’سب سے بڑی دشمنی‘: پاک بھارت کرکٹ سے متعلق نیٹ فلکس ڈاکیومنٹری کب ریلیز ہورہی ہے؟
’سب سے بڑی دشمنی‘: پاک بھارت کرکٹ سے متعلق نیٹ فلکس ڈاکیومنٹری کب ریلیز ہورہی ہے؟
چین سے ففتھ جنریشن طیاروں کا حصول، پاکستان کو انڈیا پر فضائی برتری مل گئیچین سے ففتھ جنریشن طیاروں کا حصول، پاکستان کو انڈیا پر فضائی برتری مل گئی
آزاد کشمیر: بلدیاتی فنڈ، یوتھ قرضہ اسکیم کی منظوری، صحت کارڈ کے اجرا کا بھی فیصلہآزاد کشمیر: بلدیاتی فنڈ، یوتھ قرضہ اسکیم کی منظوری، صحت کارڈ کے اجرا کا بھی فیصلہ
اسپیکر آزاد کشمیر اسمبلی لطیف اکبر پر حملے میں ملوث ایک ملزم گرفتاراسپیکر آزاد کشمیر اسمبلی لطیف اکبر پر حملے میں ملوث ایک ملزم گرفتار
آزاد کشمیر: اسپیکر لطیف اکبر پر حملے کے ملزمان کی عدم گرفتاری، پیپلزپارٹی نے ڈیڈلائن دیدیآزاد کشمیر: اسپیکر لطیف اکبر پر حملے کے ملزمان کی عدم گرفتاری، پیپلزپارٹی نے ڈیڈلائن دیدی
سندھ حکومت کا 5 فروری یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر عام تعطیل کا اعلانسندھ حکومت کا 5 فروری یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر عام تعطیل کا اعلان
کشمیریوں کے ساتھ پاکستان کی کمٹمنٹ الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی، وزیراعظم شہباز شریفکشمیریوں کے ساتھ پاکستان کی کمٹمنٹ الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی، وزیراعظم شہباز شریف
وزیراعظم شہباز شریف نے آزاد کشمیر میں دانش اسکولز سسٹم کا سنگ بنیاد رکھ دیاوزیراعظم شہباز شریف نے آزاد کشمیر میں دانش اسکولز سسٹم کا سنگ بنیاد رکھ دیا
پی پی اے ایف کے اشتراک سے آزاد کشمیر میں لوکل ڈویلپمنٹ پروگرام کا آغاز ہوگیاپی پی اے ایف کے اشتراک سے آزاد کشمیر میں لوکل ڈویلپمنٹ پروگرام کا آغاز ہوگیا
بھارت کا 74واں یوم جمہوریہ، مقبوضہ کشمیر سمیت دنیا بھر میں یوم سیاہبھارت کا 74واں یوم جمہوریہ، مقبوضہ کشمیر سمیت دنیا بھر میں یوم سیاہ
پاکستان اور کشمیر کے رشتے کو کسی قیمت کمزورنہیں ہونے دیں گے، سردارعتیق خانپاکستان اور کشمیر کے رشتے کو کسی قیمت کمزورنہیں ہونے دیں گے، سردارعتیق خان
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: وزیراعظم شہباز شریف لطیف اکبر پر حملے کشمیر کے
پڑھیں:
یوم یک جہتی کشمیر… محض خانہ پُری
پچھلی صدی کے نوے کے عشرے کے ابتدائی برسوں سے کشمیریوں سے اظہارِ یک جہتی کے لیے ہر سال پانچ فروری کو یومِ یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اب جب یوم یک جہتی کشمیر مناتے ہوئے تین عشروں سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے تو ایسے پتہ چلتا ہے کہ ہمارا روایتی جوش و جذبہ اور مظلوم کشمیریوں سے یک جہتی کا مظاہر ہ ہی مفقود نہیں ہو چکا ہے بلکہ یومِ یک جہتی کشمیر منانا بھی محض خانہ پوری یا ایک طرح کی رسمی کارروائی کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اسے المیہ ہی سمجھا جا سکتا ہے کہ کشمیر جسے بانی پاکستان حضرت قائدِ اعظم نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا اور مسئلہ کشمیر جس کے بارے میں قوموں کے لیے حق خود ارادیت کے حصول کے مطالبے پر مبنی ہمارا موقف ہر لحاظ سے جائز اور صحیح ہے، اسے ہم نے جہاں زیب طاق نسیاں کر رکھا ہے وہاں اس کے بارے میں ہر سطح پر خواہ وہ حکومتی سطح ہو، قومی اور عوامی سطح ہو یا ابلاغِ عامہ کی سطح ہو ، غرضیکہ ہر سطح پر ہماری بے حسی ، بے رخی اور بے نیازی نمایاں ہو کر سامنے آ رہی ہے۔
برصغیر جنوبی ایشیا میں انگریزی راج سے آزادی کی تحریک شروع ہوئی تو کشمیر ی مسلمانوں میں بھی ہندو ڈوگرہ راجا کی حکمرانی سے نجات پانے اور اپنے حقوق حاصل کرنے کی تحریک بھی شروع ہو گئی۔ مارچ 1931ء میں سری نگر میںڈوگرہ راج کے خلاف مسلمان مظاہرین کو نشانہ بنایا گیا تو پورے کشمیر میں مسلمان احتجاج کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ مارچ 1940 ء میں لاہور میں قرار داد پاکستان کی منظوری کے چار ماہ بعد جولائی 1940ء میں کشمیری مسلمانوں کی نمائندہ جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے کشمیر کی آزادی کے لئے باقاعدہ قرار داد منظور کی اور اپنے قائد احرار ملت چودھری غلام عباس مرحوم کی قیادت میں کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کو اپنی منزل قرار دیا۔ 3 جون 1947ء کو تقسیمِ ہند کے منصوبے کا اعلان ہوا جس میں ہندوستان کی نیم خو د مختار ریاستوں کو جو براہِ راست تاجِ برطانیہ کے ماتحت تھیں یہ حق دیا گیا کہ وہ اپنے جغرافیائی محل وقوع اور اپنے عوام کی خواہشات کا خیال رکھتے ہوئے بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر سکیں گی یا اپنی نیم خود مختار حیثیت برقرار رکھ سکیں گی۔
