ملتان کا ’’تھانیدار‘‘ اور کیا کرتا!
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
ملتان میں ہوا یہ ایک معمولی واقعہ تھا۔ ’’پروٹوکول‘‘ کے لیے پولیس نے روٹ لگایا ہوا تھا تاکہ کوئی غیر متعلقہ یا ممکنہ فسادی نہ گھس آئے اور شاہی سواری سیکیورٹی رسک بنے۔ اس دوران میں ایک 60 سالہ شخص موٹر سائیکل پر پروٹوکول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دکھائی دیا۔ موقع پر موجود ایس ایچ او شفیق نے روایتی طاقت کے ساتھ چلتے موٹر سائیکل پر اس کا گریبان پکڑا اورا سے زمین پر گرا دیا۔اس پر ہی بس نہیں کیا بلکہ مناسب ’’خاطرداری‘‘ کر کے پروٹوکول کی خلاف ورزی کا فوری سبق بھی سکھایا.
یہاں تک واقعہ بالکل ’’معمولی ‘‘اور’’ معمول‘‘ کے مطابق تھا لیکن ہوا کچھ یوں کہ کسی نے اس پورے واقعے کی وڈیو بنائی اور سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وڈیو تمام سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔
میں ایسی وڈیوز دیکھنے سے عموما گریز کرتا ہوں۔ تاہم اس پر نظر پڑ گئی، وڈیو دیکھ کر طبیعت انتہائی مکدر ہوئی لیکن اس کے ساتھ ہی ذہن میں یہ سوال بھی ابھرا کہ تھانیدار کے اس رویے کی تشکیل اور پرورش بھی تو کسی نے کی ہوگی؟ متعلقہ تھانیدار پولیس میں بھرتی ہوتے وقت یہ ذہن اور سوچ لے کر تو بھرتی نہیں ہوا ہوگا۔ ’’فرائض‘‘کی بجاآوری کے دوران سینیئرز اور حکمرانوں کی توقعات نے بھی تو اس رویے کی پرورش میں کردار ادا کیا ہوگا!
ہم نے بارہا پروٹوکول کا شاہانہ کروفر تمام بڑے شہروں میں دیکھا ہے۔ سیکیورٹی کے نام پر پروٹوکول کی ہیبت بٹھانے کے لیے مصروف شاہراؤں کو بند کر کے ہزاروں لوگوں کو بعض اوقات گھنٹوں زبردستی انتظار پر مجبور دیکھا۔ دہائیوں سے ہر چھوٹے بڑے حکمران اور انتظامی بابووں کی گاڑیوں پر پاکستانی پرچم اور آگے پیچھے ہوٹر بجاتی پروٹوکول کی گاڑیاں معمول رہا۔ ان کے گارڈز سڑکیں چیرتے اور لوگوں کو ان کی اوقات یاد دلاتے گزرتے دیکھے۔ ہمارے حکمران اور آئینی عہدوں کے سربراہوں کو پروٹوکول ایک استحقاق کے طور پر دستیاب رہا ہے۔
صاحبان اقتدار تو کیا وطن عزیز میں ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سربراہ نجی دورے پر تشریف لے جاتے تو صوبے کے وزیر اعلیٰ اور ان کی انتظامیہ کو ہدایت کرتے کہ ان کے پروٹوکول کا اہتمام کیا جائے، بلکہ تاکید مزید کے طور پر مرسیڈیز گاڑی کا بھی اصرار ہوتا۔ ان صاحب کے ہم آج تک بحالی تحریک کے مقروض ہیں۔ایک ان پر ہی کیا موقوف ہم نے کئی چھوٹے بڑے صوبائی اور وفاقی حکمرانوں کو سرکاری پروٹوکول کے لیے تڑپتے، الجھتے اور اہل اختیار سے درخواستیں کرتے دیکھا۔
سیاسی حکمرانوں، مضبوط آئینی اور انتظامی عہدوں پر متمکن لوگوں کے شاہانہ پروٹوکول کی ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر جہاں جہاں ممکن ہوا نجی شعبے کے لوگ بھی اس رنگ میں رنگے گئے۔ کئی نودولتئے کو وقت کے حکمرانوں کا قریب نصیب رہا ہے۔ انھیں سرکاری پروٹوکول بھی ملا کرتا تھا۔ ایک کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ موصوف عام مسافر کی طرف طرح ائر پورٹ جانے کو ہتک سمجھا کرتے تھے، ان سے پہلے پروٹوکول آفیسر ایئرپورٹ پہنچتا،سارے معاملات اوکے کرتھا، وہ فلائٹ سے چند منٹ پہلے پورے کروفر کے ساتھ ایئرپورٹ وارد ہوتے۔
