نئی دہلی کے انتخابات خواتین کے لیے جیک پاٹ، دیگر مسائل انتظار کریں
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 فروری 2025ء) نئی دہلی کے انتخابات کی مہم اب اختتام کو پہنچ چکی ہے مگر کیا بتاؤں اس انتخابی مہم کے دوران سیاسی پارٹیوں نے گھروں میں بھی سکون سے رہنے نہیں دیا۔ روزانہ کوئی نہ کوئی سیاسی امیدوار یا ان کے حامی دروازے پر دستک دیتے ہیں، ووٹ مانگتے ہیں اور پوری سنجیدگی کے ساتھ یقین دلاتے ہیں کہ وہ دوسرے امیدوار سے بہتر ہیں۔
اس سیاسی مہم کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ خواتین ووٹرز کی اہمیت کو اب ہر پارٹی نے تسلیم کر لیا ہے۔ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اس رجحان کو سب سے پہلے سمجھا تھا جب انہوں نے 2016 میں بہار کو 'شراب مکتی‘ ریاست بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ شرابی مردوں کی ستائی ہوئی خواتین نے انہیں بھرپور ووٹ دیے، اور تب سے یہ فارمولا ہر ریاست میں دہرایا جا رہا ہے، چاہے وہ کرناٹک ہو، ہریانہ، مہاراشٹر یا ہماچل پردیش۔
(جاری ہے)
اب خواتین ووٹرز اپنی الگ پہچان بنا چکی ہیں اور کوئی بھی سیاسی جماعت انہیں نظرانداز نہیں کر سکتی۔ہر سیاسی جماعت خواتین کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے انہیں کوئی نہ کوئی لالچ دے رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس الیکشن کا سب سے بڑا مسئلہ صرف یہی ہے کہ خواتین کو زیادہ سے زیادہ مالی فائدے کیسے دیے جائیں۔ ویسے بھی گھریلو خواتین کا دل جیتنا شاید ووٹ حاصل کرنے کا سب سے آسان راستہ سمجھا جاتا ہے۔
چنانچہ انتخابات سے پہلے ان کے لیے طرح طرح کے معاشی 'لالی پاپ‘ دستیاب ہیں۔دہلی کی سیاست کا یہ حال ہو چکا ہے کہ انتخابی منشور اب کسی 'شاپنگ فیسٹیول‘ کا اشتہار معلوم ہوتے ہیں۔ شاندار، پرکشش، اور حقیقت سے کوسوں دور۔ عام آدمی پارٹی نے خواتین کو ماہانہ 2,100 روپے دینے کا اعلان کیا، تو کانگریس نے فوراً 2,500 روپے کا وعدہ کر دیا۔
بی جے پی نے تو اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے گیس سلینڈر پر سبسڈی، ہر سال دو مفت سلینڈر اور حاملہ خواتین کو 21,000 روپے کی نقد رقم دینے کا وعدہ کیا ہے۔اب خواتین کے درمیان سب سے زیادہ زیرِ بحث موضوع یہی ہے کہ اس اضافی رقم کو کہاں خرچ کیا جائے۔ لیکن اس سب کے درمیان سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ دہلی کی خطرناک حد تک آلودہ فضا کسی کو یاد ہی نہیں۔
ایک مہینہ پہلے تک یہی دہلی شہر تھا جہاں فضائی آلودگی کا عالم یہ تھا کہ اسکول اور کالج بند کر کے آن لائن کلاسز کا اہتمام کیا گیا تھا، تعمیراتی کام روک دیے گئے تھے اور بچوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایات دی جا رہی تھیں۔ مگر جیسے ہی انتخابی لالچ کا کھیل شروع ہوا، یہ ماحولیاتی بحران کہیں غائب ہو گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاستدان اچھی طرح جانتے ہیں کہ عوام کی یادداشت بہت کمزور ہوتی ہے۔ دہلی تین سال سے ہر سال تقریباً 150 دن شدید آلودگی کی لپیٹ میں رہتا ہے، لیکن جیسے ہی ووٹ ڈالنے کا وقت آتا ہے، یہ مسئلہ نہ ووٹروں کو یاد رہتا ہے اور نہ ہی سیاستدانوں کو۔یہ اور بات ہے کہ انتخابات کے بعد سیاستدان اپنے وعدے بھول جاتے ہیں، یا جلد ہی انہیں احساس ہو جاتا ہے کہ سرکاری خزانے میں اتنا پیسہ نہیں کہ وہ اپنی 'فراخ دلانہ‘ پیشکشیں پوری کر سکیں۔
