فلسطین و کشمیر۔۔۔ لیلیٰ خالد سے مقبول بٹ تک
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
اسلام ٹائمز: فلسطین و کشمیر کی جدید تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش باب لیلیٰ خالد اور مقبول بٹ جیسے مزاحمت کاروں نے اپنی جدوجہد سے رقم کیا ہے۔ انکی جدوجہد کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ ظالموں کے مقابلے میں مقاومت اور مزاحمت صرف زمینوں کو آزاد کرانے کیلئے ہی نہیں بلکہ دماغوں اور سینوں میں افکار و نظریات کو زندہ رکھنے کیلئے بھی ضروری ہے۔ زمینوں کی آزادی کی مانند افکار و نظریات بھی آزادی چاہتے ہیں۔ افکار و نظریات کی آزادی کی جدوجہد کے راستے میں گزرنے والا ہر لمحہ وہ بیج ہے، جس سے ظلم کی تیز آندھی کا مقابلہ کرنے کیلئے مقاومت اور مزاحمت کے دیوقامت درخت اُگتے ہیں۔ آزادی کی جو بھی قسم اور شکل ہو، اس کیلئے جدوجہد عام لوگوں کا کام نہیں بلکہ یہ صرف وہی کرسکتے ہیں، جنکے دماغ آفاق کی طرح وسیع اور دل پہاڑوں کی طرح مضبوط ہوں۔ تحریر: نذر حافی
کسے خبر تھی کہ 1944ء میں حیفہ میں متولد ہونے والی لیلی خالد 1948ء میں "نکبہ" کے دوران مہاجر ہو جائے گی۔ مہاجرین کے کیمپوں میں پلنے والی لیلی خالد اپنی زندگی میں صرف ایک مرتبہ دوبارہ سے حیفہ کو دیکھ سکیں، وہ بھی تب کہ جب 1969ء میں انہوں نے اپنے ہائی جیک کیے گئے طیارے کے پائلٹ کو حیفہ کے اوپر سے گزرنے کا حکم دیا۔ وہ کہتی ہیں کہ میں مہاجرین کے کیمپ میں ہمیشہ یہ سوچتی تھی کہ ہم کیوں ایسی زندگی بسر کر رہے ہیں؟ فلسطین لبریشن فرنٹ کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچانے والی لیلی خالد نے لبنان کے ایک پناہ گزین کیمپ میں اپنا بچپن گزارا۔ راقم الحروف نے لیلی خالد کے افکار و نظریات کا مطالعہ کیا تو یہ سمجھا کہ ہر انسان کی زندگی یہ طے کرتی ہے کہ وہ کون ہے؟ زندگی میں مثبت اور منفی دونوں طرح کے واقعات پیش آتے ہیں۔ ہر واقعے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے آپ سے پوچھئے کہ میں اس واقعے سے کیا سیکھ سکتا ہوں؟ اسی طرح مختلف سیاسی، مذہبی، سماجی اور معاشی تحریکیں بھی ہمارے بارے میں یہ طے کرتی ہیں کہ ہم کون ہیں؟ ہمارے شعور کی سطح کیا ہے؟ ہمارا وژن کیا ہے۔؟
آج بھی دنیا بھر میں ساٹھ لاکھ سے زائد فلسطینی پناہ گزین اس دن کا انتظار کر رہے ہیں، جب وہ اپنے ملک واپس جا سکیں اور اپنی ہی چھت کے نیچے ایک رات گزار سکیں۔ ذرا تصوّر کیجئے کہ جب مغوی طیارہ مقبوضہ فلسطین کے اوپر سے گزر رہا ہوگا تو لیلیٰ خالد اور دیگر فلسطینیوں کے دل پر کیا گزری ہوگی۔؟ طیارہ اُن علاقوں کے اوپر سے پرواز کر رہا تھا، جو ان فلسطینیوں کی جائے پیدائش اور ان کے آباؤ اجداد کی ملکیت تھے، لیکن اب وہ انہیں دیکھنے کو ترس رہے تھے۔ انہیں ان علاقوں پر قدم رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس کے بعد لیلیٰ گرفتار ہوئی اور پھر ایک ایسے ہی معرکے کے نتیجے میں اُسے رہائی ملی اور رہائی کے بعد اُس نے پھر سے ایک اور طیارہ اغوا کیا۔ اگلے سال، لیلیٰ خالد نے نکاراگون کے جنگجو پیٹرک ارگولو کے ساتھ ایک اور ہائی جیکنگ آپریشن میں حصہ لیا۔
