ہر کسی کو اپنی ناک سے نیچے دیکھنا ہوگا، بانی نے خط لکھ کر ابتدا کر دی ہے، وکیل
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
راولپنڈی:
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کے وکیل فیصل چوہدری نے سیاسی استحکام پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہر کسی کو اپنی ناک سے پیچھے دیکھنا ہوگا، بانی نے خط لکھ کر ابتدا کر دی ہے۔
بانی پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری کی اڈیالہ جیل کے باہر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج ایس او پی کے تحت فیملی اور وکلا کی ملاقات کرائی گی لیکن بشریٰ بی بی کی ملاقات بانی سے نہیں کرائی گی، جس کی مذمت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عدالتی احکامات کے باوجود بشریٰ بی بی کی ملاقات نہیں کرائی گئی، اس قسم کی حرکتوں سے کسی کا بھلا نہیں ہوتا، بشریٰ بی بی کو قید تنہائی میں رکھا گیا ہے لیکن قانون کے مطابق بھی بشریٰ بی بی کو ملاقات کی اجازت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس حکومت کی جانب سے ہماری خواتین کارکنوں کو ہراساں کیا گیا، پولیس گردی اور اب جیل گردی کی جا رہی ہے، بانی نے خط میں لکھا جو حکم عدولی ہوتی ہے اس کا نزلہ اسٹیبلشمینٹ پر گر رہا ہے۔
فیصل چوہدری کا کہنا تھا کہ کچھ ایسے لوگ ہیں جو ملک میں سیاسی عدم استحکام ختم نہیں ہونے دے رہے، بانی نے پیغام دیا کہ فوج ہماری ہے اور قوم متحد ہوکر فوج کے پیچھے کھڑی ہو۔
بانی پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ کل جو پالیسی تبدیلی کی بات کی گئی آج اس کی کھلی خلاف ورزی کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ 8 فروری کو عوامی مینڈیٹ چوری کیا گیا، ہم 8 فروری کو یوم سیاہ منائیں گے، آج کے جنرل ڈائر کی دھمکیوں سے ہم بلکل نہیں ڈرتے، ہم آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا اختجاج ریکارڈ کرائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ عالیہ حمزہ نے منیار پاکستان میں جلسے کی درخواست دی لیکن اجازت نہیں ملی، حکومت پنجاب اور ان کی پراکسیز ہمیں چلنے نہیں دے رہی ہیں تاہم اپوزیشن جماعتوں سے ہمیں اچھا ریسپانس مل رہا ہے۔
فیصل چوہدری نے کہا کہ ہر کسی کو اپنی ناک سے پیچھے دیکھنا ہوگا، بانی نے خط لکھ کر ابتدا کر دی ہے ہم چاہتے ہیں کہ ملک کی خاطر اس کا مؤثر جواب آئے، پاکستان میں پیکا لگا کر میڈیا کا گلا گھونٹا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں پاکستان میں ہر خاص و عام کو فئیر ٹرائل کا موقع ملے، عدالتوں کے احکامات کا احترام ہو، ہم اپنی صدا احتجاج بلند کرتے رہیں گے، پاکستان میں معاشی حالات گھٹنوں پر آچکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی پھیلنے کی اصل وجہ اداروں کو پی ٹی آئی کے پیچھے لگا دیا گیا، سیاسی قوتوں نے جعلی فارم پر حکومت کو قبول کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے نہتے لوگوں پر گولیاں چلائی گئیں، نیوٹرل امپائر اس کی تحقیقات کریں، بانی نے اپنے 6 نکات کو دہرایا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ جمہوریت کو واپس لایا جائے۔
فیصل چوہدری نے کہا کہ ہم نے خط لکھ دیا ہے تاکہ بنیادی مسائل حل کیے جائیں، جمہوری قوتوں نے اپنی قدر کھو دی ہے، موجودہ سیاسی قوتیں سیاسی عمل کا مظاہرہ نہیں کررہی ہیں، ہم نے حکومت سے مذاکرات کیے مگر ہماری ملاقات نہیں کرائی جاتی۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاسی قوتیں اپنے کردار سے ثابت کریں کہ وہ سیاسی ہیں، ہم نے خط میں رعایت نہیں مانگی، کھلا خط ہے وہ سب دیکھ سکتے ہیں، ہم نے 6 وجوہات کا ذکر کیا ہے جس کی وجہ سے خلیج بڑھ رہی ہے، یہ پالیسیاں پاکستان کے مفاد میں نہیں ہیں۔
وکیل بانی پی تی آئی نے کہا کہ ہمیں جلسوں کی اجازت نہیں دی جاتی لیکن اس میں گھبرانے کی بات نہیں ہے، ہم محسن نقوی کی طرف سے آنے والی دھمکیوں کی مذمت کرتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں نے کہا کہ ہم فیصل چوہدری نے خط لکھ پی ٹی آئی
پڑھیں:
دہشت گردی، بڑا چیلنج
پاکستان کو قومی ترقی میں چند بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے حکومتی سطح پر مختلف حکمت عملیاں اختیار کی جاتی ہیں مگر اس کے باوجود بہتر نتائج حاصل نہیں ہو رہے ہیں۔اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ یا تو ہمیں مسائل کا حقیقی ادراک نہیں یا ہم ان مسائل کا ادراک رکھنے کے باوجود کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
اگرچہ ہمیں سیاسی، انتظامی، معاشی، حکمرانی اور سیکیورٹی کے تناظر میں مختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے۔پچھلے دنوں گلوبل ٹیررازم انڈیکس 2025 کی رپورٹ میں پاکستان کو تجویز دی گئی ہے کہ اسے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے فوجی سیاسی، سماجی اور معاشی اقدامات لینے ہوں گے۔
اس رپورٹ کے بقول پاکستان دہشت گردی کے موجودہ خطرے سے نمٹنے کے لیے وقت پر بیدار نہ ہوا تو معاشی بحالی اور قومی ہم آہنگی کے خواب چکنا چور ہو سکتے ہیں۔اسی طرح متحرک حکمت عملی اور طویل مدتی اہداف پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے ایک موثر انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی تیار کرنا ہوگا۔
گلوبل ٹیررازم انڈیکس کی یہ رپورٹ ہماری قومی ترجیحات کے تعین میں بھی توجہ دلاتی ہے اور ہمارے داخلی سیاست کے مسائل کے ساتھ ساتھ علاقائی سیاست بالخصوص افغانستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات میں بداعتمادی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دہشت گردی کے بحران کی بھی نشاندہی کرتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں موجودہ دہشت گردی کی لہر داخلی،علاقائی اور عالمی سیاست سے منسلک مسائل کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔
ہمیں دہشت گردی کے مسائل کو سیاسی تنہائی میں دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کوبھی ایک بڑے قومی اور علاقائی فریم ورک میں دیکھ کر موثر حکمت عملی اختیار کرنا ہی ہمارے ریاستی مفاد میں ہوگا۔دہشت گرد جس بڑے اندازکو بنیاد بنا کر پاکستان کی ریاست کی رٹ اور اداروں کو چیلنج کر رہے ہیں وہ واقعی ہمارے لیے تشویش کا پہلو ہے۔گلوبل ٹیررازم انڈیکس میں یہ بھی انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ 2023میں ہونے والے 517 دہشت گرد حملوں کے مقابلے میں 2024 میں ہمیں ایک ہزار 99 حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ خیبر پختون خواہ اور بلوچستان ملک کے سب سے زیادہ متاثرہ حصے ہیں جہاں 96 فیصد دہشت گردی کے حملے ہوئے ہیںجو یقیناً ایک بڑا چیلنج ہے۔
بنیادی طور پر اس طرح کی عالمی سطح پر جاری ہونے والی رپورٹس ظاہر کرتی ہیں کہ پاکستان میں سیکیورٹی کے حالات پیچیدہ اور سنگین ہیں۔یہ معاملات پاکستان کی داخلی اور خارجی سطح پر جو تصویر پیش کرتے ہیں اس پر مختلف نوعیت کے سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ایسے لگتا ہے کہ ہم اپنی تمام تر حکمت عملیوں اور کوششوں کے باوجود دہشت گردی کی جنگ سے باہر نہیں نکل رہے اور دہشت گرد ہماری ریاست کو کمزور کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان حکومتی اور معاشرتی سطح پر سیاسی تقسیم کا شکار ہے۔سیاسی اور معاشی استحکام نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ بھی ہماری داخلی سطح پر سیاسی فیصلہ سازی کا عمل ہے اور ہم داخلی سیاست میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔
اگرچہ ہمارے حکمران بضد ہیں کہ ہم سیاسی اور معاشی طور پر درست سمت میں ہیں اوراعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ہم نے ترقی کی طرف اپنا سفر شروع کر دیا ہے۔ان کے بقول دہشت گردی پر بھی کافی حد تک قابو پا لیا گیا ہے اور آنے والے دنوں میں دہشت گردی کا ہر سطح پر خاتمہ ہوگا اور اس پر کوئی سیاسی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔یہ حکمرانوں کا بیانیہ ہے جب کہ ہمارے حقیقی مسائل حکمرانوں کے پیش کردہ ترقی پر مبنی خیالات سے مختلف ہیں۔دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے حکومتی سطح پر جو بھی حکمت عملی اختیار کی جا رہی ہیں اس میں اتفاق رائے کا فقدان ہے۔دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کی سیاسی قیادت حکومت کے مقابلے میں مختلف جگہ پر کھڑی ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کی جنگ سے نمٹنے کے لیے ہمیں جو قومی اتفاق رائے درکار ہے اس میں کئی طرح کی سیاسی مشکلات کا سامنا ہے۔ افغانستان مسلسل ہمارے لیے درد سر بنا ہوا ہے اور پاکستان میں جو بھی دہشت گردی ہو رہی ہے اس کے ایک بڑے تانے بانے عملاً افغانستان سے جڑتے ہیں۔لیکن افغانستان سے ٹی ٹی پی کے حوالے سے جو ہمیں معاونت درکار تھی وہ نہیں مل رہی۔ایک اچھی پیش رفت حالیہ دنوں میں یہ ہوئی ہے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفارتی طور پر کچھ مثبت پہلو اور بات چیت کا عمل سامنے آیا ہے۔بات چیت اور مکالمے کی بنیاد پر مسائل کے حل کے لیے یہ دو طرفہ دروازہ بند نہیں ہونا چاہیے۔
سیاست کرنا ہر سیاسی جماعت کا حق ہے اور تمام تر اختلافات کے باوجود سیاسی جماعتوں کو سیاست سے دور رکھنے کی پالیسی سے ہر سطح پر گریز کیا جانا چاہیے۔اسی طرح سیاسی جماعتوں کو بھی اس بات کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ ان کی سیاست اپنی جگہ مگر ریاستی مفاد زیادہ اہم ہوتا ہے، اس لیے سیاسی جماعتوں کو بھی ریڈ لائن کراس نہیں کرنی چاہیے ۔
دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ہمیں بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں سیاسی یا غیر سیاسی فریقین کو اعتماد میں لینا ہوگا ان سے بات چیت کرنی ہوگی ۔دہشت گردی کی یہ جنگ پاکستان کی جنگ ہے اور پاکستان میں ہر فریق چاہے وہ حکومت کا حصہ ہو یا حکومت سے باہر ہو اسے مل کر لڑنی ہے۔اگر ہم دہشت گردی کی اس جنگ میں خود باہمی ٹکراؤ یا تضادات کا شکار ہو جائیں گے تو پھر اس جنگ میں کامیابی کے امکانات بھی اور زیادہ محدود ہوں گے۔
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمیں دہشت گردی کی جنگ کے تناظر میں غیر معمولی حالات کا سامنا ہے تو پھر ہماری حکمت عملی بھی غیر معمولی اقدامات پر مبنی ہونا چاہیے۔علاقائی صورتحال میں بھی افغانستان سمیت بھارت کے ساتھ میں اپنے معاملات کو آگے بڑھانا چاہیے۔ بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری اسی صورت میں ممکن ہو سکتی ہے جب یہ دونوں ممالک بھی پاکستان کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کریں اور تعلقات کو بہتر بنائیں۔کیونکہ علاقائی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کی بہتری کا عمل محض ان ملکوں تک محدود نہیں بلکہ اس کے مجموعی بہتر اثرات خطے کی سیاست پر بھی پڑیں گے۔