پاکستان اور سعودی عرب حکومتی اداروں کے آڈٹ کے شعبہ میں زیادہ قریبی تعاون کریں گے، معاہدہ ہو گیا
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
سٹی42: پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان پبلک سیکٹر آڈیٹنگ میں تعاون بڑھانے کے معاہدے پر دستخط ہو گئے ہیں،اس معاہدہ کے تحت دونوں ممالک کے آڈٹ اداروں کے درمیان تعاون بڑھانے کے ساتھ ساتھ تربیتی پروگراموں اور ٹرینرز کے تبادلے کے ذریعے پبلک سیکٹر آڈیٹنگ میں تعاون بڑھائیں گے۔ اس معاہدہ کے بعد سعودی عرب منی لانڈرنگ سے متعلقہ جرائم کی تحقیقات اور دیگر متعلقہ مراحل میں پاکستان کی زیادہ انسٹی ٹیوشنلائزڈ مدد کرے گا۔
ایچ بی ایل پی ایس ایل 10 کے لوگو کی رونمائی
یہ پیش رفت سعودی جنرل کورٹ آف آڈٹ کے وفد کے دورہ پاکستان کے دوران ہوئی ہے، جس کی قیادت حسام بن عبدالمحسن الانگاری کر رہے تھے۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے ترجمان نے بتایا کہ دونوں فریقوں نے آڈٹ کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے تربیتی پروگراموں، ٹرینرز کے تبادلے پر تعاون کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب نے دونوں ممالک کے آڈٹ اداروں کے درمیان تعاون بڑھانے کے ساتھ ساتھ تربیتی پروگراموں اور ٹرینرز کے تبادلے کے ذریعے پبلک سیکٹر آڈیٹنگ میں تعاون بڑھانے کے لیے مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کیے ہیں،۔
یومِ یکجہتیِ کشمیر کے پوسٹر وہاں لگ گئے جہاں توقع نہ تھی
پیر کو AGP محمد اجمل گوندل کی سعودی مندوبین کے ساتھ ملاقات کے دوران معاہدے پر دستخط کیے گئے، جس کا مقصد آڈٹ تعاون کو مضبوط بنانا، علم کے تبادلے کو بڑھانا اور گورننس کو بہتر بنانا، سرکاری اخراجات میں شفافیت اور جوابدہی شامل ہے۔
سعودی نیوز آؤٹ لیٹ عرب نیوز کے مطابق اے جی پی کے دفتر کے تعلقات عامہ کے افسر محمد رضا عرفان نے عرب نیوز کو بتایا کہ یہ معاہدہ نہ صرف دونوں ممالک کے آڈیٹنگ اداروں کے درمیان پیشہ ورانہ تعلقات کو مضبوط کرے گا بلکہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دو طرفہ تعاون کو مزید فروغ دے گا۔
لاہور؛268 ٹریفک حادثات میں 309 افراد زخمی
اے جی پی گوندل نے کہا کہ "یہ تعاون آڈیٹنگ میں بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔"
"خیالات اور طریقہ کار کا تبادلہ بلاشبہ ابھرتے ہوئے چیلنجوں سے نمٹنے اور عوامی احتساب کے لیے نئے معیارات قائم کرنے کی ہماری صلاحیت کو مضبوط کرے گا۔"
اے جی پی آفس کے مطابق، پیر کی میٹنگ میں پاکستان اور سعودی عرب کے سپریم آڈٹ اداروں کے درمیان قریبی تعلقات کو فروغ دینے، جدید آڈٹ کے طریقوں کا اشتراک کرنے اور مستقبل کے لیے باہمی تعاون کے اقدامات کی منصوبہ بندی پر توجہ مرکوز کی گئی۔
مغربی کنارے میں اسرائیلی چوکی پر حماس کا حملہ، دو فوجی ہلاک، آٹھ زخمی
دونوں فریقوں نے آڈٹ کے معیارات، کارکردگی کے آڈٹ، اور شہریوں کی شراکتی آڈٹ میں بہترین طریقوں کا اشتراک کرنے اور موضوعاتی، ماحولیاتی اور اثرات کے آڈٹ میں مہارت کو بڑھانے پر اتفاق کیا۔
بیان میں کہا گیا کہ "اس نے تربیتی پروگراموں، ٹرینرز کے تبادلے، ابھرتے ہوئے آڈیٹنگ چیلنجوں سے نمٹنے اور کوآپریٹو آڈٹ کی منصوبہ بندی کرنے پر بھی اتفاق کیا، جس میں 2025 میں تیل اور گیس کے شعبے پر کارکردگی کا آڈٹ بھی شامل ہے"۔
دونوں اطراف نے پبلک سیکٹر آڈیٹنگ میں شفافیت، جوابدہی اور بہترین کارکردگی کو فروغ دینے کے لیے اپنے مشترکہ عزم کا اعادہ کیا۔
AGP آفس کے مطابق، ڈاکٹر النگاری نے آڈٹ کے طریقوں کو جدید بنانے میں پاکستان کے اقدامات کی تعریف کی اور مستقبل میں تعاون کے لیے اپنے جوش کا اظہار کیا۔
