ڈی سی کوئٹہ کی اسکول کے طلباء کو روزانہ مطالعہ پاکستان پڑھانے کی ہدایت
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
کوئٹہ میں منعقدہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ڈی سی سعد بن اسد نے نجی و سرکاری اسکولوں کو ہدایت دی کہ طلباء کو روزانہ کی بنیاد پر مطالعہ پاکستان پڑھائی جائے اور قومی ترانے کا انعقاد ہو۔ اسلام ٹائمز۔ ڈپٹی کمشنر کوئٹہ سعد بن اسد نے شہر کے تمام نجی اور سرکاری اسکولوں میں روزانہ کی بنیاد پر مطالعہ پاکستان پڑھانے اور سیکیورٹی انتظامات کو بڑھانے کی ہدایت کی ہے۔ ڈی سی آفس کوئٹہ میں تمام نجی اور سرکاری اسکولوں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر کوئٹہ لیفٹیننٹ (ر) سعد بن اسد نے کہا کہ تمام اسکولوں کو ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ تمام اسکول پرنسپل اور مالکان اپنے اسکولوں کی سیکیورٹی کا خاص خیال رکھیں اور انتظامات بہتر کرے۔ اسکے ساتھ اجلاس میں ہدایات دیتے ہوئے کہا گیا کہ تمام اسکول پرنسپل و عہدیداران اپنے اسکولوں میں روزانہ کی بنیاد پر قومی ترانے کا انعقاد کریں اور ساتھ ہی تمام کلاسز میں روزانہ کی بنیاد مطالعہ پاکستان بھی پڑھائے۔ ڈپٹی کمشنر کوئٹہ نے کہا کہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں ضلعی انتظامیہ کے ساتھ رابطہ کریں۔ ضلعی انتظامیہ محکمہ تعلیم سرکاری و نجی اسکولوں کے مسائل کو ترجیع بنیادوں پر حل کرے گی۔ اجلاس میں ڈپٹی کمشنر کو کوئٹہ کے تمام سرکاری اور نجی اسکولوں کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ اس موقع پر ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر میل، ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر فیمیل، مختلف اسکولوں کے ڈی ڈی اوز کے علاوہ کوئٹہ کے مختلف نجی اسکولوں کے پرنسپل و عہدیداران نے شرکت کی۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: روزانہ کی بنیاد مطالعہ پاکستان ڈپٹی کمشنر کو اسکولوں کے
پڑھیں:
مطالعہ اور معاشرتی مصائب تخلیق میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں
زبانیں اپنی دھرتی، ثقافت و تہذیب سے پھلتی پھولتی اور پروان چڑھتی ہیں۔ زمیں زاد اپنی زبان کو ثروت مند بنا کر اسے دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اس پیش کاری میں کسی بھی زبان کاثقافتی مطالعہ، علاقائی پسماندگی اور قرب وجوار کے سلگتے مسائل بہت اہم اور کلیدی کردار ادا کرتے ہیں.دھرتی زاد شعراء اور ادیبوں نے ہمیشہ ظلم وجبر اور معاشرتی ناانصافیوں کے خلاف بلا خوف و خطر علم بلند کیا، ان علمی و ادبی شخصیات میں ایک نام رحیم طلب کا ہے. معروف شاعر ونثرنگار کا تعلق ڈسٹرکٹ بہاولپور کے علم وادب کی نرسری کا درجہ رکھنے والے شہر احمد پور شرقیہ سے ہے. علم وادب کا گہوارہ احمد پور شرقیہ قیام پاکستان سے قبل بھی ریاست بہاولپور کاصدر مقام ہونے کے باعث شعراء اور ادیبوں کا من پسند شہر تھا. معروف شاعر و نثر نگار رحیم طلب کا تعلق صحافتی شعبے ہے، وہ 20 سے زائد اخبارات ورسائل میں اپنی خدمات سر انجام دے چکے ہیں. رحیم طلب ایک بہترین خطاط بھی ہیں، انہوں نے ادبی تخلیقات کا سفر کراچی سے شروع کیا. اس وقت ان کا شمار اردو اور سرائیکی کے نامور شعراء اور نثر نگاروں میں ہوتا ہے. رحیم طلب نے شاعری کو