Daily Ausaf:
2025-04-13@17:17:12 GMT

صفر انکم ٹیکس کے باوجود دبئی حکومت اتنا کیسے کماتی ہے

اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT

دبئی(انٹرنیشنل ڈیسک)دنیا کے بہت سے ممالک اپنی معیشت کو سہارا دینے کے لیے انکم ٹیکس پر انحصار کرتے ہیں، مگر دبئی ایک ایسا حیرت انگیز شہر ہے جہاں صفر انکم ٹیکس کے باوجود حکومت زبردست آمدنی کماتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر دبئی اتنا پیسہ کیسے بناتا ہے؟ آئیے اس راز سے پردہ اٹھاتے ہیں۔

دبئی کی آمدنی کے بنیادی ذرائع

ویلیو ایڈڈ ٹیکس (VAT)

2018 میں دبئی نے 5 فیصد ویلیو ایڈڈ ٹیکس (VAT) متعارف کرایا جو کہ زیادہ تر اشیا اور خدمات پر لاگو ہوتا ہے۔ یہ ٹیکس لوگوں کی روزمرہ خریداری، ہوٹل بکنگ، کھانے پینے، لگژری اشیا اور دیگر مصنوعات پر نافذ ہے۔

کارپوریٹ ٹیکس

متحدہ عرب امارات نے جون 2023 میں کارپوریٹ ٹیکس متعارف کرایا جس کے تحت 3 لاکھ 75 ہزار درہم سے زائد منافع کمانے والی کمپنیوں پر 9 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا۔ یہ ٹیکس خاص طور پر بڑی کمپنیوں اور کارپوریٹ سیکٹر سے حاصل کیا جاتا ہے۔

رئیل اسٹیٹ اور پراپرٹی سیکٹر

دبئی کا رئیل اسٹیٹ سیکٹر دنیا بھر میں مشہور ہے۔ لاکھوں غیر ملکی یہاں پراپرٹی خریدتے اور کرائے پر لیتے ہیں۔ حکومت ان پراپرٹی سودوں پر رجسٹریشن فیس، ٹرانسفر فیس اور دیگر محصولات عائد کرتی ہے، جو ایک بڑا ریونیو سورس ہے۔

سیاحت اور ہوٹل انڈسٹری

دبئی کو سیاحت کا مرکز کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ہر سال کروڑوں سیاح دبئی آتے ہیں اور ہوٹل، سفری سہولیات، تفریحی پارکس اور شاپنگ سینٹرز میں لاکھوں درہم خرچ کرتے ہیں۔ دبئی حکومت ان تمام سرگرمیوں سے فیس اور محصولات حاصل کرتی ہے۔

فری زون بزنس ماڈل

دبئی میں فری زونز (Free Zones) بنائے گئے ہیں، جہاں کمپنیاں ٹیکس فری کاروبار کر سکتی ہیں، مگر انہیں رجسٹریشن، ورک پرمٹ اور دیگر خدمات کے لیے حکومت کو فیس ادا کرنی ہوتی ہے۔ ان زونز میں ہزاروں بین الاقوامی کمپنیاں سرمایہ کاری کر رہی ہیں، جس سے حکومت کو بھاری آمدنی ہوتی ہے۔

تیل اور گیس کی برآمدات

اگرچہ دبئی کی معیشت تیل پر زیادہ انحصار نہیں کرتی، لیکن متحدہ عرب امارات کا تیل اور گیس سیکٹر اب بھی ایک مضبوط مالی ذریعہ ہے۔ تیل کی برآمدات سے ہونے والی آمدنی قومی معیشت کو مستحکم رکھتی ہے۔

۔
ہوائی اڈے، بندرگاہیں اور ٹرانزٹ فیس

دبئی کا دبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ اور جبل علی پورٹ دنیا کے مصروف ترین ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں میں شمار ہوتے ہیں۔ دبئی حکومت یہاں سے ایوی ایشن فیس، کارگو چارجز اور شپنگ فیس کی مد میں بھاری آمدنی کماتی ہے۔

مہنگے لائسنس اور رجسٹریشن فیس

دبئی میں کاروباری لائسنس، ورک پرمٹ، ویزہ، گاڑیوں کی رجسٹریشن، ڈرائیونگ لائسنس اور دیگر سرکاری فیسیں بہت مہنگی ہیں، جس سے حکومت کو اربوں درہم کی آمدنی ہوتی ہے۔

دبئی کی کامیابی کا راز اس کی مضبوط معاشی پالیسیوں اور متنوع ذرائع آمدنی میں چھپا ہے۔ بغیر انکم ٹیکس کے بھی دبئی کی حکومت ٹیکسز، سیاحت، رئیل اسٹیٹ، فری زون بزنس، تیل و گیس اور ایوی ایشن جیسے ذرائع سے بھاری ریونیو کماتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دبئی دنیا کے امیر ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے اور مسلسل ترقی کر رہا ہے۔
مزیدپڑھیں:پانامہ کا سی پیک سے علیحدگی کا فیصلہ،امریکا کا خیرمقدم