مثال کے طور پر، مہاراشٹر میں بی جے پی نے 2.5 لاکھ سے کم سالانہ آمدنی والی خواتین کو ماہانہ 2,100 روپے دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اس اسکیم کے تحت تقریباً 2.47 لاکھ خواتین مستفید ہو سکتی تھیں، جس کے لیے سالانہ 46,000 کروڑ روپے درکار ہوتے۔ اب حکومت بہانے تلاش کر رہی ہے کہ یہ اسکیم واپس کیسے لی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مستحقین کی فہرست کی 'جانچ پڑتال‘ شروع کر دی ہے۔
2022 کے انتخابات سے قبل، الیکشن کمیشن آف انڈیا نے سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے وعدوں کی مالی حیثیت کی وضاحت کریں۔ مگر جیسے ہی اس تجویز کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، اسے خاموشی سے دفن کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ میں اس معاملے پر ایک عرضی بھی زیرِ سماعت ہے، مگر اس کا فیصلہ بھی شاید انتخابات کے بعد ہی آئے گا۔
دہلی حکومت کے ایک حالیہ مطالعے کے مطابق 80 فیصد سے زیادہ گھرانوں نے بجلی کے بل میں سبسڈی حاصل کی، 76.1 فیصد نے پانی کی رعایت کا فائدہ اٹھایا، 64.7 فیصد مفت یا کم لاگت والے سرکاری ہسپتالوں سے مستفید ہوئے، 58 فیصد خواتین نے بسوں میں مفت سفر کیا، اور 43.7 فیصد طلبہ نے سرکاری تعلیمی مراعات سے فائدہ اٹھایا۔
گویا اتنے فوائد حاصل کرنے کے بعد اصل مسائل کو بھول جانا لازمی تھا۔ذرا سوچیے، جب دہلی جیسے خوشحال شہر میں عوام کا یہ حال ہے تو باقی ملک کی کیا حالت ہوگی؟ دہلی میں اب سڑکوں کے گڑھے، بہتے نالے، اور کوڑے کے ڈھیر کوئی مسئلہ نہیں رہے۔ یہ کتنا افسوسناک ہے کہ ایک فلاحی ریاست کا تصور رکھنے والا ملک اب خیرات پر چل رہا ہے۔ جہاں تعلیم اور صحت بنیادی حقوق ہونے چاہیے تھے، وہاں سرکار عوام کو تھوڑے بہت فوائد دے کر اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے اور عوام بھی دل کھول کر یہ سب قبول کر رہی ہے۔
یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ جن ریاستوں کو ایسے منصوبے بنانے چاہییں جو آئندہ نسلوں کے لیے سرمایہ ثابت ہوں، وہ اتنی کم نظروں کی شکار ہو چکی ہیں کہ بس سبسڈی بانٹ کر ووٹ حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔ عوام بھی اپنی فوری ضروریات کے تحت ان فریب کار پیکجوں کو قبول کر رہی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کب تک؟
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے خواتین کو کر رہی ہے یہ ہے کہ کا وعدہ کے لیے ہیں کہ
پڑھیں:
