جرمنی میں انتخابی نظام کیسے کام کرتا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 فروری 2025ء) جب جرمن شہری ووٹ دینے کے لیے اپنے طے شدہ پولنگ اسٹیشنوں پر جاتے ہیں، جو اسکولوں اور دیگر سرکاری عمارتوں میں قائم کیے جاتے ہیں، تو انہیں پولنگ عملے کی طرف سے جو بیلٹ پیپر دیا جاتا ہے اس پر انہوں دو ووٹ دینا ہوتے ہیں۔ ایک اپنے حلقے کی نمائندگی کرنے والے امیدوار کے لیے اور دوسرا پارٹی کی ریاستی نمائندگی کے لیے، جس میں عام طور پر 10 سے 30 امیدواروں کی فہرست ہوتی ہے۔
اس نظام کو اکثر ذاتی متناسب نمائندگی یا 'پرسنل پروپورشنل ری پریزنٹیشن‘ کہا جاتا ہے۔ ووٹ دینے کے لیے دو خانےپہلا ووٹ، متعلقہ انتخابی حلقے میں براہ راست امیدوار منتخب کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ یہ ووٹ پارلیمنٹ کی کل ساخت کے نصف کا تعین کرتا ہے، اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ پارلیمان میں ہر ضلع کی نمائندگی ہو۔
(جاری ہے)
دوسرا ووٹ پارلیمنٹ کے ایوان زیریں یا 'بنڈس ٹاگ‘ میں پارٹیوں کی طاقت کا تعین کرتا ہے۔
یہ ووٹ اس بات کا تعین کرتا ہے کہ اس جماعت کی ریاست کی فہرست میں سے کتنے امیدواروں کو بنڈس ٹاگ میں نشستیں دی جائیں گی۔2025 سے پارلیمنٹ میں نشستوں کی تعداد 630 نشستوں تک محدود کر دی جائے گی۔ 2024 میں انتخابی نظام میں اصلاحات متعارف کرائی گئی تھیں، جس میں ان شقوں کو ختم کر دیا گیا تھا، جن کی وجہ سے پارٹیوں کے سائز میں کمی کے ساتھ قانون سازوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا تھا۔
ان اصلاحات کو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے جزوی طور پر منسوخ کر دیا تھا۔جرمنی کی کُل 83 ملین آبادی میں سے تقریباﹰ 61 ملین ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ یعنی یہ ووٹر جرمن شہریت رکھتے ہیں اور 18 سال اور اس سے زائد عمر کے ہیں۔ ایسے جرمن شہری، جو بیرون ملک مقیم ہیں، وہ ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈال سکتے ہیں، لیکن ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ گزشتہ 25 سالوں کے دوران کم از کم تین ماہ مسلسل جرمنی میں رہے ہوں۔
جرمنی کے فیڈرل ریٹرننگ آفیسر کی ویب سائٹ نے سفارت خانوں یا قونصل خانوں کو بیلٹ بکس رکھنے سے منع تو نہیں کیا ہے لیکن یہ ضرور کہا ہے کہ اس کے لیے 'غیر متناسب کوششیں‘ درکار ہوں گی۔ایک عدالت ان افراد کے لیے ووٹ کا حق منسوخ کر سکتی ہے، جنہوں نے کچھ سیاسی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ جیسے جاسوسی اور ریاستی رازوں کو افشا کرنا۔ اس کے علاوہ کسی اور مجرم کے ووٹ کے حق کو منسوخ نہیں کیا جاتا، قتل اور بچوں کے جنسی استحصال جیسے سنگین جرائم جیسے معاملات کی صورت میں بھی نہیں۔
یہی اصول ان امیدواروں پر بھی لاگو ہوتا ہے، جنہیں ان کی متعلقہ جماعتوں نے شارٹ لسٹ کیا ہو۔