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: انکم ٹیکس کماتی ہے اور دیگر دبئی کی

پڑھیں:

وجائنا کا علاج کیسے کرنا ہے؟

گزشتہ ہفتے ہم نے وجائنا کی بیماری کی بات کی ۔ وجائنا کی مشکلات میں سب سے بڑی مشکل  یہ ہے کہ اس کے آس پاس پیشاب اور پاخانے کے خروج کے راستے ہیں اور دونوں سے نکلنے والا فضلہ جرثوموں سے لدا ہوتا ہے۔

حوائج سے فراغت کے بعد اگرچہ دونوں جگہ کو دھویا جاتا ہے لیکن جرثوموں کی کچھ نہ کچھ تعداد وجائنا میں داخل ہونے میں کامیاب ہوجاتی ہے، یہ جرثومے کے حملے کی ایک وجہ ہے ، باقی ہم پچھلی بار بیان کرچکے ہیں۔

وجائنا میں موجود حفاظتی دستے جرثوموں کا راستہ روکتے ہیں اور انہیں مار بھگاتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے انگلیوں کے ساتھ منہ میں جراثیم داخل ہوں اور منہ کا حفاظتی دستہ اپنا کام کرے۔

لیکن اگر وجائنا کی اپنی صحت ٹھیک نہ ہو اور دفاعی دستے کے کارکنوں کی تعداد میں کمی ہوچکی ہو تو جرثومے وجائنا کو بیمار کردیتے ہیں ۔ وہ مارچ کرتے ہوئے بچے دانی کی طرف بڑھتے ہیں، بچے دانی میں حمل موجود ہو یا نہ ہو ، جرثوموں کا حملہ انفیکشن کا موجب بنتا ہے اور اسی انفکشن کی وجہ سے اگر خاتون حاملہ ہو تو وقت سے پہلے درد زہ شروع ہوجاتا ہے اور پری ٹرم ڈلیوری ہوتی ہے۔

اگر خاتون حاملہ نہ ہو تو جرثومے بچے دانی سے ہوتے ہوئے ٹیوبز میں داخل ہوکر پی آئی ڈی کرسکتے ہیں جو جاں لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے۔

جرثوموں سے بچنے کے کچھ طریقے ہم نے اسباب کے ساتھ بیان کردیے  تھے کہ جسم میں خون کی کمی نہ ہونے پائے ، ہیموگلوبن بارہ سے نیچے نہ ہو، فولاد کی گولیاں کھائی جائیں، ماہواری میں گندے پیڈز استعمال نہ کیے جائیں، پانی زیادہ سے زیادہ پیا جائے اور شوگر کو کنٹرول میں رکھا جائے ۔

اس کے علاوہ اگر انفکشن ہو جائے تو وجائنا کا معائنہ کر کے تشخیص کیا جائے کہ کونسی دوا استعمال کروائی جائے ؟

پاکستان میں صحت کے معاملات دگرگوں ہوچکے ہیں کہ بیشتر کو کوالیفائڈ ڈاکٹرز میسر نہیں اور اگر ہیں بھی تو جیب میں اتنے پیسے نہیں کہ ان کی خدمات حاصل کی جاسکیں، سرکاری اسپتالوں میں اس قدر ازدہام ہے کہ ایک انار ، سو بیمار والی صورت حال ہے ۔

تو پھر کیا کیا جائے؟

مسئلہ چونکہ گھمبیر ہے اس لیے ہم وہ کررہے جو آج تک ہم نے نہیں کیا۔

ہم کچھ ایسی دواؤں کا نام لکھ رہے ہیں جو حمل میں کھائی جاسکتی ہیں اور بچے کی پری ٹرم ڈلیوری کو مؤخر کیا جاسکتا ہے ۔ حمل نہ ہو تب بھی یہ دوائیں خواتین کی بہترین دوست ہیں ۔

پہلی دوا فلیجل flagyl ہے ۔ تقریباً 90 فیصد لوگ اس سے واقف ہیں ۔ یہ دوا وجائنا کو اس کا نارمل کنٹرول حاصل کرنے میں مدد دیتی ہے ۔ اسے حمل کے پہلے 3 مہینوں میں نہیں کھانا چاہیے لیکن اگلے 6 مہینوں میں جب بھی وجائنا سے بو آئے، خارش ہو، گدلا پانی خارج ہو یا درد زہ شروع ہونے کا شائبہ ہو،  فلیجل کا ایک کورس کر لینا چاہیے ۔ 500 ملی گرام کی گولی صبح دوپہر شام 5 دن کے لیے۔