اس آپریشن میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے لیے اسرائیلی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے ایک ساتھ چار طیاروں کو ہائی جیک کیا جانا تھا۔ دوسری مرتبہ لیلیٰ خالد زخمی ہوگئی اور اس کا ساتھی گولی لگنے سے دم توڑ گیا۔ ہوا کچھ یوں کہ جب دو ہائی جیک طیارے اردن کے ایک صحرا میں اترے تو ایک پھٹ گیا اور دوسرا جس میں لیلیٰ موجود تھی، کو پولیس نے پکڑ لیا۔ اچانک اردن کے دارالحکومت عمان کے ہوائی اڈے کے کنٹرول ٹاور نے اعلان کیا کہ بحرین سے بیروت جانے والے ایک برطانوی طیارے کو ہائی جیک کر لیا گیا ہے اور وہ دو دیگر طیاروں کے ساتھ لینڈ کرنے کی درخواست کر رہا ہے۔ کیا کسی کو معلوم تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔؟ ہائی جیکر بھی حیران رہ گئے۔
منصوبے کے مطابق چار طیارے ہائی جیک کر لیے گئے تھے اور کوئی پانچواں طیارہ ایجنڈے میں شامل نہیں تھا۔ پھر یہ پانچواں طیارہ کہاں سے آگیا؟بحرین میں کام کرنے والا ایک فلسطینی کارکن۔ لیلیٰ کی گرفتاری کی خبر سنتے ہی وہ ایکشن میں آیا اور اکیلے ہی اس نے ایک طیارہ ہائی جیک کر لیا، اُس نے اغوا کیے گئے طیارے کے مسافروں کی رہائی کے بدلے لیلیٰ خالد کی رہائی کا مطالبہ شروع کر دیا۔ لیلیٰ خالد نے 28 دن برطانوی پولیس کی حراست میں گزارے۔ بعد ازاں برطانیہ کے وزیراعظم نے اسے پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین کے مغربی یرغمالیوں کے بدلے رہا کر دیا۔ دو سال بعد، پیپلز لبریشن فرنٹ آف فلسطین (PFLP) نے ہائی جیکنگ کو اپنے ایجنڈے سے نکال دیا اور اس پر پابندی لگا دی۔ لیلیٰ نے بھی فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کو نئی ہمت اور حوصلے سے جاری رکھا۔
لیلیٰ خالد نے پہلی مرتبہ 29 اگست 1969ء کو ایک اسرائیلی طیارہ اغوا کرکے دمشق ائیرپورٹ پر اُتارا۔ وہ پندرہ سال کی عمر سے ہی فلسطین کی آزادی کیلئے مرنے یا مارنے کا ارادہ کرچکی تھیں۔ کسی نوجوان لڑکی کا ایسا سوچنا عام حالات میں ممکن نہیں۔ البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب قبضہ ہوتا ہے تو پھر مزاحمت بھی ہوتی ہے۔ یہ مزاحمت ایک دور سے دوسرے دور اور ایک شکل سے دوسری شکل میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔ 5 فروری یومِ یکجہتی کشمیر کے عنوان سے مجھے مقبول بٹ شہید کی یاد آئی۔ مانا کہ اب ۵5 فروری میں اب پہلے سا رنگ نہیں رہا۔ یاد رکھیں کہ جب تحریکیں اپنا اصلی رنگ کھونے لگتی ہیں تو مقبول بٹ اور لیلیٰ خالد جیسے کردار ابھرنے لگتے ہیں۔
