پیکا ایکٹ میں ترامیم سپریم کورٹ میں چیلنج
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
سپریم کورٹ آف پاکستان میں پیکا ایکٹ میں ترامیم کے خلاف درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ حالیہ ترمیم بنیادی انسانی حقوق اور آئین سے متصادم ہے، پیکا ایکٹ کی شقیں آزادی اظہار رائے کے بنیادی حق کے برخلاف ہیں، پیکا ایکٹ کو جعلی اسمبلی نے پاس کیا، جعلی اسمبلی کے منتخب صدر نے توثیق کی۔ اسلام ٹائمز۔ پیکا ایکٹ میں ترامیم سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کر دی گئی۔ پیکا ایکٹ میں ترمیم کے خلاف درخواست شہری محمد قیوم خان کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں دائر کی گئی، درخواست میں صدر پاکستان، سپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین سینیٹ اور سیکرٹری قانون کو فریق بنایا گیا ہے۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ پیکا ایکٹ میں حالیہ ترمیم بنیادی انسانی حقوق اور آئین سے متصادم ہے، پیکا ایکٹ کی شقیں آزادی اظہار رائے کے بنیادی حق کے برخلاف ہیں، پیکا ایکٹ کو جعلی اسمبلی نے پاس کیا، جعلی اسمبلی کے منتخب صدر نے توثیق کی۔ دائر درخواست میں پیکا ایکٹ میں کی گئی ترامیم کالعدم قرار دینے اور پیکا ترامیم کے خلاف سماعت کیلئے فل کورٹ بنچ تشکیل دینے کی استدعا بھی کی گئی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ فل کورٹ نہ صرف ترامیم بلکہ اصل پیکا ایکٹ کا بھی بنیادی انسانی حقوق کی روشنی میں جائزہ لے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: پیکا ایکٹ میں درخواست میں جعلی اسمبلی
پڑھیں:
پیکا ایکٹ میں ترامیم
تجزیہ ایک ایسا پروگرام ہے جسمیں تازہ ترین مسائل کے بارے نوجوان نسل اور ماہر تجزیہ نگاروں کی رائے پیش کیجاتی ہے۔ آپکی رائے اور مفید تجاویز کا انتظار رہتا ہے۔ یہ پروگرام ہر اتوار کے روز اسلام ٹائمز پر نشر کیا جاتا ہے۔ متعلقہ فائیلیںہفتہ وار تجزیہ انجم رضا کے ساتھ
موضوع: پیکا ایکٹ میں ترامیم صحافتی حلقے سراپا احتجاج
حکومت اپوزیشن مذاکرات معطل
مہمان: تصور حسین شہزاد (تجزیہ نگار، صحافی، بلاگر)
میزبان و پیشکش: سید انجم رضا
تاریخ: 4 فروری 2025
خلاصہ گفتگو و اہم نکات:
پیکا ایکٹ
صحافتی حلقے سمجھتے ہیں کہ پیکا ایکٹ آزادی صحافت پہ قدغن لگانے کی کوشش ہے
صحافتی تنظیمیں اور اپوزیشن اس کو کالا قانون، آزادی اظہار رائے اور میڈیا پر حملہ قرار دے رہی ہیں
پاکستان کے سیاسی سماجی اور صحافتی حلقے اس قانون کے بے جا استعمال کے خدشات رکھتے ہیں
حکومت کا یہ کہنا ہے کہ سوشل میڈیا انفلوئنسرز اور یوٹیوبرز کو ریگولیٹ کرنا ضروری ہے۔
پیکا ترمیمی بل میں ایک طرف نئی ریگولیٹری اتھارٹی، ٹربیونل اور نئی تحقیقاتی ایجنسی کے قیام، اختیارات اور فنکشنز کا ذکر ہے
سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کیلئے سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کے نام سے اتھارٹی قائم کی جائے گی
سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی چیئرمین اور 8 ممبران پر مشتمل ہوگی۔
بل کے مطابق نیک نیتی سے کیے گئے اقدامات اور فیصلوں پر اتھارٹی، حکومت یا کسی شخص پر مقدمہ یا کوئی کارروائی نہیں کی جا سکے گی۔
بل کے تحت نیشنل سائبر کرائم ایجنسی قائم کی جائے گی جو اس بل کے تحت انویسٹی گیشن اور پراسیکیوشن کرے گی
اراکین پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلیوں، عدلیہ، مسلح افواج سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنا بھی قابل گرفت ہوگا
ریاستی اداروں کے خلاف پرتشدد کاروائیوں اور دہشتگردی کو حوصلہ افزائی کرنے والا مواد بھی غیر قانونی ہوگا۔
کالعدم تنظیموں کے سربراہان اور نمائندوں کے بیانات کسی بھی طرز پر نشر کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
حکومت اپوزیشن مذاکرات
تحریکِ انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا عمل اس وقت بظاہر بند گلی میں داخل ہو گیا
پی ٹی آئی نے تحریری طور پر حکومت سے نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات کے حوالے سے سات روز میں جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔
پی ٹی آئی نے حکومت پر واضح کر دیا تھاکہ وہ مذاکرات کے چوتھے دور میں اس وقت تک حصہ نہیں لے گی جب تک عدالتی کمیشن کے قیام کا بنیادی مطالبہ مقررہ مدت میں پورا نہیں ہوتا۔
پی ٹی آئی کے فیصلے عمران خان کرتے ہیں جن کی ہدایات حتمی ہوتی ہیں اور پارٹی کا کوئی رکن ان میں تبدیلی نہیں کرسکتا۔