14 اگست 1947ء کو ہندوستان میں دو آزاد مملکتوں پاکستان اوربھارت کے وجود میں آنے کے بعد کشمیرکے پاکستان سے الحاق کے کشمیری مسلمانوں کے مطالبے میں اور شدت آگئی اور پورے کشمیر میں مسلمان اس مطالبے کے حق میں ڈوگرہ راج کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔ پاکستان سے ملحقہ کشمیر کے علاقوں کو ڈوگرہ راج سے آزاد کرا لیا گیا اور 24 اکتوبر 1947 ء کوآزاد کشمیر حکومت کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا۔ ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ شروع میں کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کے حق میں بھی نہیں تھا لیکن بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو ،گورنر جنرل لارڈ مائونٹ بیٹن اور بھارتی وزیر داخلہ سردار پٹیل کے دبائو پر اس نے 26 اکتوبر 1947ء کو کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا۔ اور اسکے ساتھ ہی بھارتی فوجیں جو پہلے خفیہ طور پر ڈوگرہ مہاراجہ کی حمایت کے لئے کشمیر میں موجود تھیں اب کھلم کھلا مسلمان مجاہدین کوکچلنے کے لیے حرکت میں آگئیں۔پاکستان کو بھی اپنے فوجی دستے کشمیر میں بھیجنے پڑے یکم جنوری 1948ء کو بھارت کشمیر کا تنازع اقوام متحدہ میں لے گیا ۔اقوام متحدہ کی کوششوں سے بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی ہو گئی اورطے پایا کہ کشمیری حقِ خود ارادیت کے تحت اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہونگے اورآزادانہ استصوابِ رائے کے ذریعے پاکستان یا بھارت میں سے جس کے ساتھ چاہیں الحاق کر سکیں گے۔ بھارت شروع میں اقوام متحدہ کی قرادادوں پر عمل درآمد کرنے کی یقین دہانیاں کراتا رہا لیکن بعدمیں وہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دے کر ان قراردادوں سے منحرف ہو گیا۔
مسئلہ کشمیر کے اس پس منظر اور پیش منظر اور معروضی حالات و واقعات کے تذکرے سے یقینا اس مسئلے کی نوعیت کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ لیکن سچی بات ہے کہ یہ سب نصابی باتیں ہیں اس وقت عملاً صورت حال یہ ہے کہ ہم ایکطرح کے LOOSER (نقصان اُٹھانے والے) اور بھارت WINNER بنا ہوا ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس کی جیت کو ہار میں کیسے تبدیل کر سکتے ہیں۔ورنہ برسرِ زمین حقیقت یہی ہے کہ بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے اور عالمی رائے عامہ بھارت کے اس موقف کو رد کرنے کے لیے تیار نہیں۔جبکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل در آمد ہو اور کشمیریوں کو حق خودارادیت کے تحت آزادانہ رائے شماری کا حق ملے اور وہ پاکستان یا بھارت میں سے جس کے ساتھ چاہیں الحاق کرنیکا فیصلہ کرلیں۔ دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عالمی رائے عامہ دن بدن ہمارے اس موقف کا جو ہر لحاظ سے جائز اور مبنی بر حقائق اور انصاف ہے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہم کشمیر کے مسئلے پر کئی برادراسلامی ممالک کی مصلحت آمیز پالیسیوں کی وجہ سے اُن کی کھلم کھلا حمایت سے ہی محروم نہیں ہو چکے ہیں بلک بڑی عالمی طاقتوں میں سے بھی کوئی مسئلہ کشمیر پر ہمارے موقف کی کھلم کھلا تائید کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
اسے المیہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے یا ا سے کشمیریوںکی بد نصیبی اور بد قسمتی کا نام دیا جا سکتا ہے کہ سات عشروں سے جاری اُن کی جدوجہدِ آزادی قربانیوں اور ناکامیوں کی ایسی داستان بنی ہوئی ہے جس کی قوموں کی تاریخ میں مثال ملنا مشکل ہے۔ کیا اس سے بڑھ کر بھی قربانیاں ہو سکتی ہیں کہ ایک خطہِ ارض پر بسنے والے لاکھوں افراد اپنے اوپر مسلط کی جانے والی غلامی اور جبر و استبداد کے خلاف اتنے طویل عرصے سے برسر پیکار ہوں، لاکھوں افراداپنی جانوں کی قربانی دے چکے ہوں بستیوں اور آبادیوں کے قبرستان شہیدوں کی قبروں سے بھرے پڑے ہوں، ظلم وستم اور جبرو استبداد کا بازار گرم ہو اوراسکے خلاف ہڑتالیں احتجاجی مظاہرے، خونریز ہنگامے اور جلسے جلوس روز کامعمول بنے ہوئے ہوں لیکن پھر بھی اس خطہ ارض پر بسنے والے آزادی، خودمختاری اور اپنی منزل مقصود کو پانے سے محروم ہوں۔ یہ خطہ ارض جنت نظیر کشمیر ہے جو گزشتہ تقریباً سات دہائیوں سے اس المناک صورت حال سے دوچار ہے۔