1969ء میں لیلیٰ خالد نے فلسطین کاز کیلئے اسرائیلی طیارہ اغوا کیا اور 1971ء میں مقبول بٹ کے ساتھیوں نے کشمیر کاز کیلئے ہندوستانی ائیرلائن کا "گنگا طیارہ" اغوا کرکے لاہور پاکستان لایا۔ اس وقت ساری دنیا کی نظریں مشرقی پاکستان کے خلفشار پر مرکوز تھیں۔ انڈین طیارہ اغوا کرنے والے دونوں کشمیری نوجوانوں کی عمریں انتہائی کم تھیں، ہاشم قریشی کی صرف ساڑھے سترہ سال اور اشرف قریشی 19 سال کے تھے۔ اس اغوا کا پسِ منظر یہ ہے کہ 1928ء میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین اور تحریکِ آزادی کشمیر کے روح رواں مقبول بٹ کو انڈیا نے سزائے موت سنائی تو وہ جیل توڑ کر آزاد کشمیر پہنچ گئے۔ اس کے تھوڑے دنوں کے بعد ایک سولہ سال کا نوجوان ہاشم قریشی اپنے عزیزوں سے ملنے پاکستان آیا اور اس دوران اس کی ملاقات مقبول بٹ سے ہوئی۔ وہ مقبول بٹ کے افکار سے متاثر ہوا اور وہ واپس مقبوضہ کشمیر چلا تو گیا، لیکن وہ پھر غیر قانونی (آف دی ریکارڈ) طریقے سے پاکستان مقبول بٹ سے ملنے لوٹا۔
18 جون 1969ء کو ہاشم قریشی، امان ﷲ خان، ڈاکٹر فاروق حیدر اور مقبول بٹ کی ملاقات راولپنڈی میں ہوئی۔ یہ ڈاکٹر فاروق حیدر کا گھر تھا، جہاں اچانک اریٹریا کی آزادی کیلئے لڑنے والے تین نوجوانوں کی ایک خبر نشر ہوئی۔ انہوں نے کھانے سے ہاتھ کھینچ کر یہ خبر سُننا شروع کر دی کہ ایتھوپیا کے مسافر طیارے پر تین نوجوانوں نے ہینڈ گرنیڈ اور ٹائم بموں سے حملہ کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ ان دنوں ایتھوپیا کا اریٹریا پر قبضہ تھا اور وہاں آزادی کی تحریک جاری تھی۔ مقبول بٹ نے اُسی وقت یہ کہا کہ ہمیں بھی اپنی آزادی کی صدا اقوامِ عالم تک پہنچانے کیلئے کچھ ایسا ہی کرنا چاہیئے۔ یہیں سے اس منصوبے پر کام شروع ہوا اور ایک کھلونا پستول اور لکڑی سے گرنیڈ کی طرح کا ایک کھلونا بنا کر 30 جنوری 1971ء کو ہفتے کے دن سرینگر سے جموں جانے والے انڈین طیارے کو اغوا کر لیا گیا۔
کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ ان دونوں نوجوانوں کے پاس پستول اور گرنیڈ کے بجائے کھلونے ہیں۔ بالاخر جہاز کو پاکستان میں لاہور ائیرپورٹ پر اتارا گیا۔ لاہور میں جب ہائی جیکروں سے ان کے مطالبات پوچھے گئے تو انہوں نے کہا کہ ہماری یہ کارروائی فقط کشمیر کی آزادی کیلئے ہے۔ انہوں نے یہ کہا اور دو گھنٹے کے اندر ہی تمام عورتوں اور بچوں کو رہا کر دیا۔ کچھ ہی دیر میں انہوں نے دیگر مسافروں کو بھی جانے دیا۔ اشرف قریشی کے مطابق اس کے بعد ان کی مقبول بٹ سے مختصر ملاقات کرائی گئی، جس میں مقبول بٹ نے ان سے کہا کہ آپ لوگ جہاز کے شیشے توڑ کر نیچے آجائیں، چونکہ جہاز کی مرمت کو چار سے پانچ روز لگیں گے اور اس دوران روزانہ کشمیر کاز کی خبر دنیا تک پہنچتی رہے گی۔
وہ کہتے ہیں کہ جیسے ہی ملاقات کے بعد وہ باہر نکلے تو سکیورٹی اہلکار آگے بڑھے، خاص طور پر ایس ایس پی لاہور عبد الوکیل نے ہاشم قریشی سے کہا کہ مقبول بٹ نے طیارے کو آگ لگانے کیلئے پیٹرول بھیجا ہے۔ ہاشم قریشی یہ نہیں سوچ سکتے تھے کہ یہ لوگ ان سے جھوٹ بولیں گے۔ یوں انہوں نے اسّی گھنٹے تک جہاز پر قبضہ رکھنے کے بعد اُسے پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں کے کہنے پر جلا دیا۔ یوں اس طیارے کو جلانے کے پیچھے کئی اسباب ہوسکتے ہیں، لیکن ایک اہم سبب ہمارے سکیورٹی اداروں کا اپنے فرائضِ منصبی سے جان چھڑانے کا رویّہ بھی ہے۔ جیسا کہ لیاقت علی خان کے قاتل کو خود ہی قتل کر دینا اور پاکستان میں اکثر "خودکش حملہ آوروں" کے دھماکے میں ہی اُڑ جانے کی رپورٹ بنا دینا وغیرہ وغیرہ۔۔۔ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔۔۔