"ہمارے دونوں SAIs کے درمیان شراکت داری احتساب اور شفافیت کے مشترکہ وژن کا ثبوت ہے،" GCA کے صدر نے کہا۔
سعودی جنرل کورٹ آف آڈٹ کے سربراہ نے مزید کہا، "ہم اس رفتار کو برقرار رکھنے اور عالمی سطح پر پبلک سیکٹر آڈیٹنگ میں ویلیو ایڈیشن کو یقینی بناتے ہوئے، اجتماعی طور پر چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بے چین ہیں۔"
میٹنگ نے ابھرتے ہوئے چیلنجوں سے نمٹنے اور آڈیٹنگ میں جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے کے لیے بین الاقوامی تعاون کی اہمیت پر زور دیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ "سعودی فریق نے SAI کی بہتر کارکردگی کے لیے فنڈ کے دوسرے مرحلے کے آغاز کا بھی اعلان کیا، جو فروری کے وسط میں شیڈول ہے۔"
"اے جی پی کے دفتر کو FISP کے دوسرے مرحلے کے لیے درخواست دینے کی پیشکش بھی کی گئی، جو کہ $40,000 تک کے فنڈز فراہم کرتا ہے۔"
GCA کے FISP اقدام کا مقصد ترقی پذیر ممالک میں SAIs کو فنڈز فراہم کرنا ہے تاکہ وہ اپنی متعلقہ حکومتوں کے اندر آڈٹ کرنے اور احتساب کو برقرار رکھنے میں اپنی کارکردگی اور صلاحیت کو بہتر بنا سکیں۔
پاکستان اور سعودی عرب قریبی علاقائی شراکت دار اور اقتصادی اتحادی ہیں اور دونوں ممالک نے گزشتہ سال اکتوبر میں 2.
ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: پاکستان اور سعودی عرب چیلنجوں سے نمٹنے اداروں کے درمیان ٹرینرز کے تبادلے تعاون بڑھانے کے دونوں ممالک میں تعاون اے جی پی آڈٹ کے کے لیے کے آڈٹ
پڑھیں:
معیشت اور حکومتی پالیسیاں
وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی بھی ایک ماہ میں چار ارب ڈالر کی حد عبور کرنے پر ان سے تشکر اور مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ ترسیلات زر میں اضافہ سمندر پار پاکستانیوں کی حکومتی پالیسیوں پر اعتماد کا عکاس ہے۔
بلاشبہ موجودہ حکومت کے معاشی استحکام کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کے نتائج سامنے آنا شروع ہو چکے، حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے تمام معاشی عشاریے مثبت پر فارم کر رہے ہیں۔ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس میں ہے، افراط زر کی شرح بھی نیچے آچکی ہے۔ حکومتی پالیسیاں اور بین الاقوامی ایجنسیوں کی مثبت ریٹنگ پاکستان کی معیشت میں بہتری کی گواہی دے رہی ہے، اسٹاک مارکیٹ مستحکم پرفارم کر رہی ہے، غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر تین بلین ڈالر سے بڑھ کر 12 بلین ڈالر ہو گئے ہیں۔ ان تمام پالیسیوں کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کا پاکستان پر اعتماد بڑھ رہا ہے۔
بیرونِ ملک مقیم پاکستانی ترسیلات زر کے ذریعے ملکی معیشت، غربت کے خاتمے اور پاکستان کی عالمی ساکھ کے مضبوط ستون ہیں۔ اقوام متحدہ کے محکمہ برائے اقتصادی و سماجی امور کے مطابق، دنیا بھر میں 272 ملین بیرونِ ملک مقیم افراد میں سے پاکستان دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے جس کی ایک بڑی تعداد بیرونِ ملک روزگار، تعلیم یا کاروبار کی غرض سے مقیم ہے۔
ان پاکستانیوں کی خدمات اور قربانیاں ملک کی اقتصادی ترقی میں نمایاں اہمیت رکھتی ہیں۔ ان ترسیلات زر نے نہ صرف ملکی معیشت کو سہارا دیا بلکہ لاکھوں خاندانوں کی مالی ضروریات پوری کرنے کا ذریعہ بھی بنیں۔ ترسیلات زر کا ایک بڑا حصہ ملک میں سرمایہ کاری کی صورت میں استعمال ہو رہا ہے۔ ’’روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس‘‘ جیسی حکومتی اسکیموں نے اوورسیز پاکستانیوں کے لیے پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ، حکومتی بانڈز اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری کو آسان بنایا ہے۔
اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں پاکستان میں معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے، روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں اور بنیادی ڈھانچے، تعلیم، اور صحت جیسے شعبوں کو تقویت ملی ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی نہ صرف اقتصادی بلکہ سفارتی میدان میں بھی پاکستان کی بھرپور نمایندگی کر رہے ہیں۔ پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق، 53 فیصد بیرونِ ملک پاکستانیوں کا ماننا ہے کہ ان کی موجودگی میزبان ممالک میں پاکستان کی شبیہ کو بہتر بنانے کا باعث بنتی ہے۔ امریکا میں مقیم پاکستانی کمیونٹی نے مختلف مواقع پر امریکی کانگریس سے رابطے کیے، جن میں پاک امریکا تعلقات، مسئلہ کشمیر اور انسانی حقوق کے معاملات شامل تھے۔
برطانیہ میں بھی پاکستانی کمیونٹی نے کئی ایسے اقدامات کیے جن سے دوطرفہ تعلقات کو فروغ ملا۔ آسٹریلیا میں مقیم پاکستانیوں نے تعلیم کے شعبے میں سرگرمی دکھاتے ہوئے پاکستانی طلباء کے لیے مزید مواقع کی فراہمی کے لیے مؤثر مہمات چلائیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور دیگر خلیجی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی، معاشی، اور سماجی روابط کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
یہ کمیونٹی نہ صرف میزبان ممالک میں پاکستانی ثقافت اور وقار کی نمایندگی کرتی ہے بلکہ باہمی تعلقات کو بہتر بنانے میں بھی پیش پیش ہے۔ ترسیلات زر کا ایک فوری اور بڑا فائدہ ملک میں غربت میں کمی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ یہ مالی وسائل اندرونِ ملک معیشت میں رواں دواں رہنے والے خون کی مانند ہیں، جو پسماندہ طبقے کو سہارا دیتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، اگر حکومت بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو مزید سہولیات، شفاف نظام اور محفوظ سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرے، تو یہ کمیونٹی پاکستان کو اقتصادی خود انحصاری کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔
ملک کی برآمدات میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور گزشتہ چھ ماہ کے دوران برآمدات میں 11 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی برآمدات میں اضافہ خوش آیند ہے اور اس سے امید پیدا ہوئی ہے کہ آنے والے سالوں میں ملکی معیشت قدرے مستحکم ہوسکے گی۔ ادارہ شماریات کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ چھ ماہ میں ملک کی مجموعی برآمدات 16 ارب 63 کروڑ امریکی ڈالر تک جا پہنچی ہیں۔ دوسری جانب برآمدات میں اضافے کو بھی خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں اب بھی کم قرار دیا جارہا ہے۔ لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ معیشت کے استحکام کے لیے اس سے امید کی ایک کرن ضرور دکھائی دیتی ہے۔
رواں مالی سال میں یورپی ممالک کو پاکستانی برآمدات میں تقریباً چار ارب ڈالر کا بڑا اضافہ انتہائی خوش آیند ہے۔ برطانیہ، نیدر لینڈز، فرانس، جرمنی اور بیلجیم سمیت شمالی اور مشرقی یورپ پاکستانی مصنوعات کے لیے ایک بڑی منڈی بنے ہوئے ہیں۔ بہتر معاشی پالیسیوں کی بدولت صنعتوں کی بحالی اور اقتصادی ترقی کا سفر جاری رکھا جا سکتا ہے اور اس کے لیے حکومت بیرونِ ملک پاکستانی سفارت خانوں میں تعینات ٹریڈ آفیسرز کو فعال کرے اور انھیں برآمدات میں اضافے کے لیے ٹارگٹس سونپے جائیں۔