پروٹوکول کے مظاہر لاہور، اسلام آباد اور کراچی انٹرنیشنل فلائٹس کے آتے اور جاتے وقت ایئرپورٹس پر دیکھے جا سکتے ہیں۔بڑے بڑے سرکاری و کاروباری اداروں کے سربراہان ،ان کی فیملیز اور دوست رشتہ دار، عام مسافروں کی لائن میں کھڑے ہونے کو توہین سمجھتے ہیں۔ سرکاری کارندوں کے ذریعے یا چند ہزار روپے سے خریدے ہوئے پروٹوکول کی مدد سے ایئرپورٹ پہنچتے ہی ان کا وی آئی پی سفر شروع ہو جاتا ہے۔ اب تو میڈیا رپورٹرز،ایڈیٹرز اور اینکر حضرات بھی پروٹول انجوائے کرتے ہیں۔ انٹرنیشنل فلائٹس کی آمد کے وقت پروٹوکول افسران اپنے اپنے مہمانوں کی تلاش میں ہانکے لگاتے یا پلے کارڈ لے کر کھڑے ہوئے اکثر دیکھے جا سکتے ہیں۔
جہاں دوسرے مسافر امیگریشن اور سامان حاصل کرنے کے لیے خود تردد کرتے ہیں، شاہانہ پروٹوکول حاصل کرنے والے اس دوران اپنا بریف کیس تک اٹھانا بھی گوارا نہیں کرتے۔ یہ تمام مناظر ہزاروں دیگر مسافر بھی دیکھ رہے ہوتے ہیں، لیکن انھیں ذرہ بھر شرم یا احساس ندامت کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ لوگوں کی چھبتی ہوئی نظروں کے مقابل پروٹوکول زدہ ان لوگوں کو سینہ تان کر اور فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ ہی دیکھا۔
ہم نے ایک بار ہانگ کانگ سے لاہور کی سفر میں ایک چشم کشا دو عملی کا مظاہرہ دیکھا۔ ہانگ کانگ بزنس لاونج میں دو پاکستانی مسافر داخل ہوئے ہاتھوں میں اپنے بریف کیس اور شاپنگ بیگ تھامے ہوئے۔ انھی مسافروں کو ہم نے بنکاک ایئرپورٹ پر بھی دیکھا، اپنا سامان اٹھاتے، جہاز میں رکھتے دیکھا۔تاہم جب لاہور ایئرپورٹ پر جہاز لینڈ کیا تو ان دونوں مسافروں میں یکایک انقلابی تبدیلی آئی۔جہاز کے دروازے کھلے تو سب سے پہلے وہ اپنی نشستوں سے کھڑے ہو گئے۔وہی سامان جو انھوں نے خود بنکاک ایئرپورٹ پر رکھا، اسے اٹھانے کے بجائے ساکت کھڑے رہے۔
چند ہی سیکنڈ میں دروازہ کھلنے کے بعد تین چار پروٹوکول افسران تیزی سے داخل ہوئے اور کھٹاک سے انھیں سلام کیا۔ انھوں نے اشارے سے سلام کا جواب دیا اور اسی اشارے سے سامان کی نشاندہی کی۔ آنے والوں نے تندہی سے ان کا سامان اٹھایا اور آئیں سر آئیں سر کی گردان کرتے ہوئے انھیں لے کر تیزی سے نیچے اتر گئے۔ لاہور ایئرپورٹ اترتے ہی ان کا سینہ پھول کر کم از کم چار انچ بڑھ گیا۔ پورے سفر میں جس سامان کو عام مسافر کی طرح انھوں نے اٹھایا اور رکھا، سرزمین وطن پر پاؤں پڑتے ہی پروٹوکول کا خناس ان کی نس نس میں داخل ہو گیا۔
سوشل میڈیا کی آگ بجھانے کے لیے فورا’’ ایس ایچ او شفیق‘‘ کی گرفتاری کا حکم جاری کیا گیا، حوالات میں بند اس کی فوٹیج کو اہمتام سے میڈیا پر دکھایا گیا۔ تاہم یہ سوال اپنی جگہ پر ہے کہ اگر وڈیو وائرل نہ ہوتی تو تھانیدار حوالات میں نہیں بلکہ شاید اپنے سینئیر سے شاباش وصول کر رہا ہوتا اور 60 سالہ موٹر سائیکل اپنے زخم سہلا رہا ہوتا۔ اصل مسئلہ یہی ہے کہ حکمرانوں اور اشرافیہ نے پروٹوکول کے حصول میں آج تک جو پولیس اہلکاروں سے توقع کیا، انھیں استعمال کیا، وہ پروٹوکول توڑنے والوں سے یہی سلوک روا رکھنے کو ڈیوٹی سمجھتے ہیں۔ اگر پروٹوکول واقعی ’’ ٹوٹ‘‘ جاتا تو بھی ایس ایچ او شفیق کی ہی شامت آنی تھی۔ وہ بے چارہ کرتا بھی تو کیا کرتا!
