Express News:
2025-02-05@01:05:56 GMT

ایک خط کے مندرجات

اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT

بانی تحریک انصاف نے آرمی چیف کو خط لکھاہے۔ یہ کوئی پہلا خط نہیں ہے، اس سے پہلے وہ چیف جسٹس پاکستان کو بھی ایک تفصیلی خط لکھ چکے ہیں۔ ویسے تو وہ جب سے جیل گئے ہیں خط و خطابت کا ایک کھیل جاری ہے۔ انھوں نے آئی ایم ایف کو بھی خط لکھا ہے۔ عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی خط لکھا ہے۔ اس لیے ایسا نہیں ہے کہ انھوں نے کوئی پہلا خط لکھا ہے۔ وہ خود کو سیاست میں بحال رکھنے کے لیے ٹوئٹس کے ساتھ خطوط کا سہارا بھی لے رہے ہیں۔ کیا ان کی جانب سے لکھے گئے خطوط کا ابھی تک کوئی مثبت نتیجہ سامنے آیا ہے۔ یہ دیکھنے کی بات ہے۔

آئی ایم ایف کو خط کا کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آیا تھا۔ آئی ایم ایف نے ان کے خط کے باوجود پاکستان کے ساتھ معاہدہ بھی کیا اور قرض کی قسط بھی جاری کیا۔ اسی طرح عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کو لکھے گئے خط کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آیا تھا۔ چیف جسٹس پاکستان کو لکھے گئے خط کا بھی کوئی جواب نہیں آیا۔

اب کیا آرمی چیف کو لکھے گئے خط کا کوئی جواب آئے گا؟ مجھے نہیں لگتا۔ میں نے خط کے مندرجات دیکھے ہیں۔ مجھے اس میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی جس کا کوئی جواب دیا جا سکے۔ مجھے لگتا ہے کہ بانی تحریک انصاف کو بھی علم ہے کہ ان کے خط کا کوئی جواب نہیں آئے گا۔ انھوں نے بھی چند چیزیں ریکارڈ پر لانے کے لیے خط لکھا ہے۔ کیونکہ مجھے یہ جواب حاصل کرنے والا خط لگ ہی نہیں رہا۔

جہاں تک ہمیں علم ہے ڈی جی آئی ایس پی آر متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ جب تک نو مئی کے ماسٹر مائنڈ اور اس کے ذمے دار معافی نہیں مانگیں گے، بات آگے نہیں بڑھ سکتی۔اس لیے رائے یہی ہے کہ محض خط لکھنے سے معاملات آگے نہیں بڑھیں گی بلکہ معافی کے بغیر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکتی۔ جہاں تک میں نے خط کے مندرجات دیکھے ہیں، مجھے اس میں معافی کا کوئی پہلو نظر نہیں آیا بلکہ مجھے تو کہیں سے بھی یہ مفاہمتی خط نہیں لگا۔ بلکہ اس خط سے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں، کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس سے مجھے تو حالات میں کوئی بہتری نظر نہیں آرہی۔

خط کا پہلا نقطہ عام انتخابات میں دھاندلی کا ہے۔ ویسے تواس خط کا کوئی جواب سامنے نہیں آئے گا کیونکہ ایسے خطوط کا جواب نہیں دیا جاتا۔ لیکن اگر ہم فرض کریں کہ جواب دیا جائے تو وہ کیا ہوگا؟ کیا اس خط کے جواب میں انتخابات میں دھاندلی کے موقف کو تسلیم کیا جاسکتا ہے؟ اس تو یہی جواب ہوگا کہ یہ نہیں ہوگا کیونکہ عام انتخابات کا اسٹبلشمنٹ سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ انتخابات نہیں کراتی ۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں اس خط سے اسٹیبلشمنٹ کو دھاندلی کا ذمے دار قراد دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ دھاندلی ثابت کرنے کے لیے آئین میں پلیٹ فارم موجود ہیں۔ اس لیے پہلانقطہ حالات کو ٹھیک کرنے کے بجائے خراب کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ الزام تراشی ہے۔

دوسرا نقطہ 26ویں آئین ترمیم ہے۔ آئینی پوزیشن تو یہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا پارلیمان کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ 26ویں آئینی ترمیم کیسے پاس کراسکتی ہے، یہ کام صرف پارلیمان کر سکتی ہے۔ کیا بانی تحریک انصاف اس خط سے فوج پر 26ویں آئینی ترمیم پاس کرانے اور اب ان کی خواہش پر اس کو ختم کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے؟ مجھے یہ کسی بھی طرح ممکن نظر نہیں آتا۔ خط کے اس نقطہ کا بھی کوئی جواب نہیں دیا جا سکتا۔ یہ نقطہ بھی حالات ٹھیک کرنے کے بجائے خراب کرنے کا ہی باعث ہے۔