رواں مالی سال کی پہلی ششماہی ایک سازگار معاشی تصویر پیش کرتی ہے۔ جس کی بنیادی وجہ گرتی ہوئی افراطِ زر یعنی مہنگائی بڑھنے کی رفتار میں کمی اور ادائیگیوں کا مثبت توازن ہے۔ ملکی برآمدات میں اضافہ بنیادی طور پرخوراک اور ٹیکسٹائل کے شعبوں کی بہتر کارکردگی کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ تیار ملبوسات، کپڑا اور چاول پاکستان کی بڑی برآمدات رہی ہیں، جس کے بعد چینی، تولیہ، فارماسیوٹیکل اور دیگر اشیا شامل ہیں۔
پاکستان کی برآمدات میں اہم شعبہ آئی ٹی سیکٹر ہے جو ملک میں انٹرنیٹ چیلنجز کے باوجود مسلسل ترقی کر رہا ہے۔ آئی ٹی کمپنیوں کی برآمدات میں اضافے کی اہم وجہ پاکستانی روپے کی قدر میں استحکام ہے۔ جس کی وجہ سے اب پاکستانی آئی ٹی کمپنیاں اپنے منافع کا بڑا حصہ پاکستان منتقل کرنے پر آمادہ نظر آتی ہیں۔ اسی طرح ایس آئی ایف سی کے مثبت کردار کے کے باعث برآمدات میں اضافہ اور معاشی ترقی کی راہیں ہموار ہوئی ہیں۔ پاکستان کی آٹو انڈسٹری کے لیے اہم پیشرفت ہوئی ہے۔
ایس آئی ایف سی کے تعاون سے ریکوڈک منصوبہ 2028 تک فعال ہوگا، منصوبے میں 5.5 بلین ڈالر سرمایہ کاری ہوگی، جب کہ سالانہ 2.8 بلین ڈالر کی برآمدات متوقع ہے، سرمایہ کاری کے لیے متحدہ عرب امارات کو پانچ اہم معدنی منصوبے پیش کرنے پر غور جاری ہے، چاغی، وزیرستان، گوادر اور ’’ بلوچستان منرل ریسورسز لمیٹڈ‘‘ کے کاپر بلاکس سمیت 80 ہزار ٹن سالانہ پیداواری صلاحیت کاپر اسمیلٹر منصوبہ پیش کیے جانے کا امکان ہے، ایس آئی ایف سی کی معاونت سے گوادر اور چاغی کو ریل نیٹ ورک سے منسلک کرنے کا منصوبہ، معدنی نقل و حمل میں بہتری متوقع ہے، ماڑی پٹرولیم اور حکومت بلوچستان کا معدنی شعبے میں بین الاقوامی سرمایہ کاری کے لیے مشاورت کا عمل جاری ہے، معدنی شعبے میں سرمایہ کاری کے فروغ کے ذریعے ایس آئی ایف سی ملکی معیشت کے استحکام کے لیے کوشاں ہے۔
پاکستان جب بھی ہم آئی ایم ایف کے پاس جاتا ہے تو ہمارے معاشی اہداف بہتر ہو جاتے ہیں اور کچھ استحکام آتا ہے۔ لیکن اس کے فوری بعد معیشت میں عدم توازن آنا شروع ہو جاتا ہے خاص طور پر ادائیگیوں کے توازن کو لے کر۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی برآمدی صنعت درآمدات پر انحصار کرتی ہے اور جب بھی ترقی ہوتی ہے پاکستان کی درآمدات برآمدات کے مقابلے بڑھ جاتی ہیں اور ادائیگیوں میں توازن پیدا ہو جاتا ہے۔ بلاشبہ صنعتکاروں کا اعتماد بحال کرنے اور معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے موجودہ حکومت تمام دستیاب وسائل بروئے کار لا رہی ہے۔
حکومت معاشی پالیسیوں میں تسلسل پر یقین رکھتی ہے کیونکہ یہی استحکام سرمایہ کاروں کو اعتماد فراہم کرتا ہے۔ معاشی استحکام کے لیے حکومتی پالیسیوں کا تسلسل ناگزیر ہے اور کاروباری برادری کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جا رہا ہے حکومت کی مثبت اور سرمایہ کار دوست پالیسیوں کی بدولت آج پاکستان میں مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کار دلچسپی لے رہے ہیں۔ معیشت اپنے درست ٹریک پر واپس آ چکی ہے۔ اسی طرح اُڑان پاکستان ایک امید ہے لیکن ہمیں حکمتِ عملی کی ضرورت ہے اور ہماری معیشت میں بہتری کی بنیاد سستی توانائی کی فراہمی ہے۔
اس خطے کے مسائل ایک ہی صورت حل ہو سکتے ہیں، وہ یہ کہ وار انڈسٹری کے بجائے ٹریڈ، ٹرانسپورٹ اور کنیکٹیوٹی انرجی کی طرف چلا جائے۔ جب ایسا ہوگا تو خطے میں جاری عسکریت پسندی، علیحدگی پسندی اور دہشت گردی میں خود ہی کمی آجائے گی۔