جرمنی میں نصف سے کچھ زیادہ رائے دہندگان خواتین ہیں، جن میں سے تقریباﹰ 40 فیصد 60 سال یا اس سے زیادہ عمر کی ہیں اور 14 فیصد 30 سال سے کم عمر کی ہیں۔
جرمنی میں ووٹر ٹرن آؤٹ کافی زیادہ رہتا ہے۔ گزشتہ دو عام انتخابات میں یہ شرح 76 فیصد سے کچھ اوپر ہی رہی۔
پانچ فیصد کی حد کیا ہے؟جرمنی کے انتخابات سے متعلق قانون کے تحت، کسی بھی پارٹی کے لیے پارلیمان میں جگہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ وہ پارٹیوں کی نمائندگی کے لیے ڈالے گئے کُل ووٹوں کا کم از کم پانچ فیصد حاصل کریں۔
یہ شق سب سے پہلے 1953 میں متعارف کرائی گئی تھی اور اس کا مقصد چھوٹی چھوٹی جماعتوں کو پارلیمنٹ میں داخل ہونے اور جمہوری عمل میں مشکلات پیدا کرنے سے روکنا تھا۔
تاہم، ان جماعتوں کو اس سے استثنیٰ مل جاتا ہے، جن کے امیدوار کم از کم تین انتخابی اضلاع میں کامیاب ہوئے ہوں۔ مثال کے طور پر، 2021 میں، اس کا اطلاق ’دی لِنکے‘ یعنی لیفٹ پارٹی پر ہوا، جس نے پارٹی ووٹوں کا صرف 4.
اگر کوئی پارٹی 50 فیصد ووٹ حاصل کرتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ پارلیمان میں حکومت تشکیل دے سکتی ہے۔ لیکن عام طور پر ایسا امکان نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے، جرمنی میں جماعتوں کو عام طور پر ایک یا ایک سے زیادہ جماعتوں کے ساتھ اتحاد کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ بنڈس ٹاگ میں ایک مؤثر اور مضبوط حکومت تشکیل پا سکے۔
روایتی طور پر، سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی پارٹی کا امیدوار چانسلر بن جاتا ہے اور جونیئر اتحادی پارٹنر کے سرکردہ امیدوار کو اکثر وزیر خارجہ کی ذمہ داری ملتی ہے۔ چانسلر وزراء کے نام اور ان کے قلمدان صدر کو پیش کرتا ہے، جو حکومت کے ارکان کا تقرر کرتا ہے۔
کوئی بھی جرمن شہری، جس کی عمر کم از کم 18 سال ہو، وہ چانسلر بن سکتا ہے۔
اس کے لیے بنڈس ٹاگ میں نشست کا ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ اسے قانون سازوں کی اکثریت کے ووٹ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔جرمن آئین کے مطابق نئی منتخب شدہ پارلیمان کا پہلا اجلاس انتخابات کے بعد 30 دن کے اندر ہونا ضروری ہے۔
صدر چانسلر کے امیدوار کے نام کی باضابطہ طور پر تجویز پیش کرتا ہے، جسے پھر ووٹوں کی مطلق اکثریت یعنی 50 فیصد سے زائد حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اگر امیدوار ایسا کرنے میں ناکام رہتا ہے تو بنڈس ٹاگ کے ارکان کسی دوسرے امیدوار کا انتخاب کر سکتے ہیں اور اسے 15 دن کے اندر ووٹنگ کے لیے پیش کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے پھر، مطلق اکثریت کی ضرورت ہے۔اگر ووٹنگ کے دوسرے مرحلے میں بھی کوئی امیدوار مکمل اکثریت حاصل نہیں کرتا ہے تو، فوری طور پر حتمی بیلٹ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اس مرحلے میں جو بھی سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرتا ہے وہ سادہ اکثریت سے منتخب ہوتا ہے۔