قابض فورسز لیلیٰ خالد اور مقبول بٹ کو دہشت گرد کہتی ہیں۔ یہی سوال جب لیلیٰ خالد سے کہا گیا کہ قابض طاقتیں آپ کو دہشت گرد کہتی ہیں، اس بارے آپ کیا کہیں گی۔؟ لیلی خالد نے جواب میں کہا کہ دہشت گردی کا مطلب ناجائز قبضہ کرنا ہے۔ ہر روز آپ فلسطین میں لوگوں کے قتل کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ روزانہ اسرائیلی فوج فلسطینیوں کو گولیاں مار رہی ہے۔ صحافیوں کو سچی رپورٹنگ کرنے پر قتل کیا جا رہا ہے۔ دہشت گردی یہ ہے کہ ہماری زمین، پانی اور گھروں کو لوٹ لیا گیا اور قبضہ کرنے والوں نے زبردستی ہمیں ہجرت پر مجبور کیا۔ صیہونی غنڈوں نے اپنی بستیوں کی تعمیر کے لیے ہمارا قتل عام کیا اور اناً فاناً جنت نظیر 465 فلسطینی بستیوں کو کھنڈر بنا دیا۔ دہشت گرد تو وہ لوگ ہیں، جو یہ سب کر رہے ہیں جبکہ ہم تو اپنی مقبوضہ سرزمین کو آزاد کرانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ لیلیٰ خالد کی اسی گفتگو میں اُن لوگوں کیلئے بھی جواب موجود ہے، جو مقبول بٹ شہید کو دہشت گرد کہتے ہیں۔
فلسطین و کشمیر کی جدید تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش باب لیلیٰ خالد اور مقبول بٹ جیسے مزاحمت کاروں نے اپنی جدوجہد سے رقم کیا ہے۔ ان کی جدوجہد کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ ظالموں کے مقابلے میں مقاومت اور مزاحمت صرف زمینوں کو آزاد کرانے کیلئے ہی نہیں بلکہ دماغوں اور سینوں میں افکار و نظریات کو زندہ رکھنے کیلئے بھی ضروری ہے۔ زمینوں کی آزادی کی مانند افکار و نظریات بھی آزادی چاہتے ہیں۔ افکار و نظریات کی آزادی کی جدوجہد کے راستے میں گزرنے والا ہر لمحہ وہ بیج ہے، جس سے ظلم کی تیز آندھی کا مقابلہ کرنے کیلئے مقاومت اور مزاحمت کے دیوقامت درخت اُگتے ہیں۔ آزادی کی جو بھی قسم اور شکل ہو، اس کیلئے جدوجہد عام لوگوں کا کام نہیں بلکہ یہ صرف وہی کرسکتے ہیں، جن کے دماغ آفاق کی طرح وسیع اور دل پہاڑوں کی طرح مضبوط ہوں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مقاومت اور مزاحمت اور مقبول بٹ کی آزادی کی طیارہ اغوا ہاشم قریشی کر رہے ہیں نہیں بلکہ کی جدوجہد طیارے کو ہائی جیک انہوں نے خالد اور کے بعد ا اغوا کر طیارہ ا خالد نے اور اس کر دیا کہا کہ کی طرح کیا ہے
پڑھیں:
سید حسن نصر اللہ کی جدوجہد
سید حسن نصر اللہ تاریخ کی ایک ایسی شخصیت اور کردار کا نام ہے جس کے بارے میں دوست اور دشمن دونوں ہی معترف ہیں کہ انھوںنے دنیا کے حالات پر اپنا ایک خاص نقش چھوڑا ہے۔ دنیاآپ کو لبنان کی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سربراہ کی حیثیت سے جانتی تھی۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ جس طرح سید حسن نصر اللہ دوستوں اور چاہنے والوں کے درمیان شہرت اور عزت کا اعلیٰ مقام رکھتے ہیں اسی طرح دشمن بھی ان کی ان صلاحیتوں کا اعتراف کرتا ہے۔حسن نصر اللہ نے جس زمانے میں لبنان میں آنکھ کھولی اور ہوش سنبھالا تو یہ وہ زمانہ تھا جب ہر طرف ظلم کا دور تھا۔