ایک نئی جہت بخشی، نظم نگاری میں تصویر دیکھ کر نظم لکھنے کا ایک نیا تجربہ کیا جو شاعری میں جدت و انقلابی قدم تھا، تصویر کو دیکھ کر نظم لکھنے کے تجربے کو ادبی حلقوں میں بے حد پذیرائی ملی. رحیم طلب کی شاعری اور نثرنگاری میں 9 کتابیں شائع ہوچکی ہیں، ان کی تصانیف میں ً ً الحمداللہ ً ً (بیاض سونی پتی کی سور? فاتحہ کی منظوم تفسیر)، ً ً سخن فرید ً ً، ً ًسونا چاندی ًً ً، ً ً زمین آسمان ً ً، ً ً آکھیا مبارک شاہ ً ً ً، پرسیپیشن آف گاڈ اینڈ یونیورس ً ً، ً ً فراہم دی ستلج بنک ً ً اور ایہو سچ اے شامل ہیں جبکہ 4 تصانیف مثنوی رسول اللہ، کونجاں دے گل کھانگے، بت شیشے دا دل شیشے دا اور ایک صدی کی کی سائنسی معلومات پر مبنی کتاب کنٹری آف سائنس (اردو، انگریزی) زیر طباعت ہیں. رحیم طلب نے اپنی شاعری اور نثر نگاری میں ملک و قوم کو درپیش مسائل کا احاطہ کیا.انہوں نے اپنے قرب و جوار میں عام آدمی کو پیش آنے والے مصائب ومشکلات کو اپنی تخلیقات کا موضوع بنایا.گزشتہ دنوں معروف شاعر و ادیب رحیم طلب سے روز نامہ جسارت کیلئے انٹرویو کیا جو نذر قارئین ہے.
معروف شاعر وادیب رحیم طلب نے ادبی تخلیقات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ شاعری کا آغاز میٹرک سے ہی کیا تھا، اہنی شاعری میں مزید نکھار لانے کیلئے میں نے اس وقت کے ممتاز شاعر دبیر الملک نقوی احمدپوری کی باقاعدہ شاگردی حاصل کی اور اپنی شاعری کیلئے ان سے باقاعدہ طور پر اصلاح لینا شروع کی. چند برسوں بعد میں نے نثر لکھنا بھی شروع کر دی، ابتداء میں زیادہ تر سرائیکی لکھا کرتا تھا بعد ازاں اردو میں بھی لکھنا شروع کیا. افسانے، ڈرامے انشائیہ، افسانچے لکھے. ایک سوال کے جواب میں رحیم طلب نے بتایا کہ ہمارے زمانے میں جو اصل میڈیا تھا، جس کی اپروچ ایزی تھی، وہ تھا ریڈیو۔ ریڈیو سے جو نغمے نشر ہوتے تھے وہ دل پر اثر کرتے تھے اور دوسرا یہ ہے کہ محرم کے ایام میں، میں مر ثیے اور نوحے سنا کرتا تھا، ہمارے محلے کی ایک ٹیم تھی جو مرثیے گروپ کی صورت میں گایا کرتی تھی تو میں ان سے بڑا متاثر تھا، میرے دل میں بھی ایک امنگ ابھری کہ میں بھی شاعری کروں، گیت لکھوں، تو اس طرح میں نے گیت لکھنے کی شروعات کی. اس طرح میں نے شاعری کا اغاز کیا. اس دوران کالج پہنچا تو تعلیمی اخراجات کے لئے مقامی اخبارات میں کام کیا۔ سعید خاور میرے کلاس فیلو تھے ہم نے سرائیکی رسالہ سیریز وسیب جاری کیا،پھر اردو ادب میں شاعری اور نثر نگاری میں اپنا ایک مقام بنایا. رحیم طلب نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ شاعری پر میرے گھر والوں کا کوئی خاص رد عمل نہیں تھا کیونکہ میرے والدین ان پڑھ تھے اور میرے بھائی صرف اردو لکھنا پڑھنا جانتے تھے جنھوں میری حوصلہ افزائی کی اور میں ادبی میدان میں مزید آگے بڑھتا چلا گیا. اس دوران اخبارات و رسائل میں باقاعدگی سے مضامین شائع ہونے لگے. نثر لکھنے کی ابتدا احمد پور شر قیہ سے شائع ہونے والے اردو رسالے آرزو سے کی جو دلشاد ندیم ہاشمی نکالا کرتے تھے، شمع رسالہ میں غزل کا ایک مقابلہ ہوا کرتا تھا تو طرحہ مصرعہ وہ دیتے تھے تو ان پر طبع ازمائی کرتے تھے اس طرح شاعری میں اپنی پہچان بنائی. ایک سوال کے جواب میں رحیم طلب نے کہا کہ اردو شاعری اور نثر کی تصانیف زیر طباعت ہیں جو انشاء اللہ جلد منظر عام پر آئیں گی.