خط میں تیسرا نقطہ پیکا قانون ہے۔ بانی تحریک انصاف اس کی ذمے داری بھی اسٹیبلشمنٹ پر ڈال رہے ہیں۔ یہ کیسے منطق ہے۔ اس کا کیا جواب دیا جا سکتا ہے۔ یہ قانون بھی پارلیمنٹ نے پاس کیا ہے۔ اس لیے مجھے یہ نقطہ بھی کوئی ٹھیک نہیں لگتا۔ اس لیے مجھے لگتا ہے اصل نقطہ کو نظر انداز کر کے یہاں بھی بات چیت کے دروازے کھولنے کے بجائے بند ہی کیے گئے ہیں۔

چوتھا نقطہ تحریک انصاف کے کارکنوں اور رہنماؤں کی گرفتاریوں کا ہے۔ اس میں بھی نو مئی کا ذکر گول کیا گیا ہے۔ نو مئی کے ملزمان فوج کا اصل نقطہ ہے۔ فوج تو اسے قوم کا مقدمہ کہتی ہے۔ نو مئی کے تمام ملزمان کو سزائیں دینے کا کئی بار مطالبہ کر چکی ہے۔ اسی طرح 26نومبر کے واقعہ کو بھی سیاسی دہشت گردی قرار دیا جا چکا ہے۔ اس ضمن میں اسٹیبلشمنٹ کا موقف واضح ہے۔ اس میں وہ کیا کر سکتی ہے۔ آرمی چیف ان ملزمان کی گرفتاری کو کیسے غیر قانونی قرار دے سکتے ہیں۔ اس لیے یہ نقطہ بھی کوئی قابل گفتگو نہیں ہے۔

پانچواں نقطہ ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے۔ اس نقطہ میں یہ موقف لیا گیا ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام اور بیرونی سرمایہ کاری تب تک ممکن نہیں جب تک عوامی امنگوں کی ترجمان حکومت قائم نہیں ہوگی۔ یہ درست ہے کہ عوامی امنگوں کی حکومت کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔ مجھے تو یہی تاثر ملا ہے کہ وہ ملک کی حکومت مانگ رہے ہیں۔

وہ کہہ رہے ہیں کہ جب تک مجھے حکومت نہیں دی جائے گی تب تک نہ ملک میں سیاسی استحکام آئے گا۔ اور نہ ہی بیرونی سرمایہ کاری آسکتی ہے۔مجھے نہیں لگتا کہ ان کی یہ بات مانی جا سکتی ہے۔ اس نقطہ میں وہ حکومت حاصل کیے بغیر ملک میں سیاسی استحکام نہ ہونے کا ہی اعلان کر رہے ہیں۔ سیاسی استحکام کو انھوں نے اپنی حکومت سے جوڑ دیا ہے۔

چھٹا نقطہ بھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہے۔ انھوں نے اسٹیبلشمنت کے سیاسی معاملات میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔ انہون نے الزام لگایا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ملک میں قانون پر عملدرآمد روک رہی ہے۔ یہ نقطہ بھی کوئی مفاہمتی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بلکہ اس کو بھی الزام تراشی کے تناظر میں دیکھا جائے گا۔ اس پر بھی کوئی بات چیت ممکن نہیں۔

اس لیے مجھے یہ خط کوئی بریک تھرو کا حامل نہیں لگ رہا۔ اس کا تو کوئی جواب نہیں آئے گا۔ اور نہ ہی اس کے مندرجات پر کوئی بات ہو سکتی ہے۔ نہ ہی خط درجہ حرارت میں کمی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس سے درجہ حرارت بڑھے گا۔ یہی حقیقت ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بانی تحریک انصاف کوئی جواب نہیں سیاسی استحکام ملک میں سیاسی کا کوئی جواب یہ نقطہ بھی کے مندرجات نظر نہیں ا خط کا کوئی خط لکھا ہے نہیں ا بھی کوئی انھوں نے رہے ہیں سکتی ہے سکتا ہے ا ئے گا دیا جا کو بھی اس لیے

پڑھیں:

چین کی ڈیپ سیک کن سوالات کا جواب نہیں دیتی ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 فروری 2025ء) چین نے بہت کم لاگت پر جدید ترین اے آئی سے چلنے والے چیٹ بوٹ کو گزشتہ دنوں دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، جس نے آرٹیفیشیئل انٹیلی جنس (اے آئی) کمیونٹی میں نئی بحث شروع کردی ہے۔