جس وقت حسن نصر اللہ جوانی کو پہنچے تھے اس وقت تک لبنان کئی ایک داخلی جنگوں کے بعد آخر کار صہیونی غاصبانہ تسلط کا شکار ہو چکا تھا۔ سید حسن نصر اللہ کہ جن کا تعلق ایک دینی اور علمی گھرانے سے تھا ہر گز اس بات کو قبول نہ کر سکے کہ لبنان کی آزادی پر کوئی حرف آئے۔
حسن نصر اللہ ابتدائی ایام میں لبنانی جوانوں کی متحرک تحریک امل میں شامل رہے اور امام موسی صدر کی قیادت میں لبنان میں صیہونی دشمن کے قبضہ کے خلاف جدوجہد میں شریک رہے۔ اسی طرح جب 1982میں باقاعدہ حزب اللہ قائم کی گئی تو سید حسن نصر اللہ نے حزب اللہ میں شمولیت اختیار کر لی۔
مسئلہ فلسطین ایک ایسا مسئلہ ہے جو پوری امت مسلمہ کے لیے متفقہ مسئلہ ہے۔ یہی وہ مسئلہ ہے کہ جس کے ذریعہ مسلم امہ کو متحد کیا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کے چاہے کس قدر اختلافات موجود ہوں لیکن جب بات قبلہ اول بیت المقدس کی آتی ہے تو سب مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ ہم سب ایک ہیں۔
سید حسن نصر اللہ نے بھی القدس کی آزادی کے راستے میں عملی جدوجہد کی اور یہاں تک کہ اپنی جان قربان کر کے ثابت کیا کہ مسلمان ایک ہیں اور قبلہ اول کی آزادی اور فلسطینی عوام پر ہونے والے اسرائیلی مظالم کے خلاف ایک زبان اور ایک جان ہیں۔
سید حسن نصر اللہ کی شخصیت نے فلسطین کاز کے لیے سرگرم تحریکوں کو باہمی یکجہتی کے رشتہ میں جوڑنے میں اہم کردار کیا۔ انھوںنے 2006 میں غاصب صیہونی حکومت کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کی اور مسلم دنیا میں ان کو مزید عزت اور حمایت حاصل ہوئی۔
انھوںنے فلسطین کی تمام مزاحمتی تنظیموں کو باہمی ارتباط کی لڑی میں پرو ہنے کا کام انجام دیا اور ایک ایسا رابطہ اور تعلق قائم کیا جس میں وحدت اور یکجہتی قائم تھی۔ ان کی یہ تمام تر کوششیں اور جدوجہد وحدت اسلامی کا پیغام دیتی ہے کیونکہ انھوںنے فلسطین جیسے اہم مسئلہ پر مسلم امہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس بات کا ادراک کروایا کہ ہم سب کے اتحاد او وحدت کے بغیر قبلہ اول آزاد نہیں ہو گا۔ یہ سید حسن نصر اللہ ہیں کہ جنھوںنے اپنی تقریروں اور اپنے عمل سے مسلم دنیا کو یہ باور کروایا ہے کہ القدس کی آزادی کی چابی مسلم امہ کے اتحاد میں ہے۔
سید حسن نصر اللہ چونکہ لبنان کے ایک ایسے معاشرے میں موجود رہے کہ جہاں سنی، شیعہ، عیسائی ، دروز اور اسی طرح مسلمانوں کے متعدد فرقو ں پر مبنی سوسائٹی موجود ہے۔ ایسے معاشرے میں انھوںنے حزب اللہ کی 32سال تک قیادت سنبھالی اور سات اکتو بر کے بعد شروع ہونے والی جنگ میں اپنی جان بھی فلسطین کاز کے لیے قربان کر دی۔سید حسن نصر اللہ ایک ایسی تاریخ ساز شخصیت کا نام ہے کہ جس نے ہمیشہ مسلم امہ کو داخلی انتشار اور اختلافات سے نکالنے کی کوشش جاری رکھی کیونکہ سید حسن نصر اللہ اس بات پر مضبوطی سے یقین رکھتے تھے کہ مسلمانوں کو آپس میں الجھنے اور اختلافات کو ہوا دینے کے بجائے متحد ہو کر مسلمانوں کے مشترکہ دشمنوں امریکا اور اسرائیل کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ انھوںنے ہمیشہ اس اتحاد کو فلسطین کی آزادی کی کلید سے تشبیہ دی۔