دوسری دوا erythromycin ہے یہ بھی وجائنل صحت کو لوٹانے میں اکسیر کی حثیت رکھتی ہے۔ اس دوا کو حمل کے پہلے 3 مہینوں میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے یعنی پورے 9 مہینے ۔ بچے کو کسی بھی نقصان کا اندیشہ نہیں۔  500 ملی گرام کی ایک گولی صبح دوپہر شام 5 دن کے لیے ۔

تیسری دوا ایک کریم ہے جسے وجائنا میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ رات کو سونے سے پہلے دوا ایک پلاسٹک کی سرنج میں بھریں اور وجائنا میں سرنج داخل کر کے دوا کو وہاں انڈیل دیں ۔ یہ کریم بھی حمل کے لحاظ سے محفوظ ہے ۔ کریم کا نام ہے Clindamycin vaginal cream اور اسے 7 راتوں کے لیے وجائنا میں استعمال کرنا ہے۔

خواتین ان دواؤں کے نام حفظ کر لیں۔ وجائنا کے متعلق تمام وہ شکایات جو عام طور پہ ڈاکڑ سے کی جاتی ہیں، یہ ان کا علاج ہیں ۔

یہ تینوں دوائیں بچے کے لیے محفوظ ہیں ، صرف فلیجل کو حمل کے پہلے 3 ماہ استمال نہ کیا جائے تو بہتر ہے ۔

جب بھی دوائیں خریدیں ، کوشش کریں کہ کسی اچھی کمپنی کی ہوں ۔ بازار میں بے شمار دوائیں نقلی ہوتی ہیں اور اگر اصلی ہوں بھی تو اسٹوریج اس قدر نکمی ہوگی کہ دوا کے اثرات کافی حد تک ضائع ہوچکے ہوں گے۔

ان تینوں دواؤں کا نام گوگل کر کے یہ دیکھ لیں کہ انہیں اصل میں کس کمپنی نے بنایا تھا یعنی کس کمپنی کی پیٹنٹ دوا ہے؟ وہ تھوڑی سی مہنگی تو ہوگی مگر اس کے ارد گرد جو رنگ برنگی ، ہلکی کوالٹی کی دوائیں پڑی ہوں گی آپ ان سے بچ جائیں گے۔

فلیجل کا ایک سائیڈ ایفکٹ جی متلانا ہےاور کچھ لوگوں کو اس میں مسئلہ ہوتا ہے لیکن اس دوا کا کوئی متبادل نہیں، سو کڑوا گھونٹ بھر کے اسے کھا لینا چاہیے ۔

ارتھرومائیسن سے کچھ لوگوں کو اسہال شروع ہو جاتا ہے لیکن اس دوا کے بھی فوائد اس قدر زیادہ ہیں کہ یہ ہماری پسندیدہ دواؤں میں شامل ہے ۔

رہی کلنڈامائسن تو وہ تو ہے ہی جان جگر!

یہ تینوں دوائیں وہ خواتین بھی استمال کرسکتی ہیں جن کا بار بار اسقاط حمل ہوجاتا ہو ۔ گرچہ اسقاط حمل کے اور بھی بہت سے اسباب ہیں لیکن بیمار وجائنا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔

ہم نے کوشش کی ہے کہ آپ صحت کے معاملات کو سمجھ سکیں اور کچھ نہ کچھ مسائل حل کرنے کے قابل ہوسکیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

we news حمل ڈاکٹر طاہرہ کاظمی صحت فلیجل وجائنا

متعلقہ مضامین

  • نظریاتی اختلافات کے باوجود سیاسی شخصیات قابل احترام ہیں، علامہ مقصود ڈومکی
  • پاکستان میں عورتوں سے بدسلوکی میں اضافہ ہو رہا ہے، رپورٹ
  • مہنگائی میں کمی کا فائدہ عوام تک براہ راست نہیں پہنچ رہا، حکومت کا اعتراف
  • شاہ رخ خان کا ارب پتی پڑوسی، جس کے 29 بچے ہیں
  • شہباز حکومت کی پنشنرز پر بھی ٹیکس لگانے کی تیاریاں
  • وجائنا کا علاج کیسے کرنا ہے؟
  • ڈیری کی صنعت کیلئے اچھی خبر، حکومت نے دودھ پر ٹیکس کے حوالے سے بڑی نیوز سنادی،جا نئے کیا
  • حکومت کا گزشتہ ہفتے 14 اشیا کی قیمت میں اضافے کے باوجود مہنگائی میں کمی کا دعویٰ
  • حکومت دودھ پر ٹیکس میں کمی کے لیے سرگرم، وفاقی وزیر نے اچھی خبر سنا دی
  • دبئی: دنیا کے امیر ترین افراد کے لیے ایک ابھرتا ہوا مرکز