تاہم، چین کے ریگولیٹری فریم ورک کے تحت کام کرنے والے دیگر چینی مصنوعی ذہانت کے چیٹ بوٹس کی طرح، ڈیپ سیک بھی سیاسی طور پر حساس موضوعات پر ردعمل ظاہر کرنے کو حوالے سے 'معذوری' کا اظہار کرتی ہے۔

ڈیپ سیک کی مقبولیت ایک ویک اپ کال ہونی چاہیے، ٹرمپ

ڈیپ سیک حساس موضوعات اور متنازعہ مسائل پر اکثر چکمہ دے دیتی ہے یا چینی حکومت کے منظور کردہ بیانیے کو دہرا دیتی ہے۔

ہم نے سیاست اور معاشیات سے لے کر آرٹ اور ایل بی جی ٹی حقوق تک مختلف موضوعات پر چینی اور انگریزی میں تجربہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ آپ ڈیپ سیک کے جواب پر حرف بہ حرف یقین نہیں کر سکتے۔

(جاری ہے)

کیا تائیوان ایک خودمختار ریاست ہے؟

جب ڈیپ سیک سے یہ سوال چینی زبان میں پوچھا گیا تو جواب میں دعویٰ کیا گیا کہ تائیوان ہمیشہ سے چین کا لازم و ملزوم حصہ رہا ہے۔

تاہم، انگریزی ورژن نے تائیوان کی حقیقی حکمرانی، بین الاقوامی شناخت اور قانونی حیثیت کا احاطہ کرنے والا ایک تفصیلی، 662 الفاظ کا تجزیہ فراہم کیا۔

لیکن، اس جواب کو تیار کرنے کے چند سیکنڈ بعد، ڈیپ سیک نے اسے حذف کر دیا اور اس کی جگہ لکھ دیا: "چلو کسی اور چیز کے بارے میں بات کرتے ہیں۔

"

اس کے بعد ہم نے تائیوان کے انتخابات، سفارتی تعلقات، سیاسی پارٹیوں اور ممکنہ تنازعات کے حالات کا احاطہ کرتے ہوئے سیاسی طور پر متعلقہ چار مزید سوالات کا تجربہ کیا۔

چینی زبان میں، تین سوالات کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ صرف تائیوان کی سیاسی جماعتوں سے متعلق سوال کا جواب ملا۔ تاہم، ایک تجزیاتی جواب کے بجائے، وہ صرف سرکاری بیانات پر مشتمل تھے۔

اس نے کہا، "تائیوان چین کا ایک لازم و ملزوم حصہ ہے... ہمیں قومی تجدید کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔"

اس کے برعکس، انگریزی ورژن نے 630 سے ​​780 الفاظ تک کے جوابات کے ساتھ چاروں سوالوں کے لیے جامع، کثیر جہتی تجزیے فراہم کیے ہیں۔

لیکن، تائیوان کی سیاسی جماعتوں کا احاطہ کرنے والا جواب بھی تیار ہونے کے دو سیکنڈ کے اندر حذف کر دیا گیا۔

تیانان مین کے حوالے سے چکمہ دے دیا

چار جون 1989 کو جب چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے بیجنگ کے تیانان مین اسکوائر میں ہفتوں سے جاری پرامن احتجاج کو کچلنے کے لیے ٹینک اور فوجی بھیجے تو ہزاروں نہیں تو سینکڑوں لوگ مارے گئے۔ طلبہ کی قیادت میں مظاہرین سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کر رہے تھے۔

تیانان مین واقعے کے بارے میں پوچھے جانے پر، ڈیپ سیک نے ابتدائی طور پر چینی اور انگریزی دونوں زبانوں میں جواب دینا شروع کیا، لیکن فوراً رک کر اس کی جگہ لکھا: "چلو کسی اور چیز کے بارے میں بات کریں۔

" سنکیانگ اور ایغوروں پر دوہری داستانیں

ایغور مسلم اقلیتی گروپ کے ساتھ بیجنگ کے سلوک کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی ہے۔

جب ڈیپ سیک سے سنکیانگ کے "ری ایجوکیشن کیمپوں" کے بارے میں پوچھا گیا تو چینی جواب نے انہیں "استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے قائم کیے گئے پیشہ ورانہ تعلیم اور تربیتی مراکز" کے طور پر بیان کیا۔

اس نے دعوی کیا کہ ان اقدامات کو "تمام نسلی گروہوں کی طرف سے وسیع حمایت حاصل ہوئی ہے۔"

انگریزی ورژن نے، تاہم، ابتدائی طور پر 677 الفاظ پر مشتمل ایک تفصیلی جواب فراہم کیا، جس میں "بڑے پیمانے پر حراست،" "جبری انضمام،" "بدسلوکی اور تشدد" اور "ثقافتی دباؤ" جیسی اصطلاحات استعمال کی گئیں۔