اگر چانسلر مکمل اکثریت سے منتخب ہوتا ہے تو صدر کو سات دن کے اندر اس کا تقرر کرنا ہو گا۔ اگر منتخب شخص تیسرے مرحلے میں صرف سادہ اکثریت حاصل کرتا ہے تو صدر کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ یا تو سات دن کے اندر اسے چانسلر مقرر کر دے یا پھر بنڈس ٹاگ کو تحلیل کر دے، جس سے 60 دن کے اندر نئے انتخابات کرانا ہوں گے۔
انتخابی نتائج پر اعتراضجرمنی کے الیکشن ریویو کے قانون کے مطابق، جرمنی میں ووٹ ڈالنے کا اہل کوئی بھی فرد انتخابات کی درستی پر سوال اٹھا سکتا ہے اور یہی کام ووٹ ڈالنے کے اہل افراد پر مشتمل گروپ بھی کر سکتے ہیں۔
ہر عام انتخابات کے بعد نتائج چیلنج کرنے کے سینکڑوں معاملات سامنے آتے ہیں۔اس کے لیے ضروری ہے کہ انتخابات کے دن کے دو ماہ کے اندر برلن میں بنڈس ٹاگ کے الیکشن ریویو کمیشن میں تحریری طور پر اعتراضات جمع کرائے جائیں۔
الیکشن ریویو کمیشن تمام درخواستوں پر کارروائی کرتا ہے۔ ہر انفرادی چیلنج پر ایک فیصلہ کیا جاتا ہے اور ہر اعتراض کنندہ کو بنڈس ٹاگ سے تحریری طور جواب دیا جاتا ہے۔
بنڈس ٹاگ کے انتخابات کے نتائج کو کالعدم قرار دینے کے لیے، اٹھائے گئے اعتراض کو دو شرائط کو پورا اترنا چاہیے، پہلی یہ کہ ایسی انتخابی غلطی جو فیڈرل الیکشن ایکٹ، فیڈرل الیکشن کوڈ یا آئین کی خلاف ورزی کرتی ہو، اور دوسری یہ ہے کہ مبینہ انتخابی غلطی کا اثر بنڈس ٹاگ میں نشستوں کی تقسیم پر پڑے۔
کمیشن کو تمام اپیلوں پر کارروائی کرنے کے لیے تقریباﹰ ایک سال درکار ہوتا ہے۔ عام طور پر ان میں سے چار فیصد سے بھی کم مقدمات آئینی عدالت تک پہنچتے ہیں۔ جرمن میں قومی انتخابات کو کبھی بھی غیر قانونی قرار نہیں دیا گیا ہے۔
عام حالات میں، انتخابات چار سال بعد دوبارہ ہوتے ہیں اور پھر سے یہ سارا عمل دہرایا جاتا ہے۔
ا ب ا/ا ا (ڈی ڈبلیو)
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پارلیمان میں بنڈس ٹاگ میں انتخابات کے دن کے اندر اس کے لیے ضروری ہے سکتے ہیں ووٹ حاصل کی ضرورت سے زیادہ ہے کہ وہ ہوتا ہے جاتا ہے کرتا ہے ہیں اور اور اس
پڑھیں:
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
بلاشبہ علم انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتا ہے۔ علم عزت و شرافت اور دارین کی سعادت سے بہرہ مند ہونے کا بہترین ذریعہ ہے، یہی بنیادی وجہ ہے کہ اسلام نے اپنے ظہور کے اول روز سے ہی حضرت محمدﷺ پر ’اقرا‘ کا حکم دے کر جہالت کی تاریکیوں میں علم کی عظمت و اہمیت کو اجاگر کیا۔ کسی بھی قوم کو مجموعی طور پر دین سے روشناس کرانے، تہذیب و ثقافت سے بہرہ ور کرنے اور خصائل فاضلہ و شمائلِ جمیلہ سے مزین کرنے میں اس قوم کی خواتین کا کردار مرکزی اور اساسی ہوتا ہے اور قوم کے نونہالوں کی صحیح نشوو نما میں ان کی مائوں کا اہم کردار ہوتا ہے اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ ماں کی گود بچے کا اولین مدرسہ ہے۔ بقول شاعر