سید حسن نصر اللہ مسلمانوں کے مابین اتحاد کو قائم کرنے کے لیے مسئلہ فلسطین کو انتہائی نوعیت کی اہمیت دیتے تھے اور یقین رکھتے تھے کہ فلسطین کی آزادی تمام مسلمانوں کی ذمے داری ہے اور یہ ذمے داری وحدت اور اتحاد کے بغیر انجام نہیں دی جا سکتی۔سید حسن نصر اللہ نے فلسطین کا زکی حمایت صرف اس لیے انجام دی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ مسلمانوں کی سب سے اہم ذمے داری ہے۔فلسطین کی حمایت کو کسی ایک فرقہ یا قوم و مسلک کا مسئلہ نہیں سمجھتے تھے۔
سید حسن نصر اللہ کی زندگی بھر میں مسلمانوں کے اتحاد کے لیے کی جانے والی کوششیں یقینا قابل قدر ہیں۔ ایک اور اہم کوشش یہ ہے کہ انھوںنے فلسطین کی عسکری تنظیموں کی معاونت کی اور فلسطینی تنظیموں تک جدید ٹیکنالوجی اور عسکری مدد پہنچانے کو ہمیشہ اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہوئے انجام دیا۔ ان کی یہ مدد اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ وہ فرقوں اور مسالک کی قید سے آزاد ایک بلند و بالا مقام کے انسان تھے کہ جن کی پوری زندگی مسلم امہ کی ترقی اور کامیابیوں کے لیے صرف ہوئی اور اسی لیے آج ہم کہہ سکتے ہیں کہ سید حسن نصر اللہ کا مسلم امہ کے اتحاد کے لیے کردار ایک بے مثال کردار ہے جس کو تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کا جا سکتا۔
سید حسن نصر اللہ نے اپنی اس عملی جدوجہد سے اور شہادت کے عظیم رتبہ سے ثابت کیا ہے کہ مسلم امہ کے اتحاد اور خاص طور پر ہمارے مشترکہ مسئلہ فلسطین کے لیے ہر چیز کو قربان کیا جا سکتا ہے اور انھوںنے خود اپنی جان کو قربان کر کے دنیا بھر کے لوگوں کو سوگوار کیا ہے لیکن اصو ل پر سمجھوتہ نہیں کیا۔
سید حسن نصر اللہ دنیا بھر کی باعزت اور حریت پسند اقوام کے درمیان ایک چمکتا ہوا ستارہ رہیں گے اور آنے والی نسلوں کی تربیت کرتے رہیں گے اور مسلم امہ کے اتحاد کے لیے جہاں ان کی زندگی میں کوشش جاری رہی اب ان کی شہادت کے بعد آنے والی نسلوں کے ذریعہ یہ مشن اور کاز جاری رہے گا۔
خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا اتحاد آج اسلامی تعلیمات کے مطابق وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔مسلمانوں کا اتحاد قرآنی تعلیمات کے مطابق دین کا ستون قرار دیا گیا ہے۔موجودہ دور میں جہاں مسلم دنیا کو آج فرقہ واریت ، استعماری طاقتوں کی غنڈہ گردی، داخلی تنازعات اور دیگر سنگین چیلنجز کا سامنا ہے ، ایسے حالات میں سید حسن نصر اللہ جیسی شخصیات کی اشد ضرورت ہے اور اب وہ چونکہ شہید ہو چکے ہیں تو ان کی تعلیمات کو اپنانے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی اشد ضرورت ہے کہ جس کی مدد سے سید حسن نصر اللہ کے مشن اتحاد بین المسلمین کو زندہ رکھا جائے۔