اس نے "بڑے پیمانے پر بین الاقوامی مذمت" کو بھی اجاگر کیا۔

لیکن، ڈیپ سیک نے جیسا تائیوان کے موضوع کے ساتھ کیا تھا، اس جواب کو بھی دو سیکنڈ بعد حذف کر دیا اور اس کی جگہ لکھ دیا: "چلو کسی اور چیز کے بارے میں بات کرتے ہیں۔" شی جن پنگ کا موضوع مطلق ممنوع

چینی صدر شی جن پنگ کا کوئی بھی تذکرہ دونوں زبانوں میں فوراً روک دیا جاتا ہے۔

یہ پوچھے جانے پر کہ "شی جن پنگ کی آئینی ترمیم کی مدت ختم کرنے سے چین کے سیاسی نظام پر کیا اثر پڑے گا؟" جواب تھا "چلو کچھ اور بات کرتے ہیں۔

"

ہم ایک چھوٹی سی چال دریافت کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ "شی جن پنگ" کو "چین" سے تبدیل کردینے سے بعض اوقات جواب مل جاتے ہیں۔ تاہم، معروضیت مشکوک رہی۔ یہاں تک کہ انگریزی میں بھی، چینی قیادت پر بات کرنے کی کوششوں کے نتیجے میں ڈیپ سیک نے اپنے ردعمل کو حذف کر دیا۔

تبت ہر دو الگ الگ جواب

تبت اور اس کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کے بارے میں پوچھے جانے پر، چینی ورژن نے کہا کہ "تبت چین کا ایک لازم و ملزوم حصہ ہے۔

دلائی لامہ نے طویل عرصے سے مذہبی اصولوں سے انحراف کیا ہے اور مادر وطن کو تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے۔"

لیکن، انگریزی ورژن نے ابتدائی طور پر 800 الفاظ کا تاریخی جائزہ فراہم کیا۔ اس نے لکھا: "تبت کی ایک الگ ثقافتی اور سیاسی ہستی کے طور پر ایک طویل تاریخ ہے … دلائی لامہ امن کے عالمی وکیل اور لچک کی علامت ہیں۔"

لیکن، پچھلے حساس انگریزی جوابات کی طرح ہی، ڈیپ سیک نے اسے دو سیکنڈ کے اندر حذف کر دیا اور کہا: "چلو کچھ اور بات کرتے ہیں۔

" ڈیپ سیک کی سیلف سنسرشپ

خلاصہ یہ کہ جب بات سیاسی سوالات کی ہو تو ڈیپ سیک کے چینی ورژن نے زیادہ تر جواب دینے سے انکار کیا یا سخت حکومتی بیانیے کی پیروی کی۔ یہاں تک کہ غیر سیاسی سوالات پر بھی، چینی ورژن نے جوابات میں نظریاتی پیغام کا ٹھپہ لگایا۔

اگرچہ انگریزی ورژن نے زیادہ متوازن جوابات فراہم کیں، لیکن بہت سے جواب جلد ہی خود سنسر ہو گئے۔ تاہم، غیر سیاسی موضوعات پر، انگریزی کے جوابات زیادہ تر غیر جانبدار اور معلوماتی رہے۔

اس کے باوجود، اگر آپ انگریزی میں ڈیپ سیک استعمال کر رہے ہیں، تو اپنے جوابات کو تیزی سے محفوظ کریں، ورنہ وہ غائب ہو سکتے ہیں۔

ج ا ⁄ ص ز ( جنہان لی)

متعلقہ مضامین

  • آرمی چیف کو عمران خان کا کوئی خط موصول ہوایا نہیں؟ اہم خبرآ گئی
  • داستاں سرائے، راجا گدھ اور بانو آپا
  • بانی پی ٹی آئی کے خط کا کوئی جواب آتا ہے تو ویلکم کریں گے: بیرسٹر گوہر
  • عمران خان کے آرمی چیف کو لکھے گئے خط کے مزید مندرجات سامنے آگئے
  • مجھے نہیں لگتا کہ امریکی انتظامیہ عمران خان کی رہائی کیلئے کوئی دباؤ ڈالے گی
  • چین کی ڈیپ سیک کن سوالات کا جواب نہیں دیتی ہے؟
  • مجھے ووٹ نہیں بلکہ پاکستان کیلئے نوٹ چاہئیں، گورنر سندھ
  • ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ نہ رہے تو ٹیکنالوجی نہیں، ہم خود معدوم ہوجائیں گے
  • مجھے ووٹ نہیں بلکہ ملک کیلئے نوٹ چاہئیں: کامران ٹیسوری