اصلاح قوم آپ کو منظور ہو اگر
بچوں سے پہلے مائوں کو تعلیم دیجئے
اسی لیے دینِ اسلام نے شروع سے ہی جس طرح مردوں کے لیے تعلیم کی تمام تر راہیں وا رکھیں ہیں بالکل اسی طرح اسلام خواتین کے بھی تمدنی، معاشرتی اور ملکی حقوق کے ساتھ ساتھ تعلیمی حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے عملی سطح پر ادا کرنے کا بھی حد سے زیادہ اہتمام کرتا ہے اور مرد و زن کی تعلیم و تربیت کے حدود و قیود بھی مقرر کرتا ہے۔ چنانچہ ہر دور میں مردوں کے شانہ بشانہ دخترانِ اسلام میں ایسی باکمال خواتین بھی جنم لیتی رہیں جنہوں نے اطاعت گزار بیٹی، و فا شعار بیوی اور سراپا شفقت بہن کا کردار نبھانے کے ساتھ ساتھ دنیا میں اپنے علم و فضل کا ڈنکا بجایا اور ان کے دم سے تحقیق و تدقیق کے لاتعداد خرمن آباد ہوئے۔ اسلام نے خواتین کو ہر قسم کے مفید علم کے حصول کی نا صرف آزادی دی بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔ لیکن دینِ اسلام بے پردگی کی اجازت کسی بھی صورت میں نہیں دیتا، فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’اے نبی آپﷺ فرما دو، مومن مردوں کو اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور مومن عورتوں سے فرما دو نگاہیں نیچی رکھیں‘۔
علم حاصل کرنے کے بارے میں دینِ اسلام کی تعلیمات انتہائی واضح اور دو ٹوک ہیں۔ دورِ حاضر میں ہمارے معاشرے میں تعلیم سے متعلق کئی ایک مسائل پریشانی کا سبب ہیں۔ ان تمام مسائل میں ایک اہم مسئلہ مخلوط تعلیم کا ہے، یہ نظام ِ تعلیم گزشتہ کئی عشروں سے ہمارے ہاں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ مخلوط تعلیم کا نظام ہمارے ہاں مغرب سے آیا ہے اور ہم اس بات سے باخوبی واقف ہیں کہ مخلوط تعلیم مغربی تہذیب و ثقافت کا اہم جزو ہے۔ برصغیر میں انگریزوں نے اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے جو نظام ِتعلیم نافذ کیا تھا وہ مکمل طور پر مغربی تہذیب کا آئینہ تھا اور اس کا مقصد مسلمانوں کی نئی نسل کو مغربی تہذیب و تمدن کا نمونہ بنانا تھا اور وہ بہت حد تک اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی رہے، آج ہماری اکثریت ان کی اندھی تقلید کرتی دکھائی دیتی ہے۔ مغربی معاشرے میں مرد و خواتین میں بہت زیادہ فرق نہیں سمجھا جاتا، مغرب کی عورت مرد کے شانہ بشانہ زندگی کے تمام امور سرانجام دیتے ہوئے ترقی کی دوڑ میں اس کے ساتھ برابر کی شریک ہے مگر ہمارے معاشرے میں بہت ساری مذہبی اور ثقافتی قدریں مخلوط تعلیم کی اجازت نہیں دیتیں۔ مغرب کی تہذیب نے جس طرح سے عورتوں کو اپنے گھر اور بچوں سے دور دفاتر میں لا بٹھایا۔ ایک مدت سے ہمارے ہاں مخلوط نظام ِ تعلیم رائج ہے اور ہماری اکثریت اس نظام ِ تعلیم کے مضر پہلو سے غافل ہے۔ مخلوط نظام ِ تعلیم تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے بجائے پستی کا سبب بن رہا ہے۔ اگر موجودہ معاشرے کا جائزہ لیا جائے تو مخلوط نظام ِ تعلیم کے تباہ کن اثرات کی ایک لمبی فہرست ملتی ہے مخلوط نظام ِ تعلیم کا سب سے بُرا اثر اخلاق پر پڑ رہا ہے، شرم و حیا جو انسانوں کا سب سے بہترین اور قیمتی گہنا ہے معاشرے سے رخصت ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے نوجوان مخلوط نظام ِ تعلیم کی وجہ سے ایسے معاملات اور الجھنوں کا شکار ہیں جو ان کے بہتر مستقبل کیلئے مسلسل خطرے کا باعث ہے۔ ہمارا موجودہ مخلوط تعلیمی نظام طالبات میں جس شخصیت، صلاحیت اور ذہنیت کی تشکیل کر رہا ہے وہ مخصوص فرائض ادا کرنے کی تربیت نہیں بلکہ ہر میدان میں مردوں سے مسابقت، برابری اور مردوں کے دائرہ کار میں اپنی صلاحیتوں کا جوہر دکھانے کی ذہنیت ہے اور اس تعلیم کے نتیجے میں مجموعی طور پر طالبات مرد بن کر کچھ کر دکھانے میں ناکام رہتی ہیں مگر وہ اپنے مدارِ حیات سے بھی ٹوٹ جاتی ہیں نتیجتاً خاندانی نظام کی بنیادیں ہل جاتی ہیں۔
اسلام صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ اس دنیا میں سکونت پذیر تمام لوگوں کے لیے بلا تفریق سرچشمہ ہدایت ہے۔ دینِ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اس کی نظر میں مخلوط تعلیمی نظام جائز نہیں۔ حیا عورت کا زیور اور مرد کی غیرت ہے۔ شریعتِ مطہرہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تکمیل کے لیے معاشرے کے ہر فرد کو پابند کرتی ہے کہ وہ بد نگاہی اور بے حیائی سے دور رہیں۔ ہمارا سماجی نظام مخلوط تعلیم کے لیے راس نہیں۔ مخلوط تعلیمی نظام ایک عظیم فتنہ اور فکری و عملی برائیوں کو بڑھاوا دینے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ جیسے حضرت جنید بغدادی ؒ کا قول ہے، ایک دفعہ ان سے پوچھا گیا، کیا کوئی مرد کسی (غیر محرم) لڑکی کو پڑھا سکتا ہے؟ تو آپ نے فرمایا، اگر پڑھانے والا با یزید بسطامی ہو پڑھنے والی رابعہ بصری ہو جس جگہ پڑھایا جا رہا ہو وہ بیت اللہ ہو اور جو کچھ پڑھایا جا رہا ہو وہ کلام اللہ ہو پھر بھی جائز نہیں۔ مخلوط تعلیم نظام کے ساتھ دورِ حاضر کے والدین اپنی اولاد کی ضروریات پوری کرنے کیلئے دن رات محنت کرتے ہیں، ان کو ہر سہولت مہیا کرتے ہیں مگر اس سب میں وہ ذہنی اور جسمانی طور پر اتنے تھک جاتے ہیں کہ پھر اپنے بچوں کی اخلاقیات کی طرف توجہ نہیں دے پاتے۔ مخلوط نظام ِ تعلیم دورِ حاضر کا ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے جس پر حکومت اور والدین دونوں کو ہی غور و فکر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ تعلیم خواتین کا حق ہے مگر ان کی تعلیم وہی ہو جو ان کی فطرت، ان کی لیاقت کے مناسب ہو اور ان کی عفت و عصمت کی حفاظت میں ممد و معاون ہو۔۔۔ ایک متوازن اور اسلامی اقدار پر مبنی تعلیمی نظام وقت کی ضرورت ہے، جو اسلامی اخلاقیات، حیا اور سماجی حدود کا خیال رکھتے علمی ترقی کی راہ کو ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط، با کردار اور با وقار معاشرے کی بنیاد بنے۔