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پروٹوکول ا کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
ملائشیا میں خوفناک آتشزدگی سے درجنوں لوگوں کو بچانے والے 5 پاکستانی ہیروز کو خراج تحسین
کوالالمپور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 14 اپریل 2025ء)گزشتہ دنوں ملائشیا میں گیس پائپ لائن پھٹنے کے باعث گرد و نواح میں خوفناک آتشزدگی کے باعث درجنوں افراد نے قریبی نہر میں چھلانگ لگا دی ۔ ڈوبتے ہوئے لوگوں کو بچانے کے لیے پانچ پاکستانیوں نے یہ جانتے ہوئے بھی اس نہر میں چھلانگ لگادی کہ یہ نہر مگرمچھوں کی افزائش گاہ ہے ، ان پانچ پاکستانیوں نے درجنوں مقامی لوگوں اور بچوں کو صحیح سلامت واپس نکالا ۔ ان مناظر کو کچھ لوگوں نے ویڈیو میں بھی ریکارڈ کیا جس کے بعد یہ ویڈیوز ملائشیا بھر میں وائرل ہو گئیں اور ملائشیا کی ہر طبقہ فکر کے لوگوں نے پاکستانیوں کی اس بے لوث جرات کو خوب سراہا ۔ ان پاکستانیوں کو ملائشین میڈیا ، سوشل میڈیا پاکستان ہائی کمیشن اور کاروباری شخصیات نے خوب پزیرائی دی ۔(جاری ہے)
PFUJ ملائشیا اور پاکستان پریس کلب ملائشیا کے ممبران نے مائی پاک کمیونٹی ایسوسی ایشن کے تعاون سے گذشتہ شب ایک مقامی ریسٹورنٹ میں ان پانچوں ہیروز کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک تقریب منعقد کی ۔
جس میں پاکستانی کمیونٹی سے زیادہ ملائشین کمیونٹی کے افراد نے شرکت کی ۔ تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک اور نعت شریف سے ہوا۔ بعد ازاں ملائشیا اور پاکستان کے قومی ترانے چلائے گئے ۔ تقریب کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے سٹیج سیکرٹری کاظم علی شاہ نے حاضرین کو 5 پاکستانیوں کی بہادری کا پورا قصہ سناتے ہوئے اپنے جوش خطابت سے حاضرین کو گرماے رکھا ۔ بعد ازاں حاضرین محفل سے خطاب کرتے ہوے "Malaysia Pakistan Community Council " کے صدر داتو امین صدیق ، اور معروف بزنس مین اسلم بھائی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے ملائشیا میں پاکستانیوں کا امیج کچھ دھندلا تھا ، ان ہیروز کے بے لوث اور نڈر کارنامے کی وجہ مقامی لوگ ، ملائشیا میں مقیم پاکستانیوں کے حقیقی کردار کو بہتر طریقے سے دیکھ سکے ہیں ۔ اور دنیا کو یہ پیغام ملا ہے ، کہ جہاں مخلوق خدا مشکل میں ہو وہاں ایک پاکستانی اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اس کی مدد کرتا ہے ۔ ہم پوری کمیونٹی کی جانب سے اپنی جان خطرے میں ڈال کر انسانیت کی اس خدمت پہ آپکو سلام پیش کرتے ہیں ۔ پانچوں بہادر پاکستانیوں نے میڈیا ٹاک میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب ہم نے دیکھا کہ سامنے کی طرف آگ لگی ہے ، جس سے بچنے کے لیے لوگ نہر میں کود گئے ، جس میں کافی تعداد میں مگرمچھ ہوتے ہیں ، اور اس نہر سے بچوں سمیت درجنوں لوگ مدد کے لیے پکار رہے ہیں ، تو ہم نے اپنی جان کو اللہ کے سپرد کرکے نہر میں چھلانگ لگا دی ، ہم نے سوچا ہم شہید بھی ہوگئے تو دو چار جانیں بچا لیں گے ،یہ ہمارے لیے کافی ہے ۔ لیکن اللہ کی مدد سے ہم درجنوں لوگوں کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر صحیح سلامت نہر سے نکال کر لے آئے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں اس پذیرائی اور ایوارڈز کی توقع نہیں تھی ہم نے صرف رب کی رضا اور انسانیت کی خدمت کے لیے یہ اقدام کیا ۔ ۔PFUJ ملائشیا کے صدر اویس تاج چوہدری نے اپنے بیان میں ان بہادروں کے جذبہ انسانیت کو سراہا اور حکومت پاکستان سے اپیل کی کہ پاکستان کے شاندار تشخص کو پیش کرنے پہ ان ہیروز کو شایان شان طریقے سے سراہا جائے ۔ تقریب گاہ بار بار پاکستان زندہ باد اور پاک ملائشیا دوستی زندہ باد کے نعروں سے گونجتی رہی ۔ منتظمین کی جانب سے پانچوں ہیروز کے لیے متعدد انعامات اور تعریفی اسناد بھی دی گئیں ۔