، ترقی پذیر اور عالمی اسٹریٹیجی رکھنے والی ریاست ہے، جو دنیا کے سامنے آنا چاہیئے۔ *اسلامی جمہوریہ ایران کی کامیاب مثال دنیا کی تمام محروم قوموں کے لئے، جو حقیقی آزدی حاصل کرنا چاہتی ہیں, ایک روشن دلیل ہے کہ اگر:*》 *قیادت مخلص ہو  》قومی خودداری کو چند ڈالروں کے سودی قرضوں پر نہ بیچا جائے  》 قومی وژن واضح ہو 》اور عوام پر مکمل اعتماد ہو* *تو کوئی بھی عالمی استعماری و سامراجی طاقت کسی بھی ملت کو غلام نہیں بنا سکتی۔"*

امام خمینیؒ کی حکیمانہ رہنمائی اور نظریۂ ولایت فقیہ کی برکت سے وجود میں آنے والے انقلابِ اسلامی نے ایرانی قوم کو فکری و عملی طور پر ایک نئے دور سے روشناس کرایا، جس نے حقیقی معنوں میں خودداری، ایمان، وحدت اور استقامت کی بنیاد پر ترقی کا ایک ایسا راستہ متعارف کرایا، جو بیرونی دباؤ (external pressures) کے سامنے ڈٹ جانے کی عملی مثال پیش کرتا ہے۔ یہ انقلاب ثابت کرتا ہے کہ جب کوئی قوم اپنی تہذیبی اقدار، قومی وسائل اور اندرونی صلاحیتوں پر پختہ اعتماد کرتی ہے تو عالمی استکبار کی کوئی بھی طاقت اسے اس کے عظیم ملی مقاصد سے روک نہیں سکتی۔ *اور یہی نظریۂ ولایت فقیہ آج رہبرِ معظم آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ‌ ای (مدظلہ العالی) کی دوراندیش قیادت میں وہ اسلامی نظامِ مقاومت ہے، جو ایران کو عالمی استعماری و استکباری طاقتوں کے مقابلے میں ایک مضبوط، خودکفیل اور خودمختار قوم کی حیثیت سے مستحکم کھڑا کرچکا ہے۔

*ایرانی عوام کو یہ حقیقت ہمیشہ پیشِ نظر رکھنی چاہیئے کہ نظامِ ولایت فقیہ ہی وہ پائیدار بنیاد ہے، جو ضامن ہے:*
✓ *قومی خودداری، تہذیبی شناخت اور اسلامی اقدار کو بیچے بغیر حقیقی معنوں میں جدید ترقی اور خود کفالت کا راستہ کا*
✓ *حقیقی آزدی و خود مختاری*
✓ *حقیقی اسلامی جمہوریت*
✓ *اور استعماری سامراجی طاقتوں کے مقابلے میں ڈٹ جانے کی صلاحیت*
 یہی وجہ ہے کہ آج کا جدید استعمار اسی نظام سے خائف ہے، کیونکہ یہ اس کے ناپاک عزائم کے آگے ناقابلِ تسخیر دیوار ثابت ہوا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • آرمی چیف ملک کو معمول کی سطح پر لے آئے، فیصل واوڈا
  • جنگ  میں سب کچھ جائز نہیں ہوتا!
  • اڈیالہ جیل، عمران خان کی تینوں بہنوں کو پھر ملاقات سے روک دیا گیا
  • بارود کا ڈھیر
  • کوچۂ سخن
  • اسلامی جمہوریہ ایران کی ترقی(2)
  • ٹیرف جنگ کا مستقبل کیا ہے؟
  • پی ایس ایل کی فریاد
  • نون لیگ اور اُس کے پروجیکٹس
  • بھارت، وقف ترمیمی بل کے خلاف بطور احتجاج بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھنے پر مسلمانوں کے خلاف مقدمات درج