دہلی میں جناح کا بنگلہ: ہندو تاجر نے خرید کر گنگا جل سے دھلوایا تھا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 فروری 2025ء) دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک، پاکستان، کے وجود میں آنے سے ایک ہفتے قبل سات اگست 1947 کو قائد اعظم محمد علی جناح نئی دہلی کے صفدر جنگ ہوائی اڈے سے اپنے خوابوں کی سرزمین کے لیے روانہ ہوئے۔ وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے طیارے نے انہیں، ان کی چھوٹی بہن فاطمہ جناح، اے ڈی سی سید احسان اور دیگر قریبی عملے کے افراد کو کراچی پہنچا دیا۔
کیا جناح کی مسلم لیگ اور بی جے پی میں کوئی تعلق ہے؟
نئی دہلی میں محمد علی جناح کا 10 اورنگزیب روڈ (اب اے پی جے عبدالکلام روڈ) پر عالیشان بنگلہ تھا۔ پاکستان جانے سے پہلے جناح نے اپنا بنگلہ معروف بھارتی بزنس مین رام کرشن ڈالمیا کو تقریباً ڈھائی لاکھ روپے میں بیچ دیا تھا۔
(جاری ہے)
اگرچہ دونوں کے دوستانہ تعلقات تھے لیکن جناح اپنا بنگلہ ڈھائی لاکھ روپے سے کم میں بیچنے کو تیار نہیں ہوئے۔
دہلی کی تاریخی سماجی، تہذیبی، ثقافتی اور سیاسی واقعات پر گہری نگاہ رکھنے والے اور متعدد کتابوں کے مصنف بھارتی صحافی وویک شکلا نے ڈی ڈبلیو اردو سے خصوصی بات چیت میں کہا کہ جناح کے اپنا بنگلہ فروخت کرنے کی پوری کہانی خود رام کرشن ڈالمیا کی اہلیہ نندنی ڈالمیا نے چند سال قبل انہیں سنائی تھی اور بنگلہ کے فروخت سے متعلق قانونی دستاویزات بھی دکھائے تھے۔
نندنی ڈالمیا ہندی کی مشہور مصنفہ اور آزادی نسواں کی علمبردار تھیں۔جناح کا خواب کیوں شرمندہ تعبیر نہ ہوا؟
وویک شکلا کے مطابق دہلی کو ہمیشہ کے لیے چھوڑنے سے ایک دن پہلے جناح نے ڈالمیا کے ساتھ رات کا کھانا کھایا تھا۔ اس موقع پر فاطمہ جناح، نندنی ڈالمیا اور دیگر افراد موجود تھے۔
ڈالمیا کی بیٹی اور'دی سیکریٹ ڈائری آف کستوربا‘ کی مصنفہ نیلیما ڈالمیا نے لکھا ہے"جناح اور میرے والد کے گہرے تعلقات تھے۔
اکبر روڈ پر میرے والد کے بنگلے پر جناح بھی باقاعدگی سے جایا کرتے تھے۔" بنگلے کو 'گنگا جل' سے پاک کیا گیاشکلا کا کہنا تھا کہ نندنی ڈالمیا نے انہیں بتایا کہ جناح کا بنگلہ خریدنے کے بعد ڈالمیا نے اسے گنگا جل (گنگا کے پانی) سے دھلوایا تھا۔ اور جیسے ہی جناح دہلی سے نکلے، انہوں نے بنگلے سے مسلم لیگ کا جھنڈا ہٹانے کا حکم دیا۔
اس کی جگہ 'گئو رکشا آندولن' (تحفظ گائے تحریک) کا جھنڈا لگا دیا گیا۔ اس پورے واقعے کا ذکر لیری کولنز اور ڈومینک لیپیئر نے اپنی کتاب فریڈم ایٹ مڈ نائٹ' میں بھی کیا ہے۔بھارت کا جناح ٹاور: تنازعہ کیا ہے؟
یہ بنگلہ تقریباﹰ ڈیڑھ ایکڑ اراضی پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کا نقشہ ایف بی بلوم فیلڈ نے تیار کیا تھا، جو برطانوی دور حکومت میں نئی دہلی کی عمارتیں تعمیر کرنے والے ایڈورڈ لوٹینز کی ٹیم کا حصہ تھے۔
جناح کے بنگلے میں پانچ بیڈ رومز، بہت بڑا ڈرائنگ روم، میٹنگ روم، بار وغیرہ ہیں۔ اس میں ایک بہت بڑا باغ بھی ہے۔ جہاں مختلف اقسام کے پھولوں سے پورا ماحول خوشگوار رہتا ہے۔
ڈالمیا نے جناح کا بنگلہ 1964 تک اپنے پاس رکھا اور پھر اسے ہالینڈ کی حکومت کو فروخت کر دیا۔ اس کے بعد سے اسے نئی دہلی میں ہالینڈ کے سفیر کی رہائش گاہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
جناح کی تعریف پر بی جے پی سے نکال دیے جانے والے جسونت سنگھ انتقال کر گئے
خیال رہے کہ ممبئی میں بھی جناح کا ایک بنگلہ تھا۔ وویک شکلا کہتے ہیں کہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ پاکستان بھارت سے ممبئی میں جناح کا بنگلہ کرایہ پر دینے کا مطالبہ کرتا رہا ہے لیکن اس نے دہلی میں اپنے بانی کے بنگلے میں کبھی کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔
بنگلے کی خریداری کی کہانیجناح کا بیشتر قیام ممبئی میں رہا لیکن 1940 سے پہلے سے ہی دہلی آمد کا ان کا سلسلہ تیز ہو گیا تھا۔ اس وقت وہ دہلی کے جن پتھ روڈ پر واقع امپیریل ہوٹل میں ٹھہرا کرتے تھے۔ ان کی طرز زندگی کے لحاظ سے امپیریل ہوٹل ان کے لیے موزوں تھا۔ جناح نے 1939 میں دہلی میں اپنا گھر بنانے کا فیصلہ کیا۔ کیونکہ اب ہوٹلوں میں رہنے سے بات نہیں بن رہی تھی۔
اس لیے ان کے لیے مناسب بنگلے کی تلاش شروع ہو گئی۔بنگلے کی تلاش کا کام صاحبزادہ لیاقت علی خان کے سپرد کیا گیا، جو بعد میں پاکستان کے وزیر اعظم بنے۔ وویک شکلا کا کہنا تھا کہ دہلی کے پوش علاقے سول لائنز میں فلیگ اسٹاف روڈ اور اورنگزیب روڈ پر بنگلے دیکھے گئے۔ آخر کار 10 اورنگزیب روڈ پر بنگلہ خرید لیا گیا۔ فاطمہ جناح بھی اسی بنگلے میں رہتی تھیں۔
مودی حکومت نے چند سال قبل اس سڑک کا نام بدل کر اے پی جے عبدالکلام روڈ کردیا ہے۔ بنگلے کے کیئرٹیکر 'ڈان' کے الطاف حسیندہلی میں جناح کے بنگلے پر سیاست دانوں کی آمدورفت کا سلسلہ لگا رہتا تھا۔ بنگلے کی دیکھ بھال کی ذمہ داری مسلم لیگ کے ترجمان 'دی ڈان' کے ایڈیٹر الطاف حسین کے سپرد تھی۔
اس وقت،'دی ڈان' دہلی کے دریاگنج کے علاقے سے شائع ہوتا تھا۔
اب اس جگہ ایک کوآپریٹو بینک ہے۔ جناح نے 1941 میں سب سے پہلے سینیئر صحافی پوتھن جوزف کو 'ڈان' کا ایڈیٹر بنایا۔ لیکن جوزف مسلم لیگ کے نظریات کے مطابق اخبار نہیں چلا سکے، اس لیے جناح نے کلکتہ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ الطاف حسین کو ڈان کا ایڈیٹر بنا دیا۔ الطاف حسین بنیادی طور پر کھلنا (اب بنگلہ دیش) کے رہنے والے تھے۔تقسیمِ ہند کے ذمہ دار جناح تھے، بی جی پی موقف پر قائم
ڈان نے پاکستان کے قیام سے ایک دن پہلے کراچی سے اشاعت شروع کی۔
اس کا زیادہ تر عملہ پاکستان شفٹ ہو چکا تھا۔ دہلی میں اس کی اشاعت 11 اگست تک جاری رہی۔ الطاف حسین نامور ادیب خوشونت سنگھ کے والد سجان سنگھ کے تعمیر کردہ فلیٹ 'سجان سنگھ پارک' میں ایک فلیٹ میں رہتے تھے۔ جب دہلی میں فسادات پھوٹ پڑے تو ان کے فلیٹ اور 'دی ڈان' کے دفتر پر بھی حملہ کیا گیا۔وویک شکلا کا کہنا تھا کہ دہلی نے جناح کو کافی عزت دی۔ یہاں 1941 سے 1946 تک ان کے نام پر فٹ بال کی ایک بڑی چیمپئن شپ کا انعقاد کیا جاتا تھا۔ دہلی فٹ بال ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری کے ایل بھاٹیہ کا کہنا ہے کہ یہاں کے کلب جناح کے نام پر ہونے والی اس چیمپئن شپ میں حصہ